Tafheem ul Quran

Surah 37 As-Saffat, Ayat 139-182

وَاِنَّ يُوۡنُسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَؕ‏ ﴿37:139﴾ اِذۡ اَبَقَ اِلَى الۡفُلۡكِ الۡمَشۡحُوۡنِۙ‏ ﴿37:140﴾ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الۡمُدۡحَضِيۡنَ​ۚ‏ ﴿37:141﴾ فَالۡتَقَمَهُ الۡحُوۡتُ وَهُوَ مُلِيۡمٌ‏ ﴿37:142﴾ فَلَوۡلَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الۡمُسَبِّحِيۡنَۙ‏ ﴿37:143﴾ لَلَبِثَ فِىۡ بَطۡنِهٖۤ اِلٰى يَوۡمِ يُبۡعَثُوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:144﴾ فَنَبَذۡنٰهُ بِالۡعَرَآءِ وَهُوَ سَقِيۡمٌ​ۚ‏ ﴿37:145﴾ وَاَنۡۢبَتۡنَا عَلَيۡهِ شَجَرَةً مِّنۡ يَّقۡطِيۡنٍ​ۚ‏ ﴿37:146﴾ وَاَرۡسَلۡنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلۡفٍ اَوۡ يَزِيۡدُوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:147﴾ فَاٰمَنُوۡا فَمَتَّعۡنٰهُمۡ اِلٰى حِيۡنٍؕ‏ ﴿37:148﴾ فَاسۡتَفۡتِهِمۡ اَلِرَبِّكَ الۡبَنَاتُ وَلَهُمُ الۡبَنُوۡنَۙ‏ ﴿37:149﴾ اَمۡ خَلَقۡنَا الۡمَلٰٓـئِكَةَ اِنَاثًا وَّهُمۡ شٰهِدُوۡنَ‏ ﴿37:150﴾ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ مِّنۡ اِفۡكِهِمۡ لَيَقُوۡلُوۡنَۙ‏ ﴿37:151﴾ وَلَدَ اللّٰهُۙ وَاِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿37:152﴾ اَصۡطَفَى الۡبَنَاتِ عَلَى الۡبَنِيۡنَؕ‏ ﴿37:153﴾ مَا لَـكُمۡ كَيۡفَ تَحۡكُمُوۡنَ‏ ﴿37:154﴾ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:155﴾ اَمۡ لَـكُمۡ سُلۡطٰنٌ مُّبِيۡنٌۙ‏ ﴿37:156﴾ فَاۡتُوۡا بِكِتٰبِكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿37:157﴾ وَجَعَلُوۡا بَيۡنَهٗ وَبَيۡنَ الۡجِنَّةِ نَسَبًا ؕ​ وَلَقَدۡ عَلِمَتِ الۡجِنَّةُ اِنَّهُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَۙ‏ ﴿37:158﴾ سُبۡحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوۡنَۙ‏ ﴿37:159﴾ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿37:160﴾ فَاِنَّكُمۡ وَمَا تَعۡبُدُوۡنَۙ‏ ﴿37:161﴾ مَاۤ اَنۡـتُمۡ عَلَيۡهِ بِفٰتِنِيۡنَۙ‏ ﴿37:162﴾ اِلَّا مَنۡ هُوَ صَالِ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿37:163﴾ وَمَا مِنَّاۤ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعۡلُوۡمٌۙ‏ ﴿37:164﴾ وَّاِنَّا لَـنَحۡنُ الصَّآفُّوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:165﴾ وَاِنَّا لَـنَحۡنُ الۡمُسَبِّحُوۡنَ‏ ﴿37:166﴾ وَاِنۡ كَانُوۡا لَيَقُوۡلُوۡنَۙ‏ ﴿37:167﴾ لَوۡ اَنَّ عِنۡدَنَا ذِكۡرًا مِّنَ الۡاَوَّلِيۡنَۙ‏ ﴿37:168﴾ لَـكُنَّا عِبَادَ اللّٰهِ الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿37:169﴾ فَكَفَرُوۡا بِهٖ​ فَسَوۡفَ يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿37:170﴾ وَلَقَدۡ سَبَقَتۡ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِيۡنَ ​ۖ​ۚ‏ ﴿37:171﴾ اِنَّهُمۡ لَهُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ ‏ ﴿37:172﴾ وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ‏ ﴿37:173﴾ فَتَوَلَّ عَنۡهُمۡ حَتّٰى حِيۡنٍۙ‏ ﴿37:174﴾ وَاَبۡصِرۡهُمۡ فَسَوۡفَ يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿37:175﴾ اَفَبِعَذَابِنَا يَسۡتَعۡجِلُوۡنَ‏ ﴿37:176﴾ فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمۡ فَسَآءَ صَبَاحُ الۡمُنۡذَرِيۡنَ‏ ﴿37:177﴾ وَتَوَلَّ عَنۡهُمۡ حَتّٰى حِيۡنٍۙ‏ ﴿37:178﴾ وَّاَبۡصِرۡ فَسَوۡفَ يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿37:179﴾ سُبۡحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الۡعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:180﴾ وَسَلٰمٌ عَلَى الۡمُرۡسَلِيۡنَ​ۚ‏ ﴿37:181﴾ وَالۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ​‏ ﴿37:182﴾

139 - اور یقیناً یُونسؑ بھی رسُولوں میں سے تھا۔ 77 140 - یاد کرو جب وہ ایک بھری کشتی کی طرف بھاگ نکلا، 78 141 - پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اور اس میں مات کھائی۔ 142 - آخر کار مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔ 143 - اب اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا 80 144 - تو روزِ قیامت تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔ 81 145 - آخر کار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین میں پھینک دیا۔ 82 146 - اور اُس پر ایک بیلدار درخت 83 اُگا دیا۔ 147 - اس کے بعد ہم نے اُسے ایک لاکھ، یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا، 84 148 - وہ ایمان لائے اور ہم نے ایک وقتِ خاص تک انہیں باقی رکھا۔ 85 149 - پھر ذرا اِن لوگوں سے پوچھو، 86 کیا (اِن کے دل کو یہ بات لگتی ہے کہ)تمہارے ربّ کے لیے توہوں بیٹیاں اور اِن کے لیے ہوں بیٹے! 87 150 - کیا واقعی ہم نے ملائکہ کو عورتیں ہی بنایا ہے اور یہ آنکھوں دیکھی بات کہہ رہے ہیں؟ 151 - خوب سُن رکھو، دراصل یہ لوگ اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں 152 - کہ اللہ اولاد رکھتا ہے، اور فی الواقع یہ جھُوٹے ہیں۔ 153 - کیا اللہ نے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں اپنے لیے پسند کر لیں؟ 154 - تمہیں کیا ہوگیا ہے، کیسے حکم لگا رہے ہو ۔ 155 - کیا تمہیں ہوش نہیں آتا۔ 156 - یا پھر تمہارے پاس اِن باتوں کے لیے کوئی صاف سَنَد ہے ، 157 - تو لاوٴ اپنی وہ کتاب اگر تم سچے ہو۔ 88 158 - اِنہوں نے اللہ اور ملائکہ 89 کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے، حالانکہ ملائکہ خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ مُجرم کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں 159 - (اور وہ کہتے ہیں کہ )” اللہ اُن صفات سے پاک ہے دُوسرے جو لوگ اس کی طرف منسُوب کرتے ہیں۔ 160 - اُس کی خالص بندوں کے سوا 161 - پس تم اور تمہارے یہ معبُود 162 - اللہ سے کسی کو پھیر نہیں سکتے 163 - مگر صرف اُس کو جو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھُلسنے والا ہو۔ 90 164 - اور ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقام مقرر ہے، 91 165 - اور ہم صف بستہ خدمت گار ہیں 166 - اور تسبیح کرنے والے ہیں۔“ 167 - یہ لوگ پہلے تو کہا کرتے تھے 168 - کہ کاش ہمارے پاس وہ ”ذِکر“ ہوتا جو پچھلی قوموں کو ملا تھا 169 - تو ہم اللہ کے چیدہ بندے ہوتے۔ 92 170 - مگر (جب وہ آگیا)تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا۔ اب عنقریب اِنہیں (اِس روش کا نتیجہ)معلوم ہو جائے گا۔ 171 - اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہے وعدہ کر چکے ہیں 172 - کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی 173 - اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا۔ 93 174 - پس اے نبیؐ ، ذرا کچھ مدّت تک انہیں اِن کے حال پر چھوڑ دو 175 - اور دیکھتے رہو، عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے 94 ۔ 176 - کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟ 177 - جب وہ اِن کے صحن میں آ اُترے گا تو وہ دن اُن لوگوں کے لیے بہت بُرا ہوگا جنہیں متنبّہ کیا جا چکا ہے۔ 178 - بس ذرا اِنہیں کچھ مدّت کے لیے چھوڑ دو 179 - اور دیکھتے رہو، عنقریب یہ خود دیکھ لیں گے۔ 180 - پاک ہے تیرا ربّ، عزّت کا مالک ، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ 181 - اور سلام ہے مرسلین پر ، 182 - اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔ ؏۵


Notes

77. یہ تیسرا موقع ہے جہاں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے ۔ اس سے پہلے سورہ یونس اور سورہ انبیاء میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ 312۔ 313۔ جلد سوم ، صفحہ 182۔183)

78. اصل میں لفظ اَبَقَ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں صرف اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ غلام اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جائے ۔ الاباق ھرب العبد من سیدہ۔ ’’ اِباق کے معنی ہیں غلام کا اپنے آقا سے فرار ہو جانا (لسان العرب )

80. اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام پہلے ہی خدا سے غافل لوگوں میں سے نہ تھے ، بلکہ ان لوگوں میں سے تھے جو دائماً اللہ کی تسبیح کرنے والے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں پہنچے تو انہوں نے اللہ ہی کی طرف رجوع کیا اور اس کی تسبیح کی۔ سورہ انبیا میں ارشاد ہوا ہے فَنَا دٰ ی فِی الظُّلُمٰتِ اَن ْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَا نَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنِ الظَّا لِمِیْنَ ۔ پس ان تاریکیوں میں اس نے پکارا ’’ نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات ،بے شک میں قصور وار ہوں ۔‘‘

81. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مچھلی قیامت تک زندہ رہتی اور حضرت یونس ؑ قیامت تک اس کے پیٹ میں زندہ رہتے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اس مچھلی کا پیٹ ہی حضرت یونسؑ کی قبر بنا رہتا۔ مشہور مفسر قتادہ نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے (ابن جریر) ۔

82. یعنی جب حضرت یونسؑ نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور وہ ایک بندہ مومن و قانت کی طرح اس کی تسبیح میں لگ گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے ان کو ساحل پر اُگل دیا ۔ ساحل ایک چٹیل میدان تھا جس میں کوئی روئیدگی نہ تھی، نہ کوئی ایسی چیز تھی جو حضرت یونسؑ پر سایہ کرتی ، نہ وہاں غذا کا کوئی سامان موجود تھا۔

اس مقام پر بہت سے عقلیت کے مدعی حضرات یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے ۔ لیکن پچھلی ہی صدی کے اواخر میں اس نام نہاد عقلیت کے گڑھ (انگلستان) کے سواحل سے قریب ایک واقعہ پیش آ چکا ہے جو ان کے دعوے کی تردید کر دیتا ہے ۔ اگست 1891ء میں ایک جہاز (Sta r of the East) پر کچھ مچھیرے وہیل کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے ۔ وہاں انہوں نے ایک بہت بڑی مچھلی کو جو 20 فیٹ لمبی ، 5 فیٹ چوڑی اور سو ٹن وزنی تھی، سخت زخمی کر دیا۔ مگر اس سے جنگ کرتے ہوئے جیمز بارٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کی آنگھوں کے سامنے مچھلی نے نگل لیا۔ دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی۔ انہوں نے بمشکل اسے جہاز پر چڑھایا اور پھر طویل جدوجہد کے بعد جب اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر سے زندہ برآمد ہو گیا۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے 60 گھنٹے رہا تھا (اردو ڈائجسٹ، فروری 1964ء )۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اگر معمولی حالات میں فطری طور پر ایسا ہونا ممکن ہے تو غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کے معجزے کے طور پر ایسا ہونا کیوں غیر ممکن ہے ؟

83. اصل الفاظ ہیں شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْن ۔ یقطین عربی زبان میں ایسے درخت کو کہتے ہیں جو کسی تنے پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ بیل کی شکل میں پھیلتا ہے ، جیسے ،کدو، تربوز، ککڑی وغیرہ بہر حال وہاں کوئی ایسی بیل معجزانہ طریقہ پر پیدا کر دی گئی تھی جس کے پتے حضرت یونس پر سایہ بھی کریں اور جس کے پھل ان کے لیے بیک وقت غذا کا کام بھی دیں اور پانی کا کام بھی۔

84. ’’ ایک لاکھ یا اس سے زائد ‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی تعداد میں شک تھا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان کی بستی کو دیکھتا تو یہی اندازہ کرتا کہ اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہی ہو گی، کم نہ ہو گی۔ اغلب یہ ہے کہ یہ وہی بستی تھی جس کو چھوڑ کر حضرت یونس بھاگے تھے ۔ ان کے جانے کے بعد عذاب آتا دیکھ کر جو ایمان اس بستی کے لوگ لے آئے تھے اس کی حیثیت صرف توبہ کی تھی جسے قبول کر کے عذاب ان پر سے ٹال دیا گیا تھا۔ اب حضرت یونس علیہ السلام دوبارہ ان کی طرف بھیجے گئے تاکہ وہ نبی پر ایمان لا کر باقاعدہ مسلمان ہو جائیں ۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے سورہ یونس ، آیت 98 نگاہ میں رہنی چاہیے ۔

85. حضرت یونس کے اس قصے کے متعلق سورہ یونس اور سورہ انبیا ء کی تفسیرمیں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس پر بعض لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں ، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دوسرے مفسرین کے اقوال بھی نقل کر دیے جائیں ۔

مشہور مفسر قَتَادہ سورہ یونس ، آیت 98 کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ کوئی بستی ایسی نہیں گزری ہے جو کفر کر چکی ہو اور عذاب آ جانے کے بعد ایمان لائی ہو اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس سے صرف قوم یونس مستثنیٰ ہے ۔ انہوں نے جب اپنے نبی کو تلاش کیا اور نہ پایا ، اور محسوس کیا کہ عذاب قریب آگیا ہے تو اللہ نے ان کے دلوں میں توبہ ڈال دی‘‘ (ابن کثیر ، جلد 2، ص 433)

اسی آیت کی تفسیر علامہ آلوسی لکھتے ہیں : ’’ اس قوم کا قصہ یہ ہے کہ یونس علیہ السلام موصل کے علاقے میں نینویٰ کے لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے ۔ یہ کافر و مشرک لوگ تھے ۔ حضرت یونس نے ان کو اللہ وحدہٗ لا شریک پر ایمان لانے اور بتوں کی پرستش چھوڑ دینے کی دعوت دی ۔ انہوں نے انکار کیا اور جھٹلایا ۔ حضرت یونس نے ان کو خبر دی کہ تیسرے دن ان پر عذاب آ جائے گا اور تیسرا دن آنے سے پہلے آدھی رات کو وہ بستی سے نکل گئے ۔ پھر دن کے وقت جب عذاب اس قوم کے سروں پر پہنچ گیاـــــــــ اور انہیں یقین ہو گیا کہ سب ہلاک ہو جائیں گے تو انہوں نے اپنے نبی کو تلاش کیا، مگر نہ پایا ۔ آخر کار وہ سب اپنے بال بچوں اور جانوروں کو لے کر صحرا میں نکل آئے اور ایمان و توبہ کا اظہار کیا ــــــــ پس اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی دعا قبول کر لی‘‘ (روح المعانی، جلد 11 ، ص 170)

سورہ انبیا ء کی آیت 87 کی تشریح کرتے ہوئے علامہ آلوسی لکھتے ہیں : ’’ حضرت یونس کا ا پنی قوم سے ناراض ہو کر نکل جانا ہجرت کا فعل تھا، مگر انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا‘‘ (روح المعانی، ج 17،ص 77) پھر وہ حضرت یونسؑ کی دعا کے فقرہ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّا لِمِیْن کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں : ’’ یعنی میں قصور وار تھا کہ انبیاء کے طریقہ کے خلاف ، حکم آنے سے پہلے ، ہجرت کرنے میں جلدی کر بیٹھا ۔ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی طرف سے اپنے گناہ کا اعتراف اور توبہ کا اظہار تھا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی اس مصیبت کو دور فرما دے ‘‘ (روح المعانی، ج 17، ص 78)

مولانا اشرف علی تھانوی کا حاشیہ اس آیت پر یہ ہے کہ ’’ وہ اپنی قوم پر جبکہ وہ ایمان نہ لائی خفا ہوکر چل دیے اور قوم پر سے عذاب ٹل جانے کے بعد بھی خود واپس نہ آئے اور اس سفر کے لیے ہمارے حکم کا انتظار نہ کیا‘‘ (بیان القرآن)

اسی آیت پر مولانا شبیر احمد عثمانی حاشیہ میں فرماتے ہیں :’’ قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصّے میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے ، حکم الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا ـــــــ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن، اپنے خطا کا اعتراف کیا کہ بے شک میں نے جلدی کی تیرے حکم کا انتظار کیے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔‘‘

سورہ صافات کی آیات بالا کی تشریح میں امام رازی لکھتے ہیں : ’’ حضرت یونس کا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قوم کو جس نے انہیں جھٹلایا تھا، ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا ، یہ سمجھے کہ یہ عذاب لا محالہ نازل ہونے والا ہے ، اس لیے انہوں نے صبر نہ کیا اور قوم کو دعوت دینے کا کام چھوڑ کر نکل گئے ، حالانکہ ان پر واجب تھا کہ دعوت کا کام برابر جاری رکھتے ، کیونکہ اس امر کا امکان باقی تھا کہ اللہ ان لوگوں کو ہلاک نہ کرے ‘‘ (تفسیر کبیر، ج 7، ص 185)

علامہ آلوسی اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُون پر لکھتے ہیں : ’’ ابق کے اصل معنی آقا کے ہاں سے غلام کے فرار ہونے کے ہیں ۔ چونکہ حضرت یونس اپنے رب کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے بھاگ نکلے تھے اس لیے اس لفظ کا اطلاق ان پر درست ہوا۔‘‘ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :’’ جب تیسرا دن ہوا تو حضرت یونس اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نکل گئے ۔ اب جو ان کی قوم نے ان کو نہ پایا تو وہ اپنے بڑے اور چھوٹے اور جانوروں ، سب کو لے کر نکلے ، اور نزول عذاب ان سے قریب تھا، پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور زاری کی اور معافی مانگی اور اللہ نے انہیں معاف کر دیا‘‘ (روح المعانی، جلد 23 ، ص، 13(

مولانا شبیر احمد صاحب وَھُوَ مُلِیْم کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ الزام یہی تھا کہ خطائے اجتہادی سے حکم الٰہی کا انتظار کیے بغیر بستی سے نکل پڑے اور عذاب کے دن کی تعیین کر دی۔‘‘

پھر سورہ القلم کی آیت فَا صْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْ تِ پر مولانا شبیر احمد صاحب کا حاشیہ یہ ہے ’’ یعنی مچھلی کے پیٹ میں جانے والے پیغمبر (حضرت یونس علیہ السلام ) کی طرح مکذبین کے معاملہ میں تنگ دلی اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کیجیے ‘‘۔ اور اسی آیت کے فقرہ وَھُوَ مَکْظُوْم پر حاشیہ تحریر کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں : یعنی قوم کی طرف سے غصے میں بھرے ہوئے تھے ۔ جھنجھلا کر شتابی عذاب کی دعا ، بلکہ پیشن گوئی کر بیٹھے۔‘‘

مفسرین کے ان بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تین قصور تھے جن کی وجہ سے حضرت یونس پر عتاب ہوا۔ ایک یہ کہ انہوں نے عذاب کے دن کی خود ہی تعیین کر دی حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہ ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ دن آنے سے پہلے ہجرت کر کے ملک سے نکل گئے ، حالانکہ نبی کو اس وقت تک اپنی جگہ نہ چھوڑنی چاہیے جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ آ جائے ۔ تیسرے یہ کہ جب اس قوم پر سے عذاب ٹل گیا تو واپس نہ گئے ۔

86. یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ پہلا مضمون آیت نمبر 11 سے شروع ہوا تھا جس میں کفار مکہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا ’’ ان سے پوچھو ، کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل کام ہے یا ان چیزوں کا جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں ‘‘۔ اب انہی کے سامنے یہ دوسرا سوال پیش کیا جا رہا ہے ۔ پہلے سوال کا منشا کفار کو ان کی اس گمراہی پر متنبہ کرنا تھا کہ وہ زندگی بعد موت اور جزا و سزا کو غیر ممکن الوقوع سمجھتے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اب یہ دوسرا سوال ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کرتے تھے اور قیاسی گھوڑے دوڑا کر جس کا چاہتے تھے اللہ سے رشتہ جوڑ دیتے تھے ۔

87. روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں قریش ، جُہینہ ، بنی سَلِمہ ، خزاعہ، بن مُلیح اور بعض دوسرے قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس جاہلانہ عقیدے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء، آیت 117 ۔ النحل آیات 57۔58۔بنی اسرائیل ، آیت 40۔ الزخرف، آیات 16 تا 19۔ النجم ، آیات 21 تا 27۔

88. یعنی ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے کے لیے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں ۔ یا تو ایسی بات مشاہدے کی بنا پر کہی جا سکتی ہے ، یا پھر اس طرح کا دعویٰ کرنے والے کے پاس کوئی کتاب الٰہی ہونی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہو کہ ملائکہ میری بیٹیاں ہیں ۔ اب اگر اس عقیدے کے قائلین نہ مشاہدے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ، اور نہ کوئی کتابِ الہٰی ایسی رکھتے ہیں جس میں یہ بات کہی گئی ہو ، تو اس سے بڑی جہالت و حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ محض ہوائی باتوں پر ایک دینی عقیدہ قائم کر لیا جائے اور خداوند عالم کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو صریحاً مضحکہ انگیز ہیں ۔

89. اصل میں ملائکہ کے بجائے الجنّہ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، لیکن بعض اکابر مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں جِنّ کا لفظ اپنے لغوی مفہوم (پوشیدہ مخلوق) کے لحاظ سے ملائکہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ ملائکہ بھی اصلاً ایک پوشیدہ مخلوق ہی ہیں ۔ اور بعد کا مضمون اسی بات کا تقا ضا کرتا ہے کہ یہاں الجِنہ کے لفظ کو ملائکہ کے معنی میں لیا جائے ۔

90. اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے :’’پس تم اور تمہاری یہ عبادت ، اس پر تم کسی کو فتنے میں نہیں ڈال سکتے صرف اس کو جو ـــــــــــ ‘‘ اس دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اے گمراہو ، یہ جو تم ہماری پرستش کر رہے ہو اور ہمیں اللہ رب العالمین کی اولاد قرار دے رہے ہو، اس سے تم ہم کو فتنے میں نہیں ڈال سکتے ۔ اس سے تو کوئی ایسا احمق ہی فتنے میں پڑ سکتا ہے جس کی شامت سر پر سوار ہو۔ دوسرے الفاظ میں گویا فرشتے اپنے ان پرستاروں سے کہہ رہے ہیں کہ ’’ برد ایں دام بر مرغِ وگرنہ‘‘۔

91. یعنی اللہ کی اولاد ہونا تو درکنار ، ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے جس کاجو درجہ اور مرتبہ مقرر ہے اس سے ذرہ برابر تجاوز تک کرنے کی مجال ہم نہیں رکھتے ۔

92. یہی مضمون سورہ فاطر ، آیت 42 میں گزر چکا ہے ۔

93. اللہ کے لشکر سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو اللہ کے رسول کی پیروی کریں اور اس کا ساتھ دیں ۔ نیز وہ غیبی طاقتیں بھی اس میں شامل ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اہل حق کی مدد فرماتا ہے ۔

اس امداد اور غلبہ کے معنی لازماً یہی نہیں ہیں کہ ہر زمانہ میں اللہ کے ہر نبی اور اس کے پیروؤں کو سیاسی غلبہ ہی حاصل ہو۔ بلکہ اس غلبے کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے ایک سیاسی غلبہ بھی ہے ۔ جہاں اس نوعیت کا استیلاء اللہ کے نبیوں کو حاصل نہیں ہوا ہے ، وہاں بھی ان کا اخلاقی تفوّق ثابت ہو کر رہا ہے ۔ جن قوموں نے ان کی بات نہیں مانی ہے اور ان کی دی ہوئی ہدایات کے خلاف راستہ اختیار کیا ہے وہ آخر کار برباد ہو کر رہی ہیں ۔ جہالت وضلالت کے جو فلسفے بھی لوگوں نے گھڑے اور زندگی کے جو بگڑے ہوئے اطوار بھی زبردستی رائج کیے گئے وہ سب کچھ مدت تک زور دکھانے کے بعد آخر کار اپنی موت آپ مر گئے ۔ مگر جن حقیقتوں کو ہزار ہا برس سے اللہ کے نبی حقیقت و صداقت کی حیثیت سے پیش کرتے رہے ہیں وہ پہلے بھی اٹل تھیں اور آج بھی اٹل ہیں ۔ انہیں اپنی جگہ سے کوئی ہلا نہیں سکا ہے ۔

94. یعنی کچھ زیادہ مدت نہ گزرے گی کہ اپنی شکست اور تمہاری فتح کو یہ لوگ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔ یہ بات جس طرح فرمائی گئی تھی اسی طرح پوری ہوئی۔ ان آیات کے نزول پر بمشکل 14۔15 سال گزرے تھے کہ کفار مکہ نے اپنی آنکھوں سے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فاتحانہ داخلہ اپنے شہر میں دیکھ لیا، اور پھر اس کے چند سال بعد انہی لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اسلام نہ صرف عرب پر، بلکہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں پربھی غالب آگیا۔