Tafheem ul Quran

Surah 37 As-Saffat, Ayat 114-138

وَلَقَدۡ مَنَنَّا عَلٰى مُوۡسٰى وَهٰرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:114﴾ وَنَجَّيۡنٰهُمَا وَقَوۡمَهُمَا مِنَ الۡكَرۡبِ الۡعَظِيۡمِ​ۚ‏ ﴿37:115﴾ وَنَصَرۡنٰهُمۡ فَكَانُوۡا هُمُ الۡغٰلِبِيۡنَ​ۚ‏ ﴿37:116﴾ وَاٰتَيۡنٰهُمَا الۡكِتٰبَ الۡمُسۡتَبِيۡنَ​ۚ‏ ﴿37:117﴾ وَهَدَيۡنٰهُمَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَ​ۚ‏ ﴿37:118﴾ وَتَرَكۡنَا عَلَيۡهِمَا فِى الۡاٰخِرِيۡنَۙ‏ ﴿37:119﴾ سَلٰمٌ عَلٰى مُوۡسٰى وَهٰرُوۡنَ‏ ﴿37:120﴾ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿37:121﴾ اِنَّهُمَا مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿37:122﴾ وَاِنَّ اِلۡيَاسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَؕ‏ ﴿37:123﴾ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهٖۤ اَلَا تَتَّقُوۡنَ‏ ﴿37:124﴾ اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّتَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخٰلِقِيۡنَۙ‏ ﴿37:125﴾ اللّٰهَ رَبَّكُمۡ وَرَبَّ اٰبَآئِكُمُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿37:126﴾ فَكَذَّبُوۡهُ فَاِنَّهُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَۙ‏ ﴿37:127﴾ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿37:128﴾ وَتَرَكۡنَا عَلَيۡهِ فِى الۡاٰخِرِيۡنَۙ‏ ﴿37:129﴾ سَلٰمٌ عَلٰٓى اِلۡ يَاسِيۡنَ‏ ﴿37:130﴾ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿37:131﴾ اِنَّهٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿37:132﴾ وَاِنَّ لُوۡطًا لَّمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَؕ‏ ﴿37:133﴾ اِذۡ نَجَّيۡنٰهُ وَاَهۡلَهٗۤ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿37:134﴾ اِلَّا عَجُوۡزًا فِى الۡغٰبِرِيۡنَ‏ ﴿37:135﴾ ثُمَّ دَمَّرۡنَا الۡاٰخَرِيۡنَ‏ ﴿37:136﴾ وَاِنَّكُمۡ لَتَمُرُّوۡنَ عَلَيۡهِمۡ مُّصۡبِحِيۡنَۙ‏ ﴿37:137﴾ وَبِالَّيۡلِ​ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ​‏ ﴿37:138﴾

114 - اور ہم نے موسیؑ و ہارونؑ پر احسان کیا، 115 - اُن کو اور ان کی قوم کو کربِ عظیم سے نجات دی، 69 116 - اُنہیں نُصرت بخشی جس کی وجہ سے وہی غالب رہے، 117 - ان کو نہایت واضح کتاب عطا کی، 118 - انہیں راہِ راست دکھائی، 119 - اور بعد کی نسلوں میں ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔ 120 - سلام ہے موسیٰ ؑ اور ہارونؑ پر ۔ 121 - ہم نیکی کرنے والوں کیو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، 122 - درحقیقت وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔ 123 - اور الیاسؑ بھی یقیناً مُرسَلین میں سے تھا۔ 70 124 - یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھاکہ” تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟ 125 - کیا تم بعل 71 کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو، 126 - اُس اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے پچھلے آباو اجداد کا ربّ ہے؟“ 127 - مگر انہوں نے اسے جھُٹلا دیا، سو اب یقیناً وہ سزا کے لیے پیش کیے جانے والے ہیں، 128 - بجز اُن بندگانِ خدا کے جن کو خالص کر لیا گیا تھا۔ 72 129 - اور الیاسؑ کو ذکرِ عظیم ہم نے بعد کی نسلوں میں باقی رکھا۔ 73 130 - سلام ہے الیاسؑ پر۔ 74 131 - ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ 132 - واقعی وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ 133 - اور لُوطؑ بھی اُنہی لوگوں میں سے تھا جو رسُول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ 134 - یاد کرو جب ہم نے اُس کو اور اس کے سب گھر والوں کو نجات دی، 135 - سوائے ایک بُڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ 75 136 - پھر باقی سب کو تہس نہس کر دیا۔ 137 - آج تم اُن کے اُجڑے دیار پر سے گزرتے ہو۔ روز 76 138 - شب و کیا تم کو عقل نہیں آتی؟ ؏۴


Notes

69. یعنی اس شدید مصیبت سے جس میں وہ فرعون اور اس کی قوم کے ہاتھوں مبتلا تھے ۔

70. حضرت الیاس علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے ۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں صرف دو ہی مقامات پر آیا ہے ۔ ایک یہ مقام اور دوسرا سورہ انعام آیت 85۔ موجودہ زمانہ کے محققین ان کا زمانہ 875 اور 850 قبل مسیح کے درمیان متعین کرتے ہیں ۔ وہ جِلْ عاد کے رہنے والے تھے (قدیم زمانہ میں جِلْ عاد اس علاقے کو کہتے تھے جو آج کل موجودہ ریاست اردن کے شمالی اضلاع پر مشتمل ہے اور دریائے یرموک کے جنوب میں واقع ہے ۔) بائیبل میں ان کا ذکر ایلیاہ تشبِی (Elijah the Tishbite) کے نام سے کیا گیا ہے ۔ ان کے مختصر حالات حسب ذیل ہیں :

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رحُبْعام (Rehoboam)کی نا اہلی کے باعث بنی اسرائیل کی سلطنت کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے ۔ ایک حصہ جو بیت المقدس اور جنونی فلسطین پر مشتمل تھا، آل داؤد کے قبضے میں رہا ، اور دوسرا حصہ جو شمالی فلسطین پر مشتمل تھا اس میں ایک مستقل ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہو گئی اور بعد میں سامریہ اس کا صدر مقام قرار پایا ۔ اگرچہ حالات دونوں ہی ریاستوں کے دگرگوں تھے ، لیکن اسرائیل کی ریاست شروع ہی سے سخت بگاڑ کی راہ پر چل پڑی تھی جس کی بدولت اس میں شرک و بت پرستی ، ظلم و ستم اور فسق و فجور کا زور بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ جب اسرائیل کے بادشاہ اخی اب (Ahab) نے صیدا (موجودہ لبنان ) کے بادشاہ کی لڑکی ایزبل (Iazebel)سے شادی کر لی تو یہ فساد اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس مشرک شہزادی کے اثر میں آ کر اخی اب خود بھی مشرک ہو گیا ، اس نے سامریہ میں بعل کا مندر اور مذبح تعمیر کیا، خدائے واحد کی پرستش کے بجائے بعل کی پرستش رائج کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اسرائیل کے شہروں میں علانیہ بعل کے نام پر قربانیاں کی جانے لگیں ۔

یہی زمانہ تھا جب حضرت الیاس علیہ السلام یکایک منظر عام پر نمودار ہوئے اور انہوں نے جل عاد سے آ کر اخی اب کو نوٹس دیا کہ تیرے گناہوں کی پاداش میں اب اسرائیل کے ملک پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے گا، حتیٰ کہ اوس تک نہ پڑے گی۔ خدا کے نبی کا یہ قول حرف بحرف صحیح ثابت ہوا ور ساڑھے تین سال تک بارش بالکل بند رہی ۔ آخر کار اخی اب کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے اور اس نے حضرت الیاس کو تلاش کرا کے بلوایا۔ انہوں نے بارش کے لیے دعا کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ اسرائیل کے باشندوں کو اللہ ربّ العالمین اور بعل کا فرق اچھی طرح بتا دیں ۔ اس غرض کے لیے انہوں نے حکم دیا کہ ایک مجمع عام میں بعل کے پوجا ری بھی آ کر اپنے معبود کے نام پر قربانی کریں اور میں بھی اللہ رب العلمین کے نام پر قربانی کروں گا۔ دونوں میں سے جس کی قربانی بھی انسان کے ہاتھوں سے آگ لگائے بغیر غیبی آگ سے بھسم ہو جائے اس کے معبود کی سچائی ثابت ہو جائے گی ۔ اخی اب نے یہ بات قبول کر لی۔ چنانچہ کوہ کرمل (Carmel)_ پر بعل کے ساڑھے آٹھ سو پجاری جمع ہوئے اور اسرائیلیوں کے مجمع عام میں ان کا اور حضرت الیاس علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اس مقابلے میں بعل پرستوں نے شکست کھائی اور حضرت الیاس نے سب کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ بعل ایک جھوٹا خدا ہے ، اصل خدا وہی ایک اکیلا خدا ہے جس کے نبی کی حیثیت سے وہ مامور ہو کر آئے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت الیاس نے اسی مجمع عام میں بعل کے پجاریوں کو قتل کر ا دیا اور پھر بارش کے لیے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی یہاں تک کہ پورا ملک اسرائیل سیراب ہو گیا۔

لیکن معجزات کو دیکھ کر بھی زن مرید اخی اب اپنی بت پرست بیوی کے شکنجے سے نہ نکلا۔ اس کی بیوی ایزبل حضرت الیاس کی دشمن ہو گئی اور اس نے قسم کھا لی کہ جس طرح بعل کے پجاری قتل کیے گئے ہیں اسی طرح الیاس علیہ السلام بھی قتل کیے جائیں گے ۔ ان حالات میں حضرت الیاس کو ملک چھوڑنا پڑا اور چند سال تک وہ کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزیں رہے ۔ اس موقع پر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو فریاد کی تھی اسے بائیبل ان الفاظ میں نقل کرتی ہے :

’’ بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں ‘‘۔ (1۔سلاطین 10:19)

اسی زمانے میں بیت المقدس کی یہودی ریاست کے فرمانروا یہورام (Jehoram)نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی بیٹی سے شادی کر لی اور اس مشرک شہزادی کے اثر سے وہی تمام خرابیاں جو اسرائیل میں پھیلی ہوئی تھیں ، یہودیہ کی ریاست میں بھی پھیلنے لگیں ۔ حضرت الیاس نے یہاں بھی فریضۂ نبوت ادا کیا اور یہورام کو ایک خط لکھا جس کے یہ الفاظ بائیبل میں نقل ہوئے ہیں :

’’خداوند تیرے باپ داؤد کا خدا یوں فرماتا ہے : اس لیے کہ تو نہ اپنے باپ یہو سفط کی راہوں پر اور نہ یہوواہ کے بادشاہ آسا کی راہوں پر چلا بلکہ اسرائیل کے بادشاہوں کی راہ پر چلا ہے اور یہوواہ اور یروشلم کے باشندوں کو زنا کار بنایا جیسا اخی اب کے خاندان نے کیا تھا اور اپنے باپ کے گھرانے میں سے اپنے بھائیوں کو جو تجھ سے اچھے تھے قتل بھی کیا ، سو دیکھ خداوند تیرے لوگوں کو اور تیری بیویوں کو اور تیرے سارے مال کو بڑی آفتوں سے مارے گا اور تو انتڑیوں کے مرض سے سخت بیمار ہو جائے گا یہاں تک کہ تیری انتڑیاں اس مرض کے سبب سے روز بروز نکلتی چلی جائیں گی(2۔تواریخ 21:12۔15)

اس خط میں حضرت الیاس نے جو کچھ فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ پہلے یہورام کی ریاست بیرونی حملہ آوروں کی تاخت سے تباہ ہوئی اور اس کی بیویوں تک کو دشمن پکڑ لے گئے ، پھر وہ خود انتڑیوں کے مرض سے ہلاک ہوا۔

چند سال کے بعد حضرت الیاس پھر اسرائیل تشریف لے گئے اور انہوں نے اخی اب کو ، اور اس کے بعد اس کے بیٹے اَخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی مسلسل کوشش کی، مگر جو بدی سامریہ کے شاہی خاندان میں گھر کر چکی تھی وہ کسی طرح نہ نکلی ۔ آخر کار حضرت کی بد دعا سے اخی اب کا گھرانا ختم ہو گیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا سے اٹھا لیا۔ ان واقعات کی تفصیل کے لیے بائیبل کے حسب ذیل ابواب ملاحظہ ہوں : 1۔ سلاطین ، باب 17۔18۔19۔21۔2۔ سلاطین باب 1۔2۔3۔ تواریخ باب 21۔

71. بعل کے لغوی معنی آقا ، سردار اور مالک کے ہیں ۔ شوہر کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا تھا اور متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ، مثلاً سورہ بقرہ آیت 228 ، سورہ نساء آیت 127، سورہ ہود آیت 72، اور سورہ نور آیت 31 میں ۔ لیکن قدیم زمانے کی سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنی میں استعمال کرتی تھیں اور انہوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل کے نام سے موسوم کر رکھا تھا ۔خصوصیت کے ساتھ لبنان کی فنیقی قوم (Phoenicians)کا سب سے بڑا نر دیوتا بعل تھا اور اس کی بیوی عستارات (Ashtoreth)ان کی سب سے بڑی دیوی تھی ۔ محققین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا بعل سے مراد سورج ہے یا مشتری، اور عستارات سے مراد چاند ہے یا زہرہ ۔ بہرحال یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بابل سے لے کر مصر تک پورے مشرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی، اور خصوصاً لبنان ، اور شام و فلسطین کی مشرک اقوام بری طرح اس میں مبتلا تھیں ۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین اور مشرق اردن میں آ کر آباد ہوئے ، اور توراۃ کے سخت امتناعی احکام کی خلاف ورزی کر کے انہیں نے ان مشرک قوموں کے ساتھ شادی بیاہ اور معاشرت کے تعلقات قائم کرنے شروع کر دیے ، تو ان کے اندر بھی یہ مرض پھیلنے لگا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور حضرت یوشع بن نون کی وفات کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ اخلاقی و دینی زوال رو نما ہونا شروع ہو گیا تھا:

’’اور بنی اسرائیل نے خدا کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے ـــــــ اور وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے ‘‘(قضاۃ 2:َ11۔13 )

’’ سو بنی اسرائیل کنعانیوں اور حتّیوں اور اموریوں اور فِرِ زّیوں اور حویّوں اور یبوسیوں کے درمیان بس گئے اور ان کی بیٹیوں سے آپ نکاح کرنے اور اپنی بیٹیاں ان کے بیٹوں کو دینے اور ان کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگے (قضاۃ 2:5۔2)

اس زمانہ میں بعل پرستی اسرائیلیوں میں اس قدر گھُس چکی تھی کہ بائیبل کے بیان کے مطابق ان کی ایک بستی میں علانیہ بعل کا مذبح بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں ۔ ایک خدا پرست اسرائیلی اس حالت کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے رات کے وقت چپکے سے یہ مذبح توڑ دیا۔ دوسرے روز ایک مجمع کثیر اکٹھا ہو گیا اور وہ اس شخص کے قتل کا مطالبہ کرنے لگا جس نے شرک کے اس اڈّے کو توڑا تھا(قضاۃ 6:25۔32)۔ اس صورت حال کو آخر کار حضرت سموایل ، طالوت ، داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ختم کیا اور نہ صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کی بلکہ اپنی مملکت میں بالعموم شرک و بت پرستی کو دبا دیا ۔ لیکن حضرت سلیمان کی وفات کے بعد یہ فتنہ پھر ابھرا اور خاص طور پر شمالی فلسطین کی اسرائیلی ریاست بعل پرستی کے سیلاب میں بہہ گئی۔

72. یعنی اس سزا سے صرف وہی لوگ مستثنیٰ ہوں گے جنہوں نے حضرت الیاس کو نہ جھٹلایا اور جن کو اللہ نے اس قوم میں سے اپنی بندگی کے لیے چھانٹ لیا ۔

73. حضرت الیاس علیہ السلام کو ان کی زندگی میں تو بنی اسرائیل نے جیسا کچھ ستایا اس کی داستان اوپر گزر چکی ہے ، مگر بعد میں وہ ان کے ایسے گرویدہ و شیفتہ ہوئے کہ حضرت موسیٰ کے بعد کم ہی لوگوں کو انہوں نے ان سے بڑھ کر جلیل القدر مانا ہو گا۔ ان کے ہاں مشہور ہو گیا کہ الیاس علیہ السلام ایک بگولے میں آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے ہیں (2 سلاطین ، باب دوم) اور یہ کہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ چنانچہ بائیبل کی کتاب ملا کی میں لکھا ہے :

’’ دیکھو ، خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پہلے میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا‘‘(4:5)

حضرت یحیٰی اور عیسیٰ علیہما السلام کی بعثت کے زمانہ میں یہودی بالعموم تین آنے والوں کے منتظر تھے ۔ ایک حضرت الیاس ۔ دوسرے مسیح۔ تیسرے ’’ وہ نبی‘‘(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم) ۔ جب حضرت یحییٰ کی نبوت شروع ہوئی اور انہوں نے لوگوں کو اصطباغ دنیا شروع کیا تو یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے ان کے پاس جاکر پوچھا کیا تم مسیح ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر پوچھا کیا تم ایلیاہ ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر پوچھا کیا تم ’’ وہ نبی ‘‘ ہو؟ انہوں نے کہا میں وہ بھی نہیں ہوں ۔ تب انہوں نے کہا اگر تم نہ مسیح ہو، نہ ایلیاہ ، نہ وہ نبی، تو پھر تم بپتسمہ کیوں دیتے ہو؟ (یوحنا 1:19۔26) ۔ پر کچھ مدت بعد جب حضرت عیسیٰ علیہ و سلم کا غلغلہ بلند ہوا تو یہودیوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ شاید ایلیاہ نبی آ گئے ہیں (مرقس 6:15۔15) خود حضرت عیسیٰ علیہ والسلام کے حواریوں میں بھی یہ خیال پھیلا ہوا تھا کہ ایلیاہ نبی آنے والے ہیں ۔ مگر حضرت نے یہ فرما کر ان کی غلط فہمی کو رفع فرمایا کہ ’’ ایلیاہ تو آ چکا ، اور لوگوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔‘‘ اس سے حواری خود جان گئے کہ دراصل آنے والے حضرت یحییٰ تھے نہ کہ آٹھ سو برس پہلے گزرے ہوئے حضرت الیاس (متی 11:14 اور متی 17:10۔13) ۔

74. اصل میں الفاظ ہیں سَلِا مٌ عَلیٰ اِلْ یَا سِیْن ۔ اس کے متعلق بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت الیاس کا دوسرا نام ہے ، جس طرح حضرت ابراہیم کا دوسرا نام ابراہام تھا۔ اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ اہل عرب میں عبرانی اسماء کے مختلف تلفظ رائج تھے ، مثلاً میکال اور میکائیل اور میکائین ایک فرشتے کو کہا جاتا تھا ۔ ایسا ہی معاملہ حضرت الیاس کے نام کے ساتھ بھی ہوا ہے خود قرآن مجید میں ایک ہی پہاڑ کا نام طور سینا ء بھی آیا ہے اور طور سینین بھی۔

75. اس سے مراد حضرت لوط کی بیوی ہے جو ہجرت کا حکم آنے پر اپنے شوہر نامدار کے ساتھ نہ گئی بلکہ اپنی قوم کے ساتھ رہی اور مبتلائے عذاب ہوئی ۔

76. اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ قریش کے تاجر شام و فلسطین کی طرف جاتے ہوئے شب و روز اس علاقے سے گزرتے تھے جہاں قوم لوط کی تباہ شدہ بستیاں واقع تھیں ۔