64. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس نے پچھلی نسلوں اور قوموں کے گزر جانے کے بعد اس نے تم کو ان کی جگہ اپنی زمین میں بسایا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے تمہیں زمین میں تصرف کے جو اختیارات دیے ہیں وہ اس حیثیت سے نہیں ہیں کہ تم ان چیزوں کے مالک ہو، بلکہ اس حیثیت سے ہیں کہ تم اصل مالک کے خلیفہ ہو۔
65. اگر پہلے فقرے کا یہ مطلب لیا جائے کہ تم کو پچھلی قوموں کا جانشین بنایا ہے تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جس نے گزشتہ قوموں کے انجام سے کوئی سبق نہ لیا اور وہی کفر کا رویہ اختیار کیا جس کی بدولت وہ قومیں تباہ ہو چکی ہیں، وہ اپنی اس حماقت کا نتیجہ بد دیکھ کر رہے گا۔ اور اگر اس فقرے کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے خلیفہ کی حیثیت سے زمین میں اختیارات عطا کیے ہیں تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو اپنی حیثیت خلافت کو بھول کر خود مختار بن بیٹھا یا جس نے اصل مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی بندگی اختیار کر لی وہ اپنی اس باغیانہ روش کا برا انجام دیکھ لے گا۔
66. ’ اپنے شریک ‘‘کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا گیا ہے کہ در حقیقت وہ خدا کے شریک تو ہیں نہیں، مشرکین نے ان کو اپنے طور پر اس کا شریک بنا رکھا ہے۔
67. یعنی کیا ہمارا لکھا ہوا کوئی پروانہ ان کے پاس ایسا ہے جس میں ہم نے یہ تحریر کیا ہو کہ فلاں فلاں اشخاص کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے، یا بے روزگاروں کو روزگار دلوانے، یا حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں، یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے اپنی زمین کے فلاں حصوں کا مختارِ کار بنا دیا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا ہمارے بندوں کو اب انہی سے دعائیں مانگنی چاہییں اور انہی کے حضور نذریں اور نیازیں چڑھانی چاہییں اور جو نعمتیں بھی ملیں ان پرا نہی’’ چھوٹے خداؤں ‘‘ کا شکر بجا لانا چاہیے۔ ایسی کوئی سند اگر تمہارے پاس ہے تو لاؤ اسے پیش کرو۔ اور اگر نہیں ہے تو خود ہی سوچو کہ یہ مشرکانہ عقائد اور اعمال آخر تم نے کس بنیاد پر ایجاد کر لیے ہیں۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ زمین اور آسمان میں کہیں تمہارے ان بناوٹی معبودوں کے شریک خدا ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہے؟ تم اس کے جواب میں کسی علامت کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ خدا نے اپنی کسی کتاب میں ہی فرمایا ہے، یا تمہارے پاس یا ان بناوٹی معبودوں کے پاس خدا کا دیا ہوا کوئی پروانہ ایسا موجود ہے جو اس امر کی شہادت دیتا ہو کہ خدا نے خود انہیں وہ اختیارات عطا فرمائے ہیں جو تم ان کی طرف منسوب کر رہے ہو؟ تم وہ بھی پیش نہیں کر سکتے۔ اب آخر وہ چیز کیا ہے جس کی بنا پر تم اپنے یہ عقیدے بنائے بیٹھے ہو؟ کیا تم خدائی کے مالک ہو کہ خدا کے اختیارات جس جس کو چاہو بانٹ دو؟
68. یعنی یہ پیشوا اور پیر، یہ پنڈت اور پروہت، یہ کاہن اور واعظ، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ محض اپنی دوکان چمکانے کے لیے عوام کو اُلّو بنا رہے ہیں اور طرح طرح کے قصے گھڑ گھڑ کر لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلا رہے ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر فلاں فلاں ہستیوں کے دامن تھام لو گے تو دنیا میں تمہارے سارے کام بن جائیں گے اور آخرت میں تم چاہے کتنے ہی گناہ سمیٹ کر لے جاؤ، وہ اللہ سے تمہیں بخشوا لیں گے۔
69. یعنی یہ اتھاہ کائنات اللہ تعالیٰ کے قائم رکھنے سے قائم ہے۔ کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی اس کو سنبھالے ہوئے نہیں ہے۔ کائنات کو سنبھالنا تو در کنار، یہ بے بس بند ے تو اپنے وجود کے سنبھالنے پر بھی قادر نہیں۔ ہر ایک اپنی پیدائش اور اپنی بقاء کے لیے ہر آن اللہ جلّ شانہ کا محتاج ہے۔ ان میں سے کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اس کا کوئی حصہ ہے خالص حماقت اور فریب خوردگی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔
70. یعنی یہ سراسر اللہ کا حِلم اور اس کی چشم پوشی ہے کہ اتنی بڑی گستاخیاں اس کی جناب میں کی جا رہی ہیں اور پھر بھی وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کر رہا ہے۔
71. یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے عرب کے لوگ عموماً اور قریش کے لوگ خصوصاً یہود و نصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھ کر کہا کرتے تھے۔ ان کے اس قول کا ذکر اس سے پہلے سورہ انعام (آیت 156۔ 157) میں بھی گزر چکا ہے اور آگے سورہ صافّات (167 تا 169) میں بھی آ رہا ہے۔
72. یعنی اللہ کا یہ قانون ان پر بھی جاری ہو جائے کہ جو قوم اپنے نبی کو جھٹلاتی ہے وہ تباہ کر کے رکھ دی جاتی ہے۔