1. بن عباس، عکرمہ، ضحاک، حسن بصری اور سفیان بن عُیَیْنہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’ ’’اے انسان ‘‘یا ‘’ اے شخص‘‘۔ اور بعض مفسرین نے اسے ’’ یا سید‘‘کا مخفف بھی قرار دیا ہے ۔ اس تاویل کی رو سے ن الفاظ کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
2. اس طرح کلام کا آغاز کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی نبوت میں کوئی شک تھا اور آپ کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہ بات فرمانے کی ضرورت پیش آئی۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضورؐ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ ’’ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو‘‘ یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ پھر اس بات پر قرآن قسم کھائی گئی ہے ، اور قرآن کی صفت میں لفظ’’ حکیم ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ قرآن ہے جو سراسر حکمت سے لبریز ہے ۔ یہ چیز خود شہادت دے رہی ہے کہ جو شخص ایسا حکیمانہ کلام پیش کر رہا ہے وہ یقیناً خدا کا رسول ہے ۔ کوئی انسان ایسا کلام تصنیف کر لینے پر قادِر نہیں ہے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جو جانتے ہیں وہ ہر گز اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتے کہ یہ کلام آپ خود گھڑ گھڑ کر لا رہے ہیں، یا کسی دوسرے انسان سے سیکھ سیکھ کر سنا رہے ہیں۔ (اس مضمون کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحات سورہ یونس حواشی 20،21،22، 44،45 سورہ بنی اسرائیل 104،105جلد سوم، سورہ النور دیباچہ الشعراء حاشیہ 1 النمل حاشیہ 93،القصص 62،63،64 102تا 109 العنکبوت 88تا 91 الروم تاریخی پس منظر حواشی 1-2-3 ۔
3. یہاں قرآن کے نازل کرنے والے کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ غالب اور زبردست ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ رحیم ہے ۔ پہلی صفت بیان کرنے سے مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ قرآن کسی بے زور ناصح کی نصیحت نہیں ہے جسے تم نظر انداز کر دو تو تمہارا کچھ نہ بگڑے ، بلکہ یہ اُس مالکِ کائنات کا فرمان ہے جو سب پر غالب ہے ، جس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی، اور جس کی پکڑ سے بچ جانے کی قدرت کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ اور دوسری صفت بیان کرنے سے مقصود یہ احساس دلانا ہے کہ یہ سراسر اس کی مہر بانی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنا رسول بھیجا اور یہ کتابِ عظیم نازل کی تاکہ تم گمراہیوں سے بچ کر اُس راہ راست پر چل سکو جس سے تمہیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل ہوں۔
4. اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اُسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے ، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے ، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آ چکے تھے اور دوسرا مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہو گی کہ قدیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آبا و اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔
اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا،اُس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسل چلتے رہتے ہیں۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اُٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہو جائے تو دوسرے نبی کی بعثت نا گزیر ہو جاتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اُٹھتے رہے تھے ، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے ۔ جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہو گئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کی مبعوث فرمایا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورۃ السجدہ، حاشیہ نمبر 5)
5. یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے اور جنہوں نے طے کرلیا تھا کہ آپ کی بات بہر حال مان کر نہیں دینی ہے ۔ ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ’’ یہ لوگ فیصلۂ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اس لیے یہ ایمان نہیں لاتے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نصیحت پر کان نہیں دھرتے اور خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اتمامِ حجت ہو جانے پر بھی انکار اور حق دشمنی کی روش ہی اختیار کیے چلے جاتے ہیں ان کی اپنی شامتِ اعمال مسلط کر دی جاتی ہے اور پھر انہیں توفیق ایمان نصیب نہیں ہوتی ۔ اسی مضمون کو آگے چل کر اس فقرے میں کھول دیا گیا ہے کہ ’’ تم تو اسی شخص کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے ۔‘‘
6. اس آیت میں ’’ طوق ‘‘ سے مراد ان کی اپنی ہٹ دھرمی ہے جو ان کے لیے قبولِ حق میں مانع ہو رہی تھی۔ ’’ ٹھوڑیوں تک جکڑے جانے ‘‘ اور سر اُٹھائے کھڑے ہونے ‘‘ سے مراد وہ گردن کی اکڑ ہے جو تکبر اور نخوت کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو ان کی گردن کا طوق بنا دیا ہے ، اور جس کبر و نخوت میں یہ مبتلا ہیں اس کی وجہ سے ان کی گردنیں اس طرح اکڑ گئی ہیں کہ اب خواہ کوئی روشن حقیقت بھی ان کے سامنے آ جائے ، یہ اس کی طرف التفات کر کے نہ دیں گے ۔
7. ایک دیوار آگے اور ایک پیچھے کھڑی کر دینے سے مراد یہ ہے کہ اسی ہٹ دھرمی اور استکبار کا فطری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ لوگ نہ پچھلی تاریخ سے کوئی سبق لیتے ہیں، اور نہ مستقبل کے نتائج پر کبھی غور کرتے ہیں۔ ان کے تعصّبات نے ان کو ہر طرف سے اس طرح ڈھانک لیا ہے اور ان کی غلط فہمیوں نے ان کی آنکھوں پر ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ انہیں وہ کھُلے کھُلے حقائق نظر نہیں آتے ہو ہر سلیم الطبع اور بے تعصب انسان کو نظر آ رہے ہیں۔
8. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس حالت میں تبلیغ کرنا بے کار ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تبلیغ عام ہر طرح کے انسانوں تک پہنچتی ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ اور کچھ دوسرے لوگ وہ ہیں جن کا ذکر آگے کی آیت میں آ رہا ہے ۔ پہلی قسم کے لوگوں سے جب سابقہ پیش آئے اور تم دیکھ لو کہ وہ انکار و استکبار اور عناد و مخالفت پر جمے ہوئے ہیں تو ان کے پیچھے نہ پڑو۔ مگر ان کی روش سے دل شکستہ و مایوس ہو کر کام چھوڑ بھی نہ بیٹھو، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسی ہجوم خلق کے درمیان وہ خدا کے بندے کہاں ہیں جو نصیحت قبول کرنے والے اور خدا سے ڈر کر راہ راست پر آ جانے والے ہیں۔ تمہاری تبلیغ کا اصل مقصود اسی دوسری قسم کے انسانوں کو تلاش کرنا اور انہیں چھانٹ کر نکال لینا ہے ۔ ہٹ دھرموں کو چھوڑتے جاؤ، اور اس قیمتی متاع کو سمیٹتے چلے جاؤ۔
9. اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا نامۂ اعمال تین قسم کے اندراجات پر مشتمل ہے ۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی اچھا یا بُرا عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں لکھ لیا جاتا ہے ۔ دوسرے ، اپنے گرد و پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش (Impressions)بھی انسان مرتسم کرتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہو جاتے ہیں، اور یہ سارے نقوش ایک وقت اس طرح اُبھر آئیں گے کہ اس کی اپنی آواز سُنی جائے گی، اس کے اپنے خیالات اور نیتوں اور ارادوں کی پوری داستان اس کے لوحِ ذہن پر لکھی نظر آئے گی، اور اس کے ایک ایک اچھے اور بُرے فعل اور اس کی تمام حرکات و سکنا ت کی تصویریں سامنے آ جائیں گی۔تیسرے اپنے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر، اپنے معاشرے پر، اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور بُرے اعمال کے جو اثرات وہ چھوڑ گیا ہے وہ جس وقت تک اور جہاں جہاں تک کار فرما رہیں گے وہ سب اس کے حساب میں لکھے جاتے ہیں گے ۔ اپنی اولاد کو جو بھی اچھی یا بُری تربیت اس نے دی ہے ، اپنے معاشرے میں جو بھلائیاں یا بُرائیاں بھی اس نے پھیلائی ہیں اور انسانیت کے حق میں جو پھول یا کانٹے بھی وہ بو گیا ہے ان سب کا پورا ریکارڈ اس وقت تک تیار کیا جاتا رہے گا جب تک اس کی لگائی ہوئی یہ فصل دنیا میں اپنے اچھے یا بُرے پھل لاتی رہے گی۔