29. یعنی صرف مان کر نہ رہ جاؤ بلکہ اس کے ساتھ تقویٰ بھی اختیار کرو جن چیزوں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان پر عمل کرو، جن سے روکا ہے ان سے بچو اور دنیا میں اللہ کے مواخذے سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔
30. دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی۔ ان کی دنیا بھی سدھرے گی اور آخرت بھی۔
31. یعنی اگر ایک شہر یا علاقہ یا ملک اللہ کی بندگی کرنے والوں کے لیے تنگ ہو گیا ہے تو دوسری جگہ چلے جاؤ جہاں یہ مشکلات نہ ہوں۔
32. یعنی ان لوگوں کو جو خدا پرستی اور نیکی کے راستے پر چلنے میں ہر طرح کے مصائب و شدائد برداشت کر لیں مگر راہ حق سے نہ ہٹیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دین و ایمان کی خاطر ہجرت کر کے جلا وطنی کی مصیبتیں برداشت کریں ، اور وہ بھی جو ظلم کی سر زمین میں جم کر ہر آفت کا سامنا کرتے چلے جائیں۔
33. یعنی میرا کام صرف دوسروں سے کہنا ہی نہیں ہے ، خود کر کے دکھانا بھی ہے۔ جس راہ پر لوگوں کو بلاتا ہوں اس پر سب سے پہلے میں خود چلتا ہوں۔
34. دیوالہ عُرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ ا پنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ بر آ نہ ہو سکے۔ یہی استعارہ کفار و مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں استعمال کیا ہے۔ انسان کو زندگی، عمر، عقل، جسم، قوتیں اور قابلیتیں ، ذرائع اور مواقع، جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں ، ان سب کا مجموعہ دراصل وہ سرمایہ ہے جسے وہ حیات دنیا کے کاروبار میں لگاتا ہے۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں ، اور کسی کو مجھے حساب نہیں دینا ہے ، یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا مجھے آ کر بچالے گا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبو دیا۔ یہ ہے پہلا خُسران۔ دوسرا خُسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آئندہ نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سے مخلوق پر عمر پھر ظلم کرتا رہا۔ اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے ، مگر اس کے پلّے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے۔ اس پر مزید خُسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز و اقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا۔ یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ خسران مبین قرار دے رہا ہے۔
35. طاغوت طغیان سے ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ کسی کو طاغی (سرکش ) کہنے کے بجائے اگر طاغوت (سرکشی )کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو کسی کو حَسِین کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حُسن ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خوبصورتی میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ معبود ان غیر اللہ کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ کے سوا دوسرے کی بندگی کرنا تو صرف سرکشی ہے مگر جو دوسروں سے اپنی بندگی کرائے وہ کمال درجہ کا سرکش ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرۃ حاشیہ286،النساء حاشیہ 91،105۔ جلد دوم النحل حاشیہ 32)۔ طاغوت کا لفظ یہاں طواغیت، یعنی بہت سے طاغوتوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اسی لیے اَنْ یَّعْبُدُوْ ھَا فرمایا گیا۔ اگر واحد مراد ہوتا تو یَعْبُدُوْہُ ہوتا۔
36. اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ہر آواز کے پیچھے نہیں لگ جاتے بلکہ ہر ایک کی بات سن کر اس پر غور کرتے ہیں اور جو حق بات ہوتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ بات کو سن کر غلط معنی پہنانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اس کے اچھے اور بہتر پہلو کو اختیار کرتے ہیں۔
37. یعنی جس نے اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا لیا ہو اور اللہ نے فیصلہ کر لیا ہو کہ اسے اب سزا دینی ہے۔
38. اصل میں لفظ ینا بیع استعمال ہو ا ہے جس کا اطلاق ان تینوں چیزوں پر ہوتا ہے۔
39. یعنی اس سے ایک صاحب عقل آدمی یہ سبق لیتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کی زینتیں سب عارضی ہیں۔ ہر بہار کا انجام خزاں ہے۔ ہر شباب کا انجام ضعیفی اور موت ہے۔ ہر عروج آخر کار زوال دیکھنے والا ہے۔ لہٰذا یہ دنیا وہ چیز نہیں ہے جس کے حُسن پر فریفتہ ہو کر آدمی خدا اور آخرت کو بھول جائے اور یہاں کی چند روزہ بہار کے مزے لوٹنے کی خاطر وہ حرکتیں کرے جو اس کی عاقبت برباد کر دیں۔ پھر ایک صاحب عقل آدمی ان مناظر سے یہ سبق بھی لیتا ہے کہ اس دنیا کی بہار اور خزاں اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے پروان چڑھاتا ہے اور جسے چاہتا ہے خستہ و خراب کر دیتا ہے۔ نہ کسی کے بس میں یہ ہے کہ اللہ جسے پروان چڑھا رہا ہو اس کو پھلنے پھولنے سے روک دے۔ اور نہ کوئی یہ طاقت رکھتا ہے کہ جسے اللہ غارت کرنا چاہے اسے وہ خاک میں ملنے سے بچا لے۔