26. پچھلے دو رکوعوں میں کفار مکہ کو اِنکار و تکذیب اور مخالفت حق کے اس رویہّ پر ملامت کی گئی تھی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا۔ اب تقریر کا رُخ اس بنیادی نزاع کی طرف پھرتا ہے جو ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان کشمکش کی اصل وجہ تھی، یعنی توحید و آخرت کا عقیدہ، جسے حضورؐ پیش کر رہے تھے اور کفار ماننے سے انکار کر رہے تھے ۔ اس سلسلے میں پے درپے چند دلائل دے کر لوگوں کو دعوت غور و فکر دی جا رہی ہے کہ دیکھو، کائنات کے یہ آثار جو علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں، کیا اس حقیقت کی صاف صاف نشان دہی نہیں کرتے جسے یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟
27. یعنی اس امر کی نشانی کہ توحید ہی حق ہے اور شرک سراسر بے بنیاد ہے ۔
28. اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’ تاکہ یہ کھائیں اس کے پھل اور وہ چیزیں جو ان کے اپنے ہاتھ بناتے ہیں۔‘‘ یعنی مصنوعی غذائیں جو قدرتی پیداوار سے یہ لوگ خود تیار کرتے ہیں، مثلاً روٹی، سالن، مُربّے ، اچار، چٹنیاں اور بے شمار دوسری چیزیں۔
29. ان مختصر فقروں میں زمین کی روئیدگی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اِسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے ۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرشِ خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اس سر سبز باغوں کا اگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کار فرما ہے ۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے ، جن مادّوں سے یہ مرکب ہے ان کے اندر بجائے خود کسی نشو و نما کی طاقت نہیں ہے ۔ یہ سب مادّے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمین کے اندر سے نباتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی:
اولاً، زمین کے مخصوص خطّوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں۔
ثانیاً، زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادے اس میں تحلیل ہوکر اس قابل ہوجائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کرسکیں۔
ثالثاً، اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفاتِ سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے ، جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے ، اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشو و نما کے لیے درکار ہیں۔
رابعاً، سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں۔
یہ چار بڑے بڑے اسباب (جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں )جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا۔ پھر یہ ساز گار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین، پانی، ہوا اور موسم میسّر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے ۔ مزید برآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر کاریگری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حد و حساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ ان بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا، دوا، لباس اور ان گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنہیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جا نے والا تھا۔
اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین، پانی، ہوا اور موسم کی مناسبتیں نباتات کے ساتھ، اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوشمند انسان یہ تصّور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثہ کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خداؤں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین، ہوا، پانی، سورج، نباتات، حیوانات اور نوعِ انسانی، سب کا خالق و رب ہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع، ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا۔
توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَلَا یَشْکُرَوْنَ ؟ یعنی کی یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سر و سامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے ، اس کے شکر گزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں ؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ؟
30. یعنی ہر شائبہ نقص و عیب سے پاک، ہر غلطی اور کمزوری سے پاک، اور اس بات سے پاک کہ کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔ مشرکین کے عقائد کی تردید کرتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کہ شرک کا ہر عقیدہ اپنی حقیقت میں اللہ تعالیٰ پر کسی نہ کسی نقص اور کسی نہ کسی کمزوری اور عیب کا الزام ہے ۔ اللہ کے لیے شریک تجویز کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی بات کہنے والا دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ تنہا اپنی خدائی کا کام چلانے کے قابل نہیں ہے ، یا وہ مجبور ہے کہ اپنی خدائی میں کسی دوسرے کو شریک کرے ، یا کچھ دوسری ہستیاں آپ سے آپ ایسی طاقتور ہیں کہ وہ خدائی کے نظام میں دخل دے رہی ہیں اور خدا ان کی مداخلت برداشت کر رہا ہے ، یا معاذ اللہ وہ انسانی بادشاہوں کی سی کمزوریاں رکھتا ہے جن کی بنا پر وزیروں، درباریوں منہ چڑھے مصاحبوں، اور چہیتے شہزادوں اور شہزادیوں کا ایک لشکر کا لشکر اسے گھیرے ہوئے ہے اور خدائی کے بہت سے اختیارات ان کے درمیان بٹ کر رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ جاہلانہ تصورات اگر ذہنوں میں موجود نہ ہوتے تو سرے سے شرک کا خیال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
31. یہ توحید کے حق میں ایک اور استدلال ہے ، اور یہاں پھر پیش پا افتادہ حقائق ہی میں سے بعض کو لے کر بتایا جا رہا ہے کہ شب و روز جن اشیاء کا تم مشاہدہ کرتے اور یوں ہی غور و خوض کیے بغیر گزر جاتے ہو ان ہی کے اندر حقیقت کا سراغ دینے والے نشانات موجود ہیں۔ عورت اور مرد کا جوڑ تو خود انسان کا اپنا سبب پیدائش ہے ۔ حیوانات کی نسلیں بھی نر و مادہ کے ازدواج سے چل رہی ہیں۔ نباتات کے متعلق بھی انسان جانتا ہے کہ ان میں تزویج کا اصول کام کر رہا ہے ۔ حتیٰ کہ بے جان مادوں تک میں مختلف اشیاء جب ایک دوسرے سے جوڑ کھاتی ہیں تب کہیں ان سے طرح طرح کے مرکبات وجود میں آتے ہیں۔ خود مادے کی بنیادی ترکیب منفی اور مثبت برقی توانائی کے ارتباط سے ہوئی ہے ۔ یہ تزویج، جس کی بدولت یہ ساری کائنات وجود میں آئی ہے ، حکمت و صنّاعی کی ایسی باریکیاں اور پیچیدگیاں رکھتی ہے اور اس کے اندر ہر دو زوجین کے درمیان ایسی مناسبتیں پائی جاتی ہیں کہ بے لاگ عقل رکھنے والا کوئی شخص نہ تو اس چیز کو ایک اتفاقی حادثہ کہہ سکتا ہے کہ مختلف خداؤں نے ان بے شمار ازواج کو پیدا کر کے ان کے درمیان اس حکمت کے ساتھ جوڑ لگائے ہوں گے ۔ ازواج کا ایک دوسرے کے لیے جوڑ ہونا اور ان کے ازدواج سے نئی چیزوں کا پیدا ہونا خود وحدت خالق کی صریح دلیل ہے ۔
32. رات اور دن کی آمد و رفت بھی انہی پیش پا افتادہ حقائق میں سے ہے جنہیں انسان محض اس بنا پر کہ وہ معمولاً دنیا میں پیش آ رہے ہیں، کسی التفات کا مستحق نہیں سمجھتا۔ حالانکہ اگر وہ اس بات پر غور کرے کہ دن کیسے گزرتا ہے اور رات کس طرح آتی ہے ، اور دن کے جانے اور رات کے آنے میں کیا حکمتیں کار فرما ہیں تو اسے خود محسوس ہو جائے کہ یہ ایک ربّ قدیر و حکیم کے وجود اور اس کی یکتائی کی روشن دلیل ہے ۔ دن کبھی نہیں جا سکتا اور رات کبھی نہیں آ سکتی جب تک زمین کے سامنے سے سورج نہ ہٹے ۔ دن کے ہٹنے اور رات کے آنے میں جو انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ سورج اور زمین کو ایک ہی اٹل ضابطہ نے جکڑ رکھا ہو۔ پھر اس رات اور دن کی آمد و رفت کا جو گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ کسی نے یہ نظام کمال درجے کی دانائی کے ساتھ بالا ارادہ قائم کیا ہے ۔ زمین پر انسان اور حیوان اور نباتات کا وجود، بلکہ یہاں پانی اور ہوا اور مختلف معدنیات کا وجود بھی دراصل نتیجہ ہے اس بات کا کہ زمین کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے ، اور پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ زمین کے مختلف حصے تسلسل کے ساتھ مقرر وقفوں کے بعد سورج کے سامنے آتے اور اس کے سامنے سے ہٹتے رہیں۔ اگر زمین کا فاصلہ سورج سے بہت کم یا بہت زیادہ ہوتا، یا اس کے ایک حصہ پر ہمیشہ رات رہتی اور دوسرے حصہ پر ہمیشہ دن رہتا، یا شب و روز کا الٹ پھیر بہت تیز یا بہت سست ہوتا، یا بے قاعدگی کے ساتھ اچانک کبھی دن نکل آتا اور کبھی رات چھا جاتی، تو ان تمام صورتوں میں اس کرے پر کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی، بلکہ غیر زندہ مادوں کی شکل و ہئیت بھی موجودہ شکل سے بہت مختلف ہوتی۔ دل کی آنکھیں بند نہ ہوں تو آدمی اس نظام کے اندر ایک ایسے خدا کی کارفرمائی صاف دیکھ سکتا ہے جس نے اس زمین پر اس خاص قسم کی مخلوقات کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور ٹھیک ٹھیک اس کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کے درمیان یہ نسبتیں قائم کیں۔ خدا کا وجود اور اس کی توحید اگر کسی شخص کے نزدیک بعید از عقل ہے تو وہ خود ہی سوچ کر بتائے کہ اس کاریگری کو بہت سے خداؤں کی طرف منسوب کرنا، یا یہ سمجھنا کہ کسی اندھے بہرے قانون فطرت کے تحت یہ سب کچھ آپ ہی آپ پیدا ہو گیا ہے ، کس قدر عقل سے بعید ہونا چاہئے ۔ کسی ثبوت کے بغیر محض قیاس و گمان کی بنیاد پر جو شخص یہ دوسری سراسر نامعقول توجیہات مان سکتا ہے وہ جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں نظم اور حکمت اور مقصدیت کا پا یا جانا خدا کے ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے تو ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ شخص کسی نظریے یا عقیدے کو قبول کرنے کے لیے کسی درجے میں بھی، کافی یا نا کافی، عقلی ثبوت کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔
33. ٹھکانے سے مراد وہ جگہ بھی ہو سکتی ہے جہاں جا کر سورج کو آخر کار ٹھہر جانا ہے اور وہ وقت بھی ہو سکتا ہے جب وہ ٹھہر جائے گا۔ اس آیت کا صحیح مفہوم انسان اسی وقت متعین کر سکتا ہے جب کہ اسے کائنات کے حقائق کا ٹھیک ٹھیک علم حاصل ہو جائے ۔ لیکن انسانی علم کا حال یہ ہے کہ وہ ہر زمانہ میں بدلتا رہا ہے اور آج جو کچھ اسے بظاہر معلوم ہے اس کے بدل جانے کا ہر وقت امکان ہے ۔ سورج کے متعلق قدیم زمانے کے لوگ عینی مشاہدے کی بنا پر یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔ پھر مزید تحقیق و مشاہدہ کے بعد یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ وہ اپنی جگہ ساکن ہے اور نظام شمسی کے سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ لیکن یہ نظریہ بھی مستقل ثابت نہ ہوا۔ بعد کے مشاہدات سے پتہ چلا کہ نہ صرف سورج، بلکہ وہ تمام تارے جن کو ثوابت (Fixed Stars) کہا جاتا ہے ، ایک رخ پر چلے جا رہے ہیں۔ ثوابت کی رفتار کا اندازہ 10 سے لے کر 100 میل فی سکنڈ تک کیا گیا ہے ۔ اور سورج کے متعلق موجودہ زمانہ کے ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ وہ اپنے پورے نظام شمسی کو لیے ہوئے 20 کیلو میٹر (تقریباً 12 میل) فی سکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے ۔ (ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، لفظ "اسٹار"۔ اور لفظ "سن")۔
34. یعنی مہینے کے دوران میں چاند کی گردش ہر روز بدلتی رہتی ہے ۔ ایک دن وہ ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے ۔ پھر روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ چودھویں رات کو بدرِ کامل بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد روز گھٹتا چلا جاتا ہے ۔ حتی کہ آخر کار پھر اپنی ابتدائی ہلالی شکل پر واپس پہنچ جاتا ہے ۔ یہ چکر لاکھوں برس سے پوری باقاعدگی کے ساتھ چل رہا ہے اور چاند کی ان مقرر ہ منزلوں میں بھی فرق نہیں آتا۔ اسی وجہ سے انسان حساب لگا کر ہمیشہ یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کس روز چاند کس منزل میں ہو گا۔ اگر اس کی حرکت کسی ضابطہ کی پابند نہ ہوتی تو یہ حساب لگانا ممکن نہ ہوتا۔
35. اس فقرے کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ سورج میں یہ طاقت نہیں ہے کہ چاند کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لے ، یا خود اس کے مدار میں داخل ہو کر اس سے جا ٹکرائے ۔ دوسرا یہ کہ جو اوقات چاند کے طلوع و ظہور کے لیے مقرر کر دئیے گئے ہیں ان میں سورج کبھی نہیں آ سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور یکایک سورج افق پر آ جائے ۔
36. یعنی ایسا بھی کبھی نہیں ہوتا کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے رات آ جائے اور جو اوقات دن کی روشنی کے لیے مقرر ہیں ان میں وہ اپنی تاریکیاں لیے ہوئے یکایک آ موجود ہو۔
37. فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار (Orbit ) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء (آسمان ) کے مفہوم سے مختلف ہے ۔ یہ ارشاد کہ "سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔" چار حقیقتوں کی نشان دہی کرتا ہے ۔ ایک یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند، بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک،یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے ۔ تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کر رہے ہیں بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں۔ اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہو رہی ہے کہ جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو۔
ان آیات کا اصل مقصد علم ہئیت کے حقائق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے خدا کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بے حد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی۔ ہماری یہ زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز، سورج زمین سے 3 لاکھ گنا بڑا ہے ، اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم 2 ارب 79 کروڑ 30 لاکھ میل ہے ۔ بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے 4 ارب 60 کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے ۔ جس کہکشاں (Galaxy) میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً 3 ہزار ملین (3 ارب) آفتاب پائے جاتے ہیں، اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں 4 سال صرف ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے ، بلکہ اب تک کے مشاہد ات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً 20 لاکھ لولبی سحابیوں (Spiral nebulae)میں سے ایک ہے ، اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی 10 لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے ۔ رہے بعید ترین اجرام فلکی جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں 10 کروڑ سال لگ جاتے ہیں۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے ۔ یہ خدا کی خدائی کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے جواب تک انسانی مشاہدے میں آیا ہے ۔ آگے نہیں کہا جا سکتا کہ مزید ذرائع مشاہدہ فراہم ہونے پر اور کتنی وسعتیں انسان پر منکشف ہوں گی۔
تمام معلومات جو اس وقت تک کائنات کے متعلق بہم پہنچی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پورا عالم اسی مادے سے بنا ہوا ہے جس سے ہماری یہ چھوٹی سی ارضی دنیا بنی ہے اور اس کے اندر وہی ایک قانون کام کر رہا ہے جو ہماری زمین کی دنیا میں کار فرما ہے ، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ہم اس زمین پر بیٹھے ہوئے اتنی دور دراز دنیاؤں کے مشاہدے کرتے اور ان کے فاصلے ناپتے اور ان کی حرکات کے حساب لگاتے ۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ ساری کائنات ایک ہی خدا کی تخلیق اور ایک ہی فرمانروا کی سلطنت ہے ؟ پھر جو نظم، جو حکمت، جو صنّاعی اور جو مناسبت ان لاکھوں کہکشانوں اور ان کے اندر گھومنے والے اربوں تاروں میں پائی جاتی ہے اس کو دیکھ کر کیا کوئی صاحب عقل انسان یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو گیا ہے ؟ اس نظم کے پیچھے کوئی حکیم، اس صنعت کے پیچھے کوئی صانع، اور اس مناسبت کے پیچھے کوئی منصوبہ ساز نہیں ہے ؟
38. بھری ہوئی کشتی سے مراد ہے حضرت نوحؑ کی کشتی۔ اور نسل انسانی کو اس پر سوار کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کشتی میں بظاہر تو حضرت نوحؑ کے چند ساتھی ہی بیٹھے ہوئے تھے مگر در حقیقت قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے ۔ کیوں کہ طوفانِ نوحؑ میں ان کے سوا باقی پوری اولادِ آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی انسانی نسل صرف انہی کشتی والوں سے چلی۔
39. اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ تاریخ میں پہلی کشتی جو بنی وہ حضرت نوحؑ والی کشتی تھی۔ اس سے پہلے انسان کو دریاؤں اور سمندروں کے عبور کرنے کا کوئی طریقہ معلوم نہ تھا۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو دی۔ اور جب ان کی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہو کر اللہ کے کچھ بندے طوفان سے بچ نکلے تو آئندہ ان کی نسل نے بحری سفروں کے لیے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
40. پچھلی نشانیوں کا ذکر دلائل توحید کی حیثیت سے کیا گیا تھا، اور اس نشانی کا ذکر یہ احساس دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان کو فطرت کی طاقتوں پر تصرف کے جو اختیارات بھی حاصل ہیں وہ اللہ کے دیے ہوئے ہیں، اس کے اپنے حاصل کیے ہوئے نہیں ہیں۔ اور ان طاقتوں پر تصرف کے جو طریقے اس نے دریافت کیے ہیں وہ بھی اللہ کی رہنمائی سے اس کے علم میں آئے ہیں، اس کے اپنے معلوم کیے ہوئے نہیں ہیں۔ انسان کا اپنا بل بوتا یہ نہ تھا کہ اپنے زور سے وہ ان عظیم طاقتوں کو مسخر کرتا اور نہ اس میں یہ صلاحیت تھی کہ خود اسرارِ فطرت کا پتہ چلا لیتا اور ان قوتوں سے کام لینے کے طریقے جان سکتا۔ پھر جن قوتوں پربھی اللہ نے اس کو اقتدار عطا کیا ہے ان پر اس کا قابو اسی وقت تک چلتا ہے جب تک اللہ کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے لیے مسخر رہیں۔ ورنہ جب مرضی الٰہی کچھ اور ہوتی ہے تو وہی طاقتیں جو انسان کی خدمت میں لگی ہوتی ہیں، اچانک اس پر پلٹ پڑتی ہیں اور آدمی اپنے آپ کو ان کے سامنے بالکل بے بس پاتا ہے ۔ اس حقیقت پر متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بحری سفر کے معاملہ کو محض بطور نمونہ پیش کیا ہے ۔ نوع انسانی پوری کی پوری طوفان میں ختم ہو جاتی اگر اللہ تعالیٰ کشتی بنانے کا طریقہ حضرت نوحؑ کو نہ سُجھا دیتا اور ان پر ایمان لانے والے لوگ اس میں سوار نہ ہو جاتے ۔ پھر نوع انسانی کے لیے تمام روئے زمین پر پھیلنا اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ اللہ سے کشتی سازی کے اصولوں کا علم پاکر لوگ دریاؤں اور سمندروں کو عبور کرنے کے لائق ہو گئے مگر اس ابتدا سے چل کر آج کے عظیم الشان جہازوں کی تعمیر تک انسان نے جتنی کچھ ترقی کی ہے اور جہاز رانی کے فن میں جتنا کچھ بھی کمال حاصل کیا ہے اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ دریا اور سمندر، سب اس کے قابو میں آ گئے ہیں اسے ان پر اسے مکمل غلبہ حاصل ہو گیا ہے ۔ آج بھی خدا کا پانی خدا ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور جب وہ چاہتا ہے انسان کو اس کے جہازوں سمیت اس میں غرق کر دیتا ہے ۔
41. یعنی جو تم سے پہلے کی قومیں دیکھ چکی ہیں۔
42. آیات سے مراد کتاب اللہ کی آیات بھی ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کو نصیحت کی جاتی ہے ، اور وہ آیات بھی مراد ہیں جو آثار کائنات اور خود انسان کے وجود اور اس کی تاریخ میں موجود ہیں جو انسان کو عبرت دلاتی ہیں، بشرطیکہ وہ عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو۔
43. اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کفر نے صرف ان کی عقل ہی اندھی نہیں کی ہے بلکہ ان کی اخلاقی حِس کو بھی مردہ کر دیا ہے ۔ وہ نہ خدا کے بارے میں صحیح تفکر سے کام لیتے ہیں، نہ خلق کے ساتھ صحیح طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہر نصیحت کا الٹا جواب ہے ۔ ہر گمراہی اور بد اخلاقی کے لیے ایک اوندھا فلسفہ ہے ۔ ہر بھلائی سے فرار کے لیے ایک گھڑا گھڑایا بہانا موجود ہے ۔
44. توحید کے بعد دوسرا مسئلہ جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار کے درمیان نزاع برپا تھی وہ آخرت کا مسئلہ تھا۔ اس کے متعلق عقلی دلائل تو آگے چل کر خاتمہ کلام پر دیے گئے ہیں۔ مگر دلائل دینے سے پہلے یہاں اس مسئلے کو لے کر عالم آخرت کا ایک عبرتناک نقشہ ان کے سامنے کھینچا گیا ہے تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ جس چیز کا وہ انکار کر رہے ہیں وہ ان کے انکار سے ٹلنے والی نہیں ہے بلکہ لا محالہ ایک روز ان حالات سے انہیں دوچار ہونا ہے ۔
45. اس سوال مطلب یہ نہ تھا کہ وہ لوگ فی الواقع قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے ، اور اگر مثلاً ان کو یہ بتا دیا جاتا کہ وہ فلاں سنہ میں فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو پیش آئے گی تو ان کا شک رفع ہو جاتا اور وہ اسے مان لیتے ۔ دراصل اس طرح کے سوالات وہ محض کج بحثی کے لیے چیلنج کے انداز میں کرتے تھے اور ان کا مدعا یہ کہنا تھا کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی ہے ، تم خواہ مخواہ ہمیں اس کے ڈراوے دیتے ہو۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ قیامت فلاں روز آئے گی، بلکہ انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ آئے گی اور اس شان سے آئے گی۔