1. چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصُوصیّت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح اُٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دُوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دُوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔
” تم کو ایک جان سے پیدا کیا“ یعنی نوعِ انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دُوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسلِ انسانی پھیلی۔
”اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا ( تَلموُد میں اَور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوّا کو حضرت آدم علیہ السّلام کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا)۔ لیکن کتاب اللہ اِس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے کا مفہُوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعیّن کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے۔
2. یعنی جب تک وہ بچّے ہیں ، اُن کے مال اُنہی کے مفاد پر خرچ کرو اور جب بڑے ہو جائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انہیں واپس کر دو۔
3. جامع فقرہ ہے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حلال کی کمائی کے بجائے حرام خوری نہ کرنے لگو، اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ یتیموں کے اچھّے مال کو اپنے بُرے مال سے نہ بدل لو۔
4. اس کے تین مفہوم اہلِ تفسیر نے بیان کیے ہیں:
(١) حضرت عائشہ ؓ اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں جو یتیم بچّیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں اُن کے مال اور اُن کے حُسن و جمال کی وجہ سے ، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کر لیتے تھے اور پھر اُن پر ظلم کیا کرتے تھے ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دُوسری عورتیں دُنیا میں موجود ہیں ، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کر لو۔ اسی سُورة میں اُنیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔
(۲) ابن عباس ؓ اور ان کے شاگرد عِکرِمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کر لیتا تھا۔ اور جب اس کثرتِ ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبُور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں، بھانجوں اور دُوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ ظلم و بے انصافی سے بچنے کی صُورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔
(۳)سَعید بن جُبَیر اور قَتَادَہ اور بعض دُوسرے مفسّرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہلِ جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن عورتوں کے معاملہ میں اُن کے ذہن عدل و انصاف کے تصوّر سے خالی تھے۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر اُن کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اِس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کےساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو ۔ اوّل تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو۔
آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے متحمل ہیں اور عجب نہیں کہ تینوں مفہُوم مراد ہوں۔ نیز اس کا ایک مفہُوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہوں۔
5. اس بات پر فقہا ءِ اُمّت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رُو سے تعدّد ازواج کو محدُود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے ۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غَیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اِسی طرح ایک دُوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔
نیز یہ آیت تعدّد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے ۔ جو شخص عدل کی شرط پُوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فائدہ اُٹھاتا ہے وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے۔ حکومت ِ اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو اُن کی داد رسی کریں۔
بعض لوگ اہلِ مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلُوب و مرعُوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآں کا اصل مقصد تعدّدِ ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطہ ٴ نظر سے فی الاصل بُرا طریقہ ہے) مٹا دینا تھا، مگر چونکہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا ۔ لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں ۔ تعدّد ازواج کا فی نفسہ١ایک بُرائی ہونا بجائے کود ناقابلِ تسلیم ہے ، کیونکہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدّنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے ، حصارِ نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں جس کے نقصانات تمدّن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعدّدِ ازواج سے پہنچ سکتے ہیں۔ اِسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے جو اس کی ضرورت محسُوس کریں۔ تاہم جن لوگوں کے نزدیک تعدّدِ ازواج فی نفسہ ایک بُرائی ہے اُن کو یہ اختیا ر تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے بر خلاف اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کر دینے کا مشورہ دیں۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خوا مخواہ قرآن کی طرف منسُوب کریں ۔ کیونکہ قرآن نے صریح الفاظ میں اس جو جائز ٹھیرایا ہے اور اشارةً و کنایةً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اس کو مسدُود کرنا چاہتا تھا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب” سنت کی آئینی حیثیت “، ص ۳۰۷ تا ۳۱۶)۔
6. لونڈیاں مراد ہیں ، یعنی وہ عورتیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آزاد خاندانی بیوی کا با ر بھی برداشت نہ کر سکو تو پھر لونڈی سے نکاح کر لو، جیسا کہ رکوع ۴ میں آگے آتا ہے ۔ یا یہ کہ اگر ایک سے زیادہ عورتوں کی تمہیں ضرورت ہو اور آزاد خاندانی بیویوں کے درمیان عدل رکھنا تمہارے لیے مشکل ہو تو لونڈیوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ ان کی وجہ سے تم پر ذمّہ داریوں کا بار نسبتًہ کم پڑے گا۔ (آگے حاشیہ نمبر ۴۴ میں لونڈیوں کے متعلق احکام کی مزید تفصیل ملے گی)
7. حضرت عمر ؓ اور قا ضی شُریح کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کو پُورا مہر یا اس کا کوئی حصّہ معاف کر دیا ہو اور بعد میں وہ اس کا پھر مطالبہ کرے تو شوہر اُس کے ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا ، کیونکہ اس کا مطالبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے مہر یا اس کا کوئی حصہ چھوڑنا نہیں چاہتی ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ”حقوقُ الزّوجین“ عنوان”مہر“۔
8. یہ آیت وسیع معنی کی حامل ہے۔ اس میں اُمّت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مال جو ذریعہ قیام ِ زندگی ہے ، بہر حال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام ِ تمدّن و معیشت اور بالآخر نظامِ اخلاق کو خراب کر دیں۔ حقوقِ ملکیت جو کسی شخص کو اپنے املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدُود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جا سکیں۔ جہاں تک آدمی کی ضروریات ِ زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں، لیکن جہاں تک حقوقِ مالکانہ کے آزاد انہ استعمال کا تعلق ہے اس پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدّن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مُضر نہ ہو۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحبِ مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالہ کر رہا ہے وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اور بڑے پیمانہ پر حکومتِ اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں، یا جو لوگ اپنی دولت کو بُرے طریقے پر استعمال کر رہے ہوں، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریات ِ زندگی کا بندوبست کر دے۔
9. یعنی جب وہ سنِ بلوغ کے قریب پہنچ رہےہوں تو دیکھتے رہو کہ اُن کا عقلی نشونما کیسا ہے اور ان میں اپنے معاملات کو خود اپنی ذمّہ داری پر چلانے کی صلاحیت کس حد تک پیدا ہو رہی ہے۔
10. مال ان کے حوالہ کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں: ایک بلوغ، دوسرے رُشد، یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت۔ پہلی شرط کے متعلق تو فقہائے اُمّت میں اتفاق ہے۔ دُوسری شرط کے بارے میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ہے کہ اگر سنِّ بُلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رُشد نہ پایا جائے تو ولی یتیم کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظام کر نا چاہیے ۔ پھر خواہ رُشد پایا جائے یا نہ پایا جائے ، اس کا مال اس کے حوالہ کر دینا چاہیے۔ اور امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ کے رائے یہ ہے کہ مال حوالہ کیے جانے کے لیے بہر حال رُشد کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ غالباً موخّر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرینِ صواب ہو گی کہ اس معاملہ میں قاضیِ شرع سے رُجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر ثابت ہو جائے کہ اس میں رُشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے۔
11. یعنی اپنا حق الخدمت اس حد تک لے کہ ہر غیر جانبدار معقول آدمی اس کو مناسب تسلیم کرے۔ نیز یہ کہ جو کچھ بھی حق الخدمت وہ لے چوری چھُپے نہ لے بلکہ علّانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے۔
12. اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں: ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں ۔ دُوسرے یہ کہ میراث بہر حال تقسیم ہونی چاہیے خو اہ وہ کتنی ہی کم ہو ، حتٰی کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصّوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اَور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے اُن کا حصّہ خرید لے ۔ تیسرے اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وارث کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا۔ خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنفِ مال میں شمار ہوتے ہوں۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو۔ پانچویں اِس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا۔
13. خطاب میّت کے وارثوں سے ہے اور انہیں ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ میراث کی تقسیم کے موقع پر جو دُور نزدیک کے رشتہ دار اور کنبہ کے غریب و مسکین لوگ اور یتیم بچّے آجائیں ان کے ساتھ تنگ دلی نہ برتو۔ میراث میں ازرُوئے شرع اُن کا حصّہ نہیں ہے تو نہ سہی، وُسعتِ قلب سے کام لے کر ترکہ میں سے اُن کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو، اور ان کے ساتھ وہ دل شکن باتیں نہ کرو جو ایسے مواقع پر بالعمُوم چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں۔
14. حدیث میں آیا ہے کہ جنگِ اُحُد کے بعد حضرت سعد بن رَبیع ؓ کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ ” یا رسول اللہ! یہ سعد ؓ کی بچیاں ہیں جو آپ ؐ کے ساتھ اُحُد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچا نے پُوری جائداد پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہّ تک نہیں چھوڑا ہے ۔ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا“۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔