66. یعنی اغراض اور خواہشات سے پاک ہو کر خالصتہً لِلّٰہ غور کرو۔ ہر شخص الگ الگ بھی نیک نیتی کے ساتھ سوچے اور دو دو چار چار آدمی سر جوڑ کر بھی بے لاگ طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ بحث کر کے تحقیق کریں کہ آخر وہ کیا بات ہے جس کی بنا پر آج تم اس شخص کو مجنون ٹھیرا رہے ہو جسے کل تک تم اپنے درمیان نہایت دانا آدمی سمجھتے تھے۔ آخر نبوت سے تھوڑی ہی مدت پہلے کا تو واقعہ تھا کہ تعمیر کعبہ کے بعد حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر جب قبائل قریش باہم لڑ پڑے تھے تو تم ہی لوگوں نے بالاتفاق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم تسلیم کیا تھا اور انہوں نے ایسے طریقے سے اس جھگڑے کو چکایا تھا جس پر تم سب مطمئن ہو گئے تھے۔ جس شخص کی عقل و دانش کا یہ تجربہ تمہاری ساری قوم کو ہو چکا ہے، اب کیا بات ایسی ہو گئی کہ تم اسے مجنون کہنے لگے؟ہٹ دھرمی کی تو بات ہی دوسری ہے، مگر کیا واقعی تم اپنے دلوں میں بھی وہی کچھ سمجھتے ہو جو اپنی زبانوں سے کہتے ہو؟
67. یعنی کیا یہی وہ قصور ہے جس کی بنا پر تم اسے جنون کا مریض ٹھیراتے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک عقلمند وہ ہے جو تمہیں تباہی کے راستے پر جاتے دیکھ کر کہے کہ شاباش، بہت اچھے جا رہے ہو، اور مجنون وہ ہے جو تمہیں برا وقت آنے سے پہلے خبردار کرے اور فساد کی جگہ صَلاح کی راہ بتائے۔
68. اصل الفاظ ہیں مَا سَاَلْتُکُمْ مِنْ اَجْر فَھُوَلکُمْ۔ اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر ہم نے ترجمہ میں بیان کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہاری بھلائی کے سوا میں اور کچھ نہیں چاہتا، میرا اجر بس یہی ہے کہ تم درست ہو جاؤ۔ اس مضمون کو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں ادا کیا گیا ہے :
قُلْ مَآاَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْر اِلَّا مَنْ سَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رَبِّہ سَبِیْلاً۔ (الفرقان 57)
اے نبی، ان سے کہو میں اس کام پر تم سے کوئی اجر اس کے سوا نہیں مانگتا کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔
69. یعنی الزام لگانے والے جو کچھ چاہیں الزام لگاتے رہیں، مگر اللہ سب کچھ جانتا ہے، وہ گواہ ہے کہ میں ایک بے غرض انسان ہوں، یہ کام اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔
70. اصل الفاظ ہیں یَقْذِفُ بَا لْحَقِّ۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وحی کے ذریعہ سے وہ عِلم حق میرے اوپر القا کرتا ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کو غالب کر رہا ہے، باطل کے سر پر حق کی ضرب لگا رہا ہے۔
71. اس زمانے کے بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس کی رو سے بنی صلی اللہ علیہ و سلم گمراہ ہو سکتے تھے، بلکہ ہو جایا کرتے تھے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے خود حضورؐ ہی کی زبان سے یہ کہلوا دیا کہ اگر میں گمراہ ہوتا ہوں تو اپنی گمراہی کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں اور راہ راست پر میں بس اس وقت ہوتا ہوں جب میرا رب مجھ پر وحی (یعنی آیات قرآنی ) نازل کرتا ہے۔ اس غلط تاویل سے یہ ظالم گویا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضورؐ کی زندگی معاذ اللہ ہدایت و ضلالت کا مجموعہ تھی اور اللہ تعالیٰ نے کفار کے سامنے حضورؐ سے یہ اعتراف اس لیے کروا رہا تھا کہ کہیں کوئی شخص آپؐ کو بالکل ہی راہ راست پر سمجھ کر آپ کی مکمل پیروی نہ اختیار کر بیٹھے حالانکہ جو شخص بھی سلسلہ کلام پر غور کرے گا وہ جان لے گا کہ یہاں ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں‘‘ کے الفاظ اس معنی میں نہیں کہے گئے ہیں کہ معاذ اللہ حضورؐ فی الواقع گمراہ ہو جاتے تھے، بلکہ پوری بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں، جیسا کہ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو، اور میرا یہ نبوت کا دعویٰ اور میری یہ دعوت توحید اسی گمراہی کا نتیجہ ہے جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو، تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہی پڑے گا، اس کی ذمہ داری میں تم نہ پکڑے جاؤ گے۔ لیکن اگر میں ہدایت پر ہوں، جیسا کہ در حقیقت ہوں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر میرے رب کی طرف سے وحی آتی ہے جس کے ذریعہ سے مجھے راہ راست کا علم حاصل ہو گیا ہے۔ میرا رب قریب ہی موجود ہے اور سب کچھ سن رہا ہے، اسے معلوم ہے کہ میں گمراہ ہوں یا اس کی طرف سے ہدایت یافتہ۔‘‘
72. یعنی قیامت کے روز ہر مجرم اس طرح پکڑا جائے گا کہ گویا پکڑنے والا قریب ہی کہیں چھپا کھڑا تھا، ذرا اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور فوراً ہی دھر لیا گیا۔
73. مراد یہ ہے کہ اس تعلیم پر ایمان لے آئے جو رسول نے دنیا میں پیش کی تھی۔
74. یعنی ایمان لانے کی جگہ تو دنیا تھی اور وہاں سے اب یہ بہت دور نکل آئے ہیں۔ عالم آخرت میں پہنچ جانے کے بعد اب توبہ و ایمان کا موقع کہاں مل سکتا ہے۔
75. یعنی رسُولؐ اور تعلیمات رسولؐ اور اہل ایمان پر طرح طرح کے الزامات لگاتے، آوازے کستے اور فقرے چُست کرتے تھے۔ کبھی کہتے یہ شخص ساحر ہے۔ کبھی کہتے مجنون ہے۔ کبھی توحید کا مذاق اڑاتے اور کبھی آخرت کے تخیل پر باتیں چھانٹتے۔ کبھی یہ افسانہ تراشتے کہ رسولؐ کو کوئی اور سکھاتا پڑھاتا ہے اور کبھی ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے کہ یہ محض اپنی نادانی کی وجہ سے رسولؐ کے پیچھے لگ گئے ہیں۔
76. درحقیقت شرک اور دہریت اور انکار آخرت کے عقائد کوئی شخص بھی یقین کی بنا پر اختیار نہیں کرتا اور نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ یقین صرف علم سے حاصل ہوتا ہے، اور کسی شخص کو بھی یہ علم حاصل نہیں ہے کہ خدا نہیں ہے، یا بہت سے خدا ہیں یا خدائی کے اختیارات میں بہت سی ہستیوں کو دخل حاصل ہے، یا آخرت نہیں ہونی چاہیے۔ پس جس نے بھی دنیا میں یہ عقائد اختیار کیے ہیں اس نے محض قیاس و گمان پر ایک عمارت کھڑی کر لی ہے جس کی اصل بنیاد شک کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اور یہ شک انہیں سخت گمراہی کی طرف لے گیا ہے۔ انہیں خدا کے وجود میں شک ہوا۔ انہیں توحید کی صداقت میں شک ہوا۔ انہیں آخرت کے آنے میں شک ہوا۔ حتّیٰ کہ اس شک کو انہوں نے یقین کی طرح دلوں میں بٹھا کر انبیاء کی کوئی بات نہ مانی اور اپنی زندگی کی پوری مہلت عمل ایک غلط راستے میں کھپا دی۔