Tafheem ul Quran

Surah 39 Az-Zumar, Ayat 53-63

قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا​ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿39:53﴾ وَاَنِيۡبُوۡۤا اِلٰى رَبِّكُمۡ وَاَسۡلِمُوۡا لَهٗ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِيَكُمُ الۡعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿39:54﴾ وَاتَّبِعُوۡۤا اَحۡسَنَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِيَكُمُ الۡعَذَابُ بَغۡتَةً وَّاَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَۙ‏ ﴿39:55﴾ اَنۡ تَقُوۡلَ نَفۡسٌ يّٰحَسۡرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِىۡ جَنۡۢبِ اللّٰهِ وَاِنۡ كُنۡتُ لَمِنَ السّٰخِرِيۡنَۙ‏ ﴿39:56﴾ اَوۡ تَقُوۡلَ لَوۡ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰٮنِىۡ لَكُنۡتُ مِنَ الۡمُتَّقِيۡنَۙ‏  ﴿39:57﴾ اَوۡ تَقُوۡلَ حِيۡنَ تَرَى الۡعَذَابَ لَوۡ اَنَّ لِىۡ كَرَّةً فَاَكُوۡنَ مِنَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿39:58﴾ بَلٰى قَدۡ جَآءَتۡكَ اٰيٰتِىۡ فَكَذَّبۡتَ بِهَا وَاسۡتَكۡبَرۡتَ وَكُنۡتَ مِنَ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿39:59﴾ وَيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيۡنَ كَذَبُوۡا عَلَى اللّٰهِ وُجُوۡهُهُمۡ مُّسۡوَدَّةٌ ؕ اَلَيۡسَ فِىۡ جَهَنَّمَ مَثۡوًى لِّلۡمُتَكَبِّرِيۡنَ‏ ﴿39:60﴾ وَيُنَجِّىۡ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا بِمَفَازَتِهِمۡ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوۡٓءُ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏ ﴿39:61﴾ اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَىۡءٍ​ وَّ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ وَّكِيۡلٌ‏ ﴿39:62﴾ لَّهٗ مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ‏ ﴿39:63﴾

53 - (اے نبیؐ )کہہ دو کہ اے میرے بندو، 70 جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاوٴ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفورٌ رحیم ہے، 71 54 - پلٹ آوٴ اپنے ربّ کی طرف اور مطیع بن جاوٴ اُس کے قبل اِس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مِل سکے۔ 55 - اور پیروی اختیار کر لو اپنے ربّ کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی 72 ، قبل اِس کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ 56 - کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے” افسوس میری اُس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا، بلکہ میں تو اُلٹا مذاق اُڑانے والوں میں شامل تھا۔“ 57 - یا کہے” کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی متّقیوں میں سے ہوتا۔“ 58 - یا عذاب دیکھ کر کہے ” کاش مجھے ایک موقع اور مِل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاوٴں۔“ 59 - (اور اُس وقت اسے یہ جواب ملے کہ)” کیوں نہیں، میری آیات تیرے پاس آچکی تھیں، پھر تُو نے انہیں جھُٹلایا اور تکبّر کیا اور تُو کافروں میں سے تھا۔“ 60 - آج جن لوگوں نے خدا پر جھُوٹ باندھے ہیں قیامت کے روز تم دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیا جہنّم میں متکبّروں کے لیے کافی جگہ نہیں ہے؟ 61 - اس کے برعکس جن لوگوں نے یہاں تقویٰ کیا ہے ان کے اسبابِ کامیابی کی وجہ سے اللہ ان کو نجات دے گا، ان کو نہ کوئی گزند پہنچے گی اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ 62 - اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ 73 63 - زمین اور آسمانوں کے خزانوں کی کُنجیاں اُسی کے پاس ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کی آیات سے کُفر کرتے ہیں وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ ؏۶


Notes

70. بعض لوگوں نے ان الفاظ کی یہ عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خود ’’اے میرے بندو‘‘ کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بندے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف اور اللہ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیے۔جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سُن کر جھوم اُٹھے گا، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہو ا جاتا ہے ، کیونکہ قرآن تو از اوّل تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ قرار دیتا ہے ، اور اسکی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود بندے تھے۔ ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا۔اور اس لیے بھیجا تھا کہ خود بھی اُسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے سما سکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے یکایک یہ اعلان کر دیا ہو گا کہ تم عبدالعزّیٰ اور عبد شمس کے بجائے دراصل عبدِ محمدؐ ہو، اعا ذ نا اللہ من ذالک۔

71. یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے ، صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے ، عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر توبہ و انابت کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ، بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کی صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کر لینا ہے۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام اُمید لے کر آئی تھی جو جاہلیّت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے ، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے۔اُن سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابن زیدؒ نے بیان کی ہے (ابن جریر، بخاری،مسلم، ابو داؤد، ترمذی )۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، فرقان حاشیہ 84۔

72. کتاب اللہ کے بہترین پہلو کی پیروی کرنے کا مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کا حکم دیا ہے آدمی ان کی تعمیل کرے ، جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان سے بچے ، اور امثال اور قصوں میں جو کچھ اس نے ارشاد فرمایا ہے اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے۔ بخلاف اس کے جو شخص حکم سے منہ موڑتا ہے ، منہیات کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ کے وعظ و نصیحت سے کوئی اثر نہیں لیتا وہ کتاب اللہ کے بدترین پہلو کو اختیار کرتا ہے ، یعنی وہ پہلو اختیار کرتا ہے جسے کتاب اللہ بدترین قرار دیتی ہے۔

73. یعنی اس نے دنیا کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا ہے ، بلکہ وہی ہر چیز کی خبر گیری اور نگہبانی کر رہا ہے۔ دنیاکی تمام چیزیں جس طرح اس کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہیں اسی طرح وہ اُس کے باقی رکھنے سے باقی ہیں ، اس کے پرورش کرنے سے پھل پھول رہی ہیں ، اور اس کی حفاظت و نگرانی میں کام کر رہی ہیں۔