Tafheem ul Quran

Surah 35 Fatir, Ayat 15-26

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ وَاللّٰهُ هُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ‏ ﴿35:15﴾ اِنۡ يَّشَاۡ يُذۡهِبۡكُمۡ وَيَاۡتِ بِخَلۡقٍ جَدِيۡدٍۚ‏ ﴿35:16﴾ وَمَا ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِيۡزٍ‏ ﴿35:17﴾ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرَىٰ ؕ وَاِنۡ تَدۡعُ مُثۡقَلَةٌ اِلٰى حِمۡلِهَا لَا يُحۡمَلۡ مِنۡهُ شَىۡءٌ وَّلَوۡ كَانَ ذَا قُرۡبٰى ؕ اِنَّمَا تُنۡذِرُ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَيۡبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ؕ وَمَنۡ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفۡسِهٖ ؕ وَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿35:18﴾ وَمَا يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ ۙ‏ ﴿35:19﴾ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوۡرُۙ‏ ﴿35:20﴾ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الۡحَـرُوۡرُۚ‏ ﴿35:21﴾ وَمَا يَسۡتَوِى الۡاَحۡيَآءُ وَلَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُسۡمِعُ مَنۡ يَّشَآءُ ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِى الۡقُبُوۡرِ‏ ﴿35:22﴾ اِنۡ اَنۡتَ اِلَّا نَذِيۡرٌ‏ ﴿35:23﴾ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ بِالۡحَـقِّ بَشِيۡرًا وَّنَذِيۡرًاؕ وَاِنۡ مِّنۡ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيۡهَا نَذِيۡرٌ‏ ﴿35:24﴾ وَاِنۡ يُّكَذِّبُوۡكَ فَقَدۡ كَذَّبَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ۚ جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالۡكِتٰبِ الۡمُنِيۡرِ‏ ﴿35:25﴾ ثُمَّ اَخَذۡتُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فَكَيۡفَ كَانَ نَـكِيۡرِ‏ ﴿35:26﴾

15 - لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج ہو 36 اور اللہ تو غنی و حمید ہے۔ 37 16 - وہ چاہے تو تمہیں ہٹا کر کوئی نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے، 17 - ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دُشوار نہیں۔ 38 18 - کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔ 39 اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اُٹھانے کے لیے پُکارے گا تو اس کے بار ایک ادنیٰ حصّہ بھی بٹا نے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ 40 (اے نبیؐ )تم صرف انہی لوگوں کو متنبّہ کر سکتے ہو جو بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ 41 جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنی ہی بھلائی کے لیے تیار ہے۔ اور پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے۔ 19 - اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے۔ 20 - نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں۔ 21 - نہ ٹھنڈی چھاوٴں اور دُھوپ کی تپش ایک جیسی ہے ۔ 22 - اور نہ زندہ اور مُردے مساوی ہیں۔ 42 اللہ جسے چاہتا ہے سُنواتا ہے ، مگر (اے نبیؐ )تم اُن لوگوں کو نہیں سُنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔ 43 23 - تم تو بس ایک خبر دار کرنے والے ہو۔ 44 24 - ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اور کوئی اُمّت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبّہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ 45 25 - اب اگر یہ لوگ تمہیں جھُٹلاتے ہیں تو اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھُٹلا چکے ہیں۔ اُن کے پاس ان کے رسُول کھُلے دلائل 46 اور صحیفے اور روشن ہدایات دینے والی کتاب 47 لے کر آئے تھے ۔ 26 - پھر جن لوگوں نے نہ مانا اُن کو میں نے پکڑ لیا اور دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخٹ تھی۔ ؏۳


Notes

36. یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ خدا تمہارا محتاج ہے، تم اسے خدا نہ مانو گے تو اس کی خدائی نہ چلے گی، اور تم اس کی بندگی و عبادت نہ کرو گے تو اس کا کوئی نقصان ہو جائے گا۔ نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے محتاج ہو۔ تمہاری زندگی ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی اگر وہ تمہیں زندہ نہ رکھے اور وہ اسباب تمہارے لیے فراہم نہ کرے جن کی بدولت تم دنیا میں زندہ رہتے ہو اور کام کر سکتے ہو۔ لہٰذا تمہیں اس کی اطاعت و عبادت اختیار کرنے کی جو تاکید کی جاتی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اسی پر تمہاری اپنی دنیا اور آخرت کی فلاح کا انحصار ہے۔ ایسا نہ کرو گے تو اپنا ہی سب کچھ بگاڑ لو گے، خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔

37. ’’غنی ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے، ہر ایک سے مستغنی اور بے نیاز ہے، کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اور ’’حمید ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ سے آپ محمود ہے، کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے مگر حمد(شکر اور تعریف ) کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے۔ ان دونوں صفات کو ایک ساتھ اس لیے لایا گیا ہے کہ محض غنی تو وہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنی دولت مندی سے کسی کو نفع نہ پہنچائے۔ اس صورت میں وہ غنی تو ہوگا مگر حمید نہ ہوگا۔حمید وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ وہ کسی سے خود تو کوئی فائدہ نہ اٹھائے مگر اپنی دولت کے خزانوں سے دوسروں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ان دونوں صفات میں کامل ہے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ محض غنی نہیں ہے بلکہ ایسا غنی ہے جسے ہر تعریف اور شکر کا استحقاق پہنچتا ہے کیوں کہ وہ تمہاری اور تمام موجودات عالم کی حاجتیں پوری کر رہا ہے۔

38. یعنی تم کچھ اپنے بل بوتے پر اس کی زمین میں نہیں دندنا رہے ہو۔ اس کا ایک اشارہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ تمہیں یہاں سے چلتا کرے اور کسی اور قوم کو تمہاری جگہ اٹھا کھڑا کرے۔ لہٰذا اپنی اوقات پہچانو اور وہ روش اختیار نہ کرو جس سے آخر کار قوموں کی شامت آیا کرتی ہے۔ خدا کی طرف سے جب کسی کی شامت آتی ہے تو ساری کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے اور اس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے روک سکے۔

39. ’’ بوجھ‘‘ سے مراد اعمال کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، اور ہر ایک پر صرف اس کے اپنے ہی عمل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری کا بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے۔ اور نہ یہی ممکن کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی ذمہ داری کا بار خود اپنے اوپر لے لے اور اسے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس کے جرم میں پکڑ وا دے۔ یہ بات یہاں اس بنا پر فرمائی جا رہی ہے کہ مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کر رہے تھا ان سے ان کے مشرک رشتہ دار اور برادری کے لوگ کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور دین آبائی پر قائم رہو، عذاب ثواب ہماری گردن پر۔

40. اوپر کے فقرے میں اللہ کے قانون عدل کا بیان ہے کہ وہ ایک کے گناہ میں دوسرے کو نہ پکڑے گا، بلکہ ہر ایک کو اس کے اپنے ہی گناہ کا ذمہ دار ٹھیرائے گا۔ اور اس فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ آج یہ بات کہہ رہے ہیں کہ تم ہماری ذمہ داری پر کفر و معصیت کا ارتکاب کرو، قیامت کے روز ہم تمہارا بار گناہ اپنے اوپر لے لیں گے، وہ دراصل محض ایک جھوٹا بھروسا دلا رہے ہیں۔ جب قیامت آئے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے وہ کس انجام سے دوچار ہونے والے ہیں تو ہر ایک کو اپنی پڑ جائے گی۔ بھائی بھائی سے اور باپ بیٹے سے منہ موڑ لے گا اور کوئی کسی کا ذرہ برابر بوجھ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہ ہوگا۔

41. بالفاظ دیگر ہٹ دھرم اور ہیکڑ لوگوں پر تمہاری تنبیہات کار گر نہیں ہو سکتیں۔ تمہارے سمجھانے سے تو وہی لوگ راہ راست پر آ سکتے ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہے اور جو اپنے ما لک حقیقی کے آگے جھکنے کے لیے تیار ہیں۔

42. ان تمثیلات میں مومن اور کافر کے حال اور مستقبل کا فرق بتایا گیا ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور کچھ نہیں دیکھتا کہ کائنات کا سارا نظام اور خود اس کا اپنا وجود صداقت کی طرف اشارے کر رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ اس کے باہر اور اندر کی ہر چیز خدا کی توحید اور اس کے حضور انسان کی جوابدہی پر گواہی دے رہی ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو جاہلانہ اوہام اور مفروضات و قیاسات کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور پیغمبر کی روشن کی ہوئی شمع کے قریب بھی پھٹکنے کے لیے تیا ر نہیں۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور پیغمبر کی پھیلائی ہوئی روشنی سامنے آتے ہی اس پر یہ بات بالکل عیاں ہو گئی ہے کہ مشرکین اور کفار اور دہریے جن راہوں پر چل رہے ہیں وہ سب تباہی کی طرف جاتی ہیں اور فلاح کی راہ صرف وہ ہے جو خدا کے رسول نے دکھائی ہے۔ اب آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہو اور دونوں ایک ساتھ ایک ہی راہ پر چل سکیں؟ اور آخر یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ دونوں کا انجام یکساں ہو اور دونوں ہی مر کر فنا ہو جائیں، نہ ایک کو بد راہی کی سزا ملے، نہ دوسرا راست روی کا کوئی انعام پائے؟ ’’ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی نہیں ہے ‘‘ کا اشارہ اسی انجام کی طرف ہے کہ ایک اللہ کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والا ہے اور دوسرا جہنم کی تپش میں جھلسنے والا ہے۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ آخر کار دونوں ایک ہی انجام سے دوچار ہوں گے۔ آخر میں مومن کو زندہ سے اور ہٹ دھرم کافروں کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔یعنی مومن وہ ہے جس کے اندر احساس و ادراک اور فہم و شعور موجود ہے اور اس کا ضمیر اسے بھلے اور برے کی تمیز سے ہر وقت آگاہ کر رہا ہے۔ اور اس کے بر عکس جو شخص کفر کے تعصب میں پوری طرح غرق ہو چکا ہے اس کا حل اس اندھے سے بھی بدتر ہے جو تاریکی میں بھٹک رہا ہو، اس کی حالت تو اس مردے کی سی ہے جس میں کوئی حِس باقی نہ رہی ہو۔

43. یعنی اللہ کی مشیت کی تو بات ہی دوسری ہے، وہ چاہے تو پتھروں کو سماعت بخش دے، لیکن رسولؐ کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ جن لوگوں کے سینے ضمیر کے مدفن بن چکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو صدائے حق سنا سکے۔ وہ تو انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو معقول بات پر کان دھرنے کے لیے تیار ہوں۔

44. یعنی تمہارا کام لوگوں کو خبردار کر دینے سے زائد کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی ہوش میں نہیں آتا اور اپنی گمرا ہیوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی خدمت تمہارے سپرد نہیں کی گئی ہے۔

45. یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے کہ دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث نہ فرمائے ہوں۔ سورہ رعد میں فرمایا وَلِکُلِّ قَوْم ھَاد (آیت7)۔ سورہ حجر میں فرمایا وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فَیْ شِیَعِ الْاَ وَّ لِیْنَ (آیت 10)۔سورہ نحل میں فرمایا وَلَقَدْ بَعَثْنَا فَیْ کُلِّ اُمَّۃ رَّ سُوْلاً (آیت 36)۔ سورہ شعراء میں فرمایا وَمَا اَھْلکْنَا مِنْ قَرْیَۃ اِلَّا لَھَا مُنْذِرُوْنَ (آیت 208)۔ مگر اس سلسلے میں دو باتیں سمجھ لینی چاہییں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اول یہ کہ ایک نبی کی تبلیغ جہاں جہاں تک پہنچ سکتی ہو وہاں کے لیے وہی نبی کافی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر بستی اور ہر ہر قوم میں الگ الگ ہی انبیا ء بھیجے جائیں۔ دوم یہ کہ ایک نبی کی دعوت و ہدایت کے آثار اور اس کی رہنمائی کے نقوش قدم جب تک محفوظ نہیں اس وقت تک کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لازم نہیں کہ ہر نسل اور ہر پشت کے لیے الگ نبی بھیجا جائے۔

46. یعنی ایسے دلائل جو اس بات کی صاف شہادت دیتے تھے کہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں۔

47. صحیفوں اور کتاب میں غالباً یہ فرق ہے کہ صحیفے زیادہ تر نصائح اور اخلاقی ہدایات پر مشتمل ہوتے تھے ، اور کتاب ایک پوری شریعت لے کر آتی تھی۔