Tafheem ul Quran

Surah 38 Sad, Ayat 15-26

وَمَا يَنۡظُرُ هٰٓؤُلَاۤءِ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً مَّا لَهَا مِنۡ فَوَاقٍ‏  ﴿38:15﴾ وَقَالُوۡا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبۡلَ يَوۡمِ الۡحِسَابِ‏ ﴿38:16﴾ اِصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَاذۡكُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَيۡدِ​ۚ اِنَّـهٗۤ اَوَّابٌ‏ ﴿38:17﴾ اِنَّا سَخَّرۡنَا الۡجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحۡنَ بِالۡعَشِىِّ وَالۡاِشۡرَاقِۙ‏  ﴿38:18﴾ وَالطَّيۡرَ مَحۡشُوۡرَةً ؕ كُلٌّ لَّـهٗۤ اَوَّابٌ‏ ﴿38:19﴾ وَشَدَدۡنَا مُلۡكَهٗ وَاٰتَيۡنٰهُ الۡحِكۡمَةَ وَفَصۡلَ الۡخِطَابِ‏ ﴿38:20﴾ وَهَلۡ اَتٰٮكَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ​ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَۙ‏ ﴿38:21﴾ اِذۡ دَخَلُوۡا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنۡهُمۡ​ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ​ۚ خَصۡمٰنِ بَغٰى بَعۡضُنَا عَلٰى بَعۡضٍ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَنَا بِالۡحَقِّ وَلَا تُشۡطِطۡ وَاهۡدِنَاۤ اِلٰى سَوَآءِ الصِّرَاطِ‏ ﴿38:22﴾ اِنَّ هٰذَاۤ اَخِىۡ لَهٗ تِسۡعٌ وَّتِسۡعُوۡنَ نَعۡجَةً وَّلِىَ نَعۡجَةٌ وَّاحِدَةٌ فَقَالَ اَكۡفِلۡنِيۡهَا وَعَزَّنِىۡ فِى الۡخِطَابِ‏ ﴿38:23﴾ قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ​ ؕ وَاِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ الۡخُلَـطَآءِ لَيَبۡغِىۡ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِيۡلٌ مَّا هُمۡ​ ؕ وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ‏ ﴿38:24﴾ فَغَفَرۡنَا لَهٗ ذٰ لِكَ​ ؕ وَاِنَّ لَهٗ عِنۡدَنَا لَزُلۡفٰى وَحُسۡنَ مَاٰبٍ‏  ﴿38:25﴾ يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰكَ خَلِيۡفَةً فِى الۡاَرۡضِ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الۡهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا يَوۡمَ الۡحِسَابِ‏ ﴿38:26﴾

15 - یہ لوگ بھی بس ایک دھماکے کے منتظر ہیں جس کے بعد کوئی دوسرا دھماکا نہ ہوگا۔ 14 16 - اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ، یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصّہ ہمیں جلدی سے دے دے۔ 15 17 - اے نبیؐ ، صبر کرو اُن باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں، 16 اور اِن کے سامنے ہمارے بندے داوٴدؑ کا قصّہ بیان کرو 17 جو بڑی قوّتوں کا مالک تھا۔ 18 ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رُجوع کرنے والا تھا۔ 18 - ہم نے پہاڑوں کو اس کے ساتھ مسخّر کر رکھا تھا کہ صبح و شام وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ 19 - پرندے سِمٹ آتے اور سب کے سب اُس کی تسبیح کی طرف متوجّہ ہو جاتے تھے۔ 19 20 - ہم نے اس کی سلطنت مضبُوط کر دی تھی، اس کو حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کُن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی۔ 20 21 - پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے اُن مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اُس کے بالاخانے میں گھُس آئے تھے؟ 21 22 - جب وہ داوٴد ؑ کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر گھبرا گیا۔ 22 انہوں نے کہا” ڈریے نہیں، ہم دو فریقِ مقدمہ ہیں جن میں سے ایک نے دُوسرے پر زیادتی کی ہے۔ آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجیے، بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں راہِ راست بتائیے۔ 23 - یہ میرا بھائی ہے، 23 اِس کے پاس ننّانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی دُنبی ہے۔ اِس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک دُنبی بھی میرے حوالے کردے اور اس نے گفتگو میں مجھے دبا لیا۔“ 24 24 - داوٴدؑ نے جواب دیا” اِس شخص نے اپنی دُنبیوں کے ساتھ تیری دُنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا ، 25 اور واقعہ یہ ہے کہ مِل جُل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دُوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں ، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عملِ صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں۔“ (یہ بات کہتے کہتے)داوٴدؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اُس کی آزمائش کی ہے ، چنانچہ اس نے اپنے ربّ سے معافی مانگی اور سجدے میں گِر گیا اور رُجوع کر لیا۔ 26 السجدة ١۰ 25 - تب ہم نے اس کا وہ قصُور معاف کیا اور یقیناً ہمارے ہاں اس کے لیے تقرُّب کا مقام اور بہتر انجام ہے۔ 27 26 - ( ہم نے اس سے کہا)” اے داوٴدؑ ، ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تُو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقیناً اُن کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھُول گئے ۔“ 28 ؏۲


Notes

14. یعنی عذاب کا ایک ہی کڑکا انہیں ختم کر دینے کے لیے کافی ہو گا۔ کسی دوسرے کڑکے کی حاجت پیش نہ آئے گی۔ دوسرا مفہوم اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد پھر انہیں کوئی افاقہ نصیب نہ ہو گا، اتنی دیر کی بھی مہلت نہ ملے گی جتنی دیر اُونٹنی کا دودھ نچوڑتے وقت ایک دفعہ سونتے ہوئے تھن میں دوبارہ سونتنے تک دودھ اترنے میں لگتی ہے ۔

15. یعنی اللہ کے عذاب کا حال تو ہے وہ جو ابھی بیان کیا گیا، اور ان نادانوں کا حال یہ ہے کہ یہ نبی سے مذاق کے طور پر کہتے ہیں کہ جس یوم الحساب سے تم ہمیں ڈراتے ہو اس کے آنے تک ہمارے معاملے کو نہ ٹالو بلکہ ہمارا حساب ابھی چُکوا دو،جو کچھ بھی ہمارے حصے کی شامت لکھی ہے وہ فوراً ہی آ جائے ۔

16. اشارہ ہے کفار مکہ کی ان باتوں کی طرف جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ان کی یہ بکواس کہ یہ شخص ساحر اور کذاب ہے ، اور ان کا یہ اعتراض کہ اللہ میاں کے پاس رسول بنانے کے لیے کیا بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا۔ اور یہ الزام کہ اس دعوت توحید سے اس شخص کا مقصد کوئی مذہبی تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کی نیت کچھ اور ہی ہے ۔

17. اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو۔‘‘ پہلے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے ۔ اور دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ اس قصے کی یاد خود تمہیں صبر کرنے میں مدد دے گی۔ چونکہ یہ قصہ بیان کرنے سے دونوں ہی باتیں مقصود ہیں ، اس لیے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جو دونوں مفہوموں پر دلالت کرتے ہیں (حضرت داؤد کے قصے کی تفصیلات اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکی ہیں : تفہیم القرآن جلد اول،البقرۃ حاشیہ 273۔ جلد دوم، بنی اسرائیل حاشیہ 7-63۔ جلد سوم، الانبیاء حواشی 70تا73،النمل حواشی 18تا20۔ جلد چہارم، سورہ سبا حواشی 14 تا 16)

18. اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد، ’’ ہاتھوں والا‘‘۔ ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں ، دوسرے زبانوں میں بھی قوت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ’’ ہاتھوں والے ’’ تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے ۔ ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً جسمانی طاقت، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا۔ فوجی اور سیاسی طاقت، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی۔ اخلاقی طاقت، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے ۔ اور عبادت کی طاقت، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود، صحیحین کی روایت کے مطابق، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے ۔ امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرواء کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَا نَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ، ‘‘ وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے ۔’’

19. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم،الانبیاء حاشیہ 71۔

20. یعنی ان کا کلام الجھا ہوا نہ تھا کہ ساری تقریر سن کر بھی آدمی نہ سمجھ سکے کہ کہنا کیا چاہتے ہیں ، بلکہ وہ جس معاملہ پر بھی گفتگو کرتے ، اس کے تمام بنیادی نکات کو منقح کر کے رکھ دیتے ، اور اصل فیصلہ طلب مسئلے کو ٹھیک ٹھیک متعین کر کے اس کا بالکل دو ٹوک جواب دے دیتے تھے ۔ یہ بات کسی شخص کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک وہ عقل و فہم اور قادرالکلامی کے اعلیٰ مرتبہ پر پہنچا ہوا نہ ہو۔

21. حضرت داؤد کا ذکر جس غرض کے لیے اس مقام پر کیا گیا ہے اس سے مقصود دراصل یہی قصہ سنانا ہے جو یہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے ان کی جو صفات عالیہ بطور تمہید بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ داؤد علیہ السلام، جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے ، کس مرتبے کے انسان تھے ۔

22. گھبرانے کی وجہ یہ تھی کہ دو آدمی فرمانروائے وقت کے پاس اس کی خلوت گاہ میں سیدھے راستے سے جانے کے بجائے یکایک دیوار چڑھ کر جا پہنچے تھے ۔

23. بھائی سے مراد حقیقی بھائی نہیں بلکہ دینی اور قومی بھائی ہے ۔

24. آگے کی بات سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی ضروری ہے کہ استغاثہ کا یہ فریق یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اس شخص نے میری وہ ایک دُنبی چھین لی اور اپنی دُنبیوں میں ملا لی، بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مجھ سے میری دنبی مانگ رہا ہے ، اور اس نے گفتگو میں مجھ دبا لیا ہے ، کیونکہ یہ بڑی شخصیت کا آدمی ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں ، میں اپنے اندر اتنی سکت نہیں پاتا کہ اس کا مطالبہ رد کر دوں ۔

25. یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ حضرت داؤد نے ایک ہی فریق کی بات سن کر اپنا فیصلہ کیسے دے دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مدعی کی شکایت پر مدعا علیہ خاموش رہا اور اس کی تردید میں کچھ نہ بولا تو یہ خود ہی اس کے اقرار کا ہم معنی تھا۔ اس بنا پر حضرت داؤد نے یہ رائے قائم کی کہ واقعہ وہی کچھ ہے جو مدعی بیان کر رہا ہے ۔

26. اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام پر سجدہ تلاوت واجب ہے یا نہیں ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے ۔ اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں ۔ اس سلسلے میں ابن عباس سے تین روایتیں محدثین نے نقل کی ہیں ۔ عکرمہ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباس نے فرمایا ’’ یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر میں نے اس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کرتے دیکھا ہے ۔‘‘ (بخاری،ابوداؤد، ترمذی، نسائی، مسند احمد)۔ دوسری روایات جو ان سے سعید بن جُبیر نے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ سورہ ص میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا اور فرمایا: داؤد علیہ السلام نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں ‘‘ یعنی اس بات پر کہ ان کی توبہ قبول ہوئی (نسائی)۔ تیسری روایت جو مجاہد نے ان سے نقل کی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا ہے کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبھُِدٰ ھُمُ اقْتَدِہ، ’’ یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ نے راہ راست دکھائی تھی، لہٰذا تم ان کے طریقے کی پیروی کرو‘‘۔ اب چونکہ حضرت داؤد بھی ایک نبی تھے اور انہوں نے اس موقع پر سجدہ کیا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ان کی اقتدا میں یہاں سجدہ فرمایا (بخاری)۔ یہ تین بیانا ت تو حضرت ابن عباس کے ہیں ۔ اور حضرت ابوسعید خدری کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں سورہ ص پڑھی اور جب آپؐ اس آیت پر پہنچے تو آپؐ نے منبر پر سے اتر کر سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ سب حاضرین نے بھی سجدہ کیا۔ پھر ایک دوسرے موقع پر اسی طرح آپؐ نے یہی سورہ پڑھی تو اس آیت کو سنتے ہی لوگ سجدہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ حضورؐ نے فرمایا’’ یہ ایک نبی کی توبہ ہے ، مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے ہو‘‘ ــــــ یہ فرما کر آپؐ منبر سے اترے اور سجدہ کیا اور سب حاضرین نے بھی کیا (ابوداؤد)۔، ان روایات سے اگرچہ وجوب سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی، لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے ، اور سجدہ نہ کرنے کی بہ بہ نسبت وجوب کے حکم کا پلڑا جھکا دیتی ہے ۔

ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے ، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں خَرَّرَا کِعاً(رکوع میں گر پڑا) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ، مگر تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد خَرَّ سَاجِداً (سجدہ میں گر پڑا ) ہے ۔ اسی بنا پر امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب نے یہ رائے ظاہر فرمائی ہے کہ نماز یا غیر نماز میں آیت سجدہ سن کر یا پڑھ کر آدمی سجدے کے بجائے صرف رکوع بھی کر سکتا ہے ، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے رکوع کا لفظ استعمال کر کے سجدہ مراد لیا ہے تو معلوم ہو ا کہ رکوع سجدے کا قائم مقام ہو سکتا ہے ۔ فقہائے شافعیہ میں سے امام خَطَّابی کی بھی یہی رائے ہے ۔ یہ رائے اگرچہ بجائے خود صحیح اور معقول ہے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے عمل میں ہم کو ایسی کوئی نظیر نہیں ملی کہ آیت سجدہ پر سجدہ کرنے کے بجائے رکوع ہی کر لینے پر اکتفا کیا گیا ہو۔ لہٰذا اس رائے پر عمل صرف اس صورت میں کرنا چاہیے جب سجدہ کرنے میں کوئی امر مانع ہو۔ اسے معمول بنا لینا درست نہیں ہے ، اور خود امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا منشا بھی یہ نہیں ہے کہ اسے معمول بنایا جائے ، بلکہ وہ صرف اس کے جواز کے قائل ہیں ۔

27. اس سے معلوم ہو ا کہ حضرت داؤد سے قصور ضرور ہوا تھا، اور وہ کوئی ایسا قصور تھا جو دنبیوں والے مقدمے سے کسی طرح کی مماثلت رکھتا تھا اسی لیے اس کا فیصلہ سناتے ہوئے معاً ان کو یہ خیال آیا کہ یہ میری آزمائش ہوئی ہے ، لیکن اس قصور کی نوعیت ایسی شدید نہ تھی کہ اسے معاف نہ کیا جاتا، یا اگر معاف کیا بھی جاتا تو وہ اپنے مرتبۂ بلند سے گرا دیے جاتے ۔ اللہ تعالیٰ یہاں خود تصریح فرما رہا ہے کہ جب انہوں نے سجدے میں گر کر توبہ کی تو نہ صرف یہ کہ انہیں معاف کر دیا گیا، بلکہ دنیا اور آخرت میں ان کو جو بلند مقام حاصل تھا اس میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔

28. یہ وہ تنبیہ ہے جو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرنے اور بلندیِ درجات کی بشارت دینے کے ساتھ حضرت داؤد کو فرمائی۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا،اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔

یہاں پہنچ کر تین سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ اول یہ کہ وہ فعل کیا تھا؟ دوسرے یہ کہ اس سیاق و سباق میں اس کا ذکر کس مناسبت سے کیا گیا ہے؟

جن لوگوں نے بائیبل (عیسائیوں اور یہودیوں کی کتاب مقدس )کا مطالعہ کیا ہے ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اس کتاب میں حضرت داؤد پر اُوریاہ حِتّی (Orian the Hittite)کی بیوی سے زنا کرنے ، اور پھر اوریاہ کو ایک جنگ میں قصداً ہلاک کروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لینے کا صاف صاف الزام لگایا گیا ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہی عورت، جس نے ایک شخص کی بیوی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو داؤد کے حوالے کیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں تھی۔ یہ پورا قصہ بائیبل کی کتاب سموئیل دوم ، باب 11۔12 میں نہایت تفصیل کے ساتھ درج ہے ۔ نزول قرآن سے صدیوں پہلے یہ بائیبل میں درج ہو چکا تھا۔ دنیا بھر کے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو بھی اپنی کتاب مقدس کی تلاوت کرتا، یا اسے سنتا تھا، وہ اس قصے سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اس پر ایمان بھی لاتا تھا۔ انہی لوگو ں کے ذریعہ سے یہ دنیا میں مشہور ہوا اور آج تک حال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں بنی اسرائیل اور عبرانی مذہب کی تاریخ پر کوئی کتاب ایسی نہیں لکھی جاتی جس میں حضرت داؤد کے خلاف اس الزام کو دہرایا نہ جاتا ہو۔ اس مشہور قصے میں یہ بات بھی ہے کہ:

’’خداوند نے نَاتَن کو داؤد کے پاس بھیجا۔ اس نے اس کے پاس آ کر اس سے کہا کسی شہر میں دو شخص تھے ۔ ایک امیر، دوسرا غریب۔ اس امیر کے پاس بہت سے ریوڑ اور گلّے تھے ۔ پر اس غریب کے پاس بھیڑ کی ایک پٹھیا کے سوا کچھ نہ تھا جسے اس نے خرید کر پالا تھا۔ اور وہ اس کے اور اس کے بال بچوں کے ساتھ بڑھی تھی۔ وہ اسی نوالے میں کھاتی اور اسکے پیالہ سے پیتی اور اس کی گود میں سوتی تھی اور اس کے لیے بطور بیٹی کے تھی۔ اور اس امیر کے ہاں کوئی مسافر آیا۔ سو اس نے مسافر کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکانے کو اپنے ریوڑ اور گلّے میں سے کچھ نہ لیا بلکہ اس غریب کی بھیڑ لے لی اور اس شخص کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکائی۔تب داؤد کا غضب اس شخص پر بشدت بھڑکا اور اس نے ناتن سے کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم، وہ شخص جس نے یہ کام کیا واجب القتل ہے ۔ اس شخص کو اس بھیڑ کا چوگنا بھرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ایسا کام کیا اور اسے ترس نہ آیا۔ تب ناتن نے داؤد سے کہا کہ وہ شخص تو ہی ہے ـــــــ تو نے حتّی اوریاہ کو تلوار سے مارا اور اس کی بیوی لے لی تاکہ وہ تیری بیوی بنے اور اس کو بنی عمّون کی تلوار سے قتل کروایا۔‘‘ (2۔سموئیل،باب 12۔ فقرات 1 تا 11)

اس قصے اور اس کی اس شہرت کی موجودگی میں یہ ضرورت باقی نہ تھی کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی تفصیلی بیان دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے بھی نہیں کہ وہ اپنی کتاب پاک میں ایسی باتوں کو کھول کر بیان کرے ۔اس لیے یہاں پردے پردے ہی میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا اور اہل کتاب نے اسے بنا کیا دیا ہے ۔ اصل واقعہ جو قرآن مجید کے مذکورہ بالا بیان سے صاف سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اوریاہ (یا جو کچھ بھی اس شخص کا نام رہا ہو) سے محض یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ۔ اور چونکہ یہ خواہش ایک عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک جلیل القدر فرمانروا اور ایک زبردست دینی عظمت رکھنے والی شخصیت کی طرف سے رعایا کے ایک فرد کے سامنے ظاہر کی گئی تھی، اس لیے وہ شخص کسی ظاہری جبر کے بغیر بھی اپنے آپ کو اسے قبول کرنے پر مجبور پا رہا تھا۔ اس موقع پر، قبل اس کے کہ وہ حضرت داؤد کی فرمائش کی تعمیل کرتا، قوم کے دو نیک آدمی اچانک حضرت داؤد کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ایک فرضی مقدمے کی صورت میں یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کر دیا۔ حضرت داؤد ابتداء میں تو یہ سمجھے کہ یہ واقعی کوئی مقدمہ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اسے سن کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ لیکن زبان سے فیصلہ کے الفاظ نکلتے ہی ان کے ضمیر نے تنبیہ کی کہ یہ تمثیل پوری طرح ان کے اور اس شخص کے معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے ، اور جس فعل کو وہ ظلم قرار دے رہے ہیں اُس کا صدور خود اُن سے اُس شخص کے معاملہ میں ہو رہا ہے ۔ یہ احساس دل میں پیدا ہوتے ہی وہ سجدے میں گر گئے اور توبہ کی اور اپنے اس فعل سے رجوع فرما لیا۔

بائیبل میں اس واقعہ کی وہ گھناؤنی شکل کیسے بنی؟ یہ بات بھی تھوڑے سے غور کے بعد سمجھ میں آجاتی ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کو اُس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجائے ملک کی ملکہ ہونی چاہیے ۔ اس خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دے دے ۔ اس میں کوئی قباحت انہوں نے اس لیے محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی کہ ایک شخص اگر کسی کی بیوی کو پسند کرتا تو بے تکلف اس سے درخواست کر دیتا تھا کہ اسے میرے لیے چھوڑ دے ۔ ایسی درخواست پر کوئی برا نہ مانتا تھا۔ بلکہ بسا اوقات دوست ایک دوسرے کے پاس خاطر سے بیوی کو خود طلاق دے دیتے تھے تاکہ دوسرا اس سے شادی کر لے ۔ لیکن یہ بات کرتے وقت حضرت داؤد کو اس امر کا احساس نہ ہوا کہ ایک عام آدمی کی طرف سے اس طرح کی خواہش کا اظہار تو جبر و ظلم کے عنصر سے خالی ہو سکتا ہے ، مگر ایک فرمانروا کی طرف سے جب ایسی خواہش ظاہر کی جائے تو وہ جبر سے کسی طرح بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ اس پہلو کی طرف جب اس تمثیلی مقدمہ کے ذریعہ سے ان کو توجہ دلائی گئی تو وہ بلا تامّل اپنی اس خواہش سے دست بردار ہو گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر بعد میں کسی وقت جب ان کی کسی خواہش اور کوشش کے بغیر اس خاتون کا شوہر ایک جنگ میں شہید ہو گیا، اور انہوں نے اس سے نکاح کر لیا، تو یہودیوں کے خبیث ذہن نے افسانہ تراشی شروع کر دی، اور یہ خبیث نفس اس وقت اور زیادہ تیزی سے کام کرنے لگا جب بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت سلیمانؑ کا دشمن ہو گیا (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،النمل حاشیہ 56)۔ ان محرکات کے زیر اثر یہ قصہ تصنیف کر ڈالا گیا کہ حضرت داؤد نے معاذاللہ اوریاہ کی بیوی کو اپنے محل کی چھت پر سے اس حالت میں دیکھ لیا تھا کہ وہ برہنہ نہا رہی تھی۔ انہوں نے اس کو اپنے ہاں بلوایا اور اس سے زنا کا ارتکاب کیا جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ پھر انہوں نے اوریاہ کو بنی عمّون کے مقابلہ پر جنگ میں بھیج دیا اور فوج کے کمانڈر ہوآب کو حکم دیا کہ اسے لڑائی میں ایسی جگہ مقرر کر دے جہاں وہ لازماً مارا جائے ۔ اور جب وہ مارا گیا تو انہوں نے اس کی بیوی سے شادی کر لی، اور اسی عورت کے پیٹ سے سلیمان (علیہ السلام ) پیدا ہوئے ۔ یہ تمام جھوٹے الزامات ظالموں نے اپنی ’’ کتاب مقدس‘‘ میں ثبت کر دیے ہیں تاکہ نسلاً بعد نسل اسے پڑھتے رہیں اور اپنی قوم کے ان دو بزرگ ترین انسانوں کی تذلیل کرتے رہیں جو حضرت موسیٰ کے بعد ان کے سب سے بڑے محسن تھے ۔

قرآن مجید کے مفسرین میں سے ایک گروہ نے تو ان افسانوں کو قریب قریب جوں کا توں قبول کر لیا ہے جو بنی اسرائیل کے ذریعہ سے ان تک پہنچے ہیں ۔ اسرائیلی روایات کا صرف اتنا حصہ انہوں نے ساقط کیا ہے جس میں حضرت داؤد پر زنا کا الزام لگایا گیا تھا اور عورت کے حاملہ ہو جانے کا ذکر تھا۔ باقی سارا قصہ ان کی نقل کردہ روایات میں اسی طرح پایا جاتا ہے جس طرح وہ بنی اسرائیل میں مشہور تھا۔ دوسرے گروہ نے سرے سے اس واقعہ ہی کا انکار کر دیا ہے کہ حضرت داؤد سے کوئی ایسا فعل صادر ہوا تھا جو دنبیوں والے مقدمہ سے کوئی مماثلت رکھتا ہو۔ اس کے بجائے وہ اپنی طرف سے اس قصے کی ایسی تاویلات کرتے ہیں جو بالکل بے بنیاد ہیں ، جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے اور خود قرآن کے سیاق و سباق سے بھی وہ کوئی مناسبت نہیں رکھتیں ۔ لیکن مفسرین ہی میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک بات تک پہنچا ہے اور قرآن کے واضح اشارات سے قصے کی اصل حقیقت پا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر چند اقوال ملاحظہ ہوں :

مسروق اور سعید بن جبیر، دونوں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’حضرت داؤد نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا کہ اس عورت کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اپنی بیوی کو میرے لیے چھوڑ دے ‘‘۔(ابن جریر)

علامہ زَمَخشری اپنی کشّا ف میں لکھتے ہیں کہ ’’ جس شکل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس شخص سے صرف یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اُن کے لیے پنی بیوی کو چھوڑ دے ۔‘‘

علامہ ابوبکر جصّاص اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عورت اس شخص کی منکوحہ نہیں بلکہ صرف مخطوبہ یا منسوبہ تھی، حضرت داؤد نے اسی عورت سے نکاح کا پیغام دے دیا، اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہو ا کیونکہ انہوں نے اپنے مومن بھائی کے پیغام پر پیغام دیا تھا حالانکہ ان کے گھر میں پہلے سے کئی بیویاں موجود تھیں (احکام القرآن )۔ بعض دوسرے مفسرین نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ۔ لیکن یہ بات قرآن کے بیان سے پوری مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن مجید میں مقدمہ پیش کرنے والے کے جو الفاظ نقل ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ لِیْ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا۔ ’’میرے پاس بس ایک ہی دُنبی ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالہ کر دے ‘‘۔ یہی بات حضرت داؤد نے بھی اپنے فیصلہ میں ارشاد فرمائی کہ قَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ۔’’ اس نے تیری دنبی مانگنے میں تجھ پر ظلم کیا۔‘‘ یہ تمثیل حضرت داؤد اور اوریاہ کے معاملہ پر اسی صورت میں چسپاں ہو سکتی ہے جبکہ وہ عورت اس شخص کی بیوی ہو۔ پیغام پر پیغام دینے کا معاملہ ہوتا تو پھر تمثیل یوں ہوتی کہ ’’ ایک دنبی لینا چاہتا تھا اور اس نے کہا کہ یہ بھی میرے لیے چھوڑ دے ۔‘‘

قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ اصل واقعہ بس یہی ہے کہ حضرت داؤد نے اپنے آدمیوں میں سے ایک شخص سے کہا کہ میرے لیے اپنی بیوی چھوڑ دے ، اور سنجیدگی کے ساتھ یہ مطالبہ کیا ــــــ قرآن میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ شخص ان کے اس مطالبہ پر اپنی بیوی سے دست بردار ہو گیا اور حضرت داؤد نے اس عورت سے اس کے بعد شادی بھی کر لی اور حضرت سلیمانؑ اسی کےبطن سے پیدا ہوئے ــــــ جس بات پر عتاب ہوا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انہوں نے ایک عورت کے شوہر سے یہ چاہا کہ وہ ان کی خاطر اسے چھوڑ دے ــــــــ یہ فعل خواہ فی الجملہ جائز ہی ہو مگر منصب نبوت سے بعید تھا، اسی لیے ان پر عتاب بھی ہوا اور ان کو نصیحت بھی کی گئی۔‘‘

یہی تفسیر اس سیاق و سباق سے بھی مناسبت رکھتی ہے جس میں یہ قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے یہ با ت صاف معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں اس مقام پر یہ قصہ دو اغراض کے لیے بیان کیا گیا ہے ۔ پہلی غرض نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر کی تلقین کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ’’ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو‘‘۔ یعنی تمہیں تو ساحر اور کذاب ہی کہا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے بندے داؤد پر تو ظالموں نے زنا اور سازشی قتل تک کے الزامات لگا دیے ، لہٰذا ان لوگوں سے جو کچھ بھی تم کو سننا پڑے اسے برداشت کرتے رہو۔ دوسری غرض کفار کو یہ بتانا ہے کہ تم لوگ ہر محاسبے سے بے خوف ہو کر دنیا میں طرح طرح کی زیادتیاں کرتے چلے جاتے ہو، لیکن جس خدا کی خدائی میں تم یہ حرکتیں کر رہے ہو وہ کسی کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا، حتیٰ کہ جو بندے اس کے نہایت محبوب و مقرب ہوتے ہیں ، وہ بھی اگر ایک ذرا سی لغزش کے مرتکب ہو جائیں تو خداوند عالم ان سے سخت مواخذہ کرتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا کہ ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو جو ایسی اور ایسی خوبیوں کا مالک تھا، مگر جب اس سے ایک بے جا بات سرزد ہو گئی تو دیکھو کہ ہم نے اسے کس طرح سرزنش کی۔

اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی اور باقی رہ جاتی ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے ۔تمثیل میں مقدمہ پیش کرنے والے نے یہ جو کہا ہے کہ اس شخص کے پاس 99 دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے جسے یہ مانگ رہا ہے ، اس سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید حضرت داؤد پاس 99 بیویاں تھیں اور وہ ایک عورت حاصل کر کے 100 کا عدد پورا کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن دراصل تمثیل کے ہر ہر جُّز ء کا حضرت داؤد اور اوریاہ حتّی کے معاملے لفظ بہ لفظ چسپاں ہونا ضروری نہیں ہے ۔ عام محاورے میں دس، بیس، پچاس وغیرہ اعداد کا ذکر صرف کثرت کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے نہ کہ ٹھیک تعداد بیان کرنے کے لیے ۔ ہم جب کسی سے کہتے ہیں کہ دس مرتبہ تم سے فلاں بات کہہ دی تو اس کا مطلب یہ نہی ہوتا کہ دس بار گِن کر وہ بات کہی گئی ہے ، مطلب یہ ہوتا ہے بارہا وہ بات کہی جاچکی ہے ۔ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے ۔ تمثیلی مقدمہ میں وہ شخص حضرت داؤد کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس متعدد بیویاں ہیں ، اور پھر بھی آپ دوسرے شخص کی بیوی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی بات مفسر نیسابوری نے حضرت حسنؓ بصری سے نقل کی ہے کہ لم یکن لداؤد تسع وتسعون امرأۃ وانما ھٰذا مثل، ’’ حضرت داؤد کی 99 بیویاں نہ تھیں بلکہ یہ صرف ایک تمثیل ہے ۔‘‘

(اس قصے پر تفصیلی بحث ہم نے اپنی کتاب تفہیمات حصہ دوم میں کی ہے ۔ جو اصحاب ہماری بیان کردہ تاویل کی ترجیح کے مفصل دلائل معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ اس کتاب کے صفحات 29 تا 44 ملاحظہ فرمائیں۔)