Tafheem ul Quran

Surah 38 Sad, Ayat 41-64

وَاذۡكُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَيُّوۡبَۘ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الشَّيۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّعَذَابٍؕ‏ ﴿38:41﴾ اُرۡكُضۡ بِرِجۡلِكَ​ ۚ هٰذَا مُغۡتَسَلٌ ۢ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ‏ ﴿38:42﴾ وَوَهَبۡنَا لَهٗۤ اَهۡلَهٗ وَمِثۡلَهُمۡ مَّعَهُمۡ رَحۡمَةً مِّنَّا وَذِكۡرٰى لِاُولِى الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿38:43﴾ وَخُذۡ بِيَدِكَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحۡنَثۡ​ؕ اِنَّا وَجَدۡنٰهُ صَابِرًا​ ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ​ ؕ اِنَّـهٗۤ اَوَّابٌ‏ ﴿38:44﴾ وَاذۡكُرۡ عِبٰدَنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ اُولِى الۡاَيۡدِىۡ وَالۡاَبۡصَارِ‏ ﴿38:45﴾ اِنَّاۤ اَخۡلَصۡنٰهُمۡ بِخَالِصَةٍ ذِكۡرَى الدَّارِ​ۚ‏ ﴿38:46﴾ وَاِنَّهُمۡ عِنۡدَنَا لَمِنَ الۡمُصۡطَفَيۡنَ الۡاَخۡيَارِؕ‏ ﴿38:47﴾ وَاذۡكُرۡ اِسۡمٰعِيۡلَ وَ الۡيَسَعَ وَذَا الۡكِفۡلِ​ؕ وَكُلٌّ مِّنَ الۡاَخۡيَارِؕ‏  ﴿38:48﴾ هٰذَا ذِكۡرٌ​ؕ وَاِنَّ لِلۡمُتَّقِيۡنَ لَحُسۡنَ مَاٰبٍۙ‏ ﴿38:49﴾ جَنّٰتِ عَدۡنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الۡاَبۡوَابُ​ۚ‏ ﴿38:50﴾ مُتَّكِـئِيۡنَ فِيۡهَا يَدۡعُوۡنَ فِيۡهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيۡرَةٍ وَّشَرَابٍ‏  ﴿38:51﴾ وَعِنۡدَهُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ اَتۡرَابٌ‏ ﴿38:52﴾ هٰذَا مَا تُوۡعَدُوۡنَ لِيَوۡمِ الۡحِسَابِ‏ ﴿38:53﴾ اِنَّ هٰذَا لَرِزۡقُنَا مَا لَهٗ مِنۡ نَّـفَادٍ ​ۖ ​ۚ‏ ﴿38:54﴾ هٰذَا​ ؕ وَاِنَّ لِلطّٰغِيۡنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ ۙ‏ ﴿38:55﴾ جَهَـنَّمَ​ ۚ يَصۡلَوۡنَهَا​ ۚ فَبِئۡسَ الۡمِهَادُ‏ ﴿38:56﴾ هٰذَا ۙ فَلۡيَذُوۡقُوۡهُ حَمِيۡمٌ وَّغَسَّاقٌ ۙ‏ ﴿38:57﴾ وَّاٰخَرُ مِنۡ شَكۡلِهٖۤ اَزۡوَاجٌ ؕ‏ ﴿38:58﴾ هٰذَا فَوۡجٌ مُّقۡتَحِمٌ مَّعَكُمۡ​ۚ لَا مَرۡحَبًۢـا بِهِمۡ​ؕ اِنَّهُمۡ صَالُوا النَّارِ‏ ﴿38:59﴾ قَالُوۡا بَلۡ اَنۡتُمۡ لَا مَرۡحَبًۢـا بِكُمۡ​ؕ اَنۡتُمۡ قَدَّمۡتُمُوۡهُ لَنَا​ۚ فَبِئۡسَ الۡقَرَارُ‏ ﴿38:60﴾ قَالُوۡا رَبَّنَا مَنۡ قَدَّمَ لَنَا هٰذَا فَزِدۡهُ عَذَابًا ضِعۡفًا فِى النَّارِ‏  ﴿38:61﴾ وَقَالُوۡا مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَـعُدُّهُمۡ مِّنَ الۡاَشۡرَارِؕ‏  ﴿38:62﴾ اَ تَّخَذۡنٰهُمۡ سِخۡرِيًّا اَمۡ زَاغَتۡ عَنۡهُمُ الۡاَبۡصَارُ‏ ﴿38:63﴾ اِنَّ ذٰ لِكَ لَحَقّ ٌ تَخَاصُمُ اَهۡلِ النَّارِ‏ ﴿38:64﴾

41 - اور ہمارے بندے ایّوبؑ کا ذکر کرو، 41 جب اس نے اپنے ربّ کو پُکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے۔ 42 42 - (ہم نے اُسے حکم دیا)اپنا پاوٴں زمین پر مار، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے کے لیے اور پینے کے لیے۔ 43 43 - ہم نے اُسے اس کے اہل و عیال واپس دیے اور ان کے ساتھ اُتنے ہی اور 44 ، اپنی طرف سے رحمت کے طور پر ، اور عقل و فکر رکھنے والوں کے لیے درس کے طور پر۔ 45 44 - (اور ہم نے اس سے کہا)تِنکوں کا ایک مُٹّھا لے اور اُس سے مار دے، اپنی قسم نہ توڑ۔ 46 ہم نے اُسے صابر پایا، بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رُجوع کرنے والا۔ 47 45 - اور ہمارے بندوں ، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو۔ بڑی قوّتِ عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے۔ 48 46 - ہم نے اُن کو ایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا، اور وہ دارِ آخرت کی یاد تھی۔ 49 47 - یقیناً ہمارے ہاں ان کا شمار چُنے ہوئے نیک اشخاص میں ہے۔ 48 - اور اسماعیلؑ اور اَلیَسیع 50 اور ذوالکِفل 51 کا ذکر کرو، یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔ 49 - یہ ایک ذکر تھا۔ (اب سُنو کہ)متّقی لوگوں کے لیے یقیناً بہترین ٹھکانا ہے ، 50 - ہمیشہ رہنے والی جنّتیں جن کے دروازے اُن کے لیے کھُلے ہوں گے۔ 52 51 - ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، خوب خوب فواکہ اور مشرُوبات طلب کر رہے ہوں گے ، 52 - اور ان کے پاس شرمیلی ہم سِن بیویاں 53 ہوں گی۔ 53 - یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں حساب کے دِن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ 54 - یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ 55 - یہ تو ہے مُتّقیوں کا انجام۔ اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے، 56 - جہنّم جس میں وہ جھُلسے جائیں گے، بہت ہی بُری قیام گاہ ۔ 57 - یہ ہے اُن کے لیے ، پس وہ مزا چکھیں کھولتے ہوئے پانی ارو پیپ لہُو 54 58 - اور اسی قسم کی دُوسری تلخیوں کا۔ 59 - (وہ جہنّم کی طرف اپنے پیرووں کے آتے دیکھ کر آپس میں کہیں گے)” یہ ایک لشکر تمہارے پاس گھُسا چلا آرہا ہے، کوئی خوش آمدید اِن کے لیے نہیں ہے، یہ آگ میں جھُلسنے والے ہیں۔“ 60 - وہ اُن کو جواب دیں گے” نہیں بلکہ تم ہی جھُلسے جا رہے ہو، کوئی خیر مقدم تمہارے لیے نہیں ۔ تم ہی تو یہ انجام ہمارے آگے لائے ہو ، کیسی بُری ہے یہ جائے قرار۔“ 61 - پھر وہ کہیں گے ”اے ہمارے ربّ، جس نے ہمیں اس انجام کو پہنچانے کا بندوبست کیا اُس کو دوزخ کا دوہرا عذاب دے۔“ 62 - اور وہ آپس میں کہیں گے ”کیابات ہے ، ہم اُن لوگوں کو کہیں نہیں دیکھتے جنہیں ہم دنیا میں بُرا سمجھتے تھے؟ 55 63 - ہم نے یونہی ان کا مذاق بنا لیا تھا، یا وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہیں؟“ 64 - بے شک یہ بات سچی ہے، اہلِ دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں۔ ؏۴


Notes

41. یہ چوتھا مقام ہے جہاں حضرت ایوبؑ کا ذکر قرآن میں آیا ہے ۔ اس سے پہلے سورہ نساء آیت 163، سورہ انعام آیت 84، سورہ انبیاء آیات 83۔84 میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم تفسیر سورہ انبیاء میں ان کے حالات کی تفصیل بیان کر چکے ہیں ۔(تفہیم القرآن، جلد سوم،الانبیاء حواشی76تا79)

42. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان نے مجھے بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور میرے اوپر مصائب نازل کر دیے ہیں ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت، مال و دولت کے ضیاع، اور اعزّہ و اقربا کے منہ موڑ لینے سے میں جس تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہوں اس سے بڑھ کر تکلیف اور عذاب میرے لیے یہ ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے مجھ تنگ کر رہا ہے ، وہ ان حالات میں مجھے اپنے رب سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے ، مجھے اپنے رب کا ناشکرا بنانا چاہتا ہے ، اور اس بات کے درپے ہے کہ میں دامن صبر ہاتھ سے چھوڑ بیٹھوں ۔ حضرت ایوب کی فریاد کا یہ مطلب ہمارے نزدیک دو وجوہ سے قابل ترجیح ہے ، ایک یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو صرف وسوسہ اندازی ہی کی طاقت عطا فرمائی ہے ، یہ اختیارات اس کو نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو بیمار ڈال دے اور انہیں جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کرے ۔ دوسرے یہ کہ سورہ انبیاء میں جہاں حضرت ایوبؑ اپنی بیماری کی شکایت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہاں شیطان کا کوئی ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّ ا حِمِیْنَ، ’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے ۔‘‘

43. یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر پاؤں مارتے ہی ایک چشمہ نکل آیا جس کا پانی پینا اور اس میں غسل کرنا حضرت ایوبؑ کے مرض کا علاج تھا۔ اغلب یہ ہے کہ حضرت ایوبؑ کسی سخت جلدی مرض میں مبتلا تھے ۔ بائیبل کا بیان بھی یہی ہے کہ سر سے پاؤں تک ان کا سارا جسم پھوڑوں سے بھر گیا تھا۔

45. یعنی اس میں ایک صاحب عقل آدمی کے لیے یہ سبق ہے کہ انسان کو نہ اچھے حالات میں خدا کو بھول کر سرکش بننا چاہیے اور نہ بُرے حالات میں اس سے مایوس ہونا چاہیے ۔ تقدیر کی بھلائی اور بُرائی سراسر وحدہٗ لاشریک کے اختیار میں ہے ۔ وہ چاہے تو آدمی کے بہترین حا لات کو بدترین حالات میں تبدیل کر دے ، اور چاہے تو بُرے سے بُرے حالات سے اس کو بخیریت گزار کر بہترین حالت پر پہنچا دے ۔ اس لیے بندہ عاقل کو ہر حالت میں اسی پر توکل کرنا چاہیے اور اسی سے آس لگانی چاہیے ۔

46. ان الفاظ پر غور کرنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت ایوب نے بیماری کی حالت میں ناراض ہو کر کسی کو مارنے کی قسم کھا لی تھی، (روایات یہ ہیں کہ بیوی کو مارنے کی قسم کھائی تھی) اور اس قسم ہی میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تجھے اتنے کوڑے ماروں گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرما دی اور حالت مرض کا وہ غصہ دور ہو گیا جس میں یہ قسم کھائی گئی تھی، تو ان کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قسم پوری کرتا ہوں تو خواہ مخواہ ایک بے گناہ کو مارنا پڑے گا، اور قسم توڑتا ہوں تو یہ بھی ایک گناہ کا ارتکاب ہے ۔ اس مشکل سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح نکالا کہ انہیں حکم دیا، ایک جھاڑو لو جس میں اتنے ہی تنکے ہوں جتنے کوڑے تم نے مارنے کی قسم کھائی تھی، اور اس جھاڑو سے اس شخص کو بس ایک ضرب لگا دو، تاکہ تمہاری قسم بھی پوری ہو جائے اور اسے ناروا تکلیف بھی نہ پہنچے ۔

بعض فقہاء اس رعایت کو حضرت ایوبؑ کے لیے خاص سمجھتے ہیں ، اور بعض فقہا ء کے نزدیک دوسرے لوگ بھی اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ پہلی رائے ابن عسا کر نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور ابوبکر جَصّاص نے مجاہد سے نقل کی ہے ، اور امام مالکؒ کی بھی یہی رائے ہے ۔ دوسرے رائے کو امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زُفَر اور امام شافعیؒ نے اختیار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص، مثلاً اپنے خادم کو دس کوڑے مارنے کی قسم کھا بیٹھا ہو اور بعد میں دسوں کوڑے ملا کر اسے صرف ایک ضرب اس طرح لگا دے کہ ہر کوڑے کا کچھ نہ کچھ حصہ اس شخص کو ضرور لگ جائے ، تو اس کی قسم پوری ہو جائے گی۔

متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے زانی پر حد جاری کرنے کے معاملے میں بھی اس آیت کا بتایا ہو ا طریقہ استعمال فرمایا ہے جو اتنا بیمار یا اتنا ضعیف ہو کہ سو درّوں کی مار برداشت نہ کر سکے ۔ علامہ ابو بکر جصاص نے حضرت سعید بن عبادہ سے روایت نقل کی ہے کہ قبیلہ بنی ساعد میں ایک شخص سے زنا کا ارتکاب ہوا اور وہ ایسا مریض تھا کہ بس ہڈی اور چمڑا رہ گیا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ خذوا عثکالاً فیہ مأۃ شمر اخ فاضربوہ بھا ضربۃ واحدۃ، ’’ کھجور کا ایک ٹہنا لو جس میں سو شاخیں ہوں اور اس سے بیک وقت اس شخص کو ماردو‘‘ (احکام القرآن)۔ مُسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، عبدالرزاق اور دوسری کتب حدیث میں بھی اس کی تائید کرنے والی کئی حدیثیں موجود ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مرض اور ضعیف پر حد جاری کرنے کے لیے یہی طریقہ مقرر فرمایا تھا۔ البتہ فقہاء نے اس کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ ہر شاخ یا ہر تنکا کچھ نہ کچھ مجرم کو لگ جانا چاہیے ، اور ایک ہی ضرب سہی، مگر وہ کسی نہ کسی حد تک مجرم کو چوٹ لگانے والی بھی ہونی چاہیے ۔ یعنی محض چھو دینا کافی نہیں ہے ، بلکہ مارنا ضروری ہے ۔

یہاں یہ بحث بھی پیدا ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بات کی قسم کھا بیٹھا ہو اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ نامناسب بات ہے تو اسے کیا کرنا چاہیے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے فرمایا اس صورت میں آدمی کو وہی کام کرنا چاہیے جو بہتر ہو اور یہی کفارہ ہے ۔ دوسری روایت حضورؐ سے یہ ہے کہ اس نامناسب کام کے بجائے آدمی وہ کام کرے جو اچھا ہو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے ۔ یہ آیت اسی دوسری روایت کی تائید کرتی ہے ۔ کیونکہ ایک نامناسب کام نہ کرنا ہی اگر قسم کا کفارہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت ایوبؑ سے یہ نہ فرماتا کہ تم ایک جھاڑو مار کر اپنے قسم پوری کر لو، بلکہ یہ فرماتا کہ تم یہ مناسب کام نہ کرو اور اسے نہ کرنا ہی تمہاری قسم کا کفارہ ہے ۔ (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،النور حاشیہ 20)

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی نے جس بات کی قسم کھائی ہو اسے فوراً پورا کرنا ضروری نہیں ہے ۔ حضرت ایوبؑ نے قسم بیماری کی حالت میں کھائی تھی اور اسے پورا تندرست ہونے کے بعد کیا، اور تندرست ہونے کے بعد بھی فوراً ہی نہیں کر دیا۔

بعض لوگوں نے اس آیت کو حیلہ شرعی کے لیے دلیل قرار دیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ایک حیلہ ہی تھا جو حضرت ایوبؑ کو بتایا گیا تھا، لیکن وہ کسی فرض سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ ایک بُرائی سے بچنے کے لیے بتایا گیا تھا۔ لہٰذا شریعت میں صرف وہی حیلے جائز ہیں جو آدمی کو اپنی ذات سے یا کوئی دوسرے شخص سے ظلم اور گناہ اور برائی کو دفع کرنے کے لیے اختیار کیے جائیں ۔ ورنہ حرام کو حلال کرنے یا فرائض کو ساقط کرنے یا نیکی سے بچنے کے لیے حیلہ سازی گناہ در گناہ ہے ۔ بلکہ اس کے ڈانڈے کفر سے جا ملتے ہیں ۔ کیونکہ جو شخص ان کی ناپاک اغراض کے لیے حیلہ کرتا ہے وہ گویا خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے ۔ مثلاً جو شخص زکوٰۃ سے بچنے کے لیے سال ختم ہونے سے پہلے اپنا مال کسی اور کی طرف منتقل کر دیتا ہے وہ محض ایک فرض ہی سے فرار نہیں کرتا۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اس ظاہری فعل سے دھوکا کھا جائے گا اور اسے فرض سے سبکدوش سمجھ لے گا۔ جن فقہاء نے اس طرح کے حیلے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں ا ن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احکام شریعت سے جان چھڑا نے کے لیے یہ حیلہ بازیاں کرنی چاہییں ۔ بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گناہ کو قانونی شکل دے کر بچ نکلے تو قاضی یا حاکم اس پر گرفت نہیں کر سکتا، اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے ۔

47. حضرت ایوبؑ کا ذکر اس سیاق سباق میں یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کے نیک بندے جب مصائب و شدائد میں مبتلا ہوتے ہیں تو اپنے رب سے شکوہ سنج نہیں ہوتے بلکہ صبر کے ساتھ اس کی ڈالی ہوئی آزمائشوں کو برداشت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ان کا یہ طریقہ نہیں ہوتا کہ اگر کچھ مدت تک خدا سے دعا مانگتے رہنے پر بلا نہ ٹلے تو پھر اس سے مایوس ہو کر دوسروں کے آستانوں پر ہاتھ پھیلانا شروع کر دیں ۔ بلکہ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ملنا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملنا ہے ، اس لیے مصیبتوں کا سلسلہ چاہے کتنا ہی دراز ہو، وہ اُسی کی رحمت کے امیدوار بنے رہتے ہیں ۔ اسی لیے وہ ان الطاف و عنایات سے سرفراز ہوتے ہیں جن کی مثال حضرت ایوبؑ کی زندگی میں ملتی ہے ۔ حتیٰ کہ اگر وہ کبھی مضطرب ہو کر کسی اخلاقی مخمصے میں پھنس بھی جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بُرائی سے بچانے کے لیے ایک راہ نکال دیتا ہے جس طرح اس نے حضرت ایوبؑ کے لیے نکال دی۔

48. اصل الفاظ ہیں اُو لِی الْاَ یْدِ یْ وَالْاَبْصَارِ (ہاتھوں والے اور نگاہوں والے )۔ ہاتھ سے مراد، جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں ، قوت و قدرت ہے ۔ اور ان انبیاء کو صاحب قوت و قدرت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہایت با عمل لوگ تھے ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور معصیتوں سے بچنے کی زبردست طاقت رکھتے تھے ، اور دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے انہوں نے بڑی کوششیں کی تھیں ۔ نگاہ سے مراد آنکھوں کی بینائی نہیں بلکہ دل کی بصیرت ہے ۔ وہ حق ہیں اور حقیقت شناس لوگ تھے ۔ دنیا میں اندھوں کی طرح نہیں چلتے تھے بلکہ آنکھیں کھول کر علم و معرفت کی پوری روشنی میں ہدایت کا سیدھا راستہ دیکھتے ہوئے چلتے تھے ۔ ان الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو لوگ بد عمل اور گمراہ ہیں وہ درحقیقت ہاتھوں اور آنکھوں ، دونوں سے محروم ہیں ۔ ہاتھ والا حقیقت میں وہی ہے اللہ کی راہ میں کام کرے اور آنکھوں والا دراصل وہی ہے جو حق کی روشنی اور باطل کی تاریکی میں امتیاز کرے ۔

49. یعنی ان کی تمام سرفرازیوں کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر دنیا طلبی اور دنیا پرستی کا شائبہ تک نہ تھا، ان کی ساری فکر و سعی آخرت کے لیے تھی، وہ خود بھی اس کو یاد رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی یاد دلاتے تھے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ مرتبے دیے جو دنیا بنانے کی فکر میں منہمک رہنے والے لوگوں کو کبھی نصیب نہ ہوئے ۔ اس سلسلے میں یہ لطیف نکتہ بھی نگاہ میں رہنا چاہیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے لیے صرف الدّار (وہ گھر، یا اصل گھر ) کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ اس سے یہ حقیقت ذہن نشین کرنی مطلوب ہے کہ یہ دنیا سرے سے انسان کا گھر ہے ہی نہیں ، بلکہ یہ صرف ایک گزر گاہ ہے ، ایک مسافر خانہ ہے ، جس سے آدمی کو بہر حال رخصت ہو جانا ہے ۔ اصل گھر وہی آخرت کا گھر ہے ۔ جو شخص اس کو سنوارنے کی فکر کرتا ہے وہی صاحب بصیرت ہے اور اللہ کے نزدیک لامحالہ اسی کو پسندیدہ انسان ہونا چاہیے ۔ رہا وہ شخص جو اس مسافر خانے میں اپنی چند روزہ قیام گاہ کو سجانے کے لیے وہ حرکتیں کرتا ہے جن سے آخرت کا اصل گھر اس کے لیے اُجڑ جائے وہ عقل کا اندھا ہے اور فطری بات ہے کہ ایسا آدمی اللہ کو پسند نہیں آ سکتا۔

50. قرآن مجید میں ان کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ انعام آیت 86 میں ۔ دوسرے اس جگہ۔ اور دونوں مقامات پر کوئی تفصیل نہیں ہے بلکہ صرف انبیائے کرام کے سلسلے میں ان کا نام لیا گیا ہے ۔ وہ بنی اسرائیل کے اکابر انبیاء میں سے تھے ۔ دریائے اُردُن کے کنارے ایک مقام ایبل محولہ (Abel Meholah)کے رہنے والے تھے ۔ یہودی اور عیسائی ان کو اِلِیشَع (Elisha ) کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ حضرت الیاس علیہ السلام جس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا میں پناہ گزیں تھے ، ان کو چند اہم کاموں کے لیے شام و فلسطین کی طرف واپس آنے کا حکم دیا گیا، جن میں سے ایک کام یہ تھا یہ حضرت الیسع کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کریں ۔ اس فرمان کے مطابق جب حضرت الیاس ان کی بستی پر پہنچے تو دیکھا کہ یہ بارہ جوڑی بیل آگے لیے زمین جوت رہے ہیں اور خود بارہویں جوڑی کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر ساتھ ہولیے (سلاطین، باب 19، فقرات 15۔تا۔ 21)۔تقریباً دس بارہ سال یہ ان کے زیر تربیت رہے پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا تو یہ انکی جگہ مقرر ہوئے ۔ (2 سلاطین، باب 2)۔ بائیبل کی کتاب 2 سلاطین میں باب 2 سے 13 تک ان کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی فلسطین کی اسرائیلی سلطنت جب شرک و بت پرستی اور اخلاقی نجاستوں میں غرق ہوتی چلی گئی تو آخر کا انہوں نے یاہو بن یہوسفط بن مسّی کو اس خانوادہ شاہی کے خلاف کھڑا کیا جس کے کرتوتوں سے اسرائیل میں یہ برائیاں پھیلی تھیں ، اور اس نے نہ صرف بعل پرستی کا خاتمہ کیا، بلکہ اس بدکردار خاندان کے بچے بچے کو قتل کر دیا۔ لیکن اس اصلاحی انقلاب سے بھی وہ برائیاں پوری طرح نہ مٹ سکیں جو اسرائیل کی ر گ رگ میں اُتر چکی تھیں ، اور حضرت الیسع کی وفات کے بعد تو انہوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی، یہاں تک کہ سامریہ پر اشوریوں کے پے در پے حملے شروع ہو گئے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، بنی اسرائیل حاشیہ 7۔ اور تفسیر سورہ صافات، حاشیہ نمبر 70۔71)

51. حضرت ذولکفل کا ذکر بھی قرآن مجید میں دو ہی جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ انبیاء۔ دوسرے یہ مقام۔ ان کے متعلق ہم اپنی تحقیق سورہ انبیاء میں بیان کر چکے ہیں ۔ (تفہیم القرآن : جلد سوم،الانبیاء حاشیہ 81)

52. اصل الفاظ ہیں مُفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَبْوَابُ۔ اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان جنتوں میں وہ بے روک ٹوک پھریں گے ، کہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو گی۔ دوسرے یہ جنت کے دروازے کھولنے کے لیے کسی کوشش کی حاجت نہ ہو گی بلکہ وہ مجرد اُن کی خواہش پر خود بخود کھل جائیں گے ۔ تیسرے یہ کہ جنت کے انتظام پر جو فرشتے مقرر ہو گے وہ اہل جنت کو دیکھتے ہی ان کے لیے دروازے کھول دیں گے ۔ یہ تیسرا مضمون قرآن مجید میں ایک اور مقام پر زیادہ صاف الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے : حَتّیٰ اِذَا جَآءُ وْ ھَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَا بھَُا وَقَالَ لَھُمْ خَزَ نَتھَُا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَا دْخُلُوْ ھَا خٰلِدِیْنَ۔ ’’ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جاچکے ہوں گے تو جنت کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ سلام علیکم، خوش آمدید، ہمیشہ کے لیے اس میں داخل ہو جایئے ‘‘۔ (الزمر۔73)۔

53. ہم سِن بیویوں کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں ہم سِن ہوں گی، اور یہ بھی کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم سِن ہوں گی۔

54. اصل میں لفظ غَسَّاق استعمال ہو ا ہے جس کے کئی معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں ۔ ایک معنی جسم سے نکلنے والی رطوبت کے ہیں جو پیپ، لہو، کچ لہو وغیرہ کی شکل میں ہو، اس میں آنسو بھی شامل ہیں ۔ دوسرے معنی انتہائی سرد چیز کے ہیں ۔ اور تیسرے معنی انتہائی بدبو دار متعفّن چیز کے ۔ لیکن اس لفظ کا عام استعمال پہلے ہی معنی میں ہوتا ہے ، اگرچہ باقی دونوں معنی بھی لغت کے اعتبار سے درست ہیں ۔

55. مراد ہیں وہ اہل ایمان جن کو یہ کفار دنیا میں برا سمجھتے تھے ۔ مطلب یہ کہ وہ حیران ہو ہو کر ہر طرف دیکھیں گے کہ اس جہنم میں ہم اور ہمارے پیشوا تو موجود ہیں مگر ان لوگوں کا یہاں کہیں پتہ نشان تک نہیں ہے جن کی ہم دنیا میں برائیاں کرتے تھے اور خدا، رسول، آخرت کی باتیں کرنے پرجن کا مذاق ہماری مجلسوں میں اُڑایا جاتا تھا۔

56. اب کلام کا رُخ پھر اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جس سے تقریر کا آغاز ہوا تھا۔ اِس حصّے کو پڑھتے ہوئے پہلے رکوع سے مقابلہ کرتے جائیے ، تاکہ بات پوری سمجھ میں آ سکے ۔