Tafheem ul Quran

Surah 39 Az-Zumar, Ayat 22-31

اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰهُ صَدۡرَهٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّهٖ​ؕ فَوَيۡلٌ لِّلۡقٰسِيَةِ قُلُوۡبُهُمۡ مِّنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ​ؕ اُولٰٓـئِكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿39:22﴾ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِيۡثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِىَ ​ۖ  تَقۡشَعِرُّ مِنۡهُ جُلُوۡدُ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ​ۚ ثُمَّ تَلِيۡنُ جُلُوۡدُهُمۡ وَقُلُوۡبُهُمۡ اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ​ ؕ ذٰ لِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهۡدِىۡ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ‏ ﴿39:23﴾ اَ فَمَنۡ يَّتَّقِىۡ بِوَجۡهِهٖ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ​ ؕ وَقِيۡلَ لِلظّٰلِمِيۡنَ ذُوۡقُوۡا مَا كُنۡـتُمۡ تَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿39:24﴾ كَذَّبَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ فَاَتٰٮهُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿39:25﴾ فَاَذَاقَهُمُ اللّٰهُ الۡخِزۡىَ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا​ ۚ وَلَعَذَابُ الۡاٰخِرَةِ اَكۡبَرُ​ ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿39:26﴾ وَلَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِىۡ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿39:27﴾ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا غَيۡرَ ذِىۡ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ‏ ﴿39:28﴾ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيۡهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوۡنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ هَلۡ يَسۡتَوِيٰنِ مَثَلًا ​ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ ​ ۚ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿39:29﴾ اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمۡ مَّيِّتُوۡنَ‏ ﴿39:30﴾ ثُمَّ اِنَّكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ عِنۡدَ رَبِّكُمۡ تَخۡتَصِمُوۡنَ‏ ﴿39:31﴾

22 - اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا 40 اور وہ اپنے ربّ کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے 41 (اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا ؟)۔ تباہی ہے اُن لوگوں کے لے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے۔ 42 وہ کھُلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ 23 - اللہ نے بہترین کلام اُتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہمرنگ ہیں 43 اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں۔ اُسے سُن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہِ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے۔ 24 - اب اُس شخص کی بدحالی کا تم کیا اندازہ کر سکتے ہو جو قیامت کے روز عذاب کی سخت مار اپنے منہ پر لے گا؟ 44 ایسے ظالموں سے کہہ دیا جائے گا کہ اب چکھو مزہ اُس کمائی کا جو تم کرتے رہے تھے۔ 45 25 - اِن سے پہلے بھی بہت سے لوگ اسی طرح جھُٹلا چکے ہیں۔ آخر اُن پر عذاب ایسے رُخ سے آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ جا سکتا تھا۔ 26 - پھر اللہ نے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں رُسوائی کا مزہ چکھایا، اور آخرت کا عذاب تو اس سے شدید تر ہے ، کاش یہ لوگ جانتے۔ 27 - ہم اِس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالیں دی ہیں کہ یہ ہوش میں آئیں۔ 28 - ایسا قرآن جو عربی زبان میں ہے 46 ، جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے 47 ، تاکہ یہ بُرے انجام سے بچیں۔ 29 - اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیّت میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دُوسرا شخص پُورا کا پُورا ایک ہی آقا کا غلام ہے ۔ کیا دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے؟ 48 ۔۔۔۔ الحمدُ للہ، 49 مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔ 50 30 - (اے نبیؐ )تمہیں بھی مرنا ہے اور اِن لوگوں کو بھی مرنا ہے۔ 51 31 - آخر کار قیامت کے روز تم سب اپنے ربّ کے حضُور اپنا اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔ ؏۳


Notes

40. یعنی جسے اللہ نے یہ توفیق بخشی کہ ان حقائق سے سبق لے اور اسلام کے حق ہونے پر مطمئن ہو جائے۔ کسی بات پر آدمی کا شرح صدر ہو جا نا یا سینہ کھل جانا در اصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی کے دل میں اس بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہ باقی نہ رہے ، اور اسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو، بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیز حق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہو جائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسولؐ کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا و رغبت مانتا ہے۔ کتاب و سنت میں جو عقائد و افکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انہیں اس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی نا جائز فائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں ، الٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل خدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے ادھر نکل جاؤں۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہر حال چلنا ہے۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔

41. یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی صورت میں ایک نور علم اسے مل گیا ہے جس کے اُجالے میں وہ ہر ہر قدم پر صاف دیکھتا جاتا ہے کہ زندگی کی بے شمار پگ ڈنڈیوں کے درمیان حق کا سیدھا راستہ کونسا ہے۔

42. شرح صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ضیقِ صدر (سینہ تنگ ہو جانے اور دل بھچ جانے ) کی کیفیت جس میں کچھ نہ کچھ گنجائش اس بات کی رہ جاتی ہے کہ حق اس میں نفوذ کرجائے۔ دوسری قساوت قلب(دل کے پتھر ہوجانے کی کیفیت)جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص، خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی، ایک مرتبہ قبول حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے ، کیونکہ آیت کا اصل مقصود ان لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت میں ضد اور ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے کہ آپؐ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔ اس پر انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابل چیز سمجھ رہے ہو، مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی اور بد نصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سُن کر وہ نرم پڑنے کے بجائے اور زیادہ سخت ہو جائے۔

43. یعنی ان میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے۔ پوری کتاب اول سے لے کر آخر تک ایک ہی مدعا، ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی نظام فکر و عمل پیش کرتی ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے جز کی اور ہر مضمون دوسرے مضمون کی تصدیق و تائید اور توضیح و تشریح کرتا ہے۔ اور معنی و بیان دونوں کے لحاظ سے اس میں کامل یکسانی (Consistency) پائی جاتی ہے۔

44. کسی ضرب کو آدمی اپنے منہ پر اس وقت لیتا ہے جبکہ وہ بالکل عاجز و بے بس ہو۔ ورنہ جب تک وہ مدافعت پر کچھ بھی قادر ہوتا ہے وہ اپنے جسم کے ہر حصے پر چوٹ کھاتا رہتا ہے مگر منہ پر مار نہیں پڑنے دیتا۔ اس لیے یہاں اس شخص کی انتہائی بے بسی کی تصویر یہ کہہ کر کھینچ دی گئی ہے کہ وہ سخت مار اپنے منہ پر لے گا۔

45. اصل میں لفظ ’’ کسب‘‘ استعمال ہوا ہے جس سے مراد قرآن مجید کی اصطلاح میں جزا و سزا کا وہ استحقاق ہے جو آدمی اپنے عمل کے نتیجے میں کماتا ہے۔ نیک عمل کرنے والے کی اصل کمائی یہ ہے کہ وہ اللہ کے اجر کا مستحق بنتا ہے۔ اور گمراہی و بد راہی اختیار کرنے والے کی کمائی وہ سزا ہے جو اسے آخرت میں ملنے والی ہے۔

46. یعنی یہ کسی غیر زبان میں نہیں آیا ہے کہ مکے اور عرب کے لوگ اسے سمجھنے کے لیے کسی مترجم یا شارح کے محتاج ہوں ، بلکہ یہ ان کی اپنی زبان میں ہے جسے یہ براہ راست خود سمجھ سکتے ہیں۔

47. یعنی اس میں اینچ پینچ کی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ عام آدمی کے لیے اس کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے۔ بلکہ صاف صاف سیدھی بات کہی گئی ہے جس سے ہر آدمی جان سکتا ہے کہ یہ کتاب کس چیز کو غلط کہتی ہے اور کیوں ، کس چیز کو صحیح کہتی ہے اور کس بنا پر، کیا منوانا چاہتی ہے اور کس چیز کا انکار کرانا چاہتی ہے ، کن کاموں کا حکم دیتی ہے اور کن کاموں سے روکتی ہے۔

48. اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کو اس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں ، اور ہر ایک اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو، اور وہ مالک بھی ایسے بد مزاج ہوں کہ ہر ایک اُس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اسے مہلت نہ دیتا ہو، اور ان کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تُل جاتا ہو، اس کی زندگی لامحالہ سخت ضیق میں ہو گی۔ اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو اور کسی دوسرے کی خدمت و رضا جوئی اسے نہ کرنی پڑے۔ یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے غور و تامل کی حاجت نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے وہ بہت سے خداؤں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آ سکتا۔

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقاؤں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ اُن جیتے جاگتے آقاؤں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ پتھر کے بُت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بُلاتے ہیں۔ یہ کام تو زندہ آقاؤں ہی کے کرنے کے ہیں۔ ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں ، خاندان میں ، برادری میں ، قوم اور ملک کے معاشرے میں ، مذہبی پیشواؤں میں ، حکمرانوں اور قانون سازوں میں ، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں ، اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے۔ کوئی روٹھ جاتا ہے۔ کوئی نکّو بناتا ہے۔کوئی مقاطعہ کرتا ہے۔ کوئی دیوالہ نکالتا ہے ، کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کر کے صرف ایک خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکے۔

توحید کا مسلک اختیار کرنے کی بھی دو شکلیں ہیں جن کے نتائج الگ الگ ہیں۔

ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خدائے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کر لے اور گرد و پیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو۔ اس صورت میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ خارجی کش مکش اور ضیق اس کے لیے پہلے زیادہ بڑھ جائے ، لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آ جائے گا۔ وہ نفس کی ہر اُس خواہش کو رد کر دے گا جو احکام الٰہی کے خلاف ہو یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے پورے نہ کیے جا سکتے ہوں۔ وہ خاندان، برادری، قوم، حکومت، مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو۔اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں ، بلکہ لازماً پہنچیں گی۔ لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہو گا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کر رہا ہوں ، اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف ان کی بندگی بجا لاؤں۔ یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی۔ حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑ جائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوا نہ ہو گا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خداؤں کے آگے سر جھکا کر اپنی جان بچا لی۔

دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اسی توحید کی بنیاد پر قائم ہو جائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض ہرشعبہ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاد اً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہو جائیں جو خداوند عالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ سے دیے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے ، قانون اسی کو جرم قرار دے ، حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے ، تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے ، منبر و محراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہو جائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے ، قانون اسکی حمایت کرے ، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں ، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اسکو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے ، منبر و محراب اسی کی تلقین کریں ، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اُس پر قائم کر دے ، اور کاروبار معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آ جاتا ہے اور مادی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں ، کیونکہ اس میں بندگیٔ رب اور بندگیٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہو جاتا ہے۔

اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو، بہر حال وہ توحید ہی کو اپنا دین بنا لے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرنا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک اُمت مسلمہ وجود میں آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہو کر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے نا واقف ہو اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاء علیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے ، اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے۔

49. یہاں الحمد لِلّٰہ کی معنویت سمجھنے کے لیے یہ نقشہ ذہن میں لایئے کہ اوپر کا سوال لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے بعد مقرر نے سکوت کیا، تاکہ اگر مخالفین توحید کے پاس اس کا کوئی جواب ہو تو دیں۔ پھر جب ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور کسی طرف سے یہ آواز نہ آئی کہ دونوں برابر ہیں ، تو مقرر نے کہا الحمد لِّٰلہ۔ یعنی خدا کا شکر ہے کہ تم خود بھی اپنے دلوں میں ان دونوں حالتوں کا فرق محسوس کرتے ہو اور تم میں سے کوئی بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ ایک آقا کی بندگی سے بہت سے آقاؤں کی بندگی بہتر ہے یا دونوں یکساں ہیں۔

50. یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقاؤں کی غلامی کا فرق تو خوب سمجھ لیتے ہیں مگر ایک خدا کی بندگی اور بہت سے خداؤں کی بندگی کا فرق جب سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو نادان بن جاتے ہیں۔

51. پچھلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے موقع و محل اور سیاق و سباق پر غور کر کے ہر صاحب فہم آدمی خود بھر سکتا ہے۔ اس میں یہ مضمون پوشیدہ ہے کہ اِس اِس طرح تم ایک صاف سیدھی بات سیدھے طریقے سے ان لوگوں کو سمجھا رہے ہو اور یہ لوگ نہ صرف یہ کہ ہٹ دھرمی سے تمہاری بات رد کر رہے ہیں ، بلکہ اس کھلی صداقت کو دبانے کے لیے تمہارے درپے آزار ہیں۔ اچھا، ہمیشہ نہ تمہیں رہنا ہے نہ اِنہیں۔ دونوں کو ایک دن مرنا ہے۔ انجام سب کے سامنے آ جائے گا۔