Tafheem ul Quran

Surah 37 As-Saffat, Ayat 1-21

وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ‏ ﴿37:1﴾ فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ۙ‏ ﴿37:2﴾ فَالتّٰلِيٰتِ ذِكۡرًا ۙ‏ ﴿37:3﴾ اِنَّ اِلٰهَكُمۡ لَوَاحِدٌ ؕ‏ ﴿37:4﴾ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا وَرَبُّ الۡمَشَارِقِ ؕ‏ ﴿37:5﴾ اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡيَا بِزِيۡنَةِ اۨلۡكَوَاكِبِۙ‏ ﴿37:6﴾ وَحِفۡظًا مِّنۡ كُلِّ شَيۡطٰنٍ مَّارِدٍ​ۚ‏ ﴿37:7﴾ لَّا يَسَّمَّعُوۡنَ اِلَى الۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰى وَيُقۡذَفُوۡنَ مِنۡ كُلِّ جَانِبٍۖ ‏ ﴿37:8﴾ دُحُوۡرًا  وَّلَهُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ  ۙ‏ ﴿37:9﴾ اِلَّا مَنۡ خَطِفَ الۡخَطۡفَةَ فَاَتۡبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ‏ ﴿37:10﴾ فَاسۡتَفۡتِهِمۡ اَهُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمۡ مَّنۡ خَلَقۡنَاؕ اِنَّا خَلَقۡنٰهُمۡ مِّنۡ طِيۡنٍ لَّازِبٍ‏ ﴿37:11﴾ بَلۡ عَجِبۡتَ وَيَسۡخَرُوۡنَ‏ ﴿37:12﴾ وَاِذَا ذُكِّرُوۡا لَا يَذۡكُرُوۡنَ‏ ﴿37:13﴾ وَاِذَا رَاَوۡا اٰيَةً يَّسۡتَسۡخِرُوۡنَ‏ ﴿37:14﴾ وَقَالُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ​ ۖ​ۚ‏ ﴿37:15﴾ ءَاِذَا مِتۡنَا وَكُـنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَۙ‏  ﴿37:16﴾ اَوَاٰبَآؤُنَا الۡاَوَّلُوۡنَؕ‏ ﴿37:17﴾ قُلۡ نَعَمۡ وَاَنۡـتُمۡ دٰخِرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:18﴾ فَاِنَّمَا هِىَ زَجۡرَةٌ وَّاحِدَةٌ فَاِذَا هُمۡ يَنۡظُرُوۡنَ‏ ﴿37:19﴾ وَقَالُوۡا يٰوَيۡلَنَا هٰذَا يَوۡمُ الدِّيۡنِ‏ ﴿37:20﴾ هٰذَا يَوۡمُ الۡفَصۡلِ الَّذِىۡ كُنۡتُمۡ بِهٖ تُكَذِّبُوۡنَ‏ ﴿37:21﴾

1 - قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم، 2 - پھر اُن کی قسم جو ڈانٹنے پَھٹکارنے والے ہیں، 3 - پھر اُن کی قسم جو کلامِ نصیحت سُنانے والے ہیں، 1 4 - تمہارا معبُودِ حقیقی بس ایک ہی ہے 2 5 - ۔۔۔۔ وہ جو زمین اور آسمانوں کا اور تمام اُن چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں ، اور سارے مشرقوں 3 کا مالک۔ 4 6 - ہم نے آسمانِ 5 دُنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے 7 - اور ہر شیطانِ سرکش سے اس کو محفوظ کر دیا ہے۔ 6 8 - یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سُن سکتے، ہر طرف سے مارے جاتے ہیں 9 - اور ہانکے اور ان کے لیے پیہم عذاب ہے۔ 10 - تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے اُڑے تو ایک تیز شُعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ 7 11 - اب اِن سے پوچھو، اِن کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا اُن چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں؟ 8 اِن کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے۔ 9 12 - تم (اللہ کی قدرت کے کرشموں پر)حیران ہواور یہ اس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ 13 - سمجھایا جاتا ہے تو سمجھ کر نہیں دیتے۔ 14 - کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اسے ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں 15 - اورکہتے ہیں”یہ تو صریح جادُو ہے، 10 16 - بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں اور مٹی بن جائیں اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں اُس وقت ہم پھر زندہ کر کے اُٹھا کھڑے کیے جائیں؟ 17 - اور کیا ہمارے اگلے وقتوں کے آباو اجداد بھی اُٹھائے جائیں گے؟“ 18 - اِن سے کہو ہاں، اور تم (خدا کے مقابلے میں)بے بس ہو۔ 11 19 - بس ایک ہی جھِڑکی ہوگی اور یکایک یہ اپنی آنکھوں سے ( وہ سب کچھ جس کی خبر دی جارہی ہے)دیکھ رہے ہوں گے۔ 12 20 - اُس وقت یہ کہیں گے ہائے ہماری کم بختی، یہ تو یوم الجزا ہے ۔۔۔۔ ” 21 - یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم جھُٹلایا کرتے تھے۔ “ 13 ؏١


Notes

1. مفسرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ان تینوں گروہوں سے مراد فرشتوں کے گروہ ہیں ۔ اور یہی تفسیر حضرات عبداللہ بن مسعود، ابن عباس ، قَتَادہ، مسروق ، سعید بن جُبیر ، عکرمہ ، مجاہد، سدی، ابن زید اور ربیع بن انس سے منقول ہے ۔ بعض مفسرین نے اس کی دوسری تفسیریں بھی کی ہیں ، مگر موقع و محل سے یہی تفسیر زیادہ مناسبت رکھتی نظر آتی ہے ۔

اس میں ’’ قطار در قطار صف باندھنے ‘‘ کا اشارہ اس طرف ہے کہ تمام فرشتے جو نظام کائنات کی تدبیر کر رہے ہیں ، اللہ کے بندے اور غلام ہیں ، اس کی اطاعت و بندگی میں صف بستہ ہیں اور اس کے فرامین کی تعمیل کے لیے ہر وقت مستعد ہیں ۔ اس مضمون کا اعادہ آگے چل کر پھر آیت 165 میں کیا گیا ہے جس میں فرشتے خود اپنے متعلق کہتے ہیں وَاِنَّا لَنَحْنُ اصَّا فُّوْنَ۔

’’ڈانٹنے اور پھٹکارنے ‘‘سے مراد بعض مفسرین کی رائے میں یہ ہے کہ کچھ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ہانکتے اور بارش کا انتظام کرتے ہیں ۔ اگر چہ یہ مفہوم بھی غلط نہیں ہے ، لیکن آگے کے مضمون سے جو مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انہی فرشتوں میں سے ایک گروہ وہ بھی ہے جو نا فرمانوں اور مجرموں کو پھٹکارتا ہے اور اس کی یہ پھٹکار صرف لفظی ہی نہیں ہوتی بلکہ انسانوں پر وہ حوادثِ طبیعی اور آفات تاریخی کی شکل میں برستی ہے ۔

’’کلام نصیحت سنانے ‘‘سے مراد یہ ہے کہ انہی فرشتوں میں وہ بھی ہیں جو امر حق کی طرف توجہ دلانے کے لیے تذکیر کی خدمت انجام دیتے ہیں ، حوادثِ زمانہ کی شکل میں بھی جن سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں ، اور ان تعلیمات کی صورت میں بھی جو ان کے ذریعہ سے انبیاء پر نازل ہوتی ہیں ، اور ان الہامات کی صورت میں بھی جو ان کے واسطے سے نیک انسانوں پر ہوتے ہیں ۔

2. یہ وہ حقیقت ہے جس پر مذکورہ صفات کے حامل فرشتوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ پورا نظام کائنات جو اللہ کی بندگی میں چل رہا ہے ، اور اس کائنات کے وہ سارے مظاہر جو اللہ کی بندگی سے انحراف کرنے کے بُرے نتائج انسانوں کے سامنے لاتے ہیں ، اور اس کائنات کے اندر یہ انتظام کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک پے در پے ایک ہی حقیقت کی یاد دہانی مختلف طریقوں سے کرائی جا رہی ہے ، یہ سب چیزیں اس با ت پر گواہ ہیں کہ انسانوں کا ’’ اِلٰہ‘‘ صرف ایک ہی ہے ۔

’اِلٰہ‘‘کے لفظ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے ۔ ایک وہ معبود جس کی بالفعل بندگی و عبادت کی جا رہی ہو۔ دوسرے وہ معبود جو فی الحقیقت اس کا مستحق ہو کہ اس کی بندگی و عبادت کی جائے ۔ یہاں الٰہ لفظ دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ پہلے معنی میں تو انسانوں نے دوسرے بہت سے الٰہ بنا رکھے ہیں ۔ اسی بناپرہم نے ’’ اِلٰہ‘‘کا ترجمہ’’ معبود حقیقی‘‘کیا ہے ۔

3. سورج ہمیشہ ایک ہی مطلع سے نہیں نکلتا بلکہ ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع ہوتا ہے ۔نیز ساری زمین پروہ بیک وقت طالع نہیں ہو جاتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں اس کا طلوع ہوا کرتا ہے ۔ ان وجوہ سے مشرق کے بجائے مشارق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور اس کے ساتھ مغارب کا ذکر نہیں کیا گیا ، کیونکہ مشارق کا لفظ خود ہی مغارب پر دلالت کرتا ہے ، تاہم ایک جگہ رَبُّ المَشَارق و المغارب کے الفاظ بھی آئے ہیں (المعارج۔40)۔

4. ان آیات میں جو حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک و فرمانروا ہی انسانوں کا اصل معبود ہے ، اور وہی درحقیقت معبود ہو سکتا ہے ، اور اسی کو معبود ہونا چاہیے ۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ رب(یعنی مالک اور حاکم اور مربّی و پروردگار)کوئی ہو اور الٰہ (عبادت کا مستحق ) کوئی اور ہو جائے ۔ عبادت کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ آدمی کا نفع و ضرر ، اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا ہونا ، اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ، بلکہ بجائے خود اس کا وجود و بقا ہی جس کے اختیار میں ہے ، اس کی بالا تری تسلیم کرنا اور اس کے آگے جھکنا آدمی کی فطرت کا عین تقاضا ہے ۔ اس وجہ کو آدمی سمجھ لے تو خود بخود اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ اختیارات والے کی عبادت نہ کرنا، بے اختیار کی عبادت کرنا، دونوں صریح خلافِ عقل و فطرت ہیں ۔ عبادت کا استحقاق پہنچتا ہی اس کو ہے جو اقتدار رکھتا ہے ۔ رہیں بے اقتدار ہستیاں تو وہ نہ اس کی مستحق ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے ، اور نہ ان کی عبادت کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کچھ حاصل ہے ، کیونکہ ہماری کسی درخواست پر کوئی کار روائی کرنا سرے سے ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں ۔ ان کے آگے عاجزی و نیاز مندی کے ساتھ جھکنا اور ان سے دعا مانگنا بالکل ویسا ہی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے جائے اور اس کے حضور درخواست پیش کرنے کے بجائے جو دوسرے سائلین وہاں درخواستیں لیے کھڑے ہوں ان ہی میں سے کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے ۔

5. آسمان دنیا سے مراد قریب کا آسمان ہے ، جس کا مشاہدہ کسی دوربین کی مدد کے بغیر ہم برہنہ آنکھ سے کرتے ہیں ۔ اس کے آگے جو عالم مختلف طاقتوں کی دوربینوں سے نظر آتے ہیں ، اور جن عالَموں تک ابھی ہمارے وسائل مشاہدہ کی رسائی نہیں ہوئی ہے ، وہ سب دور کے آسمان ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ’’ سماء‘‘ کسی متعیّن چیز کا نام نہیں ہے بلکہ قدیم ترین زمانے سے آج تک انسان بالعموم یہ لفظ عالَمِ بالا کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے ۔

6. یعنی عالَم بالا محض خلا ہی نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس میں نفوذ کر جائے ، بلکہ اس کی بندش ایسی مضبوط ہے ، اور اس کے مختلف خطّے ایسی مستحکم سرحدوں سے محصور کیے گئے ہیں کہ کسی شیطان سرکش کا ان حدوں سے گزر جانا ممکن نہیں ہے ۔ کائنات کے ہر تارے اور ہر سیّارے کا اپنا ایک دائرہ اور کُرہ (Sphere)ہے جس کے اندر سے کسی کا نکلنا بھی سخت دشوار ہے اور جس میں باہر سے کسی کا داخل ہونا بھی آسان نہیں ہے ۔ ظاہری آنکھ سے کوئی دیکھے تو خلائے محض کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ لیکن حقیقت میں اس خلا کے اندر بے حد و حساب خطے ایسی مضبوط سرحدوں سے محفوظ کیے گئے ہیں جن کے مقابلے میں آہنی دیواروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اس کا کچھ اندازہ ان گو ناں گوں مشکلات سے کیا جا سکتا ہے جو زمین کے رہنے والے انسان کو اپنے قریب ترین ہمسائے ، چاند تک پہنچنے میں پیش آ رہی ہیں ۔ ایسی ہی مشکلات زمین کی دوسری مخلوق ، یعنی جنوں کے لیے بھی عالمِ بالا کی طرف صعود کرنے میں مانع ہیں ۔

7. اس مضمون کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس وقت عرب میں کہانت کا بڑا چرچا تھا۔ جگہ جگہ کاہن بیٹھے پیشن گوئیاں کر رہے تھا، غیب کی خبریں دے دہے تھے ، گم شدہ چیزوں کے پتے بتا رہے تھے ، اور لوگ اپنے اگلے پچھلے حال دریافت کرنے کے لیے ان سے رجوع کر رہے تھے ۔ ان کاہنوں کا دعویٰ یہ تھا کہ جن اور شیاطین ان کے قبضے میں ہیں اور وہ انہیں ہر طرح کی خبریں لا لا کر دیتے ہیں ۔ اس ماحول میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے اور آپ نے قرآن مجید کی آیات سنانی شروع کیں جن میں پچھلی تاریخ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کی خبریں دی گئی تھیں ، اور ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی بتایا کہ ایک فرشتہ یہ آیات میرے پاس لاتا ہے ، تو آپ کے مخالفین نے فوراً آپ کے اوپر کاہن کی پھبتی کس دی اور لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ ان کا تعلق بھی دوسرے کاہنوں کی طرح کسی شیطان سے ہے جو عالم بالا سے کچھ سن گن لے کر ان کے پاس آ جاتا ہے اور یہ اسے وحی الہٰی بنا کر پیش کر دیتے ہیں ۔ اس الزام کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ حقیقت ارشاد فرما رہا ہے کہ شیاطین کی تو رسائی ہی عالم بالا تک نہیں ہو سکتی ۔ وہ اس پر قادر نہیں ہیں کہ ملاء اعلیٰ (یعنی گروہ ملائکہ) کی باتیں سن سکیں اور لا کر کسی کو خبریں دے سکیں ۔ اور اگر اتفاقاً کوئی ذرا سی بھنک کسی شیطان کے کان میں پڑ جاتی ہے تو قبل اس کے کہ وہ اسے لے کر نیچے آئے ، ایک تیز شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ملائکہ کے ذریعہ سے کائنات کا جو عظیم الشان نظام چل رہا ہے وہ شیاطین کی در اندازی سے پوری طرح محفوظ ہے ۔ اس میں دخل دینا تو در کنار، اس کی معلومات حاصل کرنا بھی ان کے بس میں نہیں ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الحجر حواشی 8تا 12

8. یہ کفار مکہ کے اس شبہ کا جواب ہے جو وہ آخرت کے بارے میں پیش کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آخرت ممکن نہیں ہے ، کیونکہ مرے ہوئے انسانوں کا دوبارہ پیدا ہونا محال ہے ۔ اس کے جواب میں امکانِ آخرت کے دلائل پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر تمہارے نزدیک مرے ہوئے انسانوں کو دو بارہ پیدا کرنا بڑا سخت کام ہے جس کی قدرت تمہارے خیال میں ہم کو حاصل نہیں ہے تو بتاؤ کہ یہ زمین و آسمان، اور یہ بے شمار اشیاء جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ، ان کا پیدا کرنا کوئی آسان کام ہے ؟ آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ خدا کے لیے یہ عظیم کائنات پیدا کرنا مشکل نہ تھا، اور جو خود تم کو ایک دفعہ پیدا کر چکا ہے ، اس کے متعلق تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری دوبارہ تخلیق سے وہ عاجز ہے ۔

9. یعنی یہ انسان کوئی بڑی چیز تو نہیں ہے ۔ مٹی سے بنایا گیا ہے اور پھر اسی مٹی سے بنایا جا سکتا ہے ۔

لیس دار گارے سے انسان کی پیدائش کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اول کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی اور پھر آگے نسل انسانی اُسی پہلے انسان کے نطفے سے وجود میں آئی ۔ اور یہ بھی ہے کہ ہر انسان لیس دار گارے سے بنا ہے ۔ اس لیے کہ انسان کا سارا مادّہ وجود زمین ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ جس نطفے سے وہ پیدا ہوا ہے وہ غذا ہی سے بنتا ہے ، اور استقرارِ حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کی پوری ہستی جن اجزاء سے مرکب ہوتی ہے وہ سب بھی غذا ہی سے فراہم ہوتے ہیں ۔ یہ غذا خواہ حیوانی ہو یا نباتی، آخر کار اس کا ماخذ وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ مل کر اس قابل ہوتی ہے کہ انسان کی خوراک کے لیے غلے اور ترکاریاں اور پھل نکالے ، اور ان حیوانات کو پرورش کرے جن کا دودھ اور گوشت انسان کھاتا ہے ۔

پس بنائے استدلال یہ ہے کہ یہ مٹی اگر حیات قبول کرنے کے لائق نہ تھی تو تم آج کیسے زندہ موجود ہو؟ اگر اس میں زندگی پیدا کیے جانے کا آج امکان ہے ، جیسا کہ تمہارا موجود ہونا خود اس کے امکان کو صریح طور پر ثابت کر رہا ہے ، توکل دوبارہ اسی مٹی سے تمہاری پیدائش کیوں ممکن نہ ہو گی ؟

10. یعنی عالم طلسمات کی باتیں ہیں ۔ کوئی جادو کی دنیا ہے جس کا یہ شخص ذکر کر رہا ہے ، جس میں مردے اٹھیں گے ، عدالت ہو گی، جنت بسائی جائے گی اور دوزخ کے عذاب ہوں گے ۔ یا پھر یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شخص دل جلوں کی سی باتیں کر رہا ہے ، اس کی یہ باتیں ہی اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھلا چنگا آدمی یہ باتیں کرنے لگا۔

11. یعنی اللہ جو کچھ بھی تمہیں بنانا چاہے بنا سکتا ہے ۔ جب اس نے چاہا اس کے ایک اشارے پر تم وجود میں آ گئے ۔جب وہ چاہے گا اس کے ایک اشارے پر تم مر جاؤ گے ۔ اور پھر جس وقت بھی وہ چاہے گا اس کا ایک اشارہ تمہیں اٹھا کھڑا کرے گا۔

12. یعنی جب یہ بات ہونے کا وقت آئے گا تو دنیا کو دوبارہ برپا کر دینا کوئی بڑا لمبا چوڑا کام نہ ہو گا ۔ بس ایک ہی جھڑکی سوتوں کو جگا اٹھا نے کے لیے کافی ہو گی۔ ’’ جھڑکی ‘‘ کا لفظ یہاں بہت معنیٰ خیز ہے ،اس سے بعث بعد الموت کا کچھ ایسا نقشہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک جو انسان مرے تھے وہ گویا سوتے پڑے ہیں ، یکایک کوئی ڈانٹ کر کہتا ہے ’’ اٹھ جاؤ‘‘ اور بس آن کی آن میں وہ سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔

13. ہو سکتا ہے کہ یہ بات ان سے اہل ایمان کہیں ، ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہو، ہو سکتا ہے کہ میدان حشر کا سارا ماحول اس وقت زبان حال سے یہ کہہ رہا ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ خود انہی لوگوں کا دوسرا رد عمل ہو۔ یعنی اپنے دلوں میں وہ اپنے آپ ہی کو مخاطب کر کے کہیں کہ دنیا میں ساری عمر تم یہ سمجھتے رہے کہ کوئی فیصلے کا دن نہیں آنا ہے ، اب آ گئی تمہاری شامت ، جس دن کو جھٹلاتے تھے وہی سامنے آگیا۔