52. مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جو مقدمہ ہونا ہے اس میں سزا پانے والے کون ہوں گے ، یہ بات تم آج ہی سُن لو۔ سزا لازماً انہی ظالموں کو ملنی ہے جنہوں نے یہ جھوٹے عقیدے گھڑے کہ اللہ کے ساتھ اس کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں کچھ دوسری ہستیاں بھی شریک ہیں ، اور اس سے بھی زیادہ بڑھ کر ان کا ظلم یہ ہے کہ جب ان کے سامنے سچائی پیش کی گئی تو انہوں نے اسے مان کر نہ دیا بلکہ اُلٹا اُسی کو جھوٹا قرار دیا جس نے سچائی پیش کی۔ رہا وہ شخص جو سچائی لایا اور وہ لوگ جنہوں نے اس کی تصدیق کی، تو ظاہر ہے کہ اللہ کی عدالت سے ان کے سزا پانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
53. یہ بات ملحوظ رہے کہ یہاں فی ا لجنّۃ (جنّت میں )نہیں بلکہ عِنْدَ رَبِّھِمْ (ان کے رب کے ہاں ) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں پہنچ کر ہی نہیں بلکہ مرنے کے وقت سے دخول جنت تک زمانے میں بھی مومن صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذاب برزخ سے ، روز قیامت کی سختیوں سے ، حساب کی سخت گیری سے ، میدان حشر کی رسوائی سے ، اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذہ سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ جل شانہ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔
54. نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جو لوگ ایمان لائے تھے ، زمانہ جاہلیت میں ان سے اعتقادی اور اخلاقی دونوں ہی طرح کے بد ترین گناہ سرزد ہو چکے تھے۔ اور ایمان لانے کے بعد انہوں نے صرف یہی ایک نیکی نہ کی تھی کہ اُس جھوٹ کو چھوڑ دیا جسے وہ پہلے مان رہے تھے اور وہ سچائی قبول کر لی جسے حضورؐ نے پیش فرمایا تھا، بلکہ مزید براں انہوں نے اخلاق، عبادات اور معاملات میں بہترین اعمال صالحہ انجام دیے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے وہ بدترین اعمال جو جاہلیت میں ان سے سرزد ہوئے تھے ان کے حساب سے محو کر دیے جائیں گے ، اور ان کو انعام ان اعمال کے لحاظ سے دیا جائے گا جو ان کے نامہ اعمال میں سب سے بہتر ہوں گے۔
55. کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے معبودوں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہو اور ان کے خلاف زبان کھولتے ہو۔ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ کیسی زبردست با کرامت ہستیاں ہیں۔ان کی توہین تو جس نے بھی کی وہ برباد ہو گیا۔ تم بھی اگر اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو یہ تمہارا تختہ الٹ دیں گے۔
56. یعنی یہ بھی ہدایت سے ان کی محرومی ہی کا کرشمہ ہے کہ ان احمقوں کو اپنے ان معبودوں کی طاقت و عزّت کا تو بڑا خیال ہے۔ مگر انہیں اس بات کا خیال کبھی نہیں آتا کہ اللہ بھی کوئی زبردست ہستی ہے اور شرک کر کے اُس کی جو توہین یہ کر رہے ہیں اُس کی بھی کوئی سزا انہیں مل سکتی ہے۔
57. ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من احب ان یکون اقوی الناس فلیتو کل علیٰ اللہ، ومن احب ان یکون اغنی الناس فلیکن بما فی ید اللہ عزو جل اوثق منہ بما فی یدیہ، ومن احب ان یکون اکرم الناس فلیتق اللہ عزو جلّ۔ ’’ جو شخص چاہتا ہو کہ سب انسانوں سے زیادہ طاقت ور ہو جائے اسے چاہیے کہ اللہ پر توکّل کرے۔ اور جو شخص چاہتا ہو کہ سب سے بڑھ کر غنی ہو جائے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس پر زیادہ بھروسہ رکھے بہ نسبت اُس چیز کے جو اس کے اپنے ہاتھ میں ہے ، اور جو شخص چاہتا ہو کہ سب سے زیادہ عزّت والا ہو جائے اسے چاہیے کہ اللہ عزُ و جل سے ڈرے۔‘‘
58. یعنی مجھے زک دینے کے لیے جو کچھ تم کر رہے ہو اور کر سکتے ہو وہ کیے جاؤ، اپنی کرنی میں کوئی کسر نہ اّٹھا رکھو۔
59. یعنی تمہارے سپرد انہیں راہِ راست پر لے آنا نہیں ہے۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ ان کے سامنے راہِ راست پیش کر دو۔ اس کے بعد اگر یہ گمراہ رہیں تو تم پر کوئی ذ مہ داری نہیں ہے۔