Tafheem ul Quran

Surah 34 Saba, Ayat 37-45

وَمَاۤ اَمۡوَالُـكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ بِالَّتِىۡ تُقَرِّبُكُمۡ عِنۡدَنَا زُلۡفٰٓى اِلَّا مَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰٓـئِكَ لَهُمۡ جَزَآءُ الضِّعۡفِ بِمَا عَمِلُوۡا وَهُمۡ فِى الۡغُرُفٰتِ اٰمِنُوۡنَ‏ ﴿34:37﴾ وَ الَّذِيۡنَ يَسۡعَوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيۡنَ اُولٰٓـئِكَ فِى الۡعَذَابِ مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿34:38﴾ قُلۡ اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ‏  ﴿34:39﴾ وَيَوۡمَ يَحۡشُرُهُمۡ جَمِيۡعًا ثُمَّ يَقُوۡلُ لِلۡمَلٰٓـئِكَةِ اَهٰٓؤُلَاۤءِ اِيَّاكُمۡ كَانُوۡا يَعۡبُدُوۡنَ‏ ﴿34:40﴾ قَالُوۡا سُبۡحٰنَكَ اَنۡتَ وَلِيُّنَا مِنۡ دُوۡنِهِمۡۚ بَلۡ كَانُوۡا يَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ ۚ اَكۡثَرُهُمۡ بِهِمۡ مُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿34:41﴾ فَالۡيَوۡمَ لَا يَمۡلِكُ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ نَّفۡعًا وَّلَا ضَرًّا ؕ وَنَـقُوۡلُ لِلَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا ذُوۡقُوۡا عَذَابَ النَّارِ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ بِهَا تُكَذِّبُوۡنَ‏  ﴿34:42﴾ وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوۡا مَا هٰذَاۤ اِلَّا رَجُلٌ يُّرِيۡدُ اَنۡ يَّصُدَّكُمۡ عَمَّا كَانَ يَعۡبُدُ اٰبَآؤُكُمۡ​ ۚ وَقَالُوۡا مَا هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡكٌ مُّفۡتَـرً ىؕ وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمۡ ۙ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿34:43﴾ وَمَاۤ اٰتَيۡنٰهُمۡ مِّنۡ كُتُبٍ يَّدۡرُسُوۡنَهَا وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهِمۡ قَبۡلَكَ مِنۡ نَّذِيۡرٍؕ‏ ﴿34:44﴾ وَكَذَّبَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۙ وَمَا بَلَـغُوۡا مِعۡشَارَ مَاۤ اٰتَيۡنٰهُمۡ فَكَذَّبُوۡا رُسُلِىۡ فَكَيۡفَ كَانَ نَكِيۡرِ‏ ﴿34:45﴾

37 - یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو۔ ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ 57 یہی لوگ ہیں جن کے لیے اُن کے عمل کی دُہری جزا ہے ، اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے 58 ۔ 38 - رہے وہ لوگ جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں، تو وہ عذاب میں مُبتلا ہوں گے۔ 39 - اے نبیؐ، ان سے کہو” میرا ربّ بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کُھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تُلا دیتا ہے۔ 59 جو کچھ تم خرچ کردیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اَور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے۔“ 60 40 - اور جس دن وہ تمام انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا” کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے 61 ؟“ 41 - تو وہ جواب دیں گے”پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ اِن لوگوں سے 62 ۔ دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جِنّوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے 63 ۔“ 42 - (اُس وقت ہم کہیں گے کہ )آج تم میں سے کوئی نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے کہ اب چکھو اس عذابِ جہنّم کا مزہ جسے تم جھُٹلایا کرتے تھے۔ 43 - اِن لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سُنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں”یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو اُن معبُودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں۔“ اور کہتے ہیں کہ” یہ (قرآن)محض ایک جھُوٹ ہے گھڑا ہوا۔“ اِن کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ” یہ تو صریح جادُو ہے۔ “ 44 - حالانکہ نہ ہم نے اِن لوگوں کو پہلے کوئی کتاب دی تھی کہ یہ اسے پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی متنبّہ کرنے والا بھیجا تھا۔ 64 45 - اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگ جھُٹلا چکے ہیں۔ جو کچھ ہم نے اُنہیں دیا تھا اُس کی عُشرِ عَشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے ہیں ۔ مگر جب انہوں نے میرے رسُولوں کو جھُٹلایا تو دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔ 65 ؏۵


Notes

57. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ سے قریب کرنے والی چیز مال اور اولاد نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح ہے۔ دوسرے یہ کہ مال اور اولاد صرف اس مومن صالح انسان ہی کے لیے ذریعہ تقرُّب بن سکتے ہیں جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت سے خدا شناس اور نیک کردار بنانے کی کوشش کرے۔

58. اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ ان کی یہ نعمت لازوال ہو گی اور اس اجر کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔ کیونکہ جس عیش کے کبھی ختم ہو جانے کا خطرہ ہو اس سے انسان پوری طرح مطمئن ہو کر لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ معلوم کب یہ سب کچھ چھن جائے۔

59. اس مضمون کو بتکرار بیان کرنے سے مقصود اس بات پر زور دینا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اس کی رضا سے مشیتِ الہٰی کے تحت اچھے اور برے ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پا رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اس کا مغضوب ہے۔مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔ لہٰذا وہ شخص گمراہ ہے جو مادی فوائد و منافع کو خیر و شر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت باز پرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہو رہا ہے۔

60. رازق، صانع، موجِد، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ایسی ہیں جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا، یا اس نے یہ عطیہ دیا، یا اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خیر الرازقین کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی جن جن کے متعلق تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں ان سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔

61. قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور کے مشرکین فرشتوں کو دیوی اور دیوتا قرار دے کر ان کے بُت بناتے اور ان کی پرستش کرتے رہے ہیں۔کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی بجلی کا اور کوئی ہوا کا۔ کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی علم کی اور کوئی موت و ہلاکت کی۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ قیامت کے روز ان فرشتوں سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم ہی ان لوگوں کے معبود بنے ہوئے تھے؟ اس سوال کا مطلب محض دریافت حال نہیں ہے بلکہ اس میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ کیا تم ان کی اس عبادت سے راضی تھے؟ کیا تم نے یہ کہا تھا کہ لوگو ہم تمہارے معبود ہیں، تم ہماری پوجا کیا کرو؟ یا تم نے یہ چاہا کہ یہ لوگ تمہاری پوجا کریں؟ قیامت میں یہ سوال صرف فرشتوں ہی سے ہیں بلکہ تمام ان ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی دنیا میں عبادت کی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ فرقان میں ارشاد ہوا ہے :

وَیَوْمَ یَحْشُرُ ھُمْ وَمَا یَعبُدُوْن مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَقُوْلُءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ھٰٓؤُلَآءِاَمْ ھُمْ ضَلُّو االسَّبِیْلَ۔ (آیت 17)

جس روز اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اور ان ہستیوں کو جن کی یہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں جمع کریگا، پھر پوچھے گا کی تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟

62. یعنی وہ جواب دیں گے کہ حضور کی ذات اس سے منزّہ اور بالا تر ہے کہ کوئی دوسرا خدائی و معبودیت میں آپ کا شریک ہو۔ ہمارا ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہم ان سے اور ان کے افعال سے بری الذمّہ ہیں۔ ہم تو حضور کے بندے ہیں۔

63. اس فقرے میں جِن سے مراد شیاطینِ جِن ہیں۔ فرشتوں کے اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو یہ ہمارے نام لے کر، اور اپنے تخیلات کے مطابق ہماری صورتیں بنا کر گویا ہماری عبادت کرتے تھے، لیکن دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ شیا طین کی بندگی کر رہے تھے، کیونکہ شیاطین ہی نے ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا حاجت روا سمجھو اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کیا کرو۔

یہ آیت صریح طور پر ان لوگوں کے خیال کی غلطی واضح کر دیتی ہے جو ’’جن‘‘ کو پہاڑی علاقے کے باشندوں یا دہقانوں اور صحرائیوں کے معنی میں لیتے ہیں۔ کیا کوئی صاحب عقل آدمی اس آیت کو پڑھ کر یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ لوگ کوہستانی اور صحرائی اور دیہاتی آدمیوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ اس آیت سے عبادت کے بھی ایک دوسرے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت صرف پرستش اور پوجا پاٹ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ کسی کی حکم پر چلنا اور اس کی بے چون و چرا اطاعت کرنا بھی عبادت ہی ہے۔ حتٰی کہ اگر آدمی کسی پر لعنت بھیجتا ہو(جیسا کہ شیطان پر بھیجتا ہے ) اور پھر بھی پیروی اسی کے طریقے کی کیے جا رہا ہو تب بھی وہ اس کی عبادت کا مرتکب ہے۔ اس کی دوسری مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو (تفہیم القرآن جلد اول، النساء حاشیہ 145،المآئدہ 91، جلد دوم، التوبۃ حاشیہ 31،جلد سوم ،مریم حاشیہ 27، القصص،حاشیہ 86)

64. یعنی اس سے پہلے نہ کوئی کتاب خدا کی طرف سے ایسی آئی ہے اور نہ کوئی رسول ایسا آیا ہے جس نے آ کر ان کو یہ تعلیم دی ہو کہ یہ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی و پرستش کیا کریں۔ اس لیے یہ لوگ کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ سراسر جہالت کی بنا پر قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید کا انکار کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے۔

65. یعنی مکے کے لوگ تو اس قوت و شوکت اور اس خوشحالی کے عُشر عشیر کو بھی نہیں پہنچے ہیں جو ان قوموں کو حاصل تھی۔ مگر دیکھ لو کہ جب انہوں نے ان حقائق کو ماننے سے انکار کیا جو انبیاء علیہم السلام نے ان کے سامنے پیش کیے تھے، اور باطل پر اپنے نظام زندگی کی بنیاد رکھی تو آخر کار وہ کس طرح تباہ ہوئیں اور ان کی قوت و دولت ان کے کسی کام نہ آسکی۔