Tafheem ul Quran

Surah 38 Sad, Ayat 65-88

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنۡذِرٌ ​​ۖ  وَّمَا مِنۡ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ​ ۚ‏ ﴿38:65﴾ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا الۡعَزِيۡزُ الۡغَفَّارُ‏ ﴿38:66﴾ قُلۡ هُوَ نَبَؤٌا عَظِيۡمٌۙ‏ ﴿38:67﴾ اَنۡتُمۡ عَنۡهُ مُعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿38:68﴾ مَا كَانَ لِىَ مِنۡ عِلۡمٍۢ بِالۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰٓى اِذۡ يَخۡتَصِمُوۡنَ‏  ﴿38:69﴾ اِنۡ يُّوۡحٰۤى اِلَىَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا۟ نَذِيۡرٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿38:70﴾ اِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰٓـئِكَةِ اِنِّىۡ خَالِـقٌ ۢ بَشَرًا مِّنۡ طِيۡنٍ‏  ﴿38:71﴾ فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ‏  ﴿38:72﴾ فَسَجَدَ الۡمَلٰٓـئِكَةُ كُلُّهُمۡ اَجۡمَعُوۡنَۙ‏ ﴿38:73﴾ اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ اِسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿38:74﴾ قَالَ يٰۤـاِبۡلِيۡسُ مَا مَنَعَكَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِيَدَىَّ​ ؕ اَسۡتَكۡبَرۡتَ اَمۡ كُنۡتَ مِنَ الۡعَالِيۡنَ‏ ﴿38:75﴾ قَالَ اَنَا خَيۡرٌ مِّنۡهُ​ ؕ خَلَقۡتَنِىۡ مِنۡ نَّارٍ وَّخَلَقۡتَهٗ مِنۡ طِيۡنٍ‏ ﴿38:76﴾ قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡهَا فَاِنَّكَ رَجِيۡمٌ  ۖ​ ۚ‏ ﴿38:77﴾ وَّاِنَّ عَلَيۡكَ لَعۡنَتِىۡۤ اِلٰى يَوۡمِ الدِّيۡنِ‏ ﴿38:78﴾ قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِىۡۤ اِلٰى يَوۡمِ يُبۡعَثُوۡنَ‏ ﴿38:79﴾ قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الۡمُنۡظَرِيۡنَۙ‏ ﴿38:80﴾ اِلٰى يَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ‏ ﴿38:81﴾ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغۡوِيَنَّهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿38:82﴾ اِلَّا عِبَادَكَ مِنۡهُمُ الۡمُخۡلَصِيۡنَ‏ ﴿38:83﴾ قَالَ فَالۡحَقُّ  وَالۡحَقَّ اَ قُوۡلُ​ ۚ‏ ﴿38:84﴾ لَاَمۡلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنۡكَ وَمِمَّنۡ تَبِعَكَ مِنۡهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَ‏  ﴿38:85﴾ قُلۡ مَاۤ اَسۡـئَـلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُتَكَلِّفِيۡنَ‏  ﴿38:86﴾ اِنۡ هُوَ اِلَّا ذِكۡرٌ لِّلۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿38:87﴾ وَلَتَعۡلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعۡدَ حِيۡنِ‏ ﴿38:88﴾

65 - 56 (اے نبیؐ )اِن سے کہو” میں تو بس خبر دار کردینے والا ہوں۔ 57 کوئی حقیقی معبُود نہیں مگر اللہ ، جو یکتا ہے، سب پر غالب ، 66 - آسمانوں اور زمین کا مالک اور اُن ساری چیزوں کا مالک جو ان کے درمیان ہیں، زبر دست اور درگزر درنے والا۔“ 67 - اِن سے کہو” یہ ایک بڑی خبر ہے 68 - جس کو سُن کر تم منہ پھیرتے ہو۔“ 58 69 - (اِن سے کہو)” مجھے اُس وقت کی کوئی خبر نہ تھی جب ملاء اعلیٰ میں جھگڑا ہو رہا تھا ۔ 70 - مجھ کو تو وحی کے ذریعہ سے یہ باتیں صرف اس لیے بتائی جاتی ہیں کہ میں کھُلا کھُلا خبردار کرنے والا ہوں۔ “ 71 - جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا” 59 میں مٹّی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، 60 72 - پھر جب میں اسے پُوری طرح بناد وں اور اس میں اپنی رُوح پھُونک دوں 61 تو تم اس کے آگے سجدے میں گِر جاوٴ۔“ 62 73 - اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے، 74 - مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔ 63 75 - ربّ نے فرمایا” اے ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ 64 تُو بڑا بن رہا ہے یا تُو ہے ہی کچھ اُونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟“ 76 - اُس نے جواب دیا” میں اُس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اِس کو مٹی سے۔“ 77 - فرمایا”اچھا تو یہاں سے نکل جا، 65 تُو مردُود ہے 66 78 - اور تیرے اُوپر یوم الجزا ء تک میری لعنت ہے۔“ 67 79 - وہ بولا” اے میرے ربّ، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس وقت تک کے لیے مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اُٹھائے جائیں گے۔ “ 80 - فرمایا” اچھا، تجھے اُس روز تک کی مہلت ہے 81 - جس کا وقت مجھے معلوم ہے۔“ 82 - اس نے کہا”تیری عزّت کی قسم، میں اِن سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، 83 - بجز تیرے اُن بندوں کے جنہیں تُونے خالص کر لیا ہے۔ 68 84 - فرمایا” تو حق یہ ہے، اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں، 85 - کہ میں جہنّم کو تجھ سے 69 اور اُن سب لوگوں سے بھر دُوں گا جو اِن انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے۔“ 70 86 - (اے نبیؐ )اِن سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، 71 اور نہ میں بناوٹی لوگوں میں سے ہوں۔ 72 87 - یہ تو ایک نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لیے۔ 88 - اور تھوڑی مدّت ہی گزرے گی کہ تمہیں اس کا حال خود معلوم ہو جائے گا۔ 73 ؏۵


Notes

57. آیت نمبر 4 میں فرمایا گیا تھا کہ یہ لوگ اس بات پر بڑے اچنبھے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک خبردار کرنے والا خود ان کے درمیان سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ان سے کہو میرا کام بس تمہیں خبردار کر دینا ہے ۔ یعنی میں کوئی فوجدار نہیں ہوں کہ زبردستی تمہیں غلط راستے سے ہٹا کر سیدھے راستے کی طرف کھینچوں ۔ میرے سمجھانے سے اگر تم نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے ۔ بے خبر ہی رہنا اگر تمہیں پسند ہے تو اپنی غفلت میں سرشار پڑے رہو، اپنا انجام خود دیکھ لو گے ۔

58. یہ جواب ہے کفار کی اس بات کا جو آیت نمبر 5 میں گزری ہے کہ ’’ کیا اس شخص نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ‘‘۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ تم چاہے کتنی ہی ناک بھوں چڑھاؤ، مگر یہ ہے ایک حقیقت جس کی خبر میں تمہیں دے رہا ہوں ، اور تمہارے ناک بھوں چڑھانے سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔

اس جواب میں صرف بیان حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے حقیقت ہونے کی دلیل بھی اسی میں موجود ہے ۔ مشرکین کہتے تھے کہ معبود بہت سے ہیں جن میں سے ایک اللہ بھی ہے ، تم نے سارے معبودوں کو ختم کر کے بس ایک معبود کیسے بنا ڈالا؟ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہی ہے ، کیونکہ وہ سب پر غالب ہے ، زمین و آسمان کا مالک ہے ، اور کائنات کی ہر چیز اس کی مِلک ہے ۔ اس کے ماسوا اس کائنات میں جن ہستیوں کو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں سے کوئی ہستی بھی ایسی نہیں ہے جو اس سے مغلوب اور اس کی مملوک نہ ہو۔ یہ مغلوب اور مملوک ہستیاں اس غالب اور مالک کے ساتھ خدائی میں شریک کیسے ہو سکتی ہیں اور آخر کس حق کی بنا پر انہیں معبود قرار دیا جا سکتا ہے ۔

59. یہ اس جھگڑے کی تفصیل ہے جس کی طرف اوپر کی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور جھگڑے سے مراد شیطان کا خدا سے جھگڑا ہے جیسا کہ آگے کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ ’’ ملاءِ اعلیٰ‘‘ سے مراد فرشتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطان کا مکالمہ دو بدو نہیں بلکہ کسی فرشتے ہی کے توسط سے ہوا ہے ۔ اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ملاء اعلیٰ میں شامل تھا۔ جو قصہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے وہ اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول، البقرۃ حواشی 35تا 53۔ جلد دوم، الاعراف حواشی 10 تا، 15الحجر حواشی 17تا19،بنی اسرائیل حواشی 71تا 82۔جلد سوم الکہف حواشی 46تا48۔

60. بَشَر کے لغوی معنی ہیں جسم کثیف جس کی ظاہری سطح کسی دوسری چیز سے ڈھکی ہوئی نہ ہو۔ انسان کی تخلیق کے بعد تو یہ لفظ انسان ہی کے لیے استعمال ہونے لگا ہے ۔ لیکن تخلیق سے پہلے اس کا ذکر لفظ بشر سے کرنے اور اس کو مٹی سے بنانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ’’ میں مٹی کا ایک پُتلا بنانے والا ہوں جو بال و پر سے عاری ہو گا۔ یعنی جس کی جلد دوسرے حیوانات کی طرح اُون، یا صوف یا بالوں اور پروں سے ڈھکی ہوئی نہ ہو گی۔‘‘

61. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم الحجر حواشی 17تا19۔ جلد چہارم، السجدہ حاشیہ 16۔

62. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول البقرۃ حاشیہ 45۔ جلد دوم،الاعراف حاشیہ 10۔

63. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،البقرۃ حاشیہ47 ۔ جلد سوم،الکہف حاشیہ 48 ۔

64. یہ الفاظ تخلیق انسانی کے شرف پر دلالت کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں ۔ بادشاہ کا اپنے خدّام سے کوئی کام کرانا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک معمولی کام تھا جو خدّام سے کرا لیا گیا۔ بخلاف اس کے بادشاہ کا کسی کام کو بنفسِ نفیس انجام دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایک افضل و اشرف کام تھا۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جسے میں نے خود بلاواسطہ بنایا ہے اس کے آگے جھکنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟

’’ دونوں ہاتھوں ‘‘کے لفظ سے غالباً اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطا کیا گیا جس کی بنا پر وہ حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے اندر وہ روح ڈال دی گئی جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے اشرف و افضل ہو گیا۔

65. یعنی اس مقام سے جہاں آدم کے آگے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا اور جہاں ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا۔

66. اصل میں لفظ ’’ رَجِیْم ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’’ پھینکا ہوا ‘‘ یا ’’ مارا ہوا ‘‘۔ اور محاورے میں یہ لفظ اس شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جسے مقام عزت سے گرا دیا گیا ہو اور ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا گیا ہو۔ سورہ اعراف میں یہی مضمون ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے : فَا خْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصَّا غِرِیْنَ، ’’ پس تو نکل جا، تو ذلیل ہستیوں میں سے ہے ‘‘۔

67. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یوم الجزاء کے بعد اُس پر لعنت نہ ہو گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوم الجزا ء تک تو وہ اس نافرمانی کی پاداش میں مبتلائے لعنت رہے گا، اور یوم الجزاء کے بعد وہ اپنے ان کرتوتوں کی سزا بھگتے گا جو تخلیق آدمؑ کے وقت سے لے کر قیامت تک اس سے سرزد ہوں گے ۔

68. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’’ میں تیرے چیدہ بندوں کو بہکاؤں گا نہیں ،‘‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تیرے چیدہ بندوں پر میرا بس نہ چلے گا۔‘‘

69. ’’ تجھ سے ‘‘کا خطاب صرف شخص ابلیس ہی کی طرف نہیں ہے بلکہ پوری جنس شیاطین کی طرف ہے ، یعنی ابلیس اور اس کا وہ پورا گروہ شیاطین جو اس کے ساتھ مل کر نوع انسانی کو گمراہ کرنے میں لگا رہے گا۔

70. یہ پورا قصہ سرداران قریش کے اس قول کے جواب میں سنایا گیا ہے کہ أاُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا، ’’ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر ذکر نازل کیا گیا ‘‘؟ اس کا ایک جواب تو وہ تھا جو آیات نمبر 9 اور 10 میں دیا گیا تھا کہ کیا خدا کی رحمت کے خزانوں کے تم مالک ہو، اور کیا آسمان و زمین کی بادشاہی تمہاری ہے اور یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ خدا کا نبی کسے بنایا جائے اور کسے نہ بنایا جائے؟ دوسرا جواب یہ ہے ، اور اس میں سرداران قریش کو بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں تمہارا حسد اور اپنی بڑائی کا گھمنڈ، آدم علیہ السلام کے مقابلے میں ابلیس کے حسد اور گھمنڈ سے ملتا جلتا ہے ۔ ابلیس نے بھی اللہ تعالیٰ کے اس حق کو ماننے سے انکار کیا تھا کہ جسے وہ چاہے اپنا خلیفہ بنائے ، اور تم بھی اُس کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو کہ جسے وہ چاہے اپنا رسول بنائے ۔ اس نے آدم کے آگے جھُکنے کا حکم نہ مانا اور تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کا حکم نہیں مان رہے ہو۔ اس کے ساتھ تمہاری یہ مشابہت بس اس حد پر ختم نہ ہو جائے گی، بلکہ تمہارا انجام بھی پھر وہی ہو گا جو اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے ، یعنی دنیا میں خدا کی لعنت، اور آخرت میں جہنم کی آگ۔

اس کے ساتھ اس قصے کے ضمن میں دو باتیں اور بھی سمجھائی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو انسان بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہے وہ دراصل اپنے اُس ازلی دشمن، ابلیس کے پھندے میں پھنس رہا ہے جس نے آغاز آفرینش سے نوع انسانی کو اغوا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بندہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انتہائی مبغوض ہے جو تکبّر کی بنا پر اس کی نافرمانی کرے اور پھر اپنی اس نافرمانی کی روش پر اصرار کیے چلا جائے ۔ ایسے بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے ۔

71. یعنی میں ایک بے غرض آدمی ہوں ، اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے یہ تبلیغ نہیں کر رہا ہوں ۔

72. یعنی میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے جھوٹے دعوے لے کر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ کچھ بن بیٹھتے ہیں جو فی الواقع وہ نہیں ہوتے ۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے محض کفار مکہ کی اطلاع کے لیے نہیں کہلوائی گئی ہے ، بلکہ اس کے پیچھے حضورؐ کی وہ پوری زندگی شہادت کے طور پر موجود ہے جو نبوت سے پہلے انہی کفار کے درمیان چالیس برس تک گزر چکی تھی۔ مکے کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ایک بناوٹی آدمی نہیں ہیں ۔ پوری قوم میں کسی شخص نے بھی کبھی اُن کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہ کرنے کی گنجائش ہوتی کہ وہ کچھ بننا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔

73. یعنی جو تم میں سے زندہ رہیں گے وہ چند سال کے اندر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ جو بات میں کہ رہا ہوں وہ پوری ہو کر رہی۔ اور جو مر جائیں گے ان کو موت کے دروازے سے گزرتے ہی پتہ چل جائے گا کہ حقیقت وہی کچھ ہے جو میں بیان کر رہا ہوں ۔