Tafheem ul Quran

Surah 37 As-Saffat, Ayat 75-113

وَلَقَدۡ نَادٰٮنَا نُوۡحٌ فَلَنِعۡمَ الۡمُجِيۡبُوۡنَ  ۖ‏ ﴿37:75﴾ وَنَجَّيۡنٰهُ وَاَهۡلَهٗ مِنَ الۡكَرۡبِ الۡعَظِيۡمِ  ۖ‏ ﴿37:76﴾ وَجَعَلۡنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الۡبٰقِيۡنَ  ۖ‏ ﴿37:77﴾ وَتَرَكۡنَا عَلَيۡهِ فِى الۡاٰخِرِيۡنَ  ۖ‏ ﴿37:78﴾ سَلٰمٌ عَلٰى نُوۡحٍ فِى الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿37:79﴾ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿37:80﴾ اِنَّهٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿37:81﴾ ثُمَّ اَغۡرَقۡنَا الۡاٰخَرِيۡنَ‏ ﴿37:82﴾ وَاِنَّ مِنۡ شِيۡعَتِهٖ لَاِبۡرٰهِيۡمَ​ۘ‏ ﴿37:83﴾ اِذۡ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍ‏ ﴿37:84﴾ اِذۡ قَالَ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖ مَاذَا تَعۡبُدُوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:85﴾ اَـئِفۡكًا اٰلِهَةً دُوۡنَ اللّٰهِ تُرِيۡدُوۡنَؕ‏ ﴿37:86﴾ فَمَا ظَنُّكُمۡ بِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿37:87﴾ فَنَظَرَ نَظۡرَةً فِى النُّجُوۡمِۙ‏ ﴿37:88﴾ فَقَالَ اِنِّىۡ سَقِيۡمٌ‏ ﴿37:89﴾ فَتَوَلَّوۡا عَنۡهُ مُدۡبِرِيۡنَ‏ ﴿37:90﴾ فَرَاغَ اِلٰٓى اٰلِهَتِهِمۡ فَقَالَ اَلَا تَاۡكُلُوۡنَ​ۚ‏ ﴿37:91﴾ مَا لَـكُمۡ لَا تَنۡطِقُوۡنَ‏ ﴿37:92﴾ فَرَاغَ عَلَيۡهِمۡ ضَرۡبًۢا بِالۡيَمِيۡنِ‏ ﴿37:93﴾ فَاَقۡبَلُوۡۤا اِلَيۡهِ يَزِفُّوۡنَ‏ ﴿37:94﴾ قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَۙ‏ ﴿37:95﴾ وَاللّٰهُ خَلَقَكُمۡ وَمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿37:96﴾ قَالُوا ابۡنُوۡا لَهٗ بُنۡيَانًا فَاَلۡقُوۡهُ فِى الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿37:97﴾ فَاَرَادُوۡا بِهٖ كَيۡدًا فَجَعَلۡنٰهُمُ الۡاَسۡفَلِيۡنَ‏ ﴿37:98﴾ وَقَالَ اِنِّىۡ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ‏ ﴿37:99﴾ رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿37:100﴾ فَبَشَّرۡنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيۡمٍ‏ ﴿37:101﴾ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعۡىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى​ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ​ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ‏ ﴿37:102﴾ فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَتَلَّهٗ لِلۡجَبِيۡنِ​ۚ‏ ﴿37:103﴾ وَنَادَيۡنٰهُ اَنۡ يّٰۤاِبۡرٰهِيۡمُۙ‏ ﴿37:104﴾ قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡيَا ​ ​ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿37:105﴾ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الۡبَلٰٓؤُا الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿37:106﴾ وَفَدَيۡنٰهُ بِذِبۡحٍ عَظِيۡمٍ‏ ﴿37:107﴾ وَتَرَكۡنَا عَلَيۡهِ فِى الۡاٰخِرِيۡنَ​ۖ‏ ﴿37:108﴾ سَلٰمٌ عَلٰٓى اِبۡرٰهِيۡمَ‏ ﴿37:109﴾ كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿37:110﴾ اِنَّهٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿37:111﴾ وَبَشَّرۡنٰهُ بِاِسۡحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿37:112﴾ وَبٰرَكۡنَا عَلَيۡهِ وَعَلٰٓى اِسۡحٰقَ​ؕ وَ مِنۡ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحۡسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفۡسِهٖ مُبِيۡنٌ​‏ ﴿37:113﴾

75 - ہم کو 39 (اس سے پہلے ) نوحؑ نے پکارا تھا 40 ، تو دیکھو کہ ہم کیسے اچھے جواب دینے والے تھے ۔ 76 - ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو کرب عظیم سے بچا لیا، 41 77 - اور اسی کی نسل کو باقی رکھا 42 ، 78 - اور بعد کی نسلوں میں اس کی تعریف و توصیف چھوڑ دی۔ 79 - سلام ہے نوحؑ پر تمام دینا والوں میں 43 ۔ 80 - ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں ۔ 81 - درحقیقت وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ 82 - پھر دوسرے گروہ کو ہم نے غرق کر دیا ۔ 83 - اور نوحؑ ہی کے طریقے پر چلنے والا ابراہیمؑ تھا۔ 84 - جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا 44 ۔ 85 - جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا 45 ۔ ’’یہ کیا چیزیں جن کے تم عبادت کر رہے ہو؟ 86 - کیا اللہ کو چھوڑ کر جھوٹ گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو؟ 87 - آخر اللہ ربّ العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے ؟‘‘ 46 88 - پھر 47 اس نے تاروں پر ایک نگاہ ڈالی 48 89 - اور کہا میری طبیعت خراب ہے 49 90 - چنانچہ وہ لوگ اسے چھوڑ کر چلے گئے 50 ۔ 91 - ان کے پیچھے وہ چپکے سے ان کے معبودوں کے مندر میں گھس گیا اور بولا ’’ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں ہیں 51 ؟ 92 - کیا ہو گیا ، آپ لوگ بولتے بھی نہیں ‘‘؟ 93 - اس کے بعد وہ ان پر پل پڑا اور سیدھے ہاتھ سے خوب ضربیں لگائیں ۔ 94 - (واپس آ کر) وہ لوگ بھاگے بھاگے اس کے پاس آئے 52 ۔ 95 - اس نے کہا ’’ کیا تم اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو ؟ 96 - حالانکہ اللہ ہی نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور ان چیزوں کو بھی جنہیں تم بناتے ہو‘‘ 97 - انہوں نے آپس میں کہا’’ اس کے لیے ایک الاؤ تیار کرو اور اسے دہکتی ہوئی آگ کے ڈھیر میں پھینک دو۔‘‘ 98 - انہوں نے اس کے خلاف ایک کار روائی کرنی چاہی تھی، مگر ہم نے انہی کو نیچا دکھا دیا 53 ۔ 99 - ابراہیمؑ نے کہا 54 ’’میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں 55 ، وہی میری رہنمائی کرے گا۔ 100 - اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘ 56 ۔ 101 - (اس دعا کے جواب میں ) ہم نے اس کو ایک حلیم(بردبار) لڑکے کی بشارت دی 57 ۔ 102 - وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا،’’بیٹا ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں 58 ، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟ 59 اس نے کہا، ’’ ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے 60 اسے کر ڈالیے ، آپ اِنْشاءَ اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے ‘‘، 103 - آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا 61 104 - اور ہم نے ندا دی 62 کہ ’’ اے ابراہیمؑ ، 105 - تو نے خواب سچ کر دکھایا 63 ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں 64 ۔ 106 - یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘ 65 ۔ 107 - اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا 66 ۔ 108 - اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ 109 - سلام ہے ابراہیمؑ پر۔ 110 - ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ 111 - یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ 112 - اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے ۔ 113 - اور اسے اور اسحاق کو برکت دی 67 ۔ اب ان دونوں کی ذریّت میں سے کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا ہے 68 ۔ ؏۳


Notes

39. اس مضمون کا تعلق پچھلے رکوع کے آخری فقروں سے ہے ۔ ان پر غور کرنے سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ قصے یہاں کسی غرض سے سنائے جا رہے ہیں ۔

40. اس سے مراد وہ فریاد ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے مدتہائے دراز تک اپنی قوم کو دعوت دین حق دینے کے بعد آخر کار مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ سے کی تھی۔ اس فریاد کے الفاظ سورہ قمر میں اس طرح آئے ہیں فَدَ عَا رَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ، ’’ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہو گیا ہوں ، اب تو میری مدد کو پہنچ‘‘(آیت 10)

41. یعنی اس شدید اذیت سے جو ایک بد کردار اور ظالم قوم کی مسلسل مخالفت سے ان کو پہنچ رہی تھی ۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اس کرب عظیم سے بچایا گیا ، اسی طرح آخر کار ہم محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو بھی اس کرب عظیم سے بچا لیں گے جس میں اہل مکہ نے ان کو مبتلا کر رکھا ہے ۔

42. اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو لوگ حضرت نوح کی مخالفت کر رہے تھے ان کی نسل دنیا سے ناپید کر دی گئی اور حضرت نوحؑ ہی کی نسل باقی رکھی گئی اور آگے صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی کی اولاد سے دنیا آباد کی گئی ۔ عام طور پر مفسرین نے اسی دوسرے معنی کو اختیار کیا ہے ، مگر قرآن مجید کے الفاظ اس معنی میں صریح نہیں ہیں اور حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔

43. یعنی آج دنیا میں حضرت نوحؑ کی برائی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ طوفان نوح کے بعد سے آج تک ہزار ہا برس سے دنیا ان کا ذکر خیر کر رہی ہے ۔

44. رب کے حضور آنے سے مراد اس کی طرف رجوع کرنا اور سب سے منہ موڑ کر اسی کا رُخ کرنا ہے ۔ اور ’’ قلب سلیم‘‘ کے معنی ’’صحیح سلامت د ل‘‘ کے ہیں ۔ یعنی ایسا دل جو تمام اعتقادی اور اخلاقی خرابیوں سے پاک ہو، جس میں کفر و شرک اور شکوک و شبہات کا شائبہ تک نہ ہو ، جس میں نافرمانی اور سرکشی کا کوئی جذبہ نہ پایا جاتا ہو، جس میں کوئی ایچ پیچ اور الجھاؤ نہ ہو، جو ہر قسم کے برے میلانات اور ناپاک خواہشات سے بالکل صاف ہو، جس کے اندر کسی کے لیے بغض و حسد یا بد خواہی نہ پائی جاتی ہو، جس کی نیت میں کوئی کھوٹ نہ ہو۔

45. حضرت ابراہیمؑ کے اس قصّے کی مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول الانعام حواشی 50 تا 55 ۔ جلد سوم مریم حواشی 26،27 ، الانبیاء حواشی51تا 66، الشعراء حواشی 50تا 64، العنکبوت، حواشی 25تا 48۔

46. یعنی اللہ تعالیٰ کو آخر تم نے کیا سمجھ رکھا ہے ۔ کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ لکڑی پتھر کے معبود اس کے ہم جنس ہو سکتے ہیں ؟ یا اس کی صفات اور اس کے اختیارات میں شریک ہو سکتے ہیں ؟ اور کیا تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ اس کے ساتھ اتنی بڑی گستاخی کر کے تم اس کی پکڑ سے بچے رہ جاؤ گے ؟

47. اب ایک خاص واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کی تفصیلات سورہ انبیاء (آیات 51 تا 73) اور سورہ عنکبوت (آیات 16 تا 27) میں گزر چکی ہیں ۔

48. ابن ابی حاتم نے مشہور تابعی مفسر قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اہل عرب نَظَرَفِی النُّجُوْ مِ (اس نے تاروں پر نگاہ ڈالی) کے الفاظ محاورے کے طور پر اس معنی میں بولا کرتے ہیں کہ اس شخص نے غور کیا، یا وہ شخص سوچنے لگا۔ علامہ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ویسے بھی یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے کوئی غور طلب معاملہ آتا ہے تو وہ آسمان کی طرف ، یا اوپر کی جانب کچھ دیر دیکھتا رہتا ہے ، پھر سوچ کر جواب دیتا ہے ۔

49. یہ ان تین باتوں میں سے ایک ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں یہ تین جھوٹ بولے تھے ۔ حالانکہ اس بات کو جھوٹ ، یا خلاف واقعہ کہنے کے لیے پہلے کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ تھی اور انہوں نے محض بہانے کے طور پر یہ بات بنا دی تھی۔ اگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو خواہ مخواہ اسے جھوٹ آخر کس بنا پر قرار دے دیا جائے ۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہم تفہیم القرآن جلد سوم الانبیاء حاشیہ 60 میں کر چکے ہیں ، اور مزید بحث رسائل و مسائل، جلد دوم (صفحہ 35 تا 39) میں کی گئی ہے ۔

50. یہ فقرہ خود بخود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ صورت معاملہ دراصل کیا تھی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم کے لوگ اپنے کسی میلے میں جا رہے ہوں گے ۔ حضرت ابراہیم کے خاندان والوں نے ان سے بھی ساتھ چلنے کو کہا ہو گا ۔ انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی ہو گی کہ میری طبیعت خراب ہے ، میں نہیں چل سکتا۔ اب اگر یہ بات بالکل ہی خلاف واقعہ ہوتی تو ضرور گھر کے لوگ ان سے کہتے کہ اچھے خاصے بھلے چنگے ہو ، بلا وجہ بہانہ بنا رہے ہو۔ لیکن جب وہ عذر کو قبول کر کے انہیں پیچھے چھوڑ گئے تو اس سے خود ہی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ضرور اس وقت حضرت ابراہیم کو نزلہ ، کھانسی ، یا کوئی اور ایسی ہی نمایاں تکلیف ہو گی جس کی وجہ سے گھر والے انہیں چھوڑ جانے پر راضی ہو گئے ۔

51. اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مندر میں بتوں کے سامنے طرح طرح کی کھانے کی چیزیں رکھی ہوئی ہوں گی۔

52. یہاں قصہ مختصر کر کے بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ انبیا ء میں اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب انہوں نے آ کر اپنے مندر میں دیکھا کہ سارے بت ٹوٹے پڑے ہیں تو پوچھ گچھ شروع کی۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ ابراہیم نامی ایک نوجوان بت پرستی کے خلاف ایسی باتیں کرتا رہا ہے ۔ اس پر مجمع نے کہا کہ پکڑ لاؤ اسے ۔چنانچہ ایک گروہ دوڑتا ہوا ان کے پاس پہنچا، اور انہیں مجمع کے سامنے لے آیا۔

53. سورہ انبیا ء (آیت 69) میں الفاظ یہ ہیں ۔ قُلْنَا یٰنَا رُکُوْنِیْ بَرْ داً وَّ سَلَاماً عَلیٓ اِبْرَاہیم ( ہم نے کہا،

اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے )۔ اور سورہ عنکبوت (آیت 24) میں ارشاد ہوا ہے فَاَنْجٰہُ اللہُ مِنَ النَّارِ، (پھر اللہ نے اس کو آگ سے بچا لیا)۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابراہیمؑ کو آگ میں پھینک دیا تھا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بسلامت نکال دیا۔ آیت کے یہ الفاظ کہ ’’ انہوں نے اس کے خلاف ایک کاروائی کرنی چاہی تھی مگر ہم نے انہیں نیچا دکھا دیا‘‘ اس معنی میں نہیں لیے جا سکتے کہ انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکنا چاہا تھا مگر نہ پھینک سکے ۔ بلکہ مذکورہ بالا آیات کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے ان کا صاف مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ میں پھینک کر انہیں ہلاک کر دینا چاہتے تھے مگر نہ کر سکے ، اور ان کے معجزانہ طریقہ سے بچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کی بر تری ثابت ہو گئی اور مشرکین کو اللہ نے نیچا دکھا دیا ۔ اس واقعہ کو بیان کرنے سے اصل مقصود قریش کے لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ جن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے پر تم فخر کرتے ہو ان کا طریقہ وہ نہ تھا جو تم نے اختیار کر رکھا ہے ، بلکہ وہ تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں ۔ اب اگر تم ان کو نیچا دکھانے کے لیے وہ چالیں چلو گے جو حضرت ابراہیم کی قوم نے ان کے ساتھ چلی تھیں تو آخر کار نیچا تم ہی دیکھو گے ، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نیچا تم نہیں دکھا سکتے ۔

54. یعنی آگ سے بسلامت نکل آنے کے بعد جب حضرت ابراہیمؑ نے ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کیا تو چلتے وقت یہ الفاظ کہے ۔

55. اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی خاطر نکل رہا ہوں کیونکہ اسی کا ہو جانے کی وجہ سے میری قوم میری دشمن ہو گئی ہے ورنہ کوئی دنیوی جھگڑا میرے اور اس کے درمیان نہ تھا کہ اس کی بنا پر مجھے اپنا وطن چھوڑنا پڑ رہا ہو ۔ نیز یہ کہ میرا دنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے جس کا رخ کروں ۔ تن بتقدیر بس اللہ کے بھروسے پر نکل رہا ہوں ۔ جدھر وہ لے جائے گا اسی طرف چلا چاؤں گا۔

56. اس دعا سے خود بخود یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اس وقت بے اولاد تھے ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صرف ایک بیوی اور ایک بھتیجے (حضرت لوطؑ) کو لے کر ملک سے نکلے تھے ۔ اس وقت فطرۃً آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ کوئی صالح اولاد عطا فرمائے جو اس غریب الوطنی کی حالت میں آپ کا غم غلط کرے ۔

57. اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دعا کرتے ہی یہ بشارت دے دی گئی ۔ قرآن مجید ہی میں ایک دوسرے مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی ا لْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ ’’ شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ‘‘ (سورہ ابراہیم ، آیت 39)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور اس بشارت کے درمیان سالہا سال کا فصل تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر 86 برس کی تھی (پیدائش 16:16)، اور حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت سو برس کی (61:5)۔

58. یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ابراہیمؑ نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ انہوں نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے ، بلکہ یہ دیکھا تھا کہ وہ اسے ذبح کر رہے ہیں ۔ اگر چہ اس وقت وہ خواب کا مطلب یہی سمجھے تھے کہ وہ صاحبزادے کو ذبح کر دیں ۔ اسی بنا پر وہ ٹھنڈے دل سے بیٹا قربان کر دینے کے لیے بالکل تیار ہو گئے تھے ۔ مگر خواب دکھانے میں جو باریک نکتہ اللہ تعالیٰ نے ملحوظ رکھا تھا اسے آگے کی آیت نمبر 105 میں اس نے خود کھول دیا ہے ۔

59. صاحبزادے سے یہ بات پوچھنے کا مدعا یہ نہ تھا کہ تو راضی ہو تو خدا کے فرمان کی تعمیل کروں ۔ بلکہ حضرت ابراہیمؑ دراصل یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ جس صالح اولاد کی انہوں نے دعا مانگی تھی ، وہ فی الواقع کس قدر صالح ہے ۔ اگر وہ خود بھی اللہ کی خوشنودی پر جان قربان کر دینے کے لیے تیار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دعا مکمل طور پر قبول ہوئی ہے اور بیٹا محض جسمانی حیثیت ہی سے ان کی اولاد نہیں ہے بلکہ اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی ان کا سپوت ہے ۔

60. یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ پیغمبر باپ کے خواب کو بیٹے نے محض خواب نہیں بلکہ خدا کا حکم سمجھا تھا۔ اب اگر یہ فی لواقع حکم نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ صراحۃً یا اشارۃً اس امر کی تصریح فرما دیتا کہ فرزند ابراہیم نے غلط فہمی سے اس کو حکم سمجھ لیا ۔ لیکن پورا سیاق و سباق ایسے کسی اشارے سے خالی ہے ۔ اسی بنا پر اسلام میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ انبیاء کا خواب محض خواب نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس بات سے ایک اتنا بڑا قاعدہ خدا کی شریعت میں شامل ہو سکتا ہو، وہ اگر مبنی بر حقیقت نہ ہوتی بلکہ محض ایک غلط فہمی ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی تردید نہ فرماتا ۔ قرآن کو کلام الہٰی ماننے والے کے لیے یہ تسلیم کرنا محال ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی بھول چوک بھی صادر ہو سکتی ہے ۔

61. یعنی حضرت ابراہیمؑ نے ذبح کرنے کے لیے بیٹے کو چِت نہیں لٹایا بلکہ اوندھے منہ لٹایا تاکہ ذبح کرتے وقت بیٹے کا چہرہ دیکھ کر کہیں محبت و شفقت ہاتھ میں لرزش پیدا نہ کر دے ۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ نیچے کی طرف سے ہاتھ ڈال کر چھری چلائیں ۔

62. نحویوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ’’اور ‘‘ بمعنی ’’تو‘‘ ہے یعنی فقرہ یوں ہے کہ ’’جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا تو ہم نے ندا دی ‘‘۔ لیکن ایک دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہاں لفظ ’’جب‘‘ کا جواب محذوف ہے اور اس کو ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کیونکہ بات اتنی بڑی تھی کہ اسے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے تصور ہی کے لیے چھوڑ دینا زیادہ مناسب تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا ہو گا کہ بوڑھا باپ اپنے ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کو محض ہماری خوشنودی پر قربان کر دینے کے لیے تیار ہو گیا ہے اور بیٹا بھی گلے پر چھری چلوانے کے لیے راضی ہے ، تو یہ منظر دیکھ کر کیسا کچھ دریائے رحمت نے جوش مارا ہو گا، اور مالک، کو ان باپ بیٹوں پر کیسا کچھ پیار آیا ہو گا، اس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے ۔ الفاظ میں اس کی کیفیت جتنی کچھ بھی بیان کی جائے گی وہ اس کو ادا نہیں کرے گی بلکہ اس کی اصلی شان سے کچھ گھٹ کر ہی ہو گی۔

63. یعنی ہم نے تمہیں یہ تو نہیں دکھایا تھا کہ تم نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے اور اس کی جان نکل گئی ہے ، بلکہ یہ دکھایا تھا کہ تم ذبح کر رہے ہو۔ تو وہ خواب تم نے پورا کر دکھایا ۔ اب ہمیں تمہارے بچے کی جان لینی مطلوب نہیں ہے ۔ اصل مدعا جو کچھ تھا وہ تمہاری اس آمادگی اور تیاری سے حاصل ہو گیا ہے ۔

64. یعنی جو لوگ احسان کی روش اختیار کرتے ہیں ان کے اوپر آزمائشیں ہم اس لیے نہیں ڈالا کر تے کہ انہیں خواہ مخواہ تکلیفوں میں ڈالیں اور رنج و غم میں مبتلا کریں ۔ بلکہ یہ آزمائشیں ان کی فضیلتوں کو ابھارنے کے لیے اور انہیں بڑے مرتبے عطا کرنے کے لیے ان پر ڈالی جاتی ہیں ، اور پھر آزمائش کی خاطر جس مخمصے میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے بخیریت ان کو نکلوا بھی دیتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھو، بیٹے کی قربانی کے لیے تمہاری آمادگی و تیاری ہی بس اس کے لیے کافی ہو گئی کہ تمہیں وہ مرتبہ عطا کر دیا جائے جو ہماری خوشنودی پر واقعی بیٹا قربان کر دینے والے کو مل سکتا تھا۔ اس طرح ہم نے تمہارے بچے کی جان بھی بچا دی اور تمہیں یہ مرتبۂ بلند بھی عطا کر دیا۔

65. یعنی مقصود تمہارے ہاتھ سے تمہارے بچے کو ذبح کرا دینا نہ تھا ، بلکہ اصل مقصود تمہارا امتحان لینا تھا کہ تم ہمارے مقابلے میں دنیا کی کسی چیز کو عزیز تر تو نہیں رکھتے ۔

66. ’’ بڑی قربانی‘‘ سے مراد ، جیسا کہ بائیبل اور اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے ، ایک مینڈھا ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے حضرت ابراہیمؑ کے سامنے پیش کیا، تاکہ بیٹے کے بدلے اس کو ذبح کر دیں ۔ اسے بڑی قربانی کے لفظ سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ وہ ابراہیمؑ جیسے وفادار بندے کے لیے فرزند ابراہیمؑ جیسے صابر و جاں نثار لڑکے کا فدیہ تھا، اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک بے نظیر قربانی کی نیت پوری کرنے کا وسیلہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ اسے ’’ بڑی قربانی‘‘ قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کر دی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری و جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں ۔

67. یہاں پہنچ کر یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے جن صاحبزادے کو قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنے آپ کو خود اس قربانی کے لیے پیش کر دیا تھا ، وہ کون تھے ۔ سب سے پہلے اس سوال کا جواب ہمارے سامنے بائیبل کی طرف سے آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ:

’’خدا نے ابراہام کو آزمایا اور اسے کہا اے ابراہام ـــــ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔‘‘ (پیدائش ، 22:1۔2)

اس بیان میں ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق کی قربانی مانگی تھی، اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اکلوتے تھے ۔ حالانکہ خود بائیبل ہی کے دوسرے بیانات سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسحاق اکلوتے نہ تھے ۔ اس کے لیے ذرا بائیبل ہی کی حسب ذیل تصریحات ملاحظہ ہوں :

’’اور ابرام کی بیوی ساری کے کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ اس کی ایک مصری لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔اور ساری نے ابرام سے کہا کہ دیکھ خداوند نے مجھے تو اولاد سے محروم رکھا ہے سو تو میری لونڈی کے پاس جا، شائد اس سے میرا گھر آباد ہو۔ اور ابرام نے ساری کی بات مانی۔ اور ابرام کو ملک کنعان میں رہتے دس برس ہو گئے تھے جب اس کی بیوی ساری نے اپنی مصری لونڈی اسے دی کہ اس کی بیوی بنے اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی۔‘‘(پیدائش، 16:1۔3)

’’خداوند کے فرشتے نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا پیدا ہو گا ۔ اس کا نام اسمٰعیل رکھنا‘‘(16:11)

’’جب ابرام سے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا‘‘(16:16)

اور خداوند نے ابرام سے کہا کہ ساری جو تیری بیوی ہے ــــــ اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا ـــــــ تو اس کا نام اضحاق رکھنا ــــــ جو اگلے سال اسی وقت معین پر سارہ سے پیدا ہو گا۔ ــــــــــ تب ابرہام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اور ـــــــ گھر کے سب مردوں کو لیا اور اسی روز خدا کے حکم کے مطابق ان کا ختنہ کیا۔ ابرہام ننانوے برس کا تھا جب اس کا ختنہ ہوا اور جب اسماعیل کا ختنہ ہو ا تو وہ تیرہ برس کا تھا(پیدائش 17:15۔25)

اور جب اس کا بیٹا اضحاق اس سے پیدا ہوا تو ابرہام سو برس کا تھا(پیدائش، 21:5)

اس سے بائیبل کی تضاد بیانی صاف کھل جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ 14 برس تک تنہا حضرت اسماعیل ہی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے تھے ۔ اب اگر قربانی اکلوتے بیٹے کی مانگی گئی تھی تو وہ حضرت اسحاق کی نہیں بلکہ حضرت اسمٰعیل کی تھی۔ کیونکہ وہی اکلوتے تھے ۔ اور اگر حضرت اسحاق کی قربانی مانگی گئی تھی تو پھر یہ کہنا غلط ہے کہ اکلوتے بیٹے کی قربانی مانگی گئی تھی۔

اس کے بعد ہم اسلامی روایات کو دیکھتے ہیں اور ان میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ مفسرین نے صحابہ و تابعین کی جو روایات نقل کی ہیں ان میں ایک گروہ کا قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ صاحبزادے حضرت اسحاق تھے ، اور اس گروہ میں حسب ذیل بزرگوں کے نام ملتے ہیں :

حضرت عمر ۔ حضرت علی۔حضرت عبداللہ بن مسعود۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ۔ حضرت ابو ہریرہ ۔ قتادہ۔ عکرمہ ۔ حسن بصری۔ سعید بن جُبیر۔ مجاہد۔ شعبی۔مسروق۔ مکحول ۔ زُہری۔ عطاء۔ مُقاتل۔ سدی۔ کعب اَحبار۔ زید بن اسلم وغیرہم۔

دوسرا گروہ کہتا ہے کہ وہ حضرت اسماعیل تھے۔ اور اس گروہ میں حسب ذیل بزرگوں کے نام نظر آتے ہیں :

حضرت ابو بکر ۔ حضرت علی۔ حضرت عبداللہ بن عمر۔ حضرت عبداللہ بن عباس۔ حضرت ابو ہریرہ ۔ حضرت معاویہ۔ عکرمہ۔ مجاہد۔ یوسف بن مہران ۔ حسن بصری ۔ محمد بن کعب القرظی ۔ شعبی۔ سعید بن المسیّب ۔ ضحاک ۔ محمد بن علی بن حسین(محمد الباقر)۔ ربیع بن انس۔ احمد بن حنبل وغیرہم۔

ان دونوں فہرستوں کا تقابل کیا جائے تو متعدد نام ان میں مشترک نظر آئیں گے ۔ یعنی ایک ہی بزرگ سے دو مختلف قول منقول ہوئے ہیں ۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس سے عکرمہ یہ قول نقل کرتے ہیں کہ وہ صاحبزادے حضرت اسحاق تھے ۔ مگر انہی سے عطاء بن ابی رباح یہ بات نقل کرتے ہیں کہ زعمت الیھود انہ اسحٰق وکذبت الیھود (یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسحٰق تھے ، مگر یہودی جھوٹ کہتے ہیں ) ۔ اسی طرح حضرت حسن بصری سے روایت یہ ہے کہ وہ حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کے قائل تھے ۔ مگر عمرو بن عُبید کہتے ہیں کہ حسن بصری کو اس امر میں کوئی شک نہیں تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کے جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا وہ اسماعیل علیہ السلام تھے ۔

اس اختلافِ روایات کا نتیجہ یہ ہو ہے کہ علماء اسلام میں سے بعض پورے جزم و وثوق کے ساتھ حضرت اسحٰق کے حق میں رائے دیتے ہیں ، مثلاً ابن جریر اور قاضی عیاض۔ اور بعض قطعی طور پر حکم لگاتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسماعیل تھے ، مثلاً ابن کثیر ۔اور بعض مذبذب ہیں ، مثلاً جلال الدین سیوطی۔ لیکن اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ امر ہر شک و شبہ سے بالا تر نظر آتا ہے کہ حضرت اسماعیل ہی ذبیح تھے ۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں :

1)۔ اوپر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ اپنے وطن سے ہجرت کرتے وقت حضرت ابراہیم نے ایک صالح بیٹے کے لیے دعا کی تھی اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حلیم لڑکے کی بشارت دی۔ فحوائے کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ دعا اس وقت کی گئی تھی جب آپ بے اولاد تھے ۔ اور بشارت جس لڑکے کی دی گئی وہ آپ کا پہلونٹا بچہ تھا۔ پھر یہ بھی قرآن ہی کے سلسلہ کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بچہ جب باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے کے قابل ہوا تو اسے ذبح کرنے کا اشارہ فرمایا گیا۔ اب یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے پہلوٹے صاحبزادے حضرت اسماعیل تھے نہ کہ حضرت اسحٰق ۔ خود قرآن مجید میں صاحبزادوں کی ترتیب اس طرح بیان ہوئی ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ (ابراہیم۔آیت 39)

2)۔ قرآن مجید میں جہاں حضرت اسحٰق کی بشارت دی گئی ہے وہاں ان کے لیے غلامِ علیم (علم والے لڑکے ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ فَبَشَّرُوْہُ بِغُلَا مٍ عَلِیْمٍ (الذاریات ۔28)۔ لَا تَوْ جَلْ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ (الحجر۔ 53)۔ مگر یہاں جس لڑکے کی بشارت دی گئی ہے اس کے لیے غلام حَلیم(برد بار لڑکے ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو صاحبزادوں کی دو نمایاں صفات الگ الگ تھیں ۔ اور ذبح کا حکم غلام علیم کے لیے نہیں بلکہ غلام حلیم کے لیے تھا۔

3)۔ قرآن مجید میں حضرت اسحٰق کی پیدائش کی خوش خبری دیتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ یہ خوشخبری بھی دے دی گئی تھی کہ ان کے ہاں یعقوبؑ جیسا بیٹا پیدا ہو گا۔ فَبَشَّرْ نَا ھَا بِاِ سْحٰقَ یَعْقُوْبَ (ہود۔71) اب ظاہر ہے کہ جس بیٹے کی پیدائش کی خبر دینے کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دی جاچکی ہو کہ اس کے ہاں ایک لائق لڑکا پیدا ہو گا ، اس کے متعلق اگر حضرت ابراہیم کو یہ خواب دکھایا جا تا کہ آپ اسے ذبح کر رہے ہیں ، تو حضرت ابراہیم اس سے کبھی یہ نہ سمجھ سکتے تھے کہ اس بیٹے کو قربان کر دینے کا اشارہ فرمایا جا رہا ہے ۔ علامہ ابن جریر اس دلیل کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ممکن ہے یہ خواب حضرت ابراہیمؑ کو اس وقت دکھایا گیا ہو جب حضرت اسحاق کے ہاں حضرت یعقوبؑ پیدا ہو چکے ہوں ۔ لیکن درحقیقت یہ اس دلیل کا نہایت ہی بودا جواب ہے ۔ قرآن مجید کے الفاظ یہ ہیں کہ ‘‘ جب وہ لڑکا باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے کے قابل ہو گیا ‘‘ تب یہ خواب دکھایا گیا تھا ۔ ان الفاظ کو جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر پڑھے گا اس کے سامنے آٹھ دس برس کے بچے کی تصویر آئے گی۔ کوئی شخص بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ جو ان صاحب اولاد بیٹے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہوں گے ۔

4)۔ اللہ تعالیٰ سارا قصہ بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتا ہے کہ ’’ ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے ‘‘ ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی بیٹا نہیں ہے جسے ذبح کرنے کا اشارہ کیا گیا تھا۔ بلکہ پہلے کسی اور بیٹے کی بشارت دی گئی۔ پھر جب وہ باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے کے قابل ہوا تو اسے ذبح کرنے کا حکم ہوا۔ پھر جب حضرت ابراہیم اس امتحان میں کامیاب ہو گئے تب ان کو ایک اور بیٹے اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت دی گئی ۔ یہ ترتیب واقعات قطعی طور پر فیصلہ کر دیتی ہے کہ جن صاحبزادے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا وہ حضرت اسحاق نہ تھے ، بلکہ وہ ان سے کئی برس پہلے پیدا ہو چکے تھے ۔ علامہ ابن جریر اس صریح دلیل کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ پہلے صرف حضرت اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔ پھر جب وہ خدا کی خوشنودی پر قربان ہونے کے لیے تیار ہو گئے تو اس کا انعام اس شکل میں دیا گیا کہ ان کے نبی ہونے کی خوشخبری دی گئی ۔ لیکن یہ ان کے پہلے جواب سے بھی زیادہ کمزور جواب ہے ۔ اگر فی الواقع بات یہی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یوں نہ فرماتا کہ ’’ ہم نے اس کو اسحاق کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے ‘‘۔ بلکہ ہوں فرماتا کہ ہم نے اس کو یہ بشارت دی کہ تمہارا یہی لڑکا ایک نبی ہو گا صالحین میں سے ۔

معتبر روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کے فدیہ میں جو مینڈھا ذبح کیا گیا تھا اس کے سینگ خانہ کعبہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانے تک محفوظ تھے ۔ بعد میں جب حجاج بن یوسف نے حرم میں اب زبیر کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کر دیا تو وہ سینگ بھی ضائع ہو گئے ۔ ابن عباس اور عامر شعبی دونوں اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے خود خانہ کعبہ میں یہ سینگ دیکھے ہیں (ابن کثیر )۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قربانی کا یہ واقعہ شام میں نہیں بلکہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا، اور حضرت اسماعیل کے ساتھ پیش آیا تھا، اسی لیے تو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل کے تعمیر کردہ خانہ کعبہ میں اس کی یاد گار محفوظ رکھی گئی تھی۔

6)۔ یہ بات صدیوں سے عرب کی روایات میں محفوظ تھی کہ قربانی کا یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا تھا۔ اور یہ صرف روایت ہی نہ تھی بلکہ اس وقت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تم مناسک حج میں یہ کام بھی برابر شامل چلا آ رہا تھا کہ اسی مقام منیٰ میں جا کر لوگ اسی جگہ پر جہاں حضرت ابراہیمؑ نے قربانی کی تھی، جانور قربان کیا کرتے تھے ۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو آپ نے بھی اس طریقے کو جاری رکھا ، حتیٰ کہ آج تک حج کے موقع پر دس ذی الحجہ کو منیٰ میں قربانیاں کی جاتی ہیں ۔ ساڑھے چار ہزار برس کا یہ متواتر عمل اس امر کا ناقابل انکار ثبوت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کے وارث بنی اسماعیل ہوئے ہیں نہ کہ بنی اسحٰق ۔ حضرت اسحٰق کی نسل میں ایسی کوئی رسم کبھی جاری نہیں رہی ہے جس میں ساری قوم بیک وقت قربانی کرتی ہو اور اسے حضرت ابراہیم کی قربانی کی یادگار کہتی ہو۔

یہ ایسے دلائل ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ بات قابل تعجب نظر آتی ہے کہ خود امت مسلمہ میں حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کا خیال آخر پھیل کیسے گیا۔ یہودیوں نے اگر حضرت اسماعیلؑ کو اس شرف سے محروم کر کے اپنے دادا حضرت اسحٰق کی طرف اسے منسوب کرنے کو کوشش کی تو یہ ایک سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ لیکن آخر مسلمانوں کے ایک گروہ کثیر نے ان کی اس دھاندلی کو کیسے قبول کر لیا؟ اس سوال بہت شافی جواب علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں :

’’حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے ، مگر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے دراصل یہ سارے اقوال (جو حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کے حق میں ہیں )کعب احبار سے منقول ہیں ۔ یہ صاحب جب حضرت عمر کے زمانے میں مسلمان ہوئے تو کبھی کبھی یہ یہود و نصاریٰ کی قدیم کتابوں کے مندرجات ان کو سنایا کرتے تھے اور حضرت عمر انہیں سن لیا کرتے تھے ۔ اس بنا پر دوسرے لوگ بھی ان کی باتیں سننے لگے اور سب رطب و یابس جو وہ بیان کرتے تھے انہیں روایت کرنے لگے ۔ حالانکہ اس امت کو ان کے اس ذخیرۂ معلومات میں سے کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی۔‘‘

اس سوال پر مزید روشنی محمد بن کعب قرظی کی ایک روایت سے پڑتی ہے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاں یہ سوال چھڑا کہ ذبیح حضرت اسحاق تھے یا حضرت اسماعیل۔ اس وقت ایک ایسے صاحب بھی مجلس میں موجود تھے جو پہلے یہودی علماء میں سے تھے اور بعد میں سچے دل سے مسلمان ہو چکے تھے ۔ انہوں نے کہا،’’ امیرالمومنین ، خدا کی قسم وہ اسمٰعیل ہی تھے ، اور یہودی اس بات کو جانتے ہیں ، مگر وہ عربوں سے حسد کی بنا پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسحٰق تھے ‘‘(ابن جریر)۔ ان دونوں باتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل یہ یہودی پروپیگنڈا کا اثر تھا جو مسلمانوں میں پھیل گیا، اور مسلمان چونکہ علمی معاملات میں ہمیشہ غیر متعصب رہے ہیں ، اس لیے ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہودیوں کے ان بیانات کو، جو وہ قدیم صحیفوں کے حوالہ سے تاریخی روایات کے بھیس میں پیش کرتے تھے ، محض ایک علمی حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا اور یہ محسوس نہ کیا کہ اس میں علم کے بجائے تعصب کار فرما ہے ۔

68. یہ فقرہ اس پورے مقصد پر روشنی ڈالتا ہے جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کایہ قصہ یہاں بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹوں کی نسل سے دو بہت بڑی قومیں پیدا ہوئیں ۔ ایک بنی اسرائیل ، جن کے گھر سے دنیا کے دو بڑے مذہب (یہودیت اور نصرانیت)نکلے اور انہوں نے روئے زمین کے بہت بڑے حصے کو حلقہ بگوش بنایا ۔ دوسرے بنی اسمٰعیل جو نزول قرآن کے وقت تمام اہل عرب کے مقتدا و پیشوا تھے ، اور اس وقت مکہ معظمہ کے قبیلہ قریش کو ان میں سب سے زیادہ اہم مقام حاصل تھا۔ نسلِ ابراہیمی کی ان دونوں شاخوں کو جو کچھ بھی عروج نصیب ہوا وہ حضرت ابراہیم اور ان کے ان دو عظیم المرتبت صاحبزادوں کے ساتھ انتساب کی بدولت ہوا ، ورنہ دنیا میں نہ معلوم ایسے ایسے کتنے خاندان پیدا ہوئے ہیں اور گوشۂ گمنامی میں جا پڑے ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ اس خاندان کی تاریخ کا سب سے زیادہ زرین کارنامہ سنانے کے بعد ان دونوں گروہوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تمہیں دنیا میں یہ جو کچھ شرف نصیب ہوا ہے وہ خدا پرستی اور اخلاص و فدویّت کی ان شاندار روایات کی وجہ سے ہوا ہے جو تمہارے باپ دادا ابراہیم و اسمٰعیل اور اسحاق علیہم السلام نے قائم کی تھیں ۔ وہ انہیں بتاتا ہے کہ ہم نے ان کو جو برکت عطا فرمائی اور ان پر اپنے فضل و کرم کی جو بارشیں برسائیں ، یہ کوئی اندھی بانٹ نہ تھی کہ بس یونہی ایک شخص اور اس کے دو لڑکوں کو چھانٹ کر نواز دیا گیا ہو، بلکہ انہوں نے اپنے مالک حقیقی کے ساتھ اپنی وفاداری کے کچھ ثبوت دیے تھے اور ان کی بنا پر وہ ان عنایات کے مستحق بنے تھے ۔ اب تم لوگ محض اس فخر کی بنا پر کہ تم ان کی اولاد ہو، ان عنایات کے مستحق نہیں ہو سکتے ۔ ہم تو یہ دیکھیں گے کہ تم میں سے محسن کون ہے اور ظالم کون۔ پھر جو جیسا ہو گا، اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کریں گے ۔