10. قدیم مفسرین بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہر انطاکیہ ہے اور جن رسولوں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اُنہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تبلیغ کے لیے بھیجا تھا۔ اس سلسلے میں قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اُن میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا لیکن یہ سارا قصّہ ابن عبّاس، قتادہ، عِکرِمہ، کَعب اَحْبار اور وہب بن مُنَبِہّ وغیرہ بزرگوں نے عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے اخذ کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے بالکل بے بنیاد ہے ۔ انطاکیہ میں سلوتی خاندان (Saleucid dynasty)کے 13 بادشاہ انتیوکس (Antiochus)کے نام سے گزرے ہیں اور اس نام کے آخری فرمانروا کی حکومت، بلکہ خود اس خاندان کی حکومت بھی 65 قبل مسیح میں ختم ہو گئی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انطاکیہ سمیت شام فلسطین کا پورا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا۔ پھر عیسائیوں کی کسی مستند روایت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں میں سے کسی کو تبلیغ کے لیے انطاکیہ بھیجا ہو۔ اس کے برعکس بائیبل کی کتاب اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ صلیب کے چند سال بعد عیسائی مبلغین پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہو، نہ اللہ کے رسول نے معمور کیا ہو، وہ اگر بطور خود تبلیغ کے لیے نکلے ہوں تو کسی تاویل کی رو سے بھی وہ اللہ کے رسول قرار نہیں پا سکتے ۔ علاوہ بریں بائیبل کے بیان کی رو سے انطاکیہ پہلا شہر ہے جہاں کثرت سے غیر اسرائیلیوں نے دین مسیح کو قبول کیا اور مسیحی کلیسا کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی۔ حالانکہ قرآن جس بستی کا ذکر یہاں کر رہا ہے وہ کوئی ایسی بستی تھی جس نے رسولوں کی دعوت کو رد کر دیا اور بالآخر عذابِ الہٰی کی شکار ہوئی۔ تاریخ میں اس امر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انطاکیہ پر ایسی کوئی تباہی نازل ہوئی جسے انکارِ رسالت کی بنا پر عذاب قرار دیا جا سکتا ہو۔
ان وجوہ سے یہ بات نا قابِل قبول ہے کہ اس بستی سے مراد انطاکیہ ہے ۔ بستی کا تعین نہ قرآن میں کیا گیا ہے ، نہ کسی صحیح حدیث میں، بلکہ یہ بات بھی کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہیں ہوتی کہ یہ رسول کون تھے اور کس زمانے میں بھیجے گئے تھے ۔ قرآن مجید جس غرض کے لیے یہ قصّہ یہاں بیان کر رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے بستی کا نام اور رسولوں کے نام معلوم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ قصے کے بیان کرنے کی غرض قریش کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ تم ہٹ دھرمی، تعصُّب اور انکارِ حق کی اسی روش پر چل رہے ہو جس پر اُس بستی کے لوگ چلے تھے ، اور اسی انجام سے دوچار ہونے کی تیاری کر رہے ہو جس سے وہ دوچار ہوئے ۔
11. دوسرے الفاظ میں ا ن کا کہنا یہ تھا کہ تم چونکہ انسان ہو اس لیے خدا کے بھیجے ہوئے رسول نہیں ہو سکتے ۔ یہی خیال کفارِ مکہ کا بھی تھا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) رسول نہیں ہیں کیونکہ وہ انسان ہیں :
وَقَا لُوْا ماَلِ ھٰذَا الرَّسولِ یَأکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۔(الفرقان:7)
وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔
وَاَسَرُّواالنَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَٓا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَفَتَأ تُوْنَ السِّحٰرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ (الانبیاء۔3)
اور یہ ظالم لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم) تم جیسے ایک بشر کے سوا آخر اور کیا ہے ، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے اس جادو کے شکار ہو جاؤ گے ؟
قرآن مجید کفار مکہ کے اس جاہلانہ خیال کی تردید کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ کوئی نئی جہالت نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ ان لوگوں سے ظاہر ہو رہی ہو، بلکہ قدیم ترین زمانے سے تمام جَہلاء اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہو سکتا اور جو رسول ہے وہ بشر نہیں ہو سکتا۔ قوم نوح کے سرداروں نے جب حضرت نوح کی رسالت کا انکار کیا تھا تو یہی کہا تھا:
مَا ھٰذَآاِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَآءَاللہُ لَاَنْزَلَ مَلٰئِکَہً۔ مَا سَمِعْنَا بھِٰذَا فِیْ اٰبَآئِنَا لْاَوَّلِیْنَ۔ (المومنون : 24)۔
یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک بشر ہے تم ہی جیسا، اور چاہتا ہے کہ تم پر اپنی فضیلت جمائے ۔ حالانکہ اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا۔ ہم نے تو یہ بات کبھی اپنے باپ دادا سے نہیں سنی (کہ انسان رسول بن کر آئے )۔
قوم عاد نے یہی بات حضرت ہودؑ کے متعلق کہی تھی:
مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۙ يَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ 33۽وَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ ۙ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ 34ۙیہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر ہی جیسا۔ کھاتا ہے وہی کچھ جو تم کھاتے ہو اور پیتا ہے وہی کچھ جو تم پیتے ہو۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم بڑے گھاٹے میں رہے ۔
قوم ثمود نے حضرت صالحؑ کے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ:
اَبَشَراً مِّنَّ وَ احِداً نَّتَّبِعُہٗ o (القمر:24)
کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی پیروی اختیار کر لیں۔
اور یہی معاملہ قریب قریب تمام انبیاء کے ساتھ پیش آیا کہ کفار نے کہا، اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا، ’’ تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے بشر۔’‘ اور انبیاء نے ان کو جواب دیا کہ، اِنْ نَحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَ لٰکِنَّ اللہَ تَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ۔ واقعی ہم تمہاری طرح بشر کے سوا کچھ نہیں ہیں، مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے ‘‘ (ابراہیم:10۔11)
اس کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ یہی جاہلانہ خیال ہر زمانے میں لوگوں کو ہدایت قبول کرنے سے باز رکھتا رہا ہے اور اسی بنا پر قوموں کی شامت آئی ہے :
اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۡ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ Ĉ ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا ۡ فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ Č کیا اِنہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تھا اور پھر اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور آگے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ؟ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں لے کر آتے رہے مگر انہوں نے کہا ’’ کیا اب انسان ہماری رہنمائی کریں گے ‘‘ ؟ اسی بنا پر انہوں نے کفر کیا اور منہ پھیر گئے ۔
وَمَا مَنَعَ النَّا سَ اَنْ یُّؤ مِنُوْ ا اِذْ جَآ ءَ ھُمُ الْھُد یٰ اِلَّٓا اَنْ قَا لُوْا اَبَعَثَ اللہُ بَشَراً رَّسُوْلاً۔ (بنی اسرائیل : 94)۔
لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو کوئی چیز انہیں ایمان لانے سے روکنے والی اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے کہا’’ کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا‘‘؟
پھر قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور انسان کی ہدایت کے لیے انسان ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی فرشتہ، یا بشریت سے بالا تر کوئی ہستی :
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ Ċوَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ Ďہم نے تم سے پہلے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن پر ہم وحی کرتے تھے ۔اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔ اور ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ جینے والے تھے ۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ (الفرقان:20)۔
ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجے تھے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔
قُلْ لّوْکَا نَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّ لْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکً رَّسُوْلًا o (بنی اسرائیل:95)
اے نبی، ان سے کہو کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے ۔
12. یہ ایک اور جہالت ہے جس میں کفارِ مکہ بھی مبتلا تھے ، آج کے نام نہاد عقلیت پسند لوگ بھی مبتلا ہیں، اور قدیم ترین زمانے سے ہر زمانے کے منکرینِ وحی و رسالت اس میں مبتلا رہے ہیں۔ ان سب لوگوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سرے سے انسانی ہدایت کے لیے کوئی وحی نازل نہیں کرتا۔ اس کو صرف عالم بالا کے معاملات سے دلچسپی ہے ۔ انسانوں کا معاملہ اس نے خود انسانوں ہی پر چھوڑ رکھا ہے ۔
13. یعنی ہمارا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ جو پیغام تم تک پہنچانے کے لیے ربّ العالمین نے ہمارے سپرد کیا ہے وہ تمہیں پہنچا دیں۔ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ مانو یا نہ مانو۔ یہ ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی گئی ہے کہ تمہیں زبردستی منوا کر ہی چھوڑیں۔ اور اگر تم نہ مانو گے تو تمہارے کفر میں ہم نہیں پکڑے جائیں گے بلکہ اپنے اس جرم کی جواب دہی تم کو خود ہی کرنی پڑے گی۔
14. اس سے ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ تم ہمارے لیے منحوس ہو، تم نے آ کر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع ہیں ان کی وجہ سے دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں، اور اب جو آفت بھی ہم پر نازل ہو رہی ہے وہ تمہاری بدولت ہی ہو رہی ہے ۔ ٹھیک یہی باتیں عرب کے کفار و منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کہا کرتے تھے ۔ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُوْلُوْ اھٰذِہ مِنْ عِنْدِ کَ، ’’ اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری بدولت ہے ‘‘ (النساء:77)۔ اسی لیے قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر ان لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی جاہلانہ باتیں قدیم زمانے کے لوگ بھی اپنے انبیاء کے متعلق کہتے رہے ہیں۔ قوم تمود اپنے نبی سے کہتی تھی اِطَّیَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ، ’’ ہم نے تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے ۔‘‘ (النمل : 47) اور یہی رویّہ فرعون کی قوم کا بھی تھا کہ فَاِذَ ا جَآءَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَا لُوْ الَنَا ھٰذِہ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَیَّرُ وْ بِموُسٰی وَمَنْ مُعَہٗ۔ ’’ جب ان پر اچھی حالت آتی تو کہتے کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے ، اور اگر کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی تو اسے موسیٰؑ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے ‘‘ (الا عراف: 130)
15. یعنی کوئی کسی کے لیے منحوس نہیں ہے ۔ ہر شخص کا نوشتہ تقدیر اس کی اپنی ہی گردن میں لٹکا ہوا ہے ۔ بُرائی دیکھتا ہے تو اپنے نصیب کی دیکھتا ہے اور بھلائی دیکھتا تو ہو بھی اس کے اپنے ہی نصیب کی ہوتی ہے ۔ وَکُلُّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہ، ’’ ہر شخص کا پروانۂ خیر و شر ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے ‘‘ (بنی اسرائیل : 13)
16. یعنی دراصل تم بھلائی سے بھاگنا چاہتے ہو اور ہدایت کے بجائے گمراہی تمہیں پسند ہے ، اس لیے حق اور باطل کا فیصلہ دلیل سے کرنے کے بجائے اوہام و خرافات کے سہارے یہ بہانہ بازیاں کر رہے ہو۔
17. اس ایک فقرے میں اس بندۂ خدا نے نبوت کی صداقت کے سار ے دلائل سمیٹ کر رکھ دیے ۔ ایک نبی کی صداقت دو ہی باتوں سے چانچی جا سکتی ہے ۔ ایک، اس کا قول و فعل۔ دوسرے اس کا بے غرض ہونا۔ اس شخص کے استدلال کا منشا یہ تھا کہ اول تو یہ لوگ سراسر معقول بات کہہ رہے ہیں اور ان کی اپنی سیرت بالکل بے داغ ہے ۔ دوسرے کوئی شخص اس بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا کہ اس دین کی دعوت یہ اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر دے رہے ہیں۔ اس کے بعد کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ان کی بات کیوں نہ مانی جائے ۔ اس شخص کا یہ استدلال نقل کر کے قرآن مجید نے لوگوں کے سامنے ایک معیار رکھ دیا کہ نبی کی نبوت کو پرکھنا ہو تو اس کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لو۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا قول و عمل بتا رہا ہے کہ وہ راہ راست پر ہیں۔ اور پھر ان کی سعی و جہد کے پیچھے کسی ذاتی غرض کا بھی نام نشان نہیں ہے ۔ پھر کوئی معقول انسان ان کی بات کو رد آخر کس بنیاد پر کرے گا۔
18. اس فقرے کے دو حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ استدلال کا شاہکار ہے ، اور دوسرے حصے میں حکمتِ تبلیغ کا کمال دکھایا گیا ہے ۔ پہلے حصے میں وہ کہتا کہ خالق کی بندگی کرنا تو سراسر عقل و فطرت کا تقاضا ہے ۔ نا معقول بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آدمی ان کی بندگی کرے جنہوں نے اسے پیدا نہیں کیا ہے ، نہ یہ کہ وہ اس کا بندہ بن کر رہے جس نے اسے پیداکیا ہے ۔ دوسرے حصّے میں وہ اپنی قوم کے لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مرنا آخر تم کو بھی ہے ، اور اسی خدا کی طرف جانا ہے جس کی بندگی اختیار کرنے پر تمھیں اعتراض ہے ۔ اب تم خود سوچ لو کہ اس سے منہ موڑ کر تم کس بھلائی کی توقع کر سکتے ہو۔
19. یعنی نہ وہ خدا کے ایسے چہیتے ہیں کہ میں صریح جرم کروں اور وہ محض ان کی سفارش پر مجھے معاف کر دے ۔ اور نہ ان کے اندر اتنا زور ہے کہ خدا مجھے سزا دینا چاہے اور وہ اپنے بل بوتے پر مجھے چھڑا لے جائیں۔
20. یعنی یہ جانتے ہوئے بھی اگر میں ان کو معبود بناؤں۔
21. اس فقرے میں پھر حکمت تبلیغ کا ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے ۔ یہ کہہ کر اس شخص نے ان لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ جس رب پر میں ایمان لایا ہوں وہ محض میرا ہی رب نہیں ہے بلکہ تمہارا رب بھی ہے ۔ اس پر ایمان لا کر میں نے غلطی نہیں کی ہے بلکہ اس پر ایمان نہ لا کر تم ہی غلطی کر رہے ہو۔
22. یعنی شہادت نصیب ہوتے ہی اس شخص کو جنت کی بشارت دے دی گئی۔ جوں ہی کہ وہ موت کے دروازے سے گزر کر دوسرے عالم میں پہنچا، فرشتے اس کے استقبال کو موجود تھے اور انہوں نے اسے خوش خبری دے دی کہ فردوسِ بریں اس کی منتظر ہے ۔ اس فقرے کی تاویل میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ قَتَادہ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ نے اسی وقت اسے جنت میں داخل کر دیا اور وہ وہاں زندہ ہے، رزق پارہا ہے۔"مجاہد کہتے ہیں کہ " یہ بات ملائکہ نے اس سے بشارت کے طور پر کہی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے بعد جب تمام اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو وہ بھی اُن کے ساتھ داخل ہو گا۔‘‘
23. یہ اس مرد مومن کے کمالِ اخلاق کا ایک نمونہ ہے ۔ جن لوگوں نے اسے ابھی ابھی قتل کیا تھا ان کے خلاف کوئی غصہ اور جذبۂ انتقام اس کے دل میں نہ تھا کہ وہ اللہ سے ان کے حق میں بد دعا کرتا اس کے بجائے وہ اب بھی ان کی خیر خواہی کیے جا رہا تھا۔ مرنے کے بعد اس کے دل میں اگر کوئی تمنّا پیدا ہوئی تو وہ بس یہ تھی کہ کاش میری قوم میرے اس انجامِ نیک سے باخبر ہو جائے اور میری زندگی سے نہیں تو میری موت ہی سے سبق لے کر راہِ راست اختیار کر لے ۔ وہ شریف انسان اپنے قاتلوں کے لیے بھی جہنم نہ چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ وہ ایمان لا کر جنت کے مستحق بنیں۔ اسی کی تعریف کرتے ہوئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ نصح قومہ حیّا و میتا، ’’ اس شخص نے جیتے جی بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مر کر بھی‘‘۔
اس واقعہ کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو در پردہ اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھ اہل ایمان بھی اسی طرح تمہارے سچے خیر خواہ ہیں جس طرح وہ مرد مومن اپنی قوم کا خیر خواہ تھا۔ یہ لوگ تمہاری تمام ایذا رسانیوں کے باوجود تمہارے خلاف کوئی ذاتی عناد اور کوئی جذبہ انتقام نہیں رکھتے ۔ ان کو دشمنی تم سے نہیں بلکہ تمہاری گمراہی سے ہے ۔ یہ تم سے صرف اس لیے لڑ رہے ہیں کہ تم راہ راست پر آ جاؤ۔ اس کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔
یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے حیاتِ برزخ کا صریح ثبوت ملتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کا زمانہ خالص عدم اور کامل نیستی کا زمانہ نہیں ہے ، جیسا کہ بعض کم علم لوگ گمان کرتے ہیں، بلکہ اس زمانہ میں جسم کے بغیر روح زندہ رہتی ہے ، کلام کرتی اور کلام سنتی ہے ، جذبات و احساسات رکھتی ہے ، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے ، اور اہل دنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی اور وہ اپنی قوم کے لیے یہ تمنا کیسے کرتا کہ کاش وہ اس کے انجام نیک سے باخبر ہو جائے ۔
24. ان الفاظ میں ایک لطیف طنز ہے ۔ اپنی طاقت پر ان کا گھمنڈ اور دینِ حق کے خلاف ان کا جوش و خروش گویا ایک شعلۂ جوّالہ تھا جس کے متعلق اپنے زعم میں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ان تینوں انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کو بھسم کر ڈالے گا۔ لیکن اس شعلے کی بساط اس سے زیادہ کچھ نہ نکلی کہ خدا کے عذاب کی ایک ہی چوٹ نے اس کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا۔
25. یعنی ایسے مٹے کہ ان کا کہیں نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ جو گِرا پھر نہ اٹھا۔ دنیا میں آج کوئی ان کا نام لیوا تک نہیں ہے ۔ ان کی تہذیب اور ان کے تمدّن ہی کا نہیں، ان کی نسلوں کا بھی خاتمہ ہو گیا۔