Tafheem ul Quran

Surah 38 Sad, Ayat 27-40

وَمَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا بَاطِلًا ​ؕ ذٰ لِكَ ظَنُّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا​ۚ فَوَيۡلٌ لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنَ النَّارِؕ‏ ﴿38:27﴾ اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالۡمُفۡسِدِيۡنَ فِى الۡاَرۡضِ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِيۡنَ كَالۡفُجَّارِ‏ ﴿38:28﴾ كِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰهُ اِلَيۡكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوۡۤا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿38:29﴾ وَوَهَبۡنَا لِدَاوٗدَ سُلَيۡمٰنَ​ ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ​ ؕ اِنَّـهٗۤ اَوَّابٌ ؕ ‏ ﴿38:30﴾ اِذۡ عُرِضَ عَلَيۡهِ بِالۡعَشِىِّ الصّٰفِنٰتُ الۡجِيَادُ ۙ‏ ﴿38:31﴾ فَقَالَ اِنِّىۡۤ اَحۡبَبۡتُ حُبَّ الۡخَيۡرِ عَنۡ ذِكۡرِ رَبِّىۡ​ۚ حَتّٰى تَوَارَتۡ بِالۡحِجَابِ‏ ﴿38:32﴾ رُدُّوۡهَا عَلَىَّ ؕ فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَ الۡاَعۡنَاقِ‏ ﴿38:33﴾ وَلَقَدۡ فَتَنَّا سُلَيۡمٰنَ وَاَلۡقَيۡنَا عَلٰى كُرۡسِيِّهٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ‏ ﴿38:34﴾ قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِىۡ وَهَبۡ لِىۡ مُلۡكًا لَّا يَنۡۢبَغِىۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِىۡ​ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ‏ ﴿38:35﴾ فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّيۡحَ تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖ رُخَآءً حَيۡثُ اَصَابَۙ‏  ﴿38:36﴾ وَالشَّيٰطِيۡنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍۙ‏ ﴿38:37﴾ وَّاٰخَرِيۡنَ مُقَرَّنِيۡنَ فِىۡ الۡاَصۡفَادِ‏ ﴿38:38﴾ هٰذَا عَطَآؤُنَا فَامۡنُنۡ اَوۡ اَمۡسِكۡ بِغَيۡرِ حِسَابٍ‏ ﴿38:39﴾ وَاِنَّ لَهٗ عِنۡدَنَا لَزُلۡفٰى وَحُسۡنَ مَاٰبٍ‏ ﴿38:40﴾

27 - ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور اس دنیا کو جو ان کی درمیان ہے ، فضول پیدا نہیں کر دیا ہے۔ 29 یہ تو اُن لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کُفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنّم کی آگ سے۔ 28 - کیا ہم اُن لوگوں کو جو ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں اور اُن کو جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں یکساں کر دیں؟ کیا متّقیوں کو ہم فاجروں جیسا کر دیں؟ 30 29 - ۔۔۔۔ یہ ایک بڑی برکت والی کتاب 31 ہے جو ( اے محمدؐ )ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔ 30 - اور داوٴدؑ کو ہم نے سلیمانؑ (جیسا بیٹا)عطا کیا، 32 بہترین بندہ، کثرت سے اپنے ربّ کی طرف رُجوع کرنے والا۔ 31 - قابلِ ذکر ہے وہ موقع جب شام کے وقت اس کے سامنے خوب سدھے ہوئے تیز رَو گھوڑے پیش کیے گئے 33 32 - تو اس نے کہا” میں نے اس مال 34 کی محبّت اپنے ربّ کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے۔“ یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہوگئے 33 - تو (اس نے حکم دیا کہ )انہیں میرے پاس واپس لاوٴ، پھر لگا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے۔ 35 34 - اور (دیکھو کہ)سلیمانؑ کو بھی ہم نے آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا۔ پھر اس نے رُجوع کیا 35 - اور کہا کہ” اے میرے ربّ ، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بے شک تُو ہی اصل داتا ہے۔“ 36 36 - تب ہم نے اُس کے لیے ہوا کو مسخّر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا 37 ، 37 - اور شیاطین کو مسخّر کر دیا، ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور 38 - اور دُوسرے جو پابندِ سلاسل تھے۔ 38 39 - (ہم نے اُس سے کہا)” یہ ہماری بخشش ہے ، تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے، کوئی حساب نہیں۔“ 39 40 - یقیناً اُس کے لیے ہمارے ہاں تقرُّب کا مقام اور بہتر انجام ہے۔ 40 ؏۳


Notes

29. یعنی محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کر دیا ہے کہ اس میں کوئی حکمت نہ ہو، کوئی غرض اور مقصد نہ ہو، کوئی عدل اور انصاف نہ ہو، اور کسی اچھے یا بُرے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو۔ یہ ارشاد پچھلی تقریر کا ماحصل بھی ہے اور آگے کے مضمون کی تمہید بھی۔ پچھلی تقریر کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود یہ حقیقت سامعین سے ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان یہاں شترِ بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا گیا ہے ، نہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے کہ یہاں جس کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی باز پُرس نہ ہو۔ آگے کے مضمون کی تمہید کے طور پر اس فقرے سے کلام کا آغاز کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جو شخص جزا و سزا کا قائل نہیں ہے اور اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھا رہے کہ نیک و بد سب آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں گے ، کسی سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا، نہ کسی کو بھلائی یا بُرائی کا کوئی بدلہ ملے گا، وہ دراصل دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ خالق کائنات نے دنیا بنا کر اور اس میں انسان کو پیدا کر کے ایک فعل عبث کا ارتکاب کیا ہے ۔ یہی بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ مثلاً فرمایا:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُم عَبَثاً وَّ اَنَّکُمْ اِلِیْنَا لَا تُرْ جَعُوْنَ (المومنون:115)

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو فضول پیدا کر دیا ہے اور تم ہمارے طرف پلٹائے جانے والے نہیں ہو؟

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o مَا خَلَقْنٰھُمَا اِلَّا بِا لْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُم لَا یَعْلَمُوْنَ o اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَا تھُُمْ اَجْمَعِیْنَo (الدُّ خان: 38۔40)

ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور کائنات کو جو ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے ۔ ہم نے ان کو بر حق پیدا کیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ درحقیقت فیصلے کا دن ان سب کے لیے حاضری کا وقتِ مقرر ہے ۔

30. یعنی کیا تمہارے نزدیک یہ بات معقول ہے کہ نیک اور بد دونوں آخر کار یکساں ہو جائیں؟ کیا یہ تصور تمہارے لیے اطمینان بخش ہے کہ کسی نیک انسان کو اس کی نیکی کا کوئی صلہ اور کسی بد آدمی کو اس کی بدی کا کوئی بدلہ نہ ملے؟ ظاہر بات ہے کہ اگر آخرت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی محاسبہ نہ اور انسانی افعال کی کوئی جزا و سزا نہ ہو تو اس سے اللہ کی حکمت اور اس کے عدل دونوں کی نفی ہو جاتی ہے اور کائنات کا پورا نظام ایک اندھا نظام بن کر رہ جاتا ہے ۔ اس مفروضے پر تو دنیا میں بھلائی کے لیے کوئی محرّک اور بُرائی سے روکنے کے لیے کوئی مانع سرے سے باقی ہی نہیں رہ جا تا ہے ۔ خدا کی خدائی اگر معاذاللہ ایسی ہی اندھیر نگری ہو تو پھر وہ شخص بے وقوف ہے جو اس زمین پر تکلیفیں اُٹھا کر خود صالح زندگی بسر کرتا ہے اور خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے کام کرتا ہے ، اور وہ شخص عقلمند ہے جو ساز گار مواقع پا کر ہر طرح کی زیادتیوں سے فائدے سمیٹے اور ہر قسم کے فسق و فجور سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔

31. برکت کے لغوی معنی ہیں ’’ افزائش خیر و سعادت‘‘۔ قرآن مجید کو برکت والی کتاب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ انسان کے لیے نہایت مفید کتاب ہے ۔ اس کی زندگی کو درست کرنے کے لیے بہترین ہدایات دیتی ہے ، اس کی پیروی میں آدمی کا نفع ہی نفع ہے ، نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔

32. حضرت سلیمان کا ذکر اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول، البقرۃ حاشیہ 104۔ جلد دوم، بنی اسرائیل حاشیہ 7۔جلد سوم، الانبیاء حواشی 70تا75 النمل حواشی 18تا56۔ سورہ سبا، آیات 12۔ 14۔

33. اصل الفاظ ہیں الصَّا فِنَا تُ الْجِیَا دُ۔ اس سے مراد ایسے گھوڑے ہیں جو کھڑے ہوں تو نہایت سکون کے ساتھ کھڑے رہیں ، کوئی اچھل کود نہ کریں ، اور جب دوڑیں تو نہایت تیز دوڑیں ۔

34. اصل میں لفظ خَیْر استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں مال کثیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور گھوڑوں کے لیے بھی مجازاً استعمال کیا جاتا ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان گھوڑوں کو چونکہ راہ خدا میں جہاد کے لیے رکھا تھا، اس لیے انہوں نے ’’ خیر ‘‘ کے لفظ سے ان کو تعبیر فرمایا۔

35. ان آیات کے ترجمہ اور تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔

ایک گروہ ان کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کے معاینے اور ان کی دَوڑ کے ملاحظہ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ نماز عصر بھول گئے ، یا بقول بعض اپنا کوئی خاص وظیفہ پڑھنا بھول گئے جو وہ عصر و مغرب کے درمیان پڑھا کرتے تھے ، یہاں تک کہ سورج چھپ گیا۔ تب انہوں نے حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ، اور جب وہ واپس آئے تو حضرت سلیمانؑ نے تلوار لے کر ان کو کا ٹنا، یا بالفاظ دیگر، اللہ کے لیے ان کو قربان کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ ذکر الٰہی سے غفلت کے موجب بن گئے تھے ۔ اس مطلب کے لحاظ سے ان آیات کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے ۔: ’’تو اس نے کہا، میں نے اس مال کی محبت کو ایسا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد (نماز عصر، یا وظیفہ خاص) سے غافل ہو گیا، یہاں تک کہ (سورج پردۂ مغرب میں ) چھُپ گیا۔ (پھر اس نے حکم دیا کہ) واپس لاؤ ان (گھوڑوں ) کو (اور جب وہ واپس آئے ) تو لگا اُن کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار کے ) ہاتھ چلانے ‘‘۔ یہ تفسیر اگرچہ بعض اکابر مفسرین نے کی ہے ، لیکن یہ اس وجہ سے قابل ترجیح نہیں ہے کہ اس میں مفسر کو تین باتیں اپنی طرف سے بڑھانی پڑتی ہیں جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے ۔ اوّلاً وہ فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان کی نماز عصر اس شغل میں چھوٹ گئی، یا ان کا کوئی خاص وظیفہ چھوٹ گیا جو وہ اس وقت پڑھا کرتے تھے ۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ صرف یہ ہیں ، اِنِّی اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّی۔ ان الفاظ کا ترجمہ یہ تو کیا جاسکتا ہے کہ ’’ میں نے اس مال کو اتنا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد سے غافل ہو گیا،‘‘ لیکن ان میں نماز عصر یا کوئی خاص وظیفہ مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے ۔ ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ سورج چھپ گیا، حالانکہ وہاں سورج کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ حَتّیٰ تَوَ ا رَتْ بِا لْحِجَاب کے الفاظ پڑ ھ کر آدمی کا ذہن بلا تامُّل الصَّا فِنَا تُ الْجِیَاد کی طرف پھرتا ہے جن کا ذکر پچھلی آیت میں ہو چکا ہے ۔ ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان نے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر خالی مسح نہیں کیا بلکہ تلوار سے مسح کیا، حالانکہ قرآن میں مَسْحاً بِا لسَّیْفِ کے الفاظ نہیں ہیں ، اور کوئی قرینہ بھی ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر مسح سے مسح بالسّیف مراد لیا جا سکے ۔ ہمیں اس طریق تفسیر سے اُصولی اختلاف ہے ۔ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ سے زائد کوئی مطلب لینا چار ہی صورتوں میں درست ہو سکتا ہے ۔ یا تو قرآن ہی کی عبارت میں اس کے لیے کوئی قرینہ موجود ہو، یا قرآن میں کسی دوسرے مقام پر اس کی طرف کوئی اشارہ ہو، یا کسی صحیح حدیث میں اس اجمال کی شرح ملتی ہو، یا اس کا اور کوئی قابِل اعتبار ماخذ ہو، مثلاً تاریخ کا معاملہ ہے تو تاریخ میں اس اجمال کی تفصیلات ملتی ہوں ، آثار کائنات کا ذکر ہے تو مستند علمی تحقیقات سے اس کی تشریح ہو رہی ہو، اور احکام شرعیہ کا معاملہ ہے تو فقہ اسلامی کے مآخذ اس کی وضاحت کر رہے ہوں ۔ جہاں ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو وہاں محض بطور خود ایک قصہ تصنیف کر کے قرآن کی عبارت میں شامل کر دینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے ۔

ایک گروہ نے مذکورہ بالا ترجمہ و تفسیر سے تھوڑا سا اختلاف کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حَتّیٰ تَوَا رَت ْ بِا لْحِجَابِ اور رُدُّ وْ ھَا عَلَیَّ، دونوں کی ضمیر سورج ہی کی طرف پھرتی ہے ۔ یعنی جب نماز عصر فوت ہو گئی اور سورج پردۂ مغرب میں چھُپ گیا تو حضرت سلیمانؑ نے کارکنان قضا و قدر سے کہا کہ پھیر لاؤ سورج کو تاکہ عصر کا وقت واپس آ جائے اور میں نماز ادا کر لوں ، چنانچہ سورج پلٹ آیا اور انہوں نے نماز پڑھ لی۔ لیکن یہ تفسیر اوپر والی تفسیر سے بھی زیادہ ناقابل قبول ہے ۔ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ سورج کو واپس لانے پر قادر نہیں ہے ، بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا قطعاً کوئی ذکر نہیں فرمایا ہے ، حالانکہ حضرت سلیمانؑ کے لیے اتنا بڑا معجزہ صادر ہوا ہوتا تو وہ ضرور قابل ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اور اس لیے بھی کہ سورج کا غروب ہو کر پلٹ آنا ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ اگر وہ در حقیقت پیش آیا ہوتا تو دنیا کی تاریخ اس کے ذکر سے ہرگز خالی نہ رہتی۔ اس تفسیر کی تائید میں یہ حضرات بعض احادیث بھی پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سورج کا غروب ہو کر دوبارہ پلٹ آنا ایک ہی دفعہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ کئی دفعہ پیش آیا ہے ۔ قصہ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے سورج کے واپس لائے جانے کا ذکر ہے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی حضورؐ کے لیے وہ واپس لایا گیا۔ اور حضرت علیؓ کے لیے جب کہ حضورؐ کی گود میں سر رکھے سو رہے تھے اور ان کی نماز عصر قضا ہو گئی تھی، حضورؐ نے سورج کی واپسی کی دعا فرمائی تھی اور وہ پلٹ آیا تھا۔ لیکن ان روایات سے استدلال اس تفسیر سے بھی زیادہ کمزور ہے جس کی تائید کے لیے انہیں پیش کیا گیا ہے ۔ حضرت علیؓ کے متعلق جو روایت بیان کی جاتی ہے اس کے تمام طُرُق اور رجال پر تفصیلی بحث کر کے ابن تمییہؒ نے اسے موضوع ثابت کیا ہے ۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، اور ابن جَوزی کہتے ہیں کہ وہ بلا شک و شبہ موضوع ہے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر سورج کی واپسی والی روایت بھی بعض محدثین کے نزدیک ضعیف اور بعض کے نزدیک موضوع ہے ، رہی قصّۂ معراج والی روایت، تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ سے شبِ معراج کے حالات بیان فرما رہے تھے تو کفار نے آپ سے ثبوت طلب کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ بیت المقدس کے راستے میں فلاں مقام پر ایک قافلہ ملا تھا جس کے ساتھ فلاں واقعہ پیش آیا تھا۔ کفّار نے پوچھا وہ قافلہ کس روز مکہ پہنچے گا۔ آپؐ نے فرمایا فلاں روز۔جب وہ دن آیا تو قریش کے لوگ دن بھر قافلہ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ شام ہونے کو آ گئی۔ اس موقع پر حضورؐ نے دعا کی کہ دن اس وقت تک غروب نہ ہو جب تک قافلہ نہ آ جائے ۔ چنانچہ فی الواقع سورج ڈوبنے سے پہلے وہ پہنچ گیا۔ اس واقعہ کو بعض راویوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس روز دن میں ایک گھنٹہ کا اضافہ کر دیا گیا اور سورج اتنی دیر تک کھڑا رہا۔سوال یہ ہے کہ اس قسم کی روایات کیا اتنے بڑے غیر معمولی واقعہ کے ثبوت میں کافی شہادت ہیں؟ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں ، سورج کا پلٹ آنا، یا گھنٹہ بھر رکا رہنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ ایسا واقعہ اگر فی الواقع پیش آگیا ہوتا تو دنیا بھر میں اس کی دھوم مچ گئی ہوتی۔ بعض اخبارِ آحاد تک اس کا ذکر کیسے محدود رہ سکتا تھا؟

مفسرین کا تیسرا گروہ ان آیات کا وہی مفہوم لیتا ہے جو ایک خالی الذہن آدمی اس کے الفاظ پڑھ کر اس سے سمجھ سکتا ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق واقعہ بس اس قدر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے جب اعلیٰ درجے کے اصیل گھوڑوں کا ایک دستہ پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، یہ مال مجھے کچھ اپنی بڑائی کی غرض سے یا اپنے نفس کی خاطر محبوب نہیں ہے بلکہ ان چیزوں سے دلچسپی کو میں اپنے رب کا کلمہ بلند کرنے کے لیے پسند کرتا ہوں ۔ پھر انہوں نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی یہاں تک کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے ان کو واپس طلب فرمایا اور جب وہ آئے تو بقول ابن عباس، جعل یسمح اعراف الخیل و عرا قیبھا حُبًّ لھا، ’’حضرت ان کی گردنوں پر اور ان کی پنڈلیوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے ‘‘۔ یہی تفسیر ہمارے نزدیک صحیح ہے ، کیوں کہ یہ قرآن مجید کے الفاظ سے پوری مطابقت رکھتی ہے اور مطلب کی تکمیل کے لیے اس میں ایسی کوئی بات بڑھانی نہیں پڑتی جو نہ قرآن میں ہو، نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں ۔

یہ بات بھی اس موقع پر نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس واقعہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے حق میں نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗ اَوَّابٌ (بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا) کے تعریفی کلمات ارشاد فرمانے کے معاً بعد کیا ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ دیکھو، وہ ہمارا ایسا اچھا بندہ تھا، بادشاہی کا سر و سامان اس کو دنیا کی خاطر نہیں بلکہ ہماری خاطر پسند تھا، اپنے شاندار رسالے کو دیکھ کر دنیا پرست فرمانرواؤں کی طرح اس نے ڈینگیں نہ ماریں بلکہ اس وقت بھی ہم ہی اسے یاد آئے ۔

36. سلسلہ کلام کے لحاظ سے اس جگہ اصل مقصد یہی واقعہ بیان کرنا ہے اور پچھلی آیات اسی کے لیے بطور تمہید ارشاد ہوئی ہیں ۔ جس طرح پہلے حضرت داؤد کی تعریف کی گئی،پھر اس واقعہ کا ذکر کیا گیا جس میں وہ مبتلائے فتنہ ہو گئے تھے ، پھر بتایا گیا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے ایسے محبوب بندے کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہ چھوڑا، پھر ان کی یہ شان دکھائی گئی کہ فتنے پر متنبہ ہوتے ہی وہ تائب ہو گئے اور اللہ کے آگے جھک کر انہوں نے اپنے اس فعل سے رجوع کر لیا، اسی طرح یہاں بھی ترتیبِ کلام یہ ہے کہ پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مرتبہ بلند اور شانِ بندگی کا ذکر کیا گیا ہے ، پھر بتایا گیا ہے کہ ان کو بھی آزمائش میں ڈالا گیا پھر ان کی یہ شان بندگی دکھائی گئی ہے کہ جب ان کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا گیا تو وہ فوراً ہی اپنی لغزش پر متنبہ ہو گئے اور اپنے رب سے معافی مانگ کر انہوں نے اپنی اس بات سے رجوع کر لیا جس کی وجہ سے وہ فتنے میں پڑے تھے ۔ بالفاظِ دیگر اللہ تعالیٰ ان دونوں قصوں سے بیک وقت دو باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ اس کے بے لاگ محاسبے سے انبیا ء تک نہیں بچ سکے ہیں ، تابدیگراں چہ رسد۔ دوسرے یہ کہ بندے کے لیے صحیح رویہ قصور کر کے اکڑنا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ جس وقت بھی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اسی وقت وہ عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے آگے جھک جائے ۔ اسی رویہ کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی لغزشوں کو محض معاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کو اور زیادہ الطاف و عنایات سے نوازا۔

یہاں پھر یہ سول پیدا ہوتا ہے وہ فتنہ کیا تھا جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام پڑ گئے تھا؟ اور ان کی کرسی پر ایک جَسَد لا کر ڈال دینے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس جَسَد کا لا کر ڈالا جانا ان کے لیے کس نوعیت کی تنبیہ تھی جس پر انہوں نے توبہ کی؟ اس کے جواب میں مفسرین نے چار مختلف مسلک اختیار کیے ہیں ۔

ایک گروہ نے ایک لمبا چوڑا افسانہ بیان کیا ہے جس کی تفصیلات میں ان کے درمیان بہت کچھ اختلافات ہیں ۔ مگر سب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ سے یا تو یہ قصور ہوا تھا کہ ان کے محل میں ایک بیگم چالیس دن تک بت پرستی کرتی رہی اور وہ اس سے بے خبر رہے ، یا یہ کہ وہ چند روز تک گھر میں بیٹھ رہے اور کسی مظلوم کی داد رسی نہ کی۔ اس پر ان کو یہ سزا ملی کہ ایک شیطان کسی نہ کسی طرح ان کی وہ انگوٹھی اُڑا لے گیا جس کی بدولت وہ جن و انس اور ہواؤں پر حکومت کرتے تھے ۔ انگوٹھی ہاتھ سے جاتے ہی حضر ت سلیمانؑ کا سارا اقتدار چھن گیا اور وہ چالیس دن تک دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرے ۔ اور اس دوران میں وہ شیطان، سلیمانؑ بنا ہوا حکمرانی کرتا رہا۔ سلیمانؑ کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دینے سے مراد یہی شیطان ہے جو کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ بعض حضرات یہاں تک بھی کہہ گزرتے ہیں کہ اس زمانے میں اس شیطان سے حرمِ سلیمانی کی خواتین تک کی عصمت محفوظ نہ رہی۔ آخر کار سلطنت کے اعیان و اکابر اور علماء کو اس کی کاروائیاں دیکھ کر شک ہو گیا کہ یہ سلیمان نہیں ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اس کے سامنے توراۃ کھولی اور وہ ڈر کر بھاگ نکلا۔ راستے میں انگوٹھی اس کے ہاتھ سے سمندر میں گر گئی،یا خود اُسی نے پھینک دی، اور اسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ پھر اتفاق سے وہ مچھلی سلیمان کو مل گئی۔ اسے پکانے کے لیے انہوں نے اس کا پیٹ جو چاک کیا تو انگوٹھی نکل آئی اور اس کا ہاتھ آنا تھا کہ جن و انس سب سلام کرتے ہوئے ان کے سامنے حاضر ہو گئے ـــــــــــ یہ پورا افسانہ از سر تا پا خرافات پر مشتمل ہے جنہیں نو مسلم اہل کتاب نے تلمود اور دوسرے اسرائیلی روایات سے اخذ کر کے مسلمانوں میں پھیلا دیا تھا اور حیرت ہے کہ ہمارے ہاں کے بڑے بڑے لوگوں نے ان کو قرآن کے مجملات کی تفصیلات سمجھ کر اپنی زبان سے نقل کر دیا۔ حالانکہ نہ انگشتری سلیمانی کی کوئی حقیقت ہے ، نہ حضرت سلیمان کے کمالات کسی انگشتری کے کرشمے تھے ، نہ شیاطین کو اللہ نے یہ قدرت دی ہے کہ انبیاء کی شکل بنا کر آئیں اور خلقِ خدا کو گمراہ کریں ، اور نہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی نبی کے قصور کی سزا ایسی فتنہ انگیز شکل میں سے جس سے شیطان نبی بن یر ایک پوری اُمت کا ستیاناس کر دے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن خود اس تفسیر کی تردید کر رہا ہے ۔ آگے آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب یہ آزمائش حضرت سلیمان کو پیش آئی اور انہوں نے ہم سے معافی مانگ لی تب ہم نے ہوا اور شیاطین کو ان کے لیے مسخر کر دیا۔ لیکن یہ تفسیر اس کے برعکس یہ بتا رہی ہے کہ شیاطین پہلے ہی انگشتری کے طفیل حضرت سلمان کے تابع فرمان تھے ۔ تعجب ہے کہ جن بزرگوں نے یہ تفسیر بیان کی ہے انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بعد کی آیات کیا کہہ رہی ہیں ۔

دوسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے ہاں 20 سال کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا۔ شیاطین کو خطرہ ہوا کہ اگر سلیمانؑ کے بعد یہ بادشاہ ہو گیا تو ہم پھر اسی غلامی میں مبتلا رہیں گے ، اس لیے انہوں نے اسے قتل کر دینے کی ٹھانی۔ حضرت سلیمانؑ کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے اس لڑکے کو بادلوں میں چھپا دیا تا کہ وہیں اس کی پرورش ہوتی رہے ۔ یہی وہ فتنہ تھا جس میں حضرت مبتلا ہوئے تھے کہ انہوں نے اللہ پر توکل کرنے کے بجائے بادلوں کی حفاظت پر اعتماد کیا۔ اس کی سزا ان کو دی گئی کہ وہ بچہ مر کر ان کی کرسی پر آ گرا ــــــــــــ یہ افسانہ بھی بالکل بے سر و پا اور صریح قرآن کے خلاف ہے ، کیونکہ اس میں بھی یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ہوائیں اور شیاطین پہلے سے حضرت سلیمانؑ کے لیے مسخر تھے ، حالانکہ قرآن صاف الفاظ میں ان کی تسخیر کو اس فتنے کے بعدکا واقعہ بتا رہا ہے ۔

تیسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی ستّر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے ایک مجاہد فی سبیل اللہ پیدا ہو گا، مگر یہ بات کہتے ہوئے انہوں نے اِنشاء اللہ نہ کہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان سے بھی ایک ادھورا بچہ پیدا ہوا جسے دائی نے لا کر حضرت سلیمانؑ کی کرسی پر ڈال دیا۔ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہے اور سے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے ۔ خود بخاری میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقوں سے نقل کی گئی ہے ان میں سے کسی میں بیویوں کی تعداد 60 بیان کی گئی ہے ، کسی میں 70، کسی میں 90، کسی میں 99، اور کسی میں 100۔ جہاں تک اسناد کا تعلق ہے ، ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے ، اور با عتبارِ روایت اسکی صحت میں کلام نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح ہر گز نہ فرمائی ہو گی جس طرح وہ نقل ہوئی ہے ۔ بلکہ آپ نے غالباً یہود کی یاوہ گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی موقع پر اسے بطور مثال بیان فرمایا ہو گا، اور سامع کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ اس بات کو حضورؐ خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں ۔ ایسی روایات کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اُتروانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بنانا ہے ۔ ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشا اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اگر بیویوں کی کم سے کم تعداد 60 ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ 6 بیویوں کے حساب سے مسلسل دس گھنٹے یا گیارہ گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے ۔ کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟ اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حضورؐ نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہو گی؟ پھر حدیث میں یہ بات کہیں نہیں بیان کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان کی کرسی پر جس جسد کے ڈالے جانے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد یہی ادھورا بچہ ہے ۔ اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حضورؐ نے یہ واقعہ اس آیت کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا تھا۔ علاوہ بریں اس بچے کی پیدائش پر حضرت سلیمانؑ کا استغفار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے ، مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نے استغفار کے ساتھ یہ دعا کیوں مانگی کہ ’’ مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو۔‘‘

ایک اور تفسیر جس کو امام رازی ترجیح دیتے ہیں یہ ہے کہ حضرت سلیمان کسی سخت مرض میں مبتلا ہو گئے تھے ، یا کسی خطرے کی وجہ سے اس قدر متفکر تھے کہ گھلتے گھلتے وہ بس ہڈی اور چمڑا رہ گئے تھے ۔ لیکن یہ تفسیر قرآن کے الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ ہم نے سلیمان کو آزمائش میں ڈالا اور اس کی

کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا، پھر اس نے رجوع کیا۔‘‘ ان الفاظ کو پڑھ کر کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس جسد سے مراد خود حضرت سلیمان ہیں ۔ ان سے تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش میں ڈالے جانے سے مراد کوئی قصور ہے جو آنجناب سے صادر ہوا تھا۔ اس قصور پر آپ کو تنبیہ اس شکل میں فرمائی گئی کہ آپ کی کرسی پر ایک جسد لا ڈالا گیا، اور اس پر جب آپ کو اپنے قصور کا احساس ہوا تو آپ نے رجوع فرما لیا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ مقام قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں سے ہے اور حتمی طور پر اس کی کوئی تفسیر بیان کرنے کے لیے ہمیں کوئی یقینی بنیاد نہیں ملتی۔ لیکن حضرت سلیمان کی دعا کے یہ الفاظ کہ ’’ اے میرے رب،مجھے معاف کر دے اور مجھ کو وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو’’، اگر تاریخ بنی اسرائیل کی روشنی میں پڑھے جائیں تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں غالباً یہ خواہش تھی کہ ان کے بعد ان کا بیٹا جانشین ہو اور حکومت و فرمانروائی آئندہ انہی کی نسل میں باقی رہے ۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں ’’ فتنہ ‘‘ قرار دیا اور اس پر وہ اس وقت متنبہ ہوئے جب ان کا ولی عہد رَحُبعام ایک ایسا نالائق نوجوان بن کر اُٹھا جس کے لچھن صاف بتا رہے تھے کہ وہ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی سلطنت چار دن بھی نہ سنبھال سکے گا۔ ان کی کرسی پر ایک جَسَد لا کر ڈالے جانے کا مطلب غالباً یہی ہے کہ جس بیٹے کو وہ اپنی کرسی پر بٹھا نا چاہتے تھے وہ ایک کندہ نا تراش تھا۔ تب انہوں نے اپنی اس خواہش سے رجوع کیا، اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر درخواست کی کہ بس یہ بادشاہی مجھی پر ختم ہو جائے ، میں اپنے بعد اپنی نسل میں بادشاہی جاری رہنے کی تمنا سے باز آیا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے اپنے بعد کسی کے لیے بھی جانشینی کی نہ وصیت کی اور نہ کسی کی اطاعت کے لیے لوگوں کو پابند کیا۔ بعد میں ان کے اعیانِ سلطنت نے رحبعام کو تخت پر بٹھایا، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ بنی اسرائیل کے دس قبیلے شمالی فلسطین کاعلاقہ لے کر الگ ہو گئے اور صرف یہوواہ کا قبیلہ بیت المقدس کے تخت سے وابستہ رہ گیا۔

37. اس کی تشریح سورہ انبیاء کی تفسیر میں گزر چکی ہے (تفہیم القرآن جلد سوم، ص 176۔ 177 )۔ البتہ یہاں ایک بات وضاحت طلب ہے ۔ سورہ انبیاء میں جہاں حضرت سلیمانؑ کے لیے ہو ا کو مسخر کرنے کا ذکر کیا گیا ہے وہاں الریح عَاصفتہ (باد تند) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور یہاں اسی ہوا کے متعلق فرمایا گیا ہے تَجْرِیْ بِاَ مْرِ ہٖ رُخَآ ءً (وہ اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہوا بجائے خود تو باد تند تھی، جیسی کہ بادبانی جہازوں کو چلانے کے لیے درکار ہوتی ہے ، مگر حضرت سلیمانؑ کے لیے وہ اس معنی میں نرم بنا دی گئی تھی کہ جدھر ان تجارتی بیڑوں کو سفر کرتے کی ضرورت ہوتی تھی اسی طرف وہ چلتی تھی۔

38. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم،سورۃ انبیاء حاشیہ 75 ،النمل حواشی۔ 23 28 45،46 47 شیاطین سے مراد جِن ہیں ۔ اور ’’ پابند سلاسل شیاطین‘‘ سے مراد وہ خدمت گار شیاطین ہیں جنہیں شرارت کی پاداش میں مقید کر دیا جاتا تھا۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ بیڑیاں اور زنجیریں جن سے یہ شیاطین باندھے جاتے تھے ،لوہے کی ہی بنی ہوئی ہوں اور قیدی انسانوں کی طرح وہ بھی لوگوں کو علانیہ بندھے ہوئے نظر آتے ہوں ۔ بہر حال انہیں کسی ایسے طریقہ سے مقید کیا جاتا تھا جس سے وہ بھاگنے اور شرارت کرنے پر قادر نہ رہتے تھے ۔

39. اس آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ ہماری بے حساب بخشش ہے ، تمہیں اختیار ہے کہ جسے چاہو دو اور جسے چاہے نہ دو۔ دوسرے یہ کہ یہ ہماری بخشش ہے ، جسے چاہو دو نہ دو، دینے یا نہ دینے پر تم سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا۔ ایک اور مطلب بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ شیاطین کلیۃً تمہارے تصرف میں دے دیے گئے ہیں ، ان میں سے جسے چاہو رہا کر دو اور جسے چاہو روک رکھو، اس پر کوئی محاسبہ تم سے نہ ہو گا۔

40. اس ذکر سے اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کی اکڑ جتنی مبغوض ہے ، اس کی عاجزی کی ادا اتنی ہی محبوب ہے ۔ بندہ اگر قصور کرے اور تنبیہ کرنے پر اُلٹا اور زیادہ اکڑ جائے تو انجام وہ ہوتا ہے جو آگے آدم و ابلیس کے قصے میں بیان ہورہا ہے ۔ اس کے برعکس ذرا لغزش بھی اگر بندے سے ہو جائے اور وہ توبہ کر کے عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے آگے جھک جائے تو اس پر وہ نوازشات فرمائی جاتی ہیں جو داؤد و سلیمان علیہما السلام پر فرمائی گئیں ۔ حضرت سلیمانؑ نے استغفار کے بعد جو دعا کی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے لفظ بلفظ پورا کیا اور ان کو فی الواقع ایسی بادشاہی دی جو نہ ان سے پہلے کسی کو ملی نہ تھی، نہ ان کے بعد آج تک کسی کو عطا کی گئی۔ ہواؤں پر تصرُّف اور جِنوں پر حکمرانی ایک ایسی غیر معمولی طاقت ہے جو انسانی تاریخ میں صرف حضرت سلیمان ہی کو بخشی گئی ہے ، کوئی دوسرا اس میں ان کا شریک نہیں ہے ۔