Tafheem ul Quran

Surah 35 Fatir, Ayat 1-7

اَ لۡحَمۡدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓـئِكَةِ رُسُلًا اُولِىۡۤ اَجۡنِحَةٍ مَّثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ؕ يَزِيۡدُ فِى الۡخَـلۡقِ مَا يَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿35:1﴾ مَا يَفۡتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنۡ رَّحۡمَةٍ فَلَا مُمۡسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمۡسِكۡ ۙ فَلَا مُرۡسِلَ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدِه ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏  ﴿35:2﴾ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡؕ هَلۡ مِنۡ خَالِـقٍ غَيۡرُ اللّٰهِ يَرۡزُقُكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۖ فَاَنّٰى تُؤۡفَكُوۡنَ‏ ﴿35:3﴾ وَاِنۡ يُّكَذِّبُوۡكَ فَقَدۡ كُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِكَؕ وَاِلَى اللّٰهِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ‏ ﴿35:4﴾ يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاوَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ‏ ﴿35:5﴾ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ لَـكُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡهُ عَدُوًّا ؕ اِنَّمَا يَدۡعُوۡا حِزۡبَهٗ لِيَكُوۡنُوۡا مِنۡ اَصۡحٰبِ السَّعِيۡرِؕ‏ ﴿35:6﴾ اَ لَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ؕ وَّالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ كَبِيۡرٌ‏ ﴿35:7﴾

1 - تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے، 1 (ایسے فرشتے )جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں۔ 2 وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ 3 یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 2 - اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں۔ 4 وہ زبردست اور حکیم ہے۔ 5 3 - لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو۔ 6 کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ ۔۔۔۔ کوئی معبُود اُس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو؟ 7 4 - اب اگر (اے نبیؐ )یہ لوگ تمہیں جھُٹلاتے ہیں 8 (تو یہ کوئی نئی بات نہیں )تم سے پہلے بھی بہت سے رسُول جھٹلائے جا چکے ہیں، اور سارے معاملات آخر کار اللہ ہی کی طرف رجوع ہونے والے ہیں۔ 9 5 - لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً بر حق ہے 10 ، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے 11 اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے۔ 12 6 - درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیرووں کو اپنی راہ پر اس لیے بُلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں۔ 7 - جو لوگ کُفر کریں گے 13 اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اُن کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ 14 ؏۱


Notes

1. اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں، ان کی حیثیت اللہ وحدہٗ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اس طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اُڑے پھرتے ہیں۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں۔

2. ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت لینی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعتِ رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے۔

3. ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے (بخاری۔مسلم۔ ترمذی)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے، ان کے چھ سو بازو تھے اُفق پر چھائے ہوئے تھے، (ترمذی)۔

4. اس کا مقصود بھی مشرکین کی اس غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے کوئی انہیں روز گار دلانے والا اور کوئی ان کو اولاد عطا فرمانے والا اور کوئی ان کے بیماروں کو تندرستی بخشنے والا ہے۔ شرک کے یہ تمام تصورات بالکل بے بنیاد ہیں اور خالص حقیقت صرف یہ ہے کہ جس قسم کی رحمت بھی بندوں کو پہنچتی ہے محض اللہ عز و جل کے فضل سے پہنچتی ہے۔ کوئی دوسرا نہ اس کے عطا کرنے پر قادر ہے اور نہ روک دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید اور احادیث میں بکثرت مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان در در کی بھیک مانگنے اور ہر آستانے پر ہاتھ پھیلانے سے بچے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں ہے۔

5. زبردست ہے، یعنی سب پر غالب اور کامل اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے۔ جو فیصلہ بھی وہ کرتا ہے سراسر حکمت کی بنا پر کرتا ہے۔ کسی کو دیتا ہے تو اس لیے دیتا ہے کہ حکمت اسی کی مقتضی ہے۔ اور کسی کو نہیں دیتا تو اس لیے نہیں دیتا کہ اسے دینا حکمت کے خلاف ہے۔

6. یعنی احسان فراموش نہ بنو۔ نمک حرامی نہ اختیار کرو۔ اس حقیقت کو نہ بھول جاؤ کہ تمہیں جو کچھ بھی حاصل ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ فقرہ اس بات پر متنبہ کر رہا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے سوا کسی کی بندگی و پرستش کرتا ہے، یا کسی نعمت کو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کی عطا بخشش سمجھتا ہے، یا کوئی نعمت کے ملنے پر اللہ کے سوا کسی اور کا شکر بجا لاتا ہے، یا کوئی نعمت مانگنے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور سے دعا کرتا ہے، وہ بہت بڑا احسان فراموش ہے۔

7. پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے کلام کا موقع و محل خود بھر رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ نقشہ چشم تصور کے سامنے لایئے کہ تقریر مشرکین کے سامنے ہو رہی ہے۔ مقرر حاضرین سے پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور جو زمین و آسمان سے تمہاری رزق رسانی کا سامان کر رہا ہو؟ یہ سوال اٹھا کر مقرر چند لمحے جواب کا انتظار کرتا ہے۔ مگر دیکھتا ہے کہ سارا مجمع خاموش ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق و رازق ہے۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حاضرین کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ خالق و رازق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ تب مقرر کہتا ہے کہ معبود بھی پھر اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق و رازق تو ہو صرف اللہ، مگر معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔

8. یعنی تمہاری اس بات کو نہیں مانتے کہ اللہ کے سوا عبادت کا مستحق کوئی نہیں ہے، اور تم پر یہ الزام رکھتے ہیں کہ تم نبوت کا ایک جھوٹا دعویٰ لے کر کھڑے ہو گئے ہو۔

9. یعنی فیصلہ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ جسے وہ جھوٹا کہہ دیں وہ حقیقت میں جھوٹا ہو جائے فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ آخر کار بتا دے گا کہ جھوٹا کون تھا اور جو حقیقت میں جھوٹے ہیں انہیں ان کا انجام بھی دکھا دے گا۔

10. وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے جس کی طرف اوپر کے اس فقرے میں اشارہ کیا گیا تھا کہ تمام معاملات آخر کار اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔

11. یعنی اس دھوکے میں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے، اس کے بعد کوئی آخرت نہیں ہے جس میں اعمال کا حساب ہونے والا ہو۔ یا اس دھوکے میں کہ اگر کوئی آخرت ہے بھی تو جو اس دنیا میں مزے کر رہا ہے وہ وہاں بھی مزے کرے گا۔

12. ’’ بڑے دھوکے باز‘‘ سے مراد یہاں شیطان ہے، جیسا کہ آگے کا فقرہ بتا رہا ہے۔ اور ’’ اللہ کے بارے میں‘‘ دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو تو یہ باور کرائے کہ خدا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو اس غلط فہمی میں ڈالے کہ خدا ایک دفعہ دنیا کو حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے، اب اسے اپنی بنائی ہوئی اس کائنات سے عملاً کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ چکر دے کہ خدا کائنات کا انتظام تو بے شک کر رہا ہے، مگر اس نے انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کوئی ذمہ نہیں لیا ہے، اس لیے یہ وحی و رسالت محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلائے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے، تم خواہ کتنے ہی گناہ کرو، وہ بخش دے گا، اور اس کے کچھ پیارے ایسے ہیں کہ ان کا دامن تھام لو تو بیڑا پار ہے۔

13. یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔

14. یعنی اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور جو نیک عمل انہوں نے کیے ہوں گے ان کا محض برابر سرا بر ہی اجر دے کر ہی نہ رہ جائے گا بلکہ انہیں بڑا اجر عطا فر مائے گا۔