Tafheem ul Quran

Surah 39 Az-Zumar, Ayat 1-9

تَنۡزِيۡلُ الۡكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِ‏ ﴿39:1﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الۡكِتٰبَ بِالۡحَقِّ فَاعۡبُدِ اللّٰهَ مُخۡلِصًا لَّهُ الدِّيۡنَ ؕ‏ ﴿39:2﴾ اَلَا لِلّٰهِ الدِّيۡنُ الۡخَالِصُ​ ؕ وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ​ ۘ مَا نَعۡبُدُهُمۡ اِلَّا لِيُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلۡفٰى ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَحۡكُمُ بَيۡنَهُمۡ فِىۡ مَا هُمۡ فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ‏ ﴿39:3﴾ لَوۡ اَرَادَ اللّٰهُ اَنۡ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصۡطَفٰى مِمَّا يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ​ ۙ سُبۡحٰنَهٗ​ ؕ هُوَ اللّٰهُ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ‏ ﴿39:4﴾ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ​ ۚ يُكَوِّرُ الَّيۡلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى الَّيۡلِ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ​ؕ كُلٌّ يَّجۡرِىۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى​ؕ اَلَا هُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفَّارُ‏ ﴿39:5﴾ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَاَنۡزَلَ لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِيَةَ اَزۡوَاجٍ​ ؕ يَخۡلُقُكُمۡ فِىۡ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِىۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ​ ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ لَهُ الۡمُلۡكُ​ ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ ۚ فَاَ نّٰى تُصۡرَفُوۡنَ‏ ﴿39:6﴾ اِنۡ تَكۡفُرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنۡكُمۡ​ وَلَا يَرۡضٰى لِعِبَادِهِ الۡـكُفۡرَ​ ۚ وَاِنۡ تَشۡكُرُوۡا يَرۡضَهُ لَـكُمۡ​ ؕ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى​ ؕ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمۡ مَّرۡجِعُكُمۡ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ​ ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿39:7﴾ وَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِيۡبًا اِلَيۡهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعۡمَةً مِّنۡهُ نَسِىَ مَا كَانَ يَدۡعُوۡۤا اِلَيۡهِ مِنۡ قَبۡلُ وَجَعَلَ لِلّٰهِ اَنۡدَادًا لِّيُـضِلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ​ ؕ قُلۡ تَمَتَّعۡ بِكُفۡرِكَ قَلِيۡلًا ​ۖ  اِنَّكَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ‏ ﴿39:8﴾ اَمَّنۡ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّيۡلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا يَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَةَ وَيَرۡجُوۡا رَحۡمَةَ رَبِّهٖ​ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ​ؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿39:9﴾

1 - اِس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے۔ 1 2 - (اے محمدؐ )یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف برحق نازل کی ہے 2 ، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اُسی کی لیے خالص کرتے ہوئے۔ 3 3 - خبردار ، دین خالص اللہ کا حق ہے۔ 4 رہے وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دُوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں ( اور اپنے اِس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ )ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں، 5 اللہ یقیناً اُن کے درمیان اُن تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ 6 اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھُوٹا اور منکرِ حق ہو۔ 7 4 - اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا برگزیدہ کر لیتا، 8 پاک ہے وہ اس سے (کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو)، وہ اللہ ہے اکیلا اور سب پر غالب۔ 9 5 - اس نے آسمانوں اور زمین کو بر حق پیدا کیا ہے۔ 10 وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے۔ اُسی نے سُورج اور چاند کو اس طرح مسخّر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقتِ مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے 11 ۔ 6 - اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ 12 اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے۔ 13 وہ تمہاری ماوٴں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ 14 یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں )تمہارا ربّ ہے، 15 بادشاہی اسی کی ہے، 16 کوئی معبُود اس کے سوا نہیں ہے، 17 پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟ 18 7 - اگر تم کُفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے 19 ، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کُفر کو پسند نہیں کرتا، 20 اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔ 21 کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔ 22 آخر کار تم سب کو اپنے ربّ کی طرف پلٹنا ہے ، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ 8 - انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے 23 تو وہ اپنے ربّ کی طرف رُجوع کر کے اُسے پکارتا ہے 24 ۔ پھر جب اس کا ربّ اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اُس مصیبت کو بھُول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا 25 اور دُوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھہراتا ہے 26 تاکہ اُس کی راہ سے گمراہ کرے۔ 27 (اے نبیؐ )اُس سے کہو کہ تھوڑے دن اپنے کُفر سے لُطف اُٹھا لے، یقیناً تُو دوزخ میں جانے والا ہے ۔ 9 - (کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی)جو مطیعِ فرمان ہے ، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے ربّ کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو ، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ 28 نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔ ؏۱


Notes

1. یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے جس میں بس یہ بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا کلام نہیں ہے ، جیسا کہ منکرین کہتے ہیں ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے خود نازل فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر کر کے سامعین کو دو حقیقتوں پر متنبہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کلام کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں بلکہ اس کی اہمیت محسوس کریں۔ ایک یہ کہ جس خدا نے اسے نازل کیا ہے وہ عزیز ہے ، یعنی ایسا زبردست ہے کہ اس کے ارادوں اور فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ اس کے مقابلہ میں ذرہ برابر بھی مزاحمت کر سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ حکیم ہے ، یعنی جو ہدایت وہ اس کتاب میں دے رہا ہے وہ سراسر دانائی پر مبنی ہے اور صرف ایک جاہل و نادان آدمی ہی اس سے منہ موڑ سکتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ نمبر 1۔)

2. یعنی اس میں جو کچھ ہے حق اور سچائی ہے ، باطل کی کوئی آمیزش اس میں نہیں ہے۔

3. یہ ایک نہایت اہم آیت ہے جس میں دعوت اسلام کے اصل مقصود کو بیان کیا گیا ہے ، اس لیے اس پر سے سرسری طور پر نہ گزر جانا چاہیے ، بلکہ اس کے مفہوم و مدعا کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بنیادی نکات دو ہیں جنہیں سمجھے بغیر آیت کا مطلب نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایک یہ کہ مطالبہ اللہ کی عبادت کرنے کا ہے۔دوسرے یہ کہ ایسی عبادت کا مطالبہ ہے جو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے کی جائے۔

عبادت کا مادہ عبد ہے۔ اور یہ لفظ ’’ آزاد‘‘ کے مقابلے میں ’’ غلام ‘‘ اور ’’مملوک‘‘ کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہوتا ہے۔ اسی معنی کے لحاظ سے ’’عبادت ‘‘ میں دو مفہوم پیدا ہوئے ہیں۔ ایک پوجا اور پرستش، جیسا کہ عربی زبان کی مشہور و مستند لغت ’’ لسان العرب‘‘ میں ہے ، عَبَدَ اللہ، تَألَّہٗ لَہٗ۔ وَ التَّعَبُّدُ، التَّنَسُّکُ۔ دوسرے ، عاجزانہ اطاعت اور برضا و رغبت فرمانبرداری، جیسا کہ لسان العرب میں ہے ، العبادۃ، الطاعۃ۔ و معنی العبادۃ فی للغۃ الطاعۃ مع الخضوع۔ وَکل من دان الملک فھو عابدٌلہِہٗ (وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَا بِدُوْنَ)۔ والعابد، الخاضع لربہ المستسلم المنقاد لامرہ۔ عبد الطاغوت، اطاعَہ یعنی الشیطان فیما سَوَّل لہ واغواہ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ، ای نطیع الطاعۃ التی یخضع معھا۔ اُعْبُدُوْارَبَّکُمْ، اطیعواربَّکم۔ پس لغت کی ان مستند تشریحات کے مطابق مطالبہ صرف اللہ تعالیٰ کی پوجا اور پرستش ہی کی نہیں ہے بلکہ اس کے احکام کی بے چوں و چرا اطاعت، اور اس کے قانونِ شرعی کی برضا و رغبت پیروی، اور کے امر و نہی کی دل و جان سے فرمانبرداری کا بھی ہے۔

دین کا لفظ عربی زبان میں متعدد مفہومات کا حامل ہے :

ایک مفہوم ہے غلبہ و اقتدار، مالکانہ اور حاکمانہ تصرُف، سیاست و فرمانروائی اور دوسروں پر فیصلہ نافذ کرنا۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے وَ انْ النَّا سَ، ای قھرھم علی اطاعۃ۔ دِنْتُھم، ای قَھر تُھم۔ دِنتُہٗ سُسْتُہٗ وملکتُہٗ۔ وفی الحدیث الکَیِّس من دان نفسہٗ، ای اذلَّھا و استعبدھا۔ الدَّ یَّان، القاضی، الحَکَم، القھّار۔ ولا انت دیَا نی، ای لستَ بقا ھر لی فَتَسُوس امری۔ مَاکَا نَ لِیَأ خُذَ اَخَا ہُ فِیْ دِینِ الْمَلِکِ، ای فی قضاء الملک۔

دوسرا مفہوم ہے اطاعت، فرمانبرداری اور غلامی۔ لسان العرب میں ہے الدین، اطاعۃ۔ دِنْتُہٗ و دِنْتُ لَہٗ ای اطعتُہٗ۔ والدین للہ، انماھو طاعتہٗ ولاتعبد لہٗ۔ فی الحدیث اُریدُ من قریشٍ کلمۃ تَدِین لھمْ بھَا العرب، ای تطیعھم و تخضع لھم۔ ثم دانت بعد الرباب، ای ذلّت لہ و اطاعَتْہُ۔یمرقون من الدین، ای انھم یخرجون من طاعۃ الامام المفترض اطاعۃ۔ المدین، العبد۔ فَلَوْ لَا اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ، ای غیر مملوکین۔

تیسرا مفہوم ہے وہ عادت اور طریقہ جس کی انسان پیروی کرے۔ لسان العرب میں ہے الدین، العادۃ و الشأن۔یقال مازال ذٰلک دینی و دیدَنی، ای عادتی۔

ان تینوں مفہومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کے معنی اِس آیت میں اُس ’’ طرز عمل اور اس رویّے کے ہیں جو کسی کی بالاتری تسلیم اور کسی کی اطاعت قبول کر کے انسان اختیار کرے۔‘‘ اور دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’ آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے ، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کا اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے ‘‘۔

4. یہ امر واقعہ اور ایک حقیقت ہے جسے اوپر کے مطالبے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کر کے اُس کی بندگی تم کو کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی اللہ کا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، بندگی کا مستحق کو ئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اُس کی بھی پرستش اور اُس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے۔ اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے۔ اس آیت کی بہترین تشریح وہ حدیث ہے جو ابن مَر دُوْیہ نے یزید الرّقاشی سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا، ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لیے کہ ہمارا نام بلند ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں۔ اس نے پوچھا اگر اللہ کے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپ نے فرمایا ان اللہ تعالیٰ لا یقبل الّا من اخلص لہٗ، اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لیے نہ ہو۔‘‘ اس کے بعد حضورؐ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔

5. کفار مکہ کہتے تھے ، اور بالعموم دنیا بھی کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت اُن کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی بارگاہ بہت اونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں۔

6. یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہا ں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں۔ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتاؤں اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک چاند، سورج، مریخ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بے شمار اختلافات ہیں۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ فلاں فلاں اشخاص ہمارے مقرب خاص ہیں ، لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بناؤ۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے جو محض وہم اور اندھی عقیدت اور اسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے۔

7. یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ایک کاذب دوسرے کفار۔ کاذب ان کو اس لیے فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے جھوٹ موٹ یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے اور پھر یہی جھوٹ وہ دوسروں میں پھیلاتے ہیں۔ رہا کفار، تو اس کے دو معنی ہیں۔ ایک سخت منکر حق، یعنی توحید کی تعلیم سامنے آ جانے کے بعد بھی یہ لوگ اس غلط عقیدے پر مصر ہیں۔ دوسرے ، کافر نعمت، یعنی نعمتیں تو یہ لوگ اللہ سے پا رہے ہیں اور شکریے اُن ہستیوں کے ادا کر رہے ہیں جن کے متعلق انہوں نے اپنی جگہ یہ فرض کر لیا ہے کہ یہ نعمتیں ان کی مداخلت کے سبب سے مل رہی ہیں۔

8. یعنی اللہ کا بیٹا ہونا تو سرے سے ہی ناممکن ہے۔ممکن اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی کو اللہ برگزیدہ کر لے۔ اور برگزیدہ بھی جس کو وہ کرے گا، لامحالہ وہ مخلوق ہی میں سے کوئی ہو گا، کیونکہ اللہ کے سوا دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ مخلوق خواہ کتنی ہی برگزیدہ ہو جائے ، اولاد کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی، کیونکہ خالق اور مخلوق میں عظیم الشان جوہری فرق ہے ، اور ولدیت لازماً والد اور اولاد میں جوہری اتحاد کی مقتضی ہے۔

اس کے ساتھ یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ’’ اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو ایسا کرتا ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ نے ایسا کرنا کبھی نہیں چاہا۔ اس طرز بیان سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کسی کو بیٹا بنا لینا تو درکنار، اللہ نے تو ایسا کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا ہے۔

9. یہ دلائل ہیں جن سے عقیدہ ولدیت کی تردید کی گئی ہے۔

پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد کی ضرورت ناقص و کمزور کو ہوا کرتی ہے۔ جو شخص فانی ہوتا ہے وہی اس کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہوتا کہ اس کی نسل اور نوع باقی رہے۔ اور کسی کو متبنّیٰ بھی وہی شخص بناتا ہے جو یا تو لا وارث ہونے کی وجہ سے کسی کو وارث بنانے کی حاجت محسوس کرتا ہے ، یا محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر کسی کو بیٹا بنا لیتا ہے۔ یہ انسانی کمزوریاں اللہ کی طرف منسوب کرنا اور ان کی بنا پر مذہبی عقیدے بنا لینا جہالت اور کم نگاہی کے سوا اور کیا ہے۔

دوسری دلیل یہ ہے وہ اکیلا اپنی ذات میں واحد ہے ، کسی جنس کا فرد نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد لازماً ہم جنس ہوا کرتی ہے۔ نیز اولاد کا کوئی تصور ازدواج کے بغیر نہیں ہو سکتا، اور ازدواج بھی ہم جنس سے ہی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ شخص جاہل و نادان ہے جو اس یکتا و یگانہ ہستی کے لیے اولاد تجویز کرتا ہے۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ قہار ہے۔ یعنی دنیا میں جو چیز بھی ہے اس سے مغلوب اور اسکی قاہرانہ گرفت میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کائنات میں کوئی کسی درجے میں بھی اس سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا جس کی بنا پر اس کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی رشتہ ہے۔

10. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ابراہیم حاشیہ 26،النحل حاشیہ 6 جلد سوم، العنکبوت حاشیہ75۔

11. یعنی زبردست ایسا ہے کہ اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی طاقت اس کی مزاحمت نہیں کر سکتی۔ مگر یہ اس کا کرم ہے کہ تم یہ کچھ گستاخیاں کر رہے ہو اور پھر بھی وہ تم کو فوراً پکڑ نہیں لیتا بلکہ مہلت پر مہلت دیے جاتا ہے۔اس مقام پر عقوبت میں تعجیل نہ کرنے اور مہلت دینے کو مغفرت (درگزر) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

12. یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے حضرت آدم سے انسانوں کو پیدا کر دیا اور پھر ان کی بیوی حضرت حوّا کو پیدا کیا۔ بلکہ یہاں کلام میں ترتیبِ زمان کے بجائے ترتیبِ بیان ہے جس کی مثالیں ہر زبان میں پائی جاتی ہیں۔مثلاً ہم کہتے ہیں تم نے آج جو کچھ کیا وہ مجھے معلوم ہے ، پھر جو کچھ تم کل کر چکے ہو اس سے بھی میں باخبر ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ کل کا واقعہ آج کے بعد ہوا ہے۔

13. مویشی سے مراد ہیں اُونٹ، گائے ، بھیڑ اور بکری۔ ان کے چار نر اور چار مادہ مل کر آٹھ نر و مادہ ہوتے ہیں۔

14. تین پردوں سے مراد ہے پیٹ، رحم اور مَشِیْمَہ (وہ جھلّی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے )۔

15. یعنی مالک، حاکم اور پروردگار۔

16. یعنی تمام اختیارات کا مالک وہی ہے اور ساری کائنات میں اسی کا حکم چل رہا ہے۔

17. دوسرے الفاظ میں استدلال یہ ہے کہ جب وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی ساری بادشاہی ہے تو پھر لازماً تمہارا اِلٰہ (معبود) بھی وہی ہے۔دوسرا کوئی اِلٰہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ نہ پروردگاری میں اس کا کوئی حصّہ نہ بادشاہی میں اس کا کوئی دخل۔ آخر تمہاری عقل میں یہ بات کیسے سماتی ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا تو ہو اللہ۔ سورج اور چاند کو مسخّر کرنے والا اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا بھی ہو اللہ۔ تمہارا اپنا اور تمام حیوانات کا خالق و رب بھی ہو اللہ۔ اور تمہارے معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔

18. یہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ تم کدھر پھرے جا رہے ہو۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو۔ یعنی کوئی دوسرا ہے جو تم کو اُلٹی پٹی پڑھا رہا ہے اور تم اس کے بہکائے میں آ کر ایسی سیدھی سی عقل کی بات بھی نہیں سمجھ رہے ہو۔ دوسری بات جو اس اندازِ بیان سے خود مترشح ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ تم کا خطاب پھرانے والوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان کے اثر میں آ کر پھر رہے تھے۔ اس میں ایک لطیف مضمون ہے جو ذرا سے غور فکر سے بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔ پھرانے والے اسی معاشرے میں سب کے سامنے موجود تھے اور ہر طرف اپنا کام علانیہ کر رہے تھے ، اس لیے ان کا نام لینے کی حاجت نہ تھی۔ ان کو خطاب کرنا بھی بیکار تھا، کیونکہ وہ اپنی اغراض کے لیے لوگوں کو خدائے واحد کی بندگی سے پھیرنے اور دوسروں کی بندگی میں پھانسنے اور پھانسے رکھنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ سمجھانے سے سمجھنے والے نہ تھے ، کیونکہ نہ سمجھنے ہی سے ان کا مفاد وابستہ تھا، اور سمجھنے کے بعد بھی وہ اپنے مفاد کو قربان کرنے کے لیے مشکل ہی سے تیار ہو سکتے تھے۔ البتہ رحم کے قابل ان عوام کی حالت تھی جو ان کے چکمے میں آ رہے تھے۔ اُن کی کوئی غرض اس کاروبار سے وابستہ نہ تھی، اس لیے وہ سمجھانے سے سمجھ سکتے تھے۔ اور ذرا سی آنکھیں کھُل جانے کے بعد وہ یہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ جو لوگ انہیں خدا کے آستانے سے ہٹا کر دوسرے آستانوں کا راستہ دکھاتے ہیں وہ اپنے اس کاروبار کا فائدہ کیا اُٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ کرنے والے چند آدمیوں سے رُخ پھیر کر گمراہ ہونے والے عوام کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔

19. یعنی تمہارے کفر سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے ، اور نہ مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے ، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا عبادی لو ان اولکم و اٰخر کم و انسکم و جنکم کا نو اعلیٰ افجر قلب رجل منکم ما نقص من ملکی شیئاً۔ اے میرے بندو، اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جِن اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جاؤ تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی۔‘‘ (مسلم)

20. یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں ، کیونکہ کفر خود انہی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا، مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا، چوروں اور ڈاکوؤں کا پایا جانا، قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظام قدرت میں ان برائیوں کے ظہور اور ان اشرار کے وجود کی گنجائش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی دیتا ہے اور اسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے موقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے ان کاموں کی گنجائش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میں کبھی کوئی برائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بر بنائے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعہ سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری، ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرما رہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو،ہم تمہیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو، کیونکہ یہ تمہارے ہی لیے نقصان دہ ہے ، ہماری خدائی کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑتا۔

21. کفر کے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجائے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر در حقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے ، اور ایمان فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص میں اللہ جلّ شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہو گا وہاں ایمان ضرور ہو گا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے کوئی معنی نہیں ہیں۔

22. مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لیے یا ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر کفر اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھا لیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔ لہٰذا جس پر بھی کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہو جائے اس کو چاہیے کہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کر لے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق نہ بنائے۔

23. انسان سے مراد یہاں وہ کافر انسان ہے جس نے ناشکری کی روش اختیار کر رکھی ہو۔

24. یعنی اس وقت اسے وہ دوسرے معبود یاد نہیں آتے جنہیں وہ اپنے اچھے حال میں پکارا کرتا تھا، بلکہ ان سب سے مایوس ہو کر وہ صرف اللہ ربّ العالمین کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں دوسرے معبودوں کے بے اختیار ہونے کا احساس رکھتا ہے اور اس حقیقت کا شعور بھی اس کے ذہن میں کہیں نہ کہیں دبا چھپا موجود ہے کہ اصل اختیارات کا مالک اللہ ہی ہے۔

25. یعنی وہ بُرا وقت پھر اسے یاد نہیں رہتا جس میں وہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہٗ لاشریک سے دعائیں مانگ رہا تھا۔

26. یعنی پھر دوسروں کی بندگی کرنے لگتا ہے۔ انہی کی اطاعت کرتا ہے ، انہی سے دعائیں مانگتا ہے ، اور انہی کے آگے نذر و نیاز پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔

27. یعنی خود گمراہ ہونے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو بھی یہ کہہ کہہ کر گمراہ کرتا ہے کہ جو آفت مجھ پر آئی تھی وہ فلاں حضرت یا فلاں دیوی یا دیوتا کے صدقے میں ٹل گئی۔ اس سے دوسرے بہت سے لوگ بھی ان معبود ان غیر اللہ کے معتقد بن جاتے ہیں اور ہر جاہل اپنے اسی طرح کے تجربات بیان کر کر کے عوام کی اس گمراہی کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔

28. واضح رہے کہ یہاں مقابلہ دو قسم کے انسانوں کے درمیان کیا جا رہا ہے۔ ایک وہ جو کوئی سخت وقت آ پڑنے پر تو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عام حالات میں غیر اللہ کی بندگی کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور اس کی بندگی و پرستش کو اپنا مستقل طریقہ بنالیا ہے اور راتوں کی تنہائی میں ان کا عبادت کرنا ان کے مخلص ہونے کی دلیل ہے۔ ان میں سے پہلے گروہ والوں کو اللہ تعالیٰ بے علم قرار دیتا ہے ، خواہ انہوں نے بڑے بڑے کتب خانے ہی کیوں نہ چاٹ رکھے ہوں۔ اور دوسرے گروہ والوں کو وہ عالم قرار دیتا ہے ، خواہ وہ بالکل ہی ان پڑھ کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اصل چیز حقیقت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے ، اور اسی پر انسان کی فلاح کا انحصار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دونوں آخر یکساں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں یہ مل کر ایک طریقے پر چلیں ، اور آخرت میں دونوں ایک ہی طرح کے انجام سے دو چار ہوں ؟