60. نیند کی حالت میں روح قبض کرنے سے مراد احساس و شعور، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتوں کو معطل کر دینا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس پر اردو زبان کی یہ کہاوت فی الواقع راست آتی ہے کہ سویا اور مُوا برابر۔
61. اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت اور زیست کس طرح اُس کے دستِ قدرت میں ہے۔ کوئی شخص بھی یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح لازماً زندہ ہی اُٹھے گا۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ ایک گھڑی بھر میں اُس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا لمحہ ہوتا ہے یا موت کا۔ ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں ، گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کی کوئی اندرونی خرابی، یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کر سکتی ہے جو اس کے لیے پیام موت ثابت ہو۔ اس طرح جو انسان خدا کے ہاتھ میں بے بس ہے وہ کیسا سخت نادان ہے اگر اُسی خدا سے غافل یا منحرف ہو۔
62. یعنی ایک تو ان لوگوں نے اپنے طور پر خود ہی یہ فرض کرلیا کہ کچھ ہستیاں اللہ کے ہاں بڑی زور آور ہیں جن کی سفارش کسی طرح ٹل نہیں سکتی، حالانکہ ان کے سفارشی ہونے پر نہ کوئی دلیل، نہ اللہ تعالیٰ نے کبھی یہ فرمایا کہ ان کو میرے ہاں یہ مرتبہ حاصل ہے ، اور نہ اُن ہستیوں نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم اپنے زور سے تمہارے سارے کام بنوا دیا کریں گے۔ اس پر مزید حماقت ان لوگوں کی یہ ہے کہ اصل مالک کو چھوڑ کر ان فرضی سفارشیوں ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی ساری نیاز مندیاں اُنہی کے لیے وقف ہیں۔
63. یعنی کسی کا یہ زور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں خود سفارشی بن کر اُٹھ ہی سکے ، کجا کہ اپنی سفارش منوالینے کی طاقت بھی اُس میں ہو۔ یہ بات تو بالکل اللہ کے اختیار میں ہے کہ جسے چاہے سفارش کی اجازت دے اور جسے چاہے نہ دے۔ اور جس کے حق میں چاہے کسی کو سفارش کرنے دے اور جس کے حق میں چاہے نہ کرنے دے۔ (شفاعت کے اسلامی عقیدے اور مشرکانہ عقیدے کا فرق سمجھنے کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن جلد اوّل، البقرۃ حاشیہ281،الانعام حاشیہ32۔ جلد دوم۔ یونس حواشی 5،24،ہود حواشی 84،106،الرعد حاشیہ 19،النحل حواشی،64،65،79،
۔ جلد سوم، طہ حواشی 85،86،الانبیاء حاشیہ 27،الحج حاشیہ 125۔ جلد چہارم، السّبا، حاشیہ 40)۔
64. یہ بات قریب قریب ساری دنیا کے مشرکانہ ذوق رکھنے والے لوگوں میں مشترک ہے ، حتّیٰ کہ مسلمانوں میں بھی جن بد قسمتوں کو یہ بیماری لگ گئی ہے وہ بھی اس عیب سے خالی نہیں ہیں۔ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں۔ لیکن حالت یہ ہے کہ اکیلے اللہ کا ذکر کیجیے تو ان کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں ، ضرور یہ شخص بزرگوں اور اولیاء کو نہیں مانتا، جبھی تو بس اللہ ہی اللہ کی باتیں کیے جاتا ہے۔ اور اگر دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کے دلوں کی کلی کِھل جاتی ہے اور بشاشت سے ان کے چہرے دمکنے لگتے ہیں۔ اس طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اصل میں دلچسپی اور محبت کس سے ہے۔ علّامہ آلوسی نے روح المعانی میں اس مقام پر خود اپنا ایک تجربہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی کسی مصیبت میں ایک وفات یافتہ بزرگ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ میں نے کہا اللہ کے بندے ، اللہ کو پکار، وہ خود فرماتا ہے کہ وَاِذَ ا سَأ لَکَ عَبَا دِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعَوَ ۃَ الدَّا عِ اِ ذَ ا دَعَانِ۔ میری یہ بات سُن کر اسے سخت غصّہ آیا اور بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ کہتا تھا کہ یہ شخص اولیاء کا منکر ہے۔ اور بعض لوگوں نے اسے یہ کہتے بھی سنا کہ اللہ کی نسبت ولی جلدی سُن لیتے ہیں۔
65. یعنی جسے اللہ کے نام سے چڑ ہے اور اکیلے اللہ کا ذکر سُن کر جس کا چہرہ بگڑنے لگتا ہے۔
66. اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ جانتا ہے کہ میں اس نعمت کا اہل ہوں ، اسی لیے اس نے مجھے یہ کچھ دیا ہے ، ورنہ اگر اس کے نزدیک میں ایک بُرا اور بدعقیدہ اور غلط کار آدمی ہوتا تو مجھے یہ نعمتیں کیوں دیتا۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو مجھے میری قابلیت کی بنا پر ملا ہے۔
67. لوگ اپنی جہالت و نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت مل رہی ہے وہ لازماً اس کی اہلیت و قابلیت کی بنا پر مل رہی ہے ، اور اس نعمت کا ملنا اس کے مقبول بارگاہ الہٰی ہونے کی علامت یا دلیل ہے۔ حالانکہ یہاں جسکو جو کچھ بھی دیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر دیا جا رہا ہے۔ یہ امتحان کا سامان ہے نہ کہ قابلیت کا انعام، ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے قابل آدمی خستہ حال ہیں اور بہت سے ناقابل آدمی نعمتوں میں کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح یہ دنیوی نعمتیں مقبول بارگاہ ہونے کی علامت بھی نہیں ہیں۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں بکثرت ایسے نیک آدمی مصائب میں مبتلا ہیں جن کے نیک ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور بہت سے بُرے آدمی، جن کی قبیح حرکات سے ایک دنیا واقف ہے ، عیش کر رہے ہیں۔ اب کیا کوئی صاحب عقل آدمی ایک کی مصیبت اور دوسرے کے عیش کو اس بات کی دلیل بنا سکتا ہے کہ نیک انسان کو اللہ پسند نہیں کرتا اور بد انسان کو وہ پسند کرتا ہے ؟
68. مطلب یہ ہے کہ جب ان کی شامت آئی تو وہ قابلیت بھی دھری رہ گئی جس کا انہیں دعویٰ تھا، اور یہ بات بھی کھل گئی کہ وہ اللہ کے مقبول بندے نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کی یہ کمائی مقبولیت اور صلاحیت کی بنا پر ہوتی تو شامت کیسے آ جاتی۔
69. یعنی رزق کی تنگی و کشادگی اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون پر مبنی ہے جس کے مصالح کچھ اور ہیں۔ اس تقسیم رزق کا مدار آدمی کی اہلیت و قابلیت، یا اس کے محبوب و مغضوب ہونے پر ہر گز نہیں ہے۔ (اس مضمون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبۃ حاشیہ 54،75،89،یونس حاشیہ23،ہود حاشیہ 3،33،الرعد حاشیہ42،۔ جلد سوم، الکہف حاشیہ 37،مریم حاشیہ 45،طہ حواشی 113،114،الانبیاء حاشیہ 99، المؤمنون دیباچہ حاشیہ 1،49،50،الشعراء حاشیہ81،84،القصص حواشی 97،98،101۔جلد چہارم، حواشی سورہ سبا 54 تا 60۔