Tafheem ul Quran

Surah 36 Ya-Sin, Ayat 51-67

وَنُفِخَ فِى الصُّوۡرِ فَاِذَا هُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمۡ يَنۡسِلُوۡنَ‏  ﴿36:51﴾ قَالُوۡا يٰوَيۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَاۘهٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَصَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿36:52﴾ اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ‏  ﴿36:53﴾ فَالۡيَوۡمَ لَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَيۡـئًا وَّلَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿36:54﴾ اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ الۡيَوۡمَ فِىۡ شُغُلٍ فٰكِهُوۡنَ​ۚ‏ ﴿36:55﴾ هُمۡ وَاَزۡوَاجُهُمۡ فِىۡ ظِلٰلٍ عَلَى الۡاَرَآئِكِ مُتَّكِـُٔوۡنَ‏ ﴿36:56﴾ لَهُمۡ فِيۡهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمۡ مَّا يَدَّعُوۡنَ​ ۖ​ۚ‏ ﴿36:57﴾ سَلٰمٌ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِيۡمٍ‏ ﴿36:58﴾ وَامۡتَازُوا الۡيَوۡمَ اَيُّهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿36:59﴾ اَلَمۡ اَعۡهَدۡ اِلَيۡكُمۡ يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوا الشَّيۡطٰنَ​​ۚ اِنَّهٗ لَـكُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ ۙ‏ ﴿36:60﴾ وَّاَنِ اعۡبُدُوۡنِىۡ ​ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ‏ ﴿36:61﴾ وَلَقَدۡ اَضَلَّ مِنۡكُمۡ جِبِلًّا كَثِيۡرًا​ ؕ اَفَلَمۡ تَكُوۡنُوۡا تَعۡقِلُوۡنَ‏  ﴿36:62﴾ هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ‏ ﴿36:63﴾ اِصۡلَوۡهَا الۡيَوۡمَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿36:64﴾ اَلۡيَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰٓى اَفۡوَاهِهِمۡ وَتُكَلِّمُنَاۤ اَيۡدِيۡهِمۡ وَتَشۡهَدُ اَرۡجُلُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿36:65﴾ وَلَوۡ نَشَآءُ لَـطَمَسۡنَا عَلٰٓى اَعۡيُنِهِمۡ فَاسۡتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿36:66﴾ وَلَوۡ نَشَآءُ لَمَسَخۡنٰهُمۡ عَلٰى مَكَانَتِهِمۡ فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مُضِيًّا وَّلَا يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿36:67﴾

51 - پھر ایک صُور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے ربّ کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔ 47 52 - گھبرا کر کہیں گے” ارے ، یہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہوں سے اُٹھا کھڑا کیا؟“ 48 ۔۔۔۔ ” یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسُولوں کی بات سچی تھی۔“ 49 53 - ایک ہی زور کی آواز ہوگی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیے جائیں گے۔ 54 - 50 آج کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے عمل تم کرتے رہے تھے 55 - ۔۔۔۔ آج جنّتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں،51 56 - وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں ہیں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے ، 57 - ہر قسم کی لذیذ چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں ، جو کچھ وہ طلب کریں اُن کے لیے حاضر ہے ، 58 - ربِّ رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے ۔۔۔۔ 59 - اور اے مجرمو، آج تم چھَٹ کر الگ ہو جاوٴ۔52 60 - آدم کے بچو، کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے، 61 - اورمیری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے؟53 62 - مگر اس کے باوجود اس نے تم میں سے ایک گروہ ِ کثیر کو گمراہ کر دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟54 63 - یہ وہی جہنّم ہے جس سے تم کو ڈرایا جا تا رہا تھا۔ 64 - جو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اُس کی پاداش میں اب اِس کا ایندھن بنو۔ 65 - آج ہم اِن کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاوٴں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔55 66 - ہم چاہیں تو اِن کی آنکھیں مُوند دیں ، پھر یہ راستے کی طرف لپک کر دیکھیں، کہاں سے اِنہیں راستہ سُجہائی دے گا؟ 67 - ہم چاہیں تو اِنہیں اِن کی جگہ ہی پر اس طرح مسخ کر کے رکھ دیں کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں۔ ؏۴


Notes

47. صور کے متعلق تفصیلی کلام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، طٰہٰ حاشیہ /٧٨ ۔ پہلے اور دوسرے صور کے درمیان کتنا زمانہ ہو گا، اس کے متعلق کوئی معلومات ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ زمانہ سیکڑوں اور ہزاروں برس طویل ہو۔ حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اسرافیل صور پر منہ رکھے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب پھونک مارنے کا حکم ہوتا ہے ۔ یہ صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلا نفخۃالفَزَ ع، جو زمین و آسمان کی ساری مخلوق کو سہما دے گا۔ دوسرا نفخۃ الصَّعق جسے سنتے ہی سب ہلاک ہو کر گر جائیں گے ۔ پھر جب اللہ واحد صمد کے سوا کوئی ذرا سی سلوَٹ تک نہ رہے گی۔ پھر اللہ اپنی خلق کو بس ایک جھڑکی دے گا جسے سنتے ہی ہر شخص جس جگہ مر کر گرا تھا اسی جگہ وہ اس بدلی ہوئی زمین پر اٹھ کھڑا ہو گا، اور یہی نفخۃالقیام لربّ العالمین ہے ۔ اسی مضمون کی تائید قرآن مجید کے بھی متعدد اشارات سے ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ابراھیم حاشیہ 56،57 ۔ جلد سوم،طٰہٰ 82،83۔

48. یعنی اس وقت انہیں یہ احساس نہ ہو گا کہ وہ مر چکے تھے اور اب ایک مدت دراز کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گئے ہیں، بلکہ وہ اس خیال میں ہوں گے کہ ہم سوئے پڑے تھے ، اب یکایک کسی خوفناک حادثہ کی وجہ سے ہم جاگ اٹھے ہیں اور بھاگے جا رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ 78، ابراھیم ،حاشیہ 18

49. یہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ جواب دینے والا کون ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دیر بعد خود انہی لوگوں کی سمجھ میں معاملہ کی اصل حقیقت آ جائے اور وہ آپ ہی اپنے دلوں میں کہیں کہ ہائے ہماری کم بختی،یہ تو وہی چیز ہے جس کی خبر خدا کے رسول ہمیں دیتے تھے اور ہم اسے جھٹلایا کرتے تھے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان ان کی غلط فہمی رفع کریں اور ان کو بتائیں کہ یہ خواب سے بیداری نہیں بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی ہے ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جواب قیامت کا پورا ماحول ان کو دے رہا ہو، یا فرشتے ان کو حقیقت حال سے مطلع کریں۔

50. یہ وہ خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ کفار و مشرکین اور فساق و مجرمین سے اس وقت فرمائے گا جب وہ اس کے سامنے حاضر کیے جائیں گے ۔

51. اس کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صالح اہل ایمان میدان حشر میں روک کر نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ابتدا ہی میں ان کو بلا حساب، یا ہلکی حساب فہمی کے بعد جنت میں بھیج دیا جائے گا، کیونکہ ان کا ریکارڈ صاف ہو گا۔ انہیں دوران عدالت انتظار کی تکلیف دینے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ میدان حشر میں جواب دہی کرنے والے مجرموں کو بتائے گا کہ دیکھو، جن صالح لوگوں کو تم دنیا میں بے وقوف سمجھ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے ، وہ اپنی عقلمندی کی بدولت آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں، اور تم جو اپنے آپ کو بڑا زیرک و فرزانہ سمجھ رہے تھے ، یہاں کھڑے اپنے جرائم کی جواب دہی کر رہے ہو۔

52. اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مومنین صالحین سے الگ ہو جاؤ، کیونکہ دنیا میں چاہے تم ان کی قوم اور ان کے کنبے اور برادری کے لوگ رہے ہو، مگر یہاں اب تمہارا ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں ہے ۔ اور دوسرا مفہوم یہ کہ تم آپس میں الگ الگ ہو جاؤ۔ اب تمہارا کوئی جتھا قائم نہیں رہ سکتا۔تمہاری سب پارٹیاں توڑ دی گئیں۔ تمہارے تمام رشتے اور تعلقات کاٹ دیے گئے ۔ تم میں سے ایک ایک شخص کو اب تنہا اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔

53. یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے ’’ عبادت ‘‘ کو اطاعت کے معنی میں استعمال فرمایا ہے ۔ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن میں متعدد مقامات پر اس مضمون کی تشریح کر چکے ہیں )ملاحظہ ہو جلد اول، البقرۃ حاشیہ 170، النساء حاشیہ 145الانعام حاشیہ 87، 107۔ جلد دوم،التوبۃ ،حاشیہ 31 ابراھیم حاشیہ 32۔ جلد سوم الکہف حاشیہ 50،مریم حاشیہ،27،قصص حاشیہ،86 ۔جلد چہارم، سورہ سبا، حاشیہ 63) اس سلسلہ میں وہ نفیس بحث بھی قابل ملاحظہ ہے جو اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : لَا تَعْبُدُو الشَّیطٰن کے معنی ہیں لا تطیعوہ (اس کی اطاعت نہ کرو)۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کو محض سجدہ کرنا ہی ممنوع نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت کرنا اور اس کے حکم کی تابعداری کرنا بھی ممنوع ہے ۔ لہٰذا طاعت عبادت ہے ‘‘۔ اس کے بعد امام صاحب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عبادت بمعنی طاعت ہے تو کیا آیت اَطِیْعُو االلہَ وَاَطِیْوُاا لرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ میں ہم کو رسول اور امراء کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ پھر اس سوال کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ : ’’ ان کی اطاعت جبکہ اللہ کے حکم سے ہو تو وہ اللہ ہی کی عبادت اور اسی کی اطاعت ہو گی۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ملائکہ نے اللہ کے حکم سے آدم کو سجدہ کیا اور یہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ تھی۔ امراء کی طاعت ان کی عبادت صرف اس صورت میں ہو گی جب کہ ایسے معاملات میں ان کی اطاعت کی جائے جن میں اللہ نے ان کی اطاعت کا اذن نہیں دیا ہے ‘‘۔ پھر فرماتے ہیں : ’’ اگر کوئی شخص تمہارے سامنے آئے اور تمہیں کسی چیز کا حکم دے تو دیکھو کہ اس کا یہ حکم اللہ کے حکم کے موافق ہے یا نہیں۔ موافق نہ ہو تو شیطان اس شخص کے ساتھ ہے ، اگر اس حالت میں تم نے اس کی اطاعت کی تو تم نے اس کی اور اس کے شیطان کی عبادت کی۔ اسے طرح اگر تمہارا نفس تمہیں کسی کام کے کرنے پر اکسائے تو دیکھو کہ شرع کی رو سے وہ کام کرنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ اجازت نہ ہو تو تمہارا نفس خود شیطان ہے یا شیطان اس کے ساتھ ہے ۔ اگر تم نے اس کی پیروی کی تو تم اس کی عبادت کے مرتکب ہوئے ‘‘۔ آگے چل کر وہ پھر فرماتے ہیں :’’ مگر شیطان کی عبادت کے مراتب مختلف ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک کام کرتا ہے اور اس کے اعضاء کے ساتھ اس کی زبان بھی اس کی موافقت کرتی ہے اور دل بھی اس میں شریک ہوتا ہے ۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اعضاء و جوارح سے تو آدمی ایک کام کرتا ہے مگر دل اور زبان اس کام میں شریک نہیں ہوتے ۔ بعض لوگ ایک گناہ کا ارتکاب اس حال میں کرتے ہیں کہ دل ان کا اس پر راضی نہیں ہوتا اور زبان ان کی اللہ سے مغفرت کر رہی ہوتی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم یہ برا کام کر رہے ہیں۔ یہ محض ظاہری اعضاء سے شیطان کی عبادت ہے ۔ کچھ اور لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ٹھنڈے دل سے جرم کرتے ہیں اور زبان سے بھی اپنے اس فعل پر خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ ظاہر و باطن دونوں میں شیطان کے عابد ہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر۔ج 7۔ ص 103۔104)

54. یعنی اگر تم عقل سے محروم رکھے گئے ہوتے اور پھر اپنے رب کو چھوڑ کر اپنے دشمن کی بندگی کرتے تو تمہارے لیے عذر کی کوئی گنجائش تھی۔ لیکن تمہارے پاس تو خدا کی دی ہوئی عقل موجود تھی جس سے تم اپنے دنیا کے سارے کام چلا رہے تھے ۔ اور تمہیں خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے متنبہ بھی کر دیا تھا۔ اس پر بھی جب تم اپنے دشمن کے فریب میں آئے اور وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اپنی اس حماقت کی ذمہ داری سے تم کسی طرح بری نہیں ہو سکتے ۔

55. یہ حکم ان ہیکڑ مجرموں کے معاملہ میں دیا جائے گا جو ا پنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے ، گواہیوں کو بھی جھٹلا دیں گے ، اور نامۂ اعمال کی صحت بھی تسلیم نہ کریں گے ۔ تب اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اچھا، اپنی بکواس بند کرو اور دیکھو کہ تمہارے اپنے اعضائے بدن تمہارے کرتوتوں کی کیا روداد سناتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہاں صرف ہاتھوں اور پاؤں کی شہادت کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ مگر دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ ان کی آنکھیں، ان کے کان، ان کی زبانیں اور ان کے جسم کی کھالیں بھی پوری داستان سنا دیں گی کہ وہ ان سے کیا کام لیتے رہے ہیں۔ یَوْ مَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتھُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلھُمْ بِمَا کَا نُوْ ا یَعْمَلُوْنَ (النور۔ آیت 24)۔ حَتّٰی اِذَا مَا جَآؤُ ھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعھُمْ وَ اَبْصَارھُمْ وَجُلُوْدھُمْ بِمَا کَا نُوْ ا یَعْمَلُوْنَ( حٓم السجدہ۔آیت 20)۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کے منہ بند کر دیں گے ، اور دوسری طرف سورۃ نور کی آیت میں فرماتا ہے کہ ان کی زبانیں گواہی دیں گی،ان دونوں باتوں میں تطابق کیسے ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منہ بند کر دینے سے مراد ان کا اختیار کلام سلب کر لینا ہے ، یعنی اس کے بعد وہ اپنی زبان سے اپنی مرضی کے مطابق بات نہ کر سکیں گے ۔ اور زبانوں کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ ان کی زبانیں خود یہ داستان سنانا شروع کر دیں گی کہ ہم سے ان ظالموں نے کیا کام لیا تھا، کیسے کیسے کفر بکے تھے ، کیا کیا جھوٹ بولے تھے ، کیا کیا فتنے برپا کیے تھے ، اور کس کس موقع پر انہوں نے ہمارے ذریعہ سے کیا باتیں کی تھیں۔