38. پچھلے دو رکوع میں آخرت کے متعلق مشرکین کے غلط تصورات پر کلام فرمایا گیا تھا۔ اب تقریر کا رخ تردید شرک کے مضمون کی طرف پھر رہا ہے۔
39. یعنی اللہ تو یوں اشخاص اور اقوام اور سلطنتوں کی قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے، جیسا کہ ابھی تم داؤد و سلیمان علیہما السلام اور قوم سبا کے ذکر میں سن چکے ہو۔ اب ذرا اپنے ان بناوٹی معبودوں کو پکار کر دیکھ لو، کیا ان میں بھی یہ طاقت ہے کہ کسی کے اقبال کو ادبار سے، یا اِدبار کو اقبال سے بدل سکیں؟
40. یعنی کسی کا خود مالک ہونا، یا ملکیت میں شریک ہونا، یا مدد گار خدا ہونا تو درکنار، ساری کائنات میں کوئی ایسی ہستی تک نہیں پائی جاتی جو اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کے حق میں بطور خود سفارش کر سکے۔ تم لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ کچھ خدا کے پیارے ایسے ہیں، یا خدا کی خدائی میں کچھ بندے ایسے زور آور ہیں کہ وہ اَڑ بیٹھیں تو خدا کو ان کی سفارش ماننی ہی پڑے گی۔ حالانکہ وہاں حال یہ ہے کہ اجازت لیے بغیر کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ جس کو اجازت ملے گی صرف وہی کچھ عرض کر سکے گا۔ اور جس کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اسی کے حق میں عرض معروض کی جا سکے گی۔ (اسلامی عقیدہ شفاعت اور مشرکانہ عقیدہ شفاعت کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم،یونس حواشی 5- 23،ہود حواشی84 – 106، النحل حواشی 64-79،جلد سوم حاشیہ86،الانبیاء حاشیہ27، الحج حاشیہ 125)۔
41. یہاں اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جب قیامت کے روز کوئی سفارش کرنے والا کسی کے حق میں سفارش کی اجازت طلب کرے گا۔ اس نقشے میں یہ کیفیت ہمارے سامنے آتی ہے کہ طلب اجازت کی درخواست بھیجنے کے بعد شافع اور مشفوع دونوں نہایت بے چینی کے علم میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے جواب کے منتظر کھڑے ہیں۔ آخر کار جب اوپر سے اجازت آ جاتی ہے اور شافع کے چہرے سے مشفوع بھانپ جاتا ہے کہ معاملہ کچھ اطمینان بخش ہے تو اس کی جان میں جان آتی ہے اور وہ آگے بڑھ کر شافع سے پوچھتا ہے ’’ کیا جواب آیا‘‘؟ شافع جواب دیتا ہے کہ ٹھیک ہے، اجازت مل گئی ہے۔ اس بیان سے جو بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نادانو ! جس بڑے دربار کی شان یہ ہے اس کے متعلق تم کس خیال خام میں پڑے ہوئے ہو کہ وہاں کوئی اپنے زور سے تم کو بخشوا لے گا یا کسی کی یہ مجال ہو گی کہ وہاں مچل کر بیٹھ جائے اور اللہ سے کہے کہ یہ تو میرے متوسّل ہیں، انہیں تو بخشنا ہی پڑے گا۔
42. سوال اور جواب کے درمیان ایک لطیف خلا ہے۔ مخاطب مشرکین تھے جو صرف یہی نہیں کہ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ بھی جانتے تھے کہ رزق کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے۔ اب جو ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ بتاؤ کون تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے، تو وہ مشکل میں پڑ گئے۔ اللہ کے سوا کسی کا نام لیتے ہیں تو خود اپنے اور اپنی قوم کے عقیدے کے خلاف بات کہتے ہیں۔ ہٹ دھرمی کی بنا پر ایسی بات کہہ بھی دیں تو ڈرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے لوگ ہی اس کی تردید کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور اگر تسلیم کر لیتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے تو فوراً دوسرا سوال یہ سامنے آ جاتا ہے کہ پھر یہ دوسرے کس مرض کی دوا ہیں جنہیں تم نے خدا بنا رکھا ہے؟ رزق تو دے اللہ، اور پوجے جائیں یہ، آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ اس دو گونہ مشکل میں پڑ کر وہ دم بخود رہ جاتے ہیں۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا معبود رازق ہے۔ پوچھنے والا جب دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں بولتے، تو وہ خود اپنے سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’ اللہ‘‘۔
43. اس فقرے میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے۔ اوپر کے سوال و جواب کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ جو اللہ ہی کی بندگی و پرستش کرتا ہے وہ ہدایت پر ہو اور جو اس کے سوا دوسروں کی بندگی بجا لاتا ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہو۔ اس بنا پر بظاہر تو اس کے بعد کہنا یہ چاہیے تھا کہ ہم ہدایت پر ہیں اور تم گمراہ ہو۔ لیکن اس طرح دو ٹوک بات کہ دینا حق گوئی کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی درست ہوتا حکمت تبلیغ کے لحاظ سے درست نہ ہوتا۔ کیوں کہ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے آپ صاف صاف گمراہ کہہ دیں اور خود اپنے برسر ہدایت ہونے کا دعویٰ کریں تو وہ ضد میں مبتلا ہو جائے گا اور سچائی کے لیے اس کے دل کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اللہ کے رسولؐ چونکہ مجرد حق گوئی کے لیے نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے سپرد یہ کام بھی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حکیمانہ طریقے سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی، اس سوال و جواب کے بعد اب تم ان لوگوں سے صاف کہہ دو کہ تم سب گمراہ ہو اور ہدایت پر صرف ہم ہیں۔ اس کے بجائے تلقین یہ فرمائی گئی کہ انہیں اب یوں سمجھاؤ۔ ان سے کہو ہمارے اور تمہارے درمیان یہ فرق تو کھل گیا کہ ہم اسی کو معبود مانتے جو رزق دینے والا ہے، اور تم ان کو معبود بنا رہے ہو جو رزق دینے والے نہیں ہیں۔ اب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اور تم دونوں بیک وقت راہ راست پر ہوں۔ اس صریح فرق کے ساتھ تو ہم میں سے ایک ہی راہ راست پر ہو سکتا ہے، اور دوسرا لامحالہ گمراہ ٹھیرتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوچنا تمہارا اپنا کام ہے کہ دلیل کس کے برسر ہدایت ہونے کا فیصلہ کر رہی ہے اور کون اس کی رو سے گمراہ ہے۔
44. اوپر کی بات سامعین کو پہلے ہی سوچنے پر مجبور کر چکی تھی۔ اس پر مزید ایک فقرہ یہ فرما دیا گیا تاکہ وہ اور زیادہ تفکر سے کام لیں۔ اس سے ان کو یہ احساس دلایا گیا کہ ہدایت اور گمراہی کے اس معاملے کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنا ہم میں سے ہر ایک کے اپنے مفاد کا تقاضا ہے۔ فرض کرو کہ ہم گمراہ ہیں تو اپنی اس گمراہی کا خمیازہ ہم ہی بھگتیں گے، تم پر اس کی کوئی پکڑ نہ ہو گی۔ اس لیے یہ ہمارے اپنے مفاد کا تقاضا ہے کہ کوئی عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے خوب سوچ لیں کہ کہیں ہم غلط راہ پر تو نہیں جا رہے ہیں۔ اسی طرح تم کو بھی ہماری کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ہی خیر خواہی کی خاطر ایک عقیدے پر جمنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ کہیں تم کسی باطل نظریے پر تو اپنی زندگی کی ساری پونجی نہیں لگا رہے ہو۔ اس معاملے میں اگر تم نے ٹھوکر کھائی تو تمہارا اپنا ہی نقصان ہو گا، ہمارا کچھ نہ بگڑے گا۔
45. یہ اس معاملہ پر غور کرنے کے لیے آخری اور سب سے بڑا محرک ہے جس کی طرف سامعین کی توجہ دلائی گئی ہے۔ بات اسی حد پر ختم نہیں ہو جاتی کہ اس زندگی میں ہمارے اور تمہارے درمیان حق و باطل کا اختلاف ہے اور ہم میں سے کوئی ایک ہی حق پر ہے، بلکہ اس کے آگے حقیقت نفس الامری یہ بھی ہے کہ ہمیں اور تمہیں، دونوں ہی کو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اور رب وہ ہے جو حقیقت کو بھی جانتا ہے اور ہم دونوں گروہوں کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔ وہاں جا کر نہ صرف اس امر کا فیصلہ ہو گا کہ ہم میں اور تم میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔ بلکہ اس مقدمے کا فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ ہم نے تم پر حق واضح کرنے کے لیے کیا کچھ کیا اور تم نے باطل پرستی کی ضد میں آ کر ہماری مخالفت کس کس طرح کی۔
46. یعنی قبل اس کے کہ تم ان معبودوں کے بھروسے پر اتنا بڑا خطرہ مول لو، ذرا مجھے یہیں بتا دو کہ ان میں کون اتنا زور آور ہے کہ اللہ کی عدالت میں وہ تمہارا حمایتی بن کر اٹھ سکتا ہو اور تمہیں اس کی گرفت سے بچا سکتا ہو۔
47. یعنی تم صرف اسی شہر، یا اسی ملک، یا اسی زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہو۔ مگر یہ تمہارے ہم عصر اہل وطن تمہاری قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے اور ان کو احساس نہیں ہے کہ کیسی عظیم ہستی کی بعثت سے ان کو نوازا گیا ہے۔
یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اپنے ملک یا اپنے زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشری کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں،قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ مثلاً:
وَاُوحِیَ اِلَیَّ ھٰذَاالقرآنُ لِاُنْذِرَ کُم بِہ وَمَنْ بَلَغَ (الانعام 197)
اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو متنبہ کروں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے۔
قُلْ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً (الاعراف۔ 158)
اے نبی کہ دو اے انسانوں، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃلِّلعٰلَمِیْنَ(الانبیاء۔107)
اور اے نبی، ہم نے نہیں بھیجا تم کو مگر تمام ایمان والوں کے لیے رحمت کے طور پر۔
تَبٰرَ کَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہ لِیَکوُنَ لِلْعَا لَمِیْنَ نَذِیْراً۔(الفرقان۔1)
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے متنبہ کرنے والا ہو۔
یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی بہت سی احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔ مثلاً:
بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِوَلْاَسْوَدِ (مسند احمد، مرویات ابو موسیٰ اشعریؓ)
میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔
امّا انا فا رسلتُ الی الناس کلھم عامۃ وکان من قبلی انما یُرْسَلُ الیٰ قومہ(مسند احمد، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص)
میں عمومیت کے ساتھ تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی بھی گزرا ہے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا۔
وکان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ(بخاری و مسلم، من حدیث جابر بن عبداللہ)
پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔
بعثت انا والساعۃ کھتین یعنی اصبعین۔(بخاری و مسلم)
میری بعثت اور قیامت اس طرح ہیں، یہ فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں۔
مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی تیسری انگلی حائل نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان بھی کوئی نبوت نہیں ہے۔ میرے بعد بس قیامت ہی ہے اور قیامت تک میں ہی نبی رہنے والا ہوں۔
48. یعنی جس وقت کے متعلق ابھی تم نے کہا ہے کہ ’’ ہمارا رب ہم کو جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا ‘‘، وہ وقت آخر کب آئے گا؟ ایک مدت سے ہمارا مقدمہ چل رہا ہے۔ ہم تمہیں بار بار جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کیے جا رہے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ کیوں نہیں کر ڈالا جاتا؟
49. دوسرے الفاظ میں اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے تمہاری خواہشات کے تابع نہیں ہیں کہ کسی کام کے لیے جو وقت تم مقرر کرو اسی وقت پر وہ اس کام کو کرنے کا پابند ہو۔ اپنے معاملات کو وہ اپنے ہی صوابدید کے مطابق انجام دیتا ہے۔ تم اسے کیا سمجھ سکتے ہو کہ اللہ کی اسکیم میں نوعِ انسانی کو کب تک اس دنیا کے اندر کام کرنے کا موقع ملنا ہے، کتنے اشخاص اور کتنی قوموں کی کس کس طرح آزمائش ہونی ہے، اور کونسا وقت اللہ ہی کی اسکیم میں مقرر ہے اسی وقت پر یہ کام ہو گا۔ نہ تمہارے تقاضوں سے وہ وقت ایک سکنڈ پہلے آئے گا اور نہ تمہاری التجاؤں سے وہ ایک سکنڈ کے لیے ٹل سکے گا۔