Tafheem ul Quran

Surah 35 Fatir, Ayat 8-14

اَفَمَنۡ زُيِّنَ لَهٗ سُوۡٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ​ۖ  فَلَا تَذۡهَبۡ نَـفۡسُكَ عَلَيۡهِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ‏ ﴿35:8﴾ وَاللّٰهُ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ الرِّيٰحَ فَتُثِيۡرُ سَحَابًا فَسُقۡنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحۡيَيۡنَا بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ؕ كَذٰلِكَ النُّشُوۡرُ‏  ﴿35:9﴾ مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الۡعِزَّةُ جَمِيۡعًا ؕ اِلَيۡهِ يَصۡعَدُ الۡـكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالۡعَمَلُ الصَّالِحُ يَرۡفَعُهٗ ؕ وَ الَّذِيۡنَ يَمۡكُرُوۡنَ السَّيِّاٰتِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ  ؕ وَمَكۡرُ اُولٰٓـئِكَ هُوَ يَبُوۡرُ‏ ﴿35:10﴾ وَاللّٰهُ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَةٍ ثُمَّ جَعَلَـكُمۡ اَزۡوَاجًا ؕ وَمَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِهؕ وَمَا يُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِهٖۤ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ‏ ﴿35:11﴾ وَمَا يَسۡتَوِىۡ الۡبَحۡرٰنِ ​ۖ  هٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلۡحٌ اُجَاجٌ ؕ وَمِنۡ كُلٍّ تَاۡكُلُوۡنَ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡنَ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَا ۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ فِيۡهِ مَوَاخِرَ لِتَبۡـتَـغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّـكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿35:12﴾ يُوۡلِجُ الَّيۡلَ فِى النَّهَارِ وَيُوۡلِجُ النَّهَارَ فِى الَّيۡلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ ​ۖ  كُلٌّ يَّجۡرِىۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ لَـهُ الۡمُلۡكُ ؕ وَالَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ مَا يَمۡلِكُوۡنَ مِنۡ قِطۡمِيۡرٍؕ‏ ﴿35:13﴾ اِنۡ تَدۡعُوۡهُمۡ لَا يَسۡمَعُوۡا دُعَآءَكُمۡ​ ۚ وَلَوۡ سَمِعُوۡا مَا اسۡتَجَابُوۡا لَـكُمۡ ؕ وَيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ يَكۡفُرُوۡنَ بِشِرۡكِكُمۡ ؕ وَلَا يُـنَـبِّـئُكَ مِثۡلُ خَبِيۡرٍ‏ ﴿35:14﴾

8 - 15 (بھلا کچھ ٹھکانا ہے اُس شخص کی گمراہی کا )جس کے لیے اُس کا بُرا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اُسے اچھا سمجھ رہا ہو؟ 16 حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ پس (اے نبیؐ )خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ گھُلے۔ 17 جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔ 18 9 - وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواوٴں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اُٹھاتی ہیں، پھر ہم اسے ایک اُجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اسی زمین کو جِلا اُٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی۔ مرے ہوئے انسانوں کا جی اُٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔ 19 10 - جو کوئی عِزت چاہتا ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزّت ساری کی ساری اللہ کی ہے۔ 20 اُس کے ہاں جو چیز اُوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے ، اور عملِ صالح اس کو اُوپر چڑھاتا ہے۔ 21 رہے وہ لوگ جو بے ہُودہ چالبازیاں کرتے ہیں 22 ، اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اُن کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔ 11 - 23 اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے 24 ، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے(یعنی مرد اور عورت)۔ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے۔ 25 اللہ کے لیےیہ بہت آسان کام ہے۔ 26 12 - اور پانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں ہیں۔ 27 ایک میٹھا اور پیاس بُجھانے والا ہے، پینے میں خوشگوار ، اور دُوسرا سخت کھاری کہ حلق چھیل دے۔ مگر دونوں سے تم تروتازہ گوشت حاصل کرتے ہو 28 ، پہننے کے لیے زینت کا سامان نکالتے ہو 29 ، اور اسی پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اُس کا سینہ چیرتی چلی جارہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اُس کے شکر گزار بنو۔ 13 - وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پِروتا ہوا لے آتا ہے۔ 30 چاند اور سُورج کو اُس نے مسَخّر کر رکھا ہے 31 ۔ یہ سب کچھ ایک وقتِ مقرر تک چلے جارہا ہے۔ وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں)تمہارا ربّ ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اُسے چھوڑ کر جن دُوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ 32 کے مالک بھی نہیں ہیں۔ 14 - انہیں پکارو تو وہ تمہاری دُعائیں سُن نہیں سکتے اور سُن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ 33 اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے ۔ 34 حقیقت ِ حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبر دار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ 35؏۲


Notes

15. اوپر کے دو پیراگراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے۔ اب اس پیر گراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔

16. یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے۔ ایسا شخص سمجھانے سے بھی درست ہو سکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں۔ ذہن نہیں بگڑا۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے، جو صلاح و تقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کر دیتا ہے۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کر لیے ہوں۔

17. پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ ’’ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے ‘‘ صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کر لو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو۔

اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے۔ یہ لوگ در حقیقت حضورؐ کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مد مقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑ چکی ہے اور ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے۔

دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود در اصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے۔

18. اس فقرے میں آپ سے یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا۔

19. یعنی یہ نادان لوگ آخرت کو بعید از امکان سمجھتے ہیں اور اسی لیے اپنی جگہ اس خیال میں مگن ہیں کہ دنیا میں یہ خواہ کچھ کرتے رہیں بہر حال وہ وقت کبھی آنا نہیں ہے جب انہیں جواب دہی کے لیے خدا کے حضور حاضر ہونا پڑے گا۔ لیکن یہ محض ایک خیال خام ہے جس میں یہ مبتلا ہیں۔ قیامت کے روز تمام اگلے پچھلے مرے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر بالکل اسی طرح یکا یک جی اٹھیں گے جس طرح ایک بارش ہوتے ہی سونی پڑی ہوئی زمین یکا یک لہلہا اٹھتی ہے اور مدتوں کی مری ہوئی جڑیں سر سبز و شاداب ہو کر زمین کی تہوں میں سے سر نکالنا شروع کر دیتی ہیں۔

20. یہ بات ملحوظ رہے کہ قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں جو کچھ بھی کر رہے تھے اپنی عزت اور اپنے وقار کی خاطر کر رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات چل گئی تو ہماری بڑائی ختم ہو جائے گی، ہمارا اثر و رسوخ مٹ جائے گا اور ہماری جو عزت سارے عرب میں بنی ہوئی ہے وہ خاک میں مل جائے گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے کفر و بغاوت کر کے جو عزت تم نے بنا رکھی ہے، یہ تو ایک جھوٹی عزت ہے جس کے لیے خاک ہی میں ملنا مقدر ہے حقیقی عزت اور پائدار عزت جو دنیا سے لے کر عقبیٰ تک کبھی ذلت آشنا نہیں ہو سکتی، صرف خدا کی بندگی میں ہی میسر آ سکتی ہے۔ اس کے ہو جاؤ گے تو وہ تمہیں مل جائے گی۔ اور اس سے منہ موڑ و گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہو گے۔

21. یہ ہے عزت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے جو سچا ہو، پاکیزہ ہو، حقیقت پر مبنی ہو، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اور ایک صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے خلاف ہو وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ محض زبان کے پھاگ اُڑانے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہوتا ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہوسکتا جب تک اس کی پشت پر عقیدہ صالحہ نہ ہو۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کو معبود مانتا ہوں، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے۔ ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے۔

22. یعنی باطل اور خبیث کلمے لے کر اٹھتے ہیں، ان کو چالاکیوں سے، فریب کاریوں سے اور نظر فریب استدلالوں سے فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں کلمہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بری سے بُری تدبیر استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

23. یہاں سے پھر روئے سخن عوام الناس کی طرف پھرتا ہے۔

24. یعنی انسان کی آفرینش پہلے براہ راست مٹی سے کی گئی، پھر اس کی نسل نطفے سے چلائی گئی۔

25. یعنی جو شخص بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے۔ کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر ہوتی ہے۔بعض نادان لوگ اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ پہلے نو زائیدہ بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے۔ اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے، اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جبکہ کسی ذریعہ سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے تو فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا۔ محض یہ بات کہ اعداد و شمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے، یا پہلے کے مقابلہ میں اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے۔ آخر اس میں کیا عقلی استبعاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر فرمائی ہوں، اور یہ بھی اللہ عزوجل ہی کا فیصلہ ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں ذرائع بخشے جائیں گے۔

26. یعنی اتنی بے شمار مخلوق کے بارے میں اتنا تفصیلی علم اور فرد فرد کے بارے میں اتنے مفصل احکام اس فیصلے کرنا اللہ کے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے۔

27. یعنی ایک وہ ذخیرہ جو سمندروں میں ہے۔ دوسرا وہ ذخیرہ جو دریاؤں، چشموں اور جھیلوں میں ہے۔

28. یعنی آبی جانوروں کا گوشت۔

29. یعنی موتی، مونگے، اور بعض دریاؤں سے ہیرے اور سونا۔

30. یعنی دن کی روشنی آہستہ آہستہ گھٹنی شروع ہوتی ہے اور رات کی تاریکی بڑھتے بڑھتے آخر کار پوری طرح چھا جاتی ہے۔ اسی طرح رات کے آخر میں پہلے اُفق پر ہلکی سے روشنی نمودار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ روز روشن نکل آتا ہے۔

31. ۔ایک ضابطہ کا پابند بنا رکھا ہے۔

32. اصل میں لفظ قِطْمِیْر استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ پتلی سی جھلّی ہے جو کھجور کی گٹھلی پر ہوتی ہے۔ لیکن اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ مشرکین کے معبود کسی حقیر سے حقیر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم نے لفظی ترجمہ چھوڑ کر مرادی ترجمہ کیا ہے۔

33. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری دعا کے جواب میں پکار کر کہہ نہیں سکتے کہ تمہاری دعا قبول کی گئی یا نہیں کی گئی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری درخواستوں پر کوئی کاروائی نہیں کر سکتے۔ ایک شخص اگر اپنی درخواست کسی ایسے شخص کے پاس بھیج دیتا ہے جو حاکم نہیں ہے تو اس کی درخواست رائگاں جاتی ہے، کیونکہ وہ جس کے پاس بھیجی گئی ہے اس کے ہاتھ میں سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے، نہ رد کرنے کا اختیار اور نہ قبول کرنے کا اختیار۔ البتہ اگر وہی درخواست اس ہستی کے پاس بھیجی جائے جو واقعی حاکم ہو، تو اس پر لازماً کوئی نہ کوئی کارروائی ہوگی، قطع نظر اس سے کہ وہ قبول کرنے کی شکل میں ہو یا رد کرنے کی شکل میں۔

34. یعنی وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہم خدا کے شریک ہیں، تم ہماری عبادت کیا کرو۔ بلکہ ہمیں یہ خبر بھی نہ تھی کہ یہ ہم کو اللہ رب العالمین کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور ہم سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ان کی کوئی دعائیں نہیں پہنچی اور ان کی کسی نذر و نیاز کی ہم تک رسائی نہیں ہوئی۔

35. خبردار سے مراد اللہ تعالیٰ خود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دوسرا کوئی شخص تو زیادہ سے زیادہ عقلی استدلال سے شرک کی تردید اور مشرکین کے معبودوں کی بے اختیاری بیان کرے گا۔ مگر ہم حقیقت حال سے براہ راست با خبر ہیں۔ ہم علم کی بنا پر تمہیں بتا رہے ہیں کہ لوگوں نے جن جن کو بھی ہماری خدائی میں با اختیار ٹھیرا رکھا ہے وہ سب بے اختیار ہیں۔ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے جس سے وہ کسی کا کوئی کام بنا سکیں یا بگاڑ سکیں۔ اور ہم براہ راست یہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز مشرکین کے یہ معبود خود ان کے شرک کی تردید کریں گے۔