Tafheem ul Quran

Surah 37 As-Saffat, Ayat 22-74

اُحۡشُرُوا الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا وَاَزۡوَاجَهُمۡ وَمَا كَانُوۡا يَعۡبُدُوۡنَۙ‏  ﴿37:22﴾ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَاهۡدُوۡهُمۡ اِلٰى صِرَاطِ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿37:23﴾ وَقِفُوۡهُمۡ​ اِنَّهُمۡ مَّسْـُٔـوۡلُوۡنَۙ‏ ﴿37:24﴾ مَا لَـكُمۡ لَا تَنَاصَرُوۡنَ‏ ﴿37:25﴾ بَلۡ هُمُ الۡيَوۡمَ مُسۡتَسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿37:26﴾ وَاَقۡبَلَ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ يَّتَسَآءَلُوۡنَ‏ ﴿37:27﴾ قَالُوۡۤا اِنَّكُمۡ كُنۡتُمۡ تَاۡتُوۡنَنَا عَنِ الۡيَمِيۡنِ‏ ﴿37:28﴾ قَالُوۡا بَلْ لَّمۡ تَكُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ​ۚ‏ ﴿37:29﴾ وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنِ​ۚ بَلۡ كُنۡتُمۡ قَوۡمًا طٰغِيۡنَ‏  ﴿37:30﴾ فَحَقَّ عَلَيۡنَا قَوۡلُ رَبِّنَآ ۖ اِنَّا لَذَآئِقُوۡنَ‏ ﴿37:31﴾ فَاَغۡوَيۡنٰكُمۡ اِنَّا كُنَّا غٰوِيۡنَ‏ ﴿37:32﴾ فَاِنَّهُمۡ يَوۡمَـئِذٍ فِى الۡعَذَابِ مُشۡتَرِكُوۡنَ‏ ﴿37:33﴾ اِنَّا كَذٰلِكَ نَفۡعَلُ بِالۡمُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿37:34﴾ اِنَّهُمۡ كَانُوۡۤا اِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُۙ يَسۡتَكۡبِرُوۡنَۙ‏  ﴿37:35﴾ وَيَقُوۡلُوۡنَ اَـئِنَّا لَتٰرِكُوۡۤا اٰلِهَـتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجۡـنُوۡنٍ ؕ‏ ﴿37:36﴾ بَلۡ جَآءَ بِالۡحَقِّ وَصَدَّقَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ‏ ﴿37:37﴾ اِنَّكُمۡ لَذَآئِقُوا الۡعَذَابِ الۡاَلِيۡمِ​ۚ‏ ﴿37:38﴾ وَمَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَۙ‏ ﴿37:39﴾ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿37:40﴾ اُولٰٓـئِكَ لَهُمۡ رِزۡقٌ مَّعۡلُوۡمٌۙ‏ ﴿37:41﴾ فَوَاكِهُ​ۚ وَهُمۡ مُّكۡرَمُوۡنَۙ‏ ﴿37:42﴾ فِىۡ جَنّٰتِ النَّعِيۡمِۙ‏ ﴿37:43﴾ عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيۡنَ‏ ﴿37:44﴾ يُطَافُ عَلَيۡهِمۡ بِكَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِيۡنٍۢ ۙ‏ ﴿37:45﴾ بَيۡضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيۡنَ​ ۖ​ۚ‏ ﴿37:46﴾ لَا فِيۡهَا غَوۡلٌ وَّلَا هُمۡ عَنۡهَا يُنۡزَفُوۡنَ‏ ﴿37:47﴾ وَعِنۡدَهُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِيۡنٌۙ‏ ﴿37:48﴾ كَاَنَّهُنَّ بَيۡضٌ مَّكۡنُوۡنٌ‏ ﴿37:49﴾ فَاَقۡبَلَ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ يَّتَسَآءَلُوۡنَ‏ ﴿37:50﴾ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡهُمۡ اِنِّىۡ كَانَ لِىۡ قَرِيۡنٌۙ‏ ﴿37:51﴾ يَقُوۡلُ اَءِ نَّكَ لَمِنَ الۡمُصَدِّقِيۡنَ‏ ﴿37:52﴾ ءَاِذَا مِتۡنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِيۡنُوۡنَ‏ ﴿37:53﴾ قَالَ هَلۡ اَنۡتُمۡ مُّطَّلِعُوۡنَ‏ ﴿37:54﴾ فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِىۡ سَوَآءِ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿37:55﴾ قَالَ تَاللّٰهِ اِنۡ كِدْتَّ لَـتُرۡدِيۡنِۙ‏ ﴿37:56﴾ وَلَوۡلَا نِعۡمَةُ رَبِّىۡ لَـكُنۡتُ مِنَ الۡمُحۡضَرِيۡنَ‏ ﴿37:57﴾ اَفَمَا نَحۡنُ بِمَيِّتِيۡنَۙ‏ ﴿37:58﴾ اِلَّا مَوۡتَتَـنَا الۡاُوۡلٰى وَمَا نَحۡنُ بِمُعَذَّبِيۡنَ‏ ﴿37:59﴾ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿37:60﴾ لِمِثۡلِ هٰذَا فَلۡيَعۡمَلِ الۡعٰمِلُوۡنَ‏ ﴿37:61﴾ اَذٰ لِكَ خَيۡرٌ نُّزُلًا اَمۡ شَجَرَةُ الزَّقُّوۡمِ‏ ﴿37:62﴾ اِنَّا جَعَلۡنٰهَا فِتۡنَةً لِّلظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿37:63﴾ اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخۡرُجُ فِىۡۤ اَصۡلِ الۡجَحِيۡمِۙ‏ ﴿37:64﴾ طَلۡعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوۡسُ الشَّيٰطِيۡنِ‏ ﴿37:65﴾ فَاِنَّهُمۡ لَاٰكِلُوۡنَ مِنۡهَا فَمٰلِـُٔـوۡنَ مِنۡهَا الۡبُطُوۡنَ ؕ‏  ﴿37:66﴾ ثُمَّ اِنَّ لَهُمۡ عَلَيۡهَا لَشَوۡبًا مِّنۡ حَمِيۡمٍ​ۚ‏ ﴿37:67﴾ ثُمَّ اِنَّ مَرۡجِعَهُمۡ لَا۟اِلَى الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿37:68﴾ اِنَّهُمۡ اَلۡفَوۡا اٰبَآءَهُمۡ ضَآلِّيۡنَۙ‏ ﴿37:69﴾ فَهُمۡ عَلٰٓى اٰثٰرِهِمۡ يُهۡرَعُوۡنَ‏ ﴿37:70﴾ وَلَـقَدۡ ضَلَّ قَبۡلَهُمۡ اَكۡثَرُ الۡاَوَّلِيۡنَۙ‏ ﴿37:71﴾ وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا فِيۡهِمۡ مُّنۡذِرِيۡنَ‏ ﴿37:72﴾ فَانْظُرۡ كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُنۡذَرِيۡنَۙ‏ ﴿37:73﴾ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿37:74﴾

22 - (حکم ہوگا)گھیر لاوٴ سب ظالموں 14 اور ان کے ساتھیوں 15 اور اُن کے معبُودوں کو جن کی وہ بندگی کیا کرتے تھے 16 ، 23 - خدا کو چھوڑ کر پھر ان سب کو جہنّم کا راستہ دکھاوٴ۔ 24 - اور ذرا اِنہیں ٹھہراوٴ اِن سے کچھ پوچھنا ہے۔” 25 - کیا ہوگیا تمہیں، اب کیوں ایک دُوسرے کی مدد نہیں کرتے؟ 26 - ارے، آج تو یہ اپنے آپ کو (اور ایک دُوسرے کو)حوالے کیے دے رہے ہیں۔“ 17 27 - اس کے بعد یہ ایک دُوسرے کی طرف مُڑیں گے اور باہم تکرار شروع کر دیں گے۔ 28 - (پیروی کرنے والے اپنے پیشواوٴں سے )کہیں گے،” تم ہمارے پاس سیدھے رُخ سے آتے تھے۔“ 18 29 - وہ جواب دیں گے” نہیں، بلکہ تم خود ایمان لانے والے نہ تھے۔ 30 - ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا، تم خود ہی سرکش لوگ تھے۔ 31 - آخر کار ہم اپنے ربّ کے اِس فرمان کے مستحق ہوگئے کہ ہم عذاب کا مزا چکھنے والے ہیں۔ 32 - سو ہم نے تم کو بہکایا، ہم خود بہکے ہوئے تھے۔“ 19 33 - اِس طرح وہ سب اُس روز عذاب میں مشترک ہوں گے۔ 20 34 - ہم مجرموں کے ساتھ یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔ 35 - یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا” اللہ کے سوا کوئی معبُود بر حق نہیں ہے“ تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے 36 - اور کہتے تھے” کیا ہم ایک شاعرِ مجنون کی خاطر اپنے معبُودوں کو چھوڑ دیں؟“ 37 - حالانکہ وہ حق لے کر آیا تھا اور اس نے رسُولوں کی تصدیق کی تھی۔ 21 38 - (اب ان سے کہا جائے گا کہ)تم لازماً دردناک سزا کا مزا چکھنے والے ہو۔ 39 - اور تمہیں جو بدلہ بھی دیا جارہا ہے اُنہی اعمال کا دیا جا رہا ہے جو تم کرتے رہے ہو۔ 40 - مگر اللہ کے چیدہ بندے (اس انجامِ بد سے)محفوظ ہوں گے۔ 41 - ان کے لیے جانا بوجھا رزق ہے، 22 42 - ہر طرح کی لذیذ چیزیں۔ 23 اور وہ عزّت کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ 43 - نعمت بھری جنّتوں میں، 44 - جہاں تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ 45 - شراب 24 کے چشموں 26 سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے۔ 46 - چمکتی ہوئی شراب، جو پینے والوں کے لیے لذّت ہوگی۔ 47 - نہ ان کے جسم کو اس سے کوئی ضرر ہوگا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہوگی۔ 27 48 - اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی، 28 خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی، 29 49 - ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھُپی ہوئی جھِلی۔ 30 50 - پھر وہ ایک دُوسرے کی طرف متوجّہ ہو کر حالات پُوچھیں گے۔ 51 - ان میں سے ایک کہے گا، ”دُنیا میں میرا ایک ہم نشین تھا 52 - جو مجھ سے کہا کرتا تھا، کیا تم بھی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ 31 53 - کیا واقعی جب ہم مرچکے ہوں گے اور مٹّی ہو جائں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو ہمیں جزا و سزا دی جائے گی؟ 54 - اب کیا آپ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ صاحب اب کہاں ہیں؟ “ 55 - یہ کہہ کر جُونہی وہ جھکے گا تو جہنّم کی گہرائی میں اس کو دیکھ لے گا 56 - اور اس سے خطاب کر کے کہے گا” خدا کی قسم ، تُو تو مجھے تباہ ہی کر دینے والا تھا۔ 57 - میرے ربّ کا فضل شاملِ حال نہ ہوتا تو آج میں بھی اُن لوگوں میں سے ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں۔ 32 58 - اچھا ، تو کیا اب ہم مرنے والے نہیں ہیں ؟ 59 - موت جو ہمیں آنی تھی وہ بس پہلے آچکی؟ اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہونا؟“ 33 60 - یقیناً یہی عظیم الشان کامیابی ہے ۔ 61 - ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔ 62 - بولو، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم 34 کا درخت؟ 63 - ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے۔ 35 64 - وہ ایک درخت ہے جو جہنّم کی تہ سے نکلتا ہے ۔ 65 - اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔ 36 66 - جہنّم کے لوگ اُسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے، 67 - پھر اس پر پینے کے لیے ان کو کھولتا ہوا پانی ملے گا ۔ 68 - اور اس کے بعد ان کی واپسی اسی آتشِ دوزخ کی طرف ہوگی۔ 37 69 - یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا 70 - اور اُنہی کے نقشِ قدم پر دوڑ چلے۔ 38 71 - حالانکہ ان سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہو چکے تھے 72 - اور ان میں ہم نے تنبیہ کرنے والے رسُول بھیجے تھے۔ 73 - اب دیکھ لو کہ اُن تنبیہ کیے جانے والوں کا کیا انجام ہوا ۔ 74 - اس بد انجامی سے بس اللہ کے وہی بندے بچے ہیں جنہیں اس نے اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔ ؏۲


Notes

14. ظالم سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دوسروں پر ظلم کیا ہو، بلکہ قرآن کی اصطلاح میں ہر وہ شخص ظالم ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بغاوت و سرکشی اور نافرمانی کی راہ اختیار کی ہو۔

15. اصل میں لفظ ’’ ازواج‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد ان کی وہ بیویاں بھی ہو سکتی ہیں جو اس بغاوت میں ان کی رفیق تھیں ، اور وہ سب لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو انہی کی طرح باغی و سرکش اور نافرمان تھے ۔ علاوہ بریں اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ایک قسم کے مجرم الگ الگ جتھوں کی شکل میں جمع کیے جائیں گے ۔

16. اس جگہ معبودوں سے مراد دو قسم کے معبود ہیں ۔ ایک، وہ انسان اور شیاطین جن کی اپنی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی بندگی کریں ۔ دوسرے وہ اصنام اور شجر و حجر وغیرہ جن کی پرستش دنیا میں کی جاتی رہی ہے ۔ ان میں سے پہلی قسم کے معبود تو خود مجرمین میں شامل ہوں گے اور انہیں سزا کے طور پر جہنم کا راستہ دکھایا جائے گا۔ اور دوسری قسم کے معبود اپنے پرستاروں کے ساتھ اس لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے کہ وہ انہیں دیکھ کر ہر وقت شرمندگی محسوس کریں اور اپنی حماقتوں کا ماتم کرتے رہیں ۔ ان کے علاوہ ایک تیسری قسم کے معبود وہ بھی ہیں جنہیں دنیا میں پوجا تو گیا ہے مگر خود ان کا اپنا ایما ہر گز یہ نہ تھا کہ ان کی پرستش کی جائے ، بلکہ اس کے برعکس وہ ہمیشہ انسانوں کو غیر اللہ کی پرستش سے منع کرتے رہے ، مثلاً فرشتے ، انبیا ء اور اولیاء ۔ اس قسم کے معبود ظاہر ہے کہ ان معبودوں میں شامل نہ ہوں گے جنہیں اپنے پرستاروں کے ساتھ جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا۔

17. پہلا فقرہ مجرمین کو خطاب کر کے ارشاد ہو گا۔ اور دوسرا فقرہ ان عام حاضرین کی طرف رخ کر کے فرمایا جائے گا جواس وقت جہنم کی روانگی کا منظر دیکھ رہے ہوں گے ۔ یہ فقرہ خود بتا رہا ہے کہ اس وقت حالت کیا ہو گی ۔ بڑے بڑے ہیکڑ مجرمین کے کَس بَل نکل چکے ہوں گے اور کسی مزاحمت کے بغیر وہ کان دبائے جہنم کی طرف جا رہے ہوں گے ۔ کہیں کوئی ہز میجسٹی دھکے کھا رہے ہوں گے اور دربار یوں میں سے کوئی ’’ اعلیٰ حضرت ‘‘ کو بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا۔ کہیں کوئی فاتح عالَم اور ڈکٹیٹر انتہائی ذلت کے ساتھ چلا جا رہا ہو گا اور اس کا لشکر جرّار خود اسے سزا کے لیے پیش کر دے گا۔ کہیں کوئی پیر صاحب یا گرو جی یا ہولی فادر واصل بجہنم ہو رہے ہوں گے اور مُریدوں میں سے کسی کو یہ فکر نہ ہو گی کہ حضرتِ والا کی توہین نہ ہونے پائے ۔ کہیں کوئی لیڈر صاحب کسمپرسی کے عالم میں جہنم کی طرف رواں دواں ہوں گے اور دنیا میں جو لوگ ان کی کبریائی کے جھنڈے اٹھائے پھرتے تھے وہ سب وہاں ان کی طرف سے نگاہیں پھیر لیں گے ۔ حد یہ ہے کہ جو عاشق دنیا میں اپنے معشوق پر جان چھڑکتے تھے انہیں بھی اس کے حال بد کی کوئی پروا نہ ہو گی۔ اس حالت کا نقشہ کھینچ کر اللہ تعالیٰ دراصل یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہے کہ دنیا میں انسان اور انسان کے جو تعلقات اپنے رب سے بغاوت پر مبنی ہیں وہ کس طرح آخرت میں ٹوٹ کر رہ جائیں گے ، اور یہاں جو لوگ ہمچو ما دیگرے نیست کے غرور میں مبتلا ہیں ، وہاں ان کا تکبر کس طرح خاک میں مل جائے گا۔

18. اصل الفاظ ہیں کُنْتُمْ تَأ تُوْ نَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ۔ ’’ تم ہمارے پاس یمین کی راس سے آتے تھے ۔‘‘ یمین کا لفظ عربی زبان میں متعدد مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اگر اس کو قوت و طاقت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ ہم کمزور تھے اور تم ہم پر غالب تھے ، اس لیے تم اپنے زور سے ہم کو گمراہی کی طرف کھینچ لے گئے ۔ اگر اس کو خیر اور بھلائی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ تم نے خیر خواہ بن کر ہمیں دھوکا دیا۔ تم ہمیں یقین دلاتے رہے کہ جس راہ پر تم ہمیں چلا رہے ہو یہی حق اور بھلائی کی راہ ہے ۔ اس لیے ہم تمہارے فریب میں آ گئے ۔اور اگر اسے قَسم کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے قَسمیں کھا کھا کر ہمیں اطمینان دلایا تھا کہ حق وہی ہے جو تم پیش کر رہے ہو۔

19. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورہ سبا ، حواشی نمبر 51۔52۔53۔

20. یعنی پیرو بھی اور پیشوا بھی، گمراہ کرنے والے بھی اور گمراہ ہونے والے بھی، ایک ہی عذاب میں شریک ہوں گے ۔ نہ پیروؤں کا یہ عذر مسموع ہو گا کہ وہ خود گمراہ نہیں ہوئے تھے بلکہ انہیں کیا گیا تھا۔ اور نہ پیشواؤں کی اِس معذرت کو قبول کیا جائے گا کہ گمراہ ہونے والے خود ہی راہ راست کے طالب نہ تھے ۔

21. رسولوں کی تصدیق کے تین معنی ہیں اور تینوں ہی یہاں مراد بھی ہیں ۔ ایک یہ کہ اُس نے کسی سابق رسول کی مخالفت نہ کی تھی کہ اُس رسول کے ماننے والوں کے لیے اُس کے خلاف تعصّب کی کوئی معقول وجہ ہوتی، بلکہ وہ خدا کے تمام پچھلے رسولوں کی تصدیق کرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ کوئی نئی اور نرالی بات نہیں لایا تھا بلکہ وہی بات پیش کرتا تھا جو ابتدا سے خدا کے تمام رسول پیش کرتے چلے آ رہے تھے ۔ تیسرے یہ کہ وہ ان تمام خبروں کا صحیح مصداق تھا جو پچھلے رسولوں نے اُس کے بارے میں دی تھیں ۔

22. یعنی ایسا رزق جس کی تمام خوبیاں بتائی جاچکی ہیں ،جس کے ملنے کا انہیں یقین ہے ، جس کے متعلق انہیں یہ بھی اطمینان ہے کہ وہ ہمیشہ ملتا رہے گا، جس کے بارے میں یہ خطرہ لگا ہوا نہیں ہے کہ کیا خبر ، ملے یا نہ ملے ۔

23. اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جنت میں کھانا غذا کے طور پر نہیں بلکہ لذت کے لیے ہو گا۔ یعنی وہاں کھانا اس غرض کے لیے نہ ہو گا کہ جسم کے تحلیل شدہ اجزاء کی جگہ دوسرے اجزاء غذا کے ذریعہ فراہم کیے جائیں ، کیونکہ اس ابدی زندگی میں سرے سے اجزائے جسم تحلیل ہی نہ ہوں گے ، نہ آدمی کو بھوک لگے گی جو اس دنیا میں تحلیل کے عمل کی وجہ سے لگتی ہے ، اور نہ جسم اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے غذا مانگے گا۔ اسی بنا پر جنت کے ان کھانوں کے لیے ’’ فواکہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مفہوم میں تغذیہ کے بجائے تلذُّذ کا پہلو نمایاں ہے ۔

24. اصل میں یہاں شراب کی تصریح نہیں ہے بلکہ صرف کاًس(ساغر)کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن عربی زبان کی کاًس کا لفظ بول کر ہمیشہ شراب ہی مراد لی جاتی ہے ۔ جس پیالے میں شراب کے بجائے دودھ یا پانی ہو، یا جس پیالے میں کچھ نہ ہو اسے کاًس نہیں کہتے کاًس کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب اس میں شراب ہو۔

25. یعنی وہ شراب اس قسم کی نہ ہو گی جو دنیا میں پھلوں اور غلّوں کو سڑا کر کشید کی جاتی ہے ۔ بلکہ وہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور نہروں کی شکل میں بہے گی۔ سورہ محمدؐ میں اسی مضمون کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَاَنْھٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّشَّارِبِیْنَ۔ ’’ اور شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لیے لذت ہوں گی‘‘۔

27. یعنی وہ شراب ان دونوں قسم کی خرابیوں سے خالی ہو گی جو دنیا کی شراب میں ہوتے ہیں ۔ دنیا کی شراب میں ایک قسم کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ آدمی کے قریب آتے ہی پہلے تو اس کی بدبو اور سڑاند ناک میں پہنچتی ہے پھر اس کا مزا آدمی کے ذائقے کو تلخ کرتا ہے ۔ پھر حلق سے اترتے ہی وہ پیٹ پکڑ لیتی ہے ۔ پھر وہ دماغ کو چڑھتی ہے اور دوران سر لاحق ہوتا ہے ۔ پھر وہ جگر کو متاثر کرتی ہے اور آدمی کی صحت پر اس کے برے اثرات مترتب ہوتے ہیں ۔ پھر جب اس کا نشہ اترتا ہے تو آدمی خُمار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ یہ سب جسمانی ضرر ہیں ۔ دوسری قسم کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اسے پی کر آدمی بہکتا ہے ، اَول فَول بکتا ہے اور عَزبَدہ کرتا ہے ۔ یہ شراب کے عقلی نقصانات ہیں ۔ دنیا میں انسان صرف سُرور کی خاطر شراب کے یہ سارے نقصانات برداشت کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت کی شراب میں سرور تو پوری طرح ہو گا (لذّۃ للشاربین ) لیکن ان دونوں قسم کی خرابیوں میں سے کوئی خرابی بھی اس میں نہ ہو گی۔

28. یعنی اپنے شوہر کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ نہ کرنے والی ۔

29. بعید نہیں ہے کہ یہ وہ لڑکیاں ہوں جو دنیا میں سنّ رشد کو پہنچنے سے پہلے مر گئی ہوں اور جن کے والدین جنت میں جانے کے مستحق نہ ہوئے ہوں ۔ یہ بات اس قیاس کی بنا پر کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح ایسے لڑکے اہل جنت کی خدمت کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے اور وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے ، اسی طرح ایسی لڑکیاں بھی اہل جنت کے لیے حوریں بنا دی جائیں گی اور وہ ہمیشہ نوخیز لڑکیاں ہی رہیں گی۔ واللہ اعلم با صواب۔

30. اصل الفاظ ہیں کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ ’’ گویا وہ چھپے ہوئے یا محفوظ رکھے ہوئے انڈے ہیں ‘‘ ان الفاظ کی مختلف تعبیرات اہل تفسیر نے بیان کی ہیں ۔ مگر صحیح تفسیر وہی ہے جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کا مطلب حضورؐ سے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ ان کی نرمی و نزاکت اس جھلی جیسی ہو گی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے (ابن جریر)۔

31. یعنی تم بھی ایسے ضعیف الاعتقاد نکلے کہ زندگی بعد موت جیسی بعید از عقل بات کو مان بیٹھے ۔

32. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخرت میں انسان کی سماعت اور بینائی اور گویائی کس پیمانے کی ہو گی ۔ جنت میں بیٹھا ہو ایک آدمی جب چاہتا ہے کسی ٹیلی ویژن کے آلے کے بغیر بس یوں ہی جھک کر ایک ایسے شخص کو دیکھ لیتا ہے جو اس سے نہ معلوم کتنے ہزار میل کے فاصلے پر جہنم میں مبتلائے عذاب ہے ۔ پھر یہی نہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ، بلکہ ان کے درمیان کسی ٹیلی فون یا ریڈیو کے توسط کے بغیر براہ راست کلام بھی ہوتا ہے ۔ وہ اتنے طویل فاصلے سے بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں ۔

33. اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ اپنے اس دوزخی یار سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ جنتی شخص اپنے آپ سے کلام کرنے لگتا ہے اور یہ تین فقر ے اس کی زبان سے اس طرح ادا ہوتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنے آپ کو ہر توقع اور ہر اندازے سے برتر حالت میں پا کر انتہائی حیرت و استعجاب اور وفور مسرت کے ساتھ آپ ہی آپ بول رہا ہو۔ اس طرح کے کلام میں کوئی خاص شخص مخاطب نہیں ہوتا ، اور نہ اس کلام میں جو سوالات آدمی کرتا ہے ان سے درحقیقت کوئی بات کسی سے پوچھنا مقصود ہوتا ہے ۔ بلکہ اس میں آدمی کے اپنے ہی احساسات کا اظہار اس کی زبان سے ہونے لگتا ہے ۔ وہ جنتی شخص اس دوزخی سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ محسوس کرتا ہے کہ میری خوش قسمتی مجھے کہاں لے آئی ہے ۔ اب نہ موت ہے نہ عذاب ہے ۔ ساری کلفتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مجھے حیات جاوداں نصیب ہو چکی ہے ۔ اسی احساس کی بنا پر وہ بے ساختہ بول اٹھتا ہے کیا اب ہم اس مرتبے کو پہنچ گئے ہیں ؟

34. زَقّوم ایک قسم کا درخت ہے جو تہامہ کے علاقے میں ہوتا ہے ۔ مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے ، بو ناگوار ہوتی ہے ، اور توڑنے پر اس میں سے دودھ کا سا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہو جاتا ہے ۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہر کہتے ہیں ۔

35. یعنی منکرین یہ بات سن کر قرآن پر طعن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر استہزاء کا ایک نیا موقع پالیتے ہیں ۔ وہ اس پر ٹھٹھا مار کر کہتے ہیں ، لو اب نئی سنو ، جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں درخت اگے گا۔

36.

کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ شیطان کا سرکس نے دیکھا ہے جو زقوم کے شگوفوں کو اس سے تشبیہ دی گئی۔ دراصل یہ تخییلی نوعیت کی تشبیہ ہے اور عام طور پر ہر زبان کے ادب میں اس سے کام لیا جاتا ہے ۔ مثلاً ہم ایک عورت کی انتہائی خوبصورتی کا تصور دلانے کے لیے کہتے ہیں وہ پری ہے ۔اور انتہائی بدصورتی بیان کرنے کے لیے کہتے ہیں ، وہ چڑیل ہے یا بھتنی ہے ۔ کسی شخص کی نورانی شکل کی تعریف میں کہ جاتا ہے ، وہ فرشتہ صورت ہے ۔ اور کوئی نہایت بھیانک ہیئت کذائی میں سامنے آئے تو دیکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ شیطان بنا چلا آ رہا ہے ۔

37. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل دوزخ جب بھوک پیاس سے بے تاب ہونے لگیں گے تو انہیں اس مقام کی طرف ہانک دیا جائے گا جہاں زقوم کے درخت اور کھولتے ہوئے پانی کے چشمے ہوں گے ۔ پھر جب وہ وہاں سے کھا پی کر فارغ ہو جائیں گے تو انہیں دوزخ کی طرف لایا جائے گا۔

38. یعنی انہوں نے خود اپنی عقل سے کام لے کر کبھی نہ سوچا کہ باپ دادا سے جو طریقہ چلا آ رہا ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں ۔ بس آنکھیں بند کر کے اسی ڈگر پر ہولیے جس پر دوسروں کو چلتے دیکھا۔