48. اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ خدا کی پیدا کردہ کائنات میں کہیں بھی یک رنگی و یکسانی نہیں ہے۔ ہر طرف تنُّوع ہی تنُّوع ہے ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی سے طرح طرح کے درخت نکل رہے ہیں اور ایک درخت کے دو پھل تک اپنے رنگ، جسامت اور مزے میں یکساں نہیں ہیں۔ ایک ہی پہاڑ کو دیکھو تو اس میں کئی کئی رنگ تمہیں نظر آئیں گے اور اس کے مختلف حصوں کی مادی ترکیب میں بڑا فرق پایا جائے گا۔ انسانوں اور جانوروں میں ایک ماں باپ کے دو بچے تک یکساں نہ ملیں گے۔ اس کائنات میں اگر کوئی مزاجوں اور طبیعتوں اور ذہنیتوں کی یکسانی ڈھونڈے اور وہ اختلافات دیکھ کر گھبرا اٹھے جن کی طرف اوپر (آیت نمبر 19 تا 22 میں )اشارہ کیا گیا ہے تو یہ اس کے اپنے فہم کی کوتاہی ہے۔ یہی تنوع اور اختلاف تو پتہ دے رہا ہے کہ اس کائنات کو کسی زبردست حکیم نے بے شمار حکمتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کا بنانے والا کوئی بے نظیر خلاّق اور بے مثل صنّاع ہے جو ہر چیز کا کوئی ایک ہی نمونہ لے کر نہیں بیٹھ گیا ہے، بلکہ اس کے پاس ہر شے کے لیے نئے سے نئے ڈیزائن اور بے حد و حساب ڈیزائن ہیں۔ پھر خاص طور پر انسانی طبائع اور اذہان کے اختلاف پر کوئی شخص غور کرے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ در حقیقت حکمت تخلیق کا شاہ کار ہے۔ اگر تمام انسان پیدائشی طور پر اپنی افتاد طبع اور اپنی خواہشات، جذبات، میلانات اور طرز فکر کے لحاظ سے یکساں بنا دیے جاتے اور کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھی جاتی تو دنیا میں انسان کی قسم کی ایک نئی مخلوق پیدا کرنا ہی سرے سے لا حاصل ہو جاتا۔ خالق نے جب اس زمین پر ایک ذمہ دار مخلوق اور اختیارات کی حامل مخلوق وجود میں لانے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے کی نوعیت کا لازمی تقاضا یہی تھا کہ اس کی ساخت میں ہر قسم کے اختلافات کی گنجائش رکھی جاتی۔ یہ چیز اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ انسان کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان حکیمانہ منصوبے کا نتیجہ ہے اور ظاہر ہے کہ حکیمانہ منصوبہ جہاں بھی پایا جائے گا وہاں لازماً اس کے پیچھے ایک حکیم ہستی کار فرما ہوگی۔ حکیم کے بغیر حکمت کا وجود صرف ایک احمق ہی فرض کر سکتا ہے۔
49. یعنی جو شخص اللہ کی صفات سے جتنا زیادہ نا واقف ہو گا اور اس کے برعکس جس شخص کو اللہ کی قدرت، اس کے علم، اس کی حکمت، اس کی قہاری و جبّاری، اور اس کی دوسری صفات کی جتنی معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی وہ اس کی نافرمانی سے خوف کھائے گا۔ پس درحقیقت
اس آیت میں علم سے مراد فلسفہ و سائنس اور تاریخ و ریاضی وغیرہ درسی علوم نہیں ہیں بکہ صفات الہٰی کا علم ہے قطع نظر اس سے کہ آدمی خواندہ ہو یا نا خواندہ۔ وہ شخص خدا سے بے خوف ہے وہ علّامہ دہر بھی ہو تو اس علم کے لحاظ سے جاہل محض ہے۔ اور جو شخص خدا کی صفات کو جانتا ہے اور اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اَن پڑھ بھی ہو تو ذی علم ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اس آیت میں لفظ ’’ علماء‘‘ سے وہ اصطلاحی علماء بھی مراد نہیں ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہے جاتے ہیں۔ وہ اس آیت کے مصداق صرف اسی صورت میں ہوں گے جبکہ ان کے اندر خدا ترسی موجود ہو۔ یہی بات حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمائی ہے کہ لیس العلم عن کثرۃ الحدیث و لٰکن العلم عن کثرۃ الخشیۃ۔‘‘ علم کثرت حدیث کی بنا پر نہیں ہے بلکہ خوف خدا کی کثرت کے لحاظ سے ہے ‘‘ اور یہی بات حضرت حسن بصریؒ نے فرمائی ہے کہ العلم من خشی الحمٰن بالغیب و رغب فیما رغب اللہ فیہ و زھد فیما سخط اللہ فیہ۔ ’’ علم وہ ہے جو اللہ سے بے دیکھے ڈرے، جو کچھ اللہ کو پسند ہے اس کی طرف وہ راغب ہو"" اور جس چیز سے اللہ ناراض ہے اس سے وہ کوئی دلچسپی نہ رکھے۔‘‘
50. یعنی وہ زبردست تو ایسا ہے کہ نافر مانوں کو جب چاہے پکڑ لے، کسی میں یارا نہیں کہ اس کی پکڑ سے بچ نکلے، مگر یہ اس کی شان عفو و در گزر ہے جس کی بنا پر ظالموں کو مہلت ملے جا رہی ہے۔
51. اہل ایمان کے اس عمل کو تجارت سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ آدمی تجارت میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ نہ صرف اصل واپس ملے گا، اور نہ صرف وقت اور محنت کی اجرت ملے گی، بلکہ کچھ مزید منافع بھی حاصل ہوگا۔ اسی طرح ایک مومن بھی خدا کی فرمانبرداری میں، اس کی بندگی و عبادت میں، اور اس کے دین کی خاطر جدوجہد میں، اپنا مال، اپنے اوقات، اپنی محنتیں اور قابلیتیں اس امید پر کھپا دیتا ہے کہ نہ صرف ان سب کا پورا پورا اجر ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے مزید بہت کچھ عنایت فرمائے گا۔ مگر دونوں تجارتوں میں فرق اور بہت بڑا فرق اس بنا پر ہے کہ دنیوی تجارت میں محض نفع ہی کی امید نہیں ہوتی، گھاٹے اور دیوالے تک کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ بخلاف اس کے جو تجارت ایک مخلص بندہ اپنے خدا کے ساتھ کرتا ہے اس میں کسی خسارے کا اندیشہ نہیں۔
52. یعنی مخلص اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس تنگ دل آقا کا سا نہیں ہے جو بات بات پر گرفت کرتا ہو اور ایک ذرا سی خطا پر اپنے ملازم کی ساری خدمتوں اور وفا داریوں پر پانی پھیر دیتا ہو۔ وہ فیاض اور کریم آقا ہے۔ جو بندہ اس کا وفادار ہو اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور جو کچھ بھی خدمت اس سے بن آئی ہو اس کی قدر فرماتا ہے۔
53. مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی نرالی بات نہیں پیش کر رہی ہے جو پچھلے انبیاء کی لائی ہوئی تعلیمات کے خلاف ہو، بلکہ اسی ازلی و ابدی حق کو پیش کر رہی ہے جو ہمیشہ سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔
54. اللہ کی ان صفات کو یہاں بیان کرنے کا مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ بندوں کے لیے خیر کس چیز میں ہے، اور ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کیا اصول موزوں ہیں، اور کون سے ضابطے ٹھیک ٹھیک ان کی مصلحت کے مطابق ہیں، ان امور کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا، کیونکہ بندوں کی فطرت اور اس کے تقاضوں سے وہی باخبر ہے، اور ان کے حقیقی مصالح پر وہی نگاہ رکھتا ہے۔ بندے خود اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا ان کا خالق ان کو جانتا ہے۔ اس لیے حق وہی ہے اور وہی ہو سکتا ہے جو اس نے وحی کے ذریعہ سے بتا دیا ہے۔
55. مراد ہیں مسلمان جو پوری نوعِ انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئے ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسے لے کر اٹھیں۔ اگر چہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے۔ مگر جنہوں نے آگے بڑھ کر اسے قبول کر لیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کر لیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں۔
56. یعنی یہ مسلمان سب کے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں:
1)۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے۔یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں۔ اسی لیے ان کو ظالمُ لِنفسہ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چُنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے۔
2)۔ بیچ کی راس۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم و بیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے۔ فرماں بردار بھی ہیں اور خطا کار بھی۔ اپنے نفس کو بالکل بے لگام تو انہوں نے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے خدا کا مطیع بنانے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ اس کی باگیں ڈھیلی بھی چھوڑ دیتے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح انکی زندگی اچھے اور برے، دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں اس لیے ان کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔
3)۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے۔ یہ وارثین کتاب میں صفِ اول کے لوگ ہیں۔ یہی دراصل اس وراثت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ یہ اتباع کتاب و سنت میں بھی پیش پیش ہیں، خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش، دین حق کی خاطر قربانیاں کرنے میں بھی پیش پیش، اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش۔ یہ دانستہ معصیت کرنے والے نہیں ہیں، اور نا دانستہ کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر متنبہ ہوتے ہی ان کی پیشانیاں شرم سے عرق آلود ہو جاتی ہیں۔ ان کی تعداد امت میں پہلے دونوں گروہوں سے کم ہے اس لیے ان کا آخر میں ذکر کیا گیا ہے اگر چہ وراثت کا حق ادا کرنے کے معاملہ میں ان کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔
’’یہی بہت بڑا فضل ہے ‘‘۔ اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیکیوں میں سبقت کرنا ہی بڑا فضل ہے اور جو لوگ ایسے ہیں وہ امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں۔ اور اس فقرے کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کتاب اللہ کا وارث ہونا اور اس وراثت کے لیے چن لیا جانا بڑا فضل ہے، اور خدا کے تمام بندوں میں وہ بندے سب سے افضل ہیں جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاکر اس انتخاب میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
57. مفسرین میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس فقرے کا تعلق قریب ترین دونوں فقروں سے ہے، یعنی نیکیوں پر سبقت کرنے والے ہی بڑی فضیلت رکھتے ہیں اور وہی ان جنتوں میں داخل ہوں گے۔ رہے پہلے دو گروہ، تو ان کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے انجام کے معاملہ میں فکر مند ہوں اور اپنی موجودہ حالت سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اس رائے کو علامہ زمخشری نے بڑے زور کے ساتھ بیان کیا ہے اور امام رازی نے اس کی تائید کی ہے۔
لیکن مفسرین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے یہ تینوں گروہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے، خواہ محاسبہ کے بغیر یا محاسبہ کے بعد، خواہ ہر مواخذہ سے محفوظ رہ کر یا کوئی سزا پانے کے بعد۔ اسی تفسیر کی تائید قرآن کا سیاق کرتا ہے، کیونکہ آگے چل کر وارثین کتاب کے بالمقابل دوسرے گروہ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اس کتاب کو مان لیا ہے ان کے لیے جنت ہے اور جنہوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کیا ہے ان کے لیے جہنم۔ پھر اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوالدارواء نے روایت کیا ہے اور امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طَبَرانی، بیہقی اور بعض دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے اس میں حضورؐ فرماتے ہیں:
فامّا الذین سبقو ا فاولٰئِک الذین ید خلو ن الجنۃ بغیر حساب، وامّا الذین اقتصد وا فاولٰئِک الذین ظلمو اا نفسہم فا ولٰئِک یُحبَسوْن طول المحشر ثم ھم الذین تتلقّا ھم اللہ برحمتہ فھم الذین یقولون الحمد لِلہ الذی اذھب عنا الحزن۔
جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے ہیں وہ جنت میں کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے۔ اور جو بیچ کی راس رہے ہیں ان سے محاسبہ ہوگا مگر ہلکا محاسبہ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو وہ محشر کے پورے طویل عرصہ میں روک رکھے جائیں گے، پھر انہی کو اللہ اپنی رحمت میں لے لیگا اور یہی لوگ ہیں جو کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔
اس حدیث میں حضورؐ نے اس آیت کی پوری تفسیر خود بیان فرمادی ہے اور اہل ایمان کے تینوں طبقوں کا انجام الگ الگ بتا دیا ہے۔ بیچ کی راس والوں سے ’’ ہلکا محاسبہ ‘‘ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو تو ان کے کفر کے علاوہ ان کے ہر ہر جرم اور گناہ کی جداگانہ سزا بھی دی جائے گی، مگر اس کے برعکس اہل ایمان میں جو لوگ اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال لے کر پہنچیں گے ان کی نیکیوں اور ان کے گناہوں کا مجموعی محا سبہ ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ ہر نیکی کی الگ جزا اور ہر قصور کی الگ سزا دی جائے۔ اور یہ جو فر مایا کہ اہل ایمان میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہوگا وہ محشر کے پورے عرصے میں روک رکھے جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ ان کو ’’ تا برخاستِ عدالت ‘‘ کی سزا دی جائے گی، یعنی روز حشر کی پوری طویل مدت (جو نہ معلوم کتنی صدیوں طویل ہوگی) ان پر اپنی ساری سختیوں کے ساتھ گزر جائے گی، یہاں تک کہ آخر کار اللہ ان پر رحم فرمائے گا اور خاتمہ عدالت کے وقت حکم دے گا کہ اچھا، انہیں بھی جنت میں داخل کر دو۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال محدثین نے بہت سے صحابہ، مثلاً حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ، حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت بَراء ابن عازب سے نقل کیے ہیں، اور ظاہر ہے کہ صحابہ ایسے معاملات میں کوئی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے تھے جب تک انہوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کو نہ سنا ہو۔
مگر اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ’’ اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ‘‘ ان کے لیے صرف ’’ تا برخاست عدالت‘‘ ہی کی سزا ہے اور ان میں سے کوئی جہنم میں جائے گا ہی نہیں۔ قرآن اور حدیث میں متعدد ایسے جرائم کا ذکر ہے جن کے مرتکب ایمان کو بھی جہنم میں جانے وے نہیں بچا سکتا۔ مثلاً جو مومن کو عمداً قتل کر دے اس کے لیے جہنم کی سزا کا اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرما دیا ہے۔ اسی طرح قانون وراثت کی خداوندی حدود کو توڑنے والوں کے لیے بھی قرآن مجید میں جہنم کی وعید فرمائی گئی ہے۔ سُود کی حرمت کا حکم آ جانے کے بعد پھر سود خواری کرنے والوں کے لیے بھی صاف صاف اعلان فرمایا گیا ہے کہ وہ اصحاب النار ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اور کبائر کے مرتکبین کے لیے بھی احادیث میں تصریح ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔
58. ہر قسم کا غم۔ دنیا میں جن فکروں اور پریشانیوں میں مبتلا تھے ان سے بھی نجات ملی، عُقبیٰ میں اپنے انجام کی جو فکر لا حق تھی وہ بھی ختم ہوئی، اور اب آگے چَین ہی چَین ہے، کسی رنج و الم کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہا۔
59. یعنی ہمارے قصُور اس نے معاف فرما دیے اور عمل کی جو تھوڑی سی پونجی ہم لائے تھے اس کی ایسی قدر فرمائی کہ اپنی جنت اس کے بدلے میں ہمیں عطا فرمادی۔
60. یعنی دنیا ہماری سفر حیات کی ایک منزل تھی جس سے ہم گزر آئے ہیں، اور میدان حشر بھی اس سفر کا ایک مرحلہ تھا جس سے ہم گزر لیے ہیں، اب ہم اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے نکل کر پھر کہیں جانا نہیں ہے۔
61. بالفاظ دیگر ہماری تمام محنتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب یہاں ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا پڑتا جس کے انجام دینے میں ہم کو مشقت پیش آتی ہو اور جس سے فارغ ہو کر ہم تھک جاتے ہوں۔
62. یعنی اس کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمائی ہے۔
63. اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہو سکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہے تو کر سکے اور گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کر سکے۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مر چکا ہو تو اس آیت کی رُو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا، اور پھر اس عمر کے شروع ہو جانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلی جائی گی، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل فرمائی ہے کہ جو شخص کم عمر پائے اس کے لیے تو عذر کا موقع ہے، مگر 60 سال اور اس سے اوپر عمر پانے والے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے (بخاری، احمد، نَسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ )۔