Tafheem ul Quran

Surah 38 Sad, Ayat 1-14

صٓ​ وَالۡقُرۡاٰنِ ذِى الذِّكۡرِؕ‏ ﴿38:1﴾ بَلِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فِىۡ عِزَّةٍ وَّشِقَاقٍ‏ ﴿38:2﴾ كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِيۡنَ مَنَاصٍ‏ ﴿38:3﴾ وَعَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَهُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡهُمۡ​ وَقَالَ الۡكٰفِرُوۡنَ هٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ​ ۖ​ۚ‏ ﴿38:4﴾ اَجَعَلَ الۡاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۖۚ اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ عُجَابٌ‏ ﴿38:5﴾ وَانْطَلَقَ الۡمَلَاُ مِنۡهُمۡ اَنِ امۡشُوۡا وَاصۡبِرُوۡا عَلٰٓى اٰلِهَتِكُمۡ​ ​ۖۚ​ اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ يُّرَادُ ۖ​ۚ‏ ﴿38:6﴾ مَا سَمِعۡنَا بِهٰذَا فِى الۡمِلَّةِ الۡاٰخِرَةِ ۖۚ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا اخۡتِلَاقٌ ​ ۖ​ۚ‏ ﴿38:7﴾ ءَاُنۡزِلَ عَلَيۡهِ الذِّكۡرُ مِنۡۢ بَيۡنِنَا​ؕ بَلۡ هُمۡ فِىۡ شَكٍّ مِّنۡ ذِكۡرِىۡ​ۚ بَلْ لَّمَّا يَذُوۡقُوۡا عَذَابِؕ‏ ﴿38:8﴾ اَمۡ عِنۡدَهُمۡ خَزَآئِنُ رَحۡمَةِ رَبِّكَ الۡعَزِيۡزِ الۡوَهَّابِ​ۚ‏ ﴿38:9﴾ اَمۡ لَهُمۡ مُّلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا​فَلۡيَرۡتَقُوۡا فِى الۡاَسۡبَابِ‏ ﴿38:10﴾ جُنۡدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهۡزُوۡمٌ مِّنَ الۡاَحۡزَابِ‏ ﴿38:11﴾ كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّعَادٌ وَّفِرۡعَوۡنُ ذُو الۡاَوۡتَادِۙ‏  ﴿38:12﴾ وَثَمُوۡدُ وَقَوۡمُ لُوۡطٍ وَّاَصۡحٰبُ لْئَیْكَةِ​ ؕ اُولٰٓـئِكَ الۡاَحۡزَابُ‏  ﴿38:13﴾ اِنۡ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ‏ ﴿38:14﴾

1 - ص، 1 قسم ہے نصیحت بھرے 2 قرآن کی ، 2 - بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے، سخت تکبُّر اور ضِد میں مبتلا ہیں۔ 3 3 - اِن سے پہلے ہمہ ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور جب اُن کی شامت آئی ہے)تو وہ چیخ اُٹھے ہیں، مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا۔ 4 - اِن لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجّب ہوا کہ ایک ڈرانے والا کود اِنہی میں سے آگیا۔ 4 منکرین کہنے لگے کہ ” یہ ساحِر ہے 5 ، سخت جھُوٹا ہے ، 5 - کیااِس نے سارے خداوٴں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔“ 6 - اور سردارانِ قوم یہ کہتے ہوئے نِکل گئے 6 کہ ”چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبُودوں کی عبادت پر۔ یہ بات 7 تو کسی اور ہی غرض سے کہی جارہی ہے۔ 8 7 - یہ بات ہم نے زمانہٴ قریب کی مِلّت میں کسی سے نہیں سُنی۔ 9 یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات۔ 8 - کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا؟“ اصل بات یہ ہے کہ یہ میرے ”ذِکر“ پر شک کر رہے ہیں، 10 اور یہ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزا چکھّا نہیں ہے۔ 9 - کیا تیرے داتا اور غالب پروردگار کی رحمت کے خزانے اِن کے قبضے میں ہیں؟ 10 - کیا یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں؟ اچھا تو یہ عالمِ اسباب کی بلندیوں پر چڑھ کر دیکھیں! 11 11 - یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اِسی جگہ شکست کھانے والا ہے۔ 12 12 - اِن سے پہلے توحؑ کی قوم، اور عاد، اور میخوں والا فرعون جھُٹلا چکے ہیں۔ 13 ، 13 - اور ثمود، اور قومِ لوطؑ ، اور اَیکہ والے جتّھے وہ تھے۔ 14 - ان میں سے ہر ایک نے رسُولوں کو جھُٹلایا اور میری عقوبت کا فیصلہ اس پر چسپاں ہو کر رہا۔ ؏۱


Notes

1. اگرچہ تمام حروف مقطعات کی طرح ص کے مفہوم کا تعین بھی مشکل ہے۔لیکن ابن عباس اورضحاک، یہ قول بھی دل کو لگتاہے کہ اس سے مراد ہے صادقٌ فی قولہ،یا صدَقَ محمدٌ۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق ہیں۔جو کچھ کہہ رہے ہیں، سچ کہہ رہے ہیں۔ص کے حرف کو ہم اردو میں بھی اسی سے ملتے جلتے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔مثلاً کہتے ہیں میں اس پر صاد کرتا ہوں، یعنی اس کی تصدیق کرتا ہوں،یا اسے صحیح قرار دیتا ہوں۔

2. اصل الفاظ ہیں ذی الذکر۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک ذی شرف، یعنی قرآن بزرگ۔ دوسرے ذی ا لتذکیر، یعنی نصیحت سے لبریز قرآن، یا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والا اور غفلت سے چونکانے والا قرآن۔

3. اگر ص کی وہ تاویل قبول کی جائے جو ابن عباس اور ضحاک نے بیان کی ہے تو اس جملے کا مطلب یہ ہو گا کہ ’’ قسم ہے اس قرآنِ بزرگ، یا اس نصیحت سے لبریز قرآن کی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سچی بات پیش کر رہے ہیں ، مگر جو لوگ انکار پر جمے ہوئے ہیں وہ دراصل ضد اور تکبر میں مبتلا ہیں ۔‘‘ اور اگر ص کو ان حروف مقطعات میں سے سمجھا جائے جن کا مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا، تو پھر قسم کا جواب محذوف ہے جس پر ’’بلکہ ‘‘ اور اس کے بعد کا فقرہ خود روشنی ڈالتا ہے ۔ یعنی پوری عبارت پھر یوں ہو گی کہ ’’ ان منکرین کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جو دین ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی خلل ہے ۔ یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سامنے اظہار حق میں کوئی کوتاہی کی ہے ، بلکہ اس کی وجہ صرف ان کی جھوٹی شیخی، ان کی جاہلانہ نخوت اور ان کی ہٹ دھرمی ہے ، اور اس پر یہ نصیحت بھرا قرآن شاہد ہے جسے دیکھ کر ہر غیر متعصب آدمی تسلیم کرے گا کہ اس میں فہمائش کا حق پوری طرح ادا کر دیا گیا ہے ‘‘

4. یعنی یہ ایسے احمق لوگ ہیں کہ جب ایک دیکھا بھا لا آدمی خود ان کی اپنی جنس، اپنی قوم اور اپنی ہی برادری میں سے ان کو خبردار کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی۔ حالانکہ عجیب بات اگر ہوتی تو یہ ہوتی کہ انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے آسمان سے کوئی اور مخلوق بھیج دی جاتی، یا ان کے درمیان یکایک ایک اجنبی آدمی کہیں باہر سے آ کھڑا ہوتا اور نبوت کرنی شروع کر دیتا۔ اس صورت میں تو بلاشبہ یہ لوگ بجا طور پر یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ عجیب حرکت ہمارے ساتھ کی گئی ہے ، بھلا جو انسان ہی نہیں ہے وہ ہمارے حالات اور جذبات اور ضروریات کو کیا جانے گا کہ ہماری رہنمائی کر سکے ، یا جو اجنبی آدمی اچانک ہمارے درمیان آگیا ہے اس کی صداقت کو آخر ہم کیسے جانچیں اور کیسے معلوم کریں کہ یہ بھروسے کے قابل آدمی ہے یا نہیں ، اس کی سیرت و کردار کو ہم نے کب دیکھا ہے کہ اس کی بات کا اعتبار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر سکیں ۔

5. حضورؐ کے لیے ساحر کا لفظ وہ لوگ اس معنی میں بولتے تھے کہ یہ شخص کچھ ایسا جادو کرتا ہے جس سے آدمی دیوانہ ہو کر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔ کسی تعلق کے کٹ جانے اور کوئی نقصان پہنچ جانے کی پروا نہیں کرتا۔ باپ کو بیٹا اور بیٹے کو باپ چھوڑ بیٹھتا ہے ۔بیوی شوہر کو چھوڑ دیتی ہے اور شوہر بیوی سے جدا ہو جاتا ہے ۔ ہجرت کی نوبت آئے تو دامن جھاڑ کر وطن سے نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ کاروبار بیٹھ جائے اور سارے برادری بائیکا ٹ کر دے تو اسے بھی گوارا کر لیتا ہے ۔سخت جسمانی اذیتیں بھی انگیز کر جاتا ہے ، مگر اس شخص کا کلمہ پڑھنے سے کسی طرح باز نہیں آتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم،سورۃ الانبیاء حاشیہ 5

6. اشارہ ہے ان سرداروں کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سن کر ابو طالب کی مجلس سے اٹھ گئے تھے ۔

7. یعنی حضورؐ کا یہ کہنا کہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم سب تمہارے تابع فرمان ہو جائیں گے ۔

8. ان مطلب یہ تھا کہ اس دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے ، دراصل یہ دعوت اس غرض سے دی جا رہی ہے کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے تابع فرمان ہو جائیں اور یہ ہم پر اپنا حکم چلائیں ۔

9. یعنی قریب کے زمانے میں ہمارے اپنے بزرگ بھی گزرے ہیں ، عیسائی اور یہودی بھی ہمارے ملک اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں ، اور مجوسیوں سے ایران و عراق اور مشرقی عرب بھرا پڑا ہے ۔ کسی نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا کہ انسان بس ایک اللہ رب العالمین کو مانے اور دوسرے کسی کو نہ مانے ۔ ‘آخر ایک اکیلے خدا پر کون اکتفا کرتا ہے ۔ اللہ کے پیاروں کو تو سب ہی مان رہے ہیں ۔ ان کے آستانوں پر جا کر ماتھے رگڑ رہے ہیں ۔ نذریں دے رہے ہیں ۔ دعائیں مانگ رہے ہیں ۔ کہیں سے اولاد ملتی ہے ۔ کہیں سے رزق ملتا ہے ۔ کسی آستانے پر جو مراد مانگو بر آتی ہے ۔ ان کے تصرّفات کو ایک دنیا مان رہی ہے اور ان سے فیض پانے والے بتا رہے ہیں کہ ان درباروں سے لوگوں کی کس کس طرح مشکل کشائی و حاجت روائی ہوتی ہے ۔ اب اس شخص سے ہم یہ نرالی بات سن رہے ہیں ، جو کبھی کسی سے نہ سنی تھی، کہ ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصہ نہیں اور پوری کی پوری خدائی بس ایک اکیلے اللہ ہی کی ہے ۔

10. با الفاظ دیگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیک و سلم )یہ لوگ دراصل تمہیں نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ مجھے جھٹلا رہے ہیں ۔ تمہاری صداقت پر تو پہلے کبھی انہوں نے شک نہیں کیا تھا۔ آج یہ شک جو کیا جا رہا ہے یہ دراصل میرے ’’ ذکر‘‘ کی وجہ سے ہے ۔ میں نے ان کو نصیحت کرنے کی خدمت جب تمہارے سپرد کی تو یہ اسی شخص کی صداقت میں شک کرنے لگے جس کی راستبازی کی پہلے قسمیں کھایا کرتے تھے ۔ یہی مضمون سورہ انعام آیت 33 میں بھی گزر چکا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام حاشیہ 21)۔

11. یہ کفار کے اس قول کا جواب ہے کہ ’’ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کیا گیا۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ نبی ہم کس کو بنائیں اور کسے نہ بنائیں ، اس کا فیصلہ کرنا ہمارا اپنا کام ہے ۔ یہ لوگ آخر کب سے اس فیصلے کے مختار ہو گئے ۔ اگر یہ اس کے مختار بننا چاہتے ہیں تو کائنات کی فرمانروائی کے منصب پر قبضہ کرنے کے لیے عرش پر پہنچنے کی کوشش کریں تاکہ جسے یہ اپنی رحمت کا مستحق سمجھیں، اس پر وہ نازل ہو، اور جسے ہم مستحق سمجھتے ہیں اس پر وہ نازل نہ ہو۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ، کیونکہ کفار قریش بار بار کہتے تھے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کیسے نبی بن گئے ، کیا خدا کو قریش کے بڑے بڑے سرداروں میں سے کوئی اس کام کے لیے نہ ملا تھا (ملاحظہ ہو سورہ بنی اسرائیل، آیت 100۔ الزخرف، آیات 31۔32)

12. ’’ اسی جگہ‘‘کا اشارہ مکہ معظمہ کی طرف ہے ۔ یعنی جہاں یہ لوگ یہ باتیں بنا رہے ہیں ، اسی جگہ ایک دن یہ شکست کھانے والے ہیں اور یہیں وہ وقت آنے والا ہے جب یہ منہ لٹکائے اسی شخص کے سامنے کھڑے ہوں گے جسے آج یہ حقیر سمجھ کر نبی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں ۔

13. فرعون کے لیے ’’ ذی الا وتاد ‘‘ (میخوں والا ) یا تو اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی سلطنت ایسی مضبوط تھی گویا میخ پر ٹھکی ہوئی ہو۔ یا اس بنا پر کہ اس کے کثیر التعداد لشکر جہاں ٹھیرتے تھے وہاں ہر طرف خیموں کی میخیں ہی میخیں ٹھکی نظر آتی تھیں ۔ یا اس بنا پر کہ وہ جس سے ناراض ہوتا تھا اسے میخیں ٹھونک کر عذاب دیا کرتا تھا۔ اور ممکن ہے کہ میخوں سے مراد اہرام مصر ہوں جو زمین کے اندر میخ کی طرح ٹھکے ہوئے ہیں ۔