140. اس رکوع اور اس کے بعد والے رکوع میں ایک اہم معاملہ سے بحث کی گئی ہے جو اُسی زمانہ میں پیش آیا تھا۔ قصہ یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طَعْمہ یا بشیر بن اُبَیرِق تھا۔ اس نے ایک انصاری کی زرہ چرا لی۔ اور جب اس کا تجسس شروع ہوا تو مال مسروقہ ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا۔ زرہ کے مالک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کی اور طعمہ پر اپنا شبہہ ظاہر کیا۔ مگر طعمہ اور اس کے بھائی بندوں اور بنی ظفر کے بہت سے لوگوں نے آپس میں اتفاق کر کے اُس یہودی پر الزام تھوپ دیا۔ یہودی سے پوچھا گیا کہ تو اس نے اپنی براءت ظاہر کی۔ لیکن یہ لوگ طعمہ کی حمایت میں زور شور سے وکالت کرتے رہے اور کہا کہ یہ یہودی خبیث جو حق کا انکار اور اللہ کے رسول سے کفر کرنے والا ہے، اِس کی بات کا کیا اعتبار، بات ہماری تسلیم کی جانی چاہیے کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ قریب تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مقدمہ کی ظاہری روداد سے متاثر ہو کر اس یہودی کے خلاف فیصلہ صادر فرما دیتے اور مستغیث کو بھی بنی اُبَیرق پر الزام عائد کرنے پر تنبیہ فرماتے۔ اتنے میں وحی آئی اور معاملہ کی ساری حقیقت کھول دی گئی۔ اگرچہ ایک قاضی کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روداد کے مطابق فیصلہ کر دینا بجائے خود آپ کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ اور ایسی صورتیں قاضیوں کو پیش آتی رہی ہیں کہ ان کے سامنے غلط روداد پیش کر کے حقیقت کے خلاف فیصلے حاصل کر لیے جاتے ہیں ۔ لیکن اُس وقت جبکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک زبردست کشمکش برپا تھی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم رودادِ مقدمہ کے مطابق یہودی کے خلاف فیصلہ صادر فرما دیتے تو اسلام کے مخالفوں کو آپ کے خلاف اور پوری اسلامی جماعت اور خود دعوتِ اسلامی کے خلاف ایک زبر دست اخلاقی حربہ مل جاتا۔ وہ یہ کہتے پھرتے کہ اجی یہاں حق و انصاف کا کیا سوال ہے، یہاں تو وہی جتھہ بندی اور عصبیت کام کر رہی ہے جس کے خلاف تبلیغ کی جاتی ہے۔ اسی خطرے سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس مقدمہ میں مداخلت فرمائی۔ اِن رکوعوں میں ایک طرف اُن مسلمانوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جنہوں نے محض خاندان اور قبیلہ کی عصبیت میں مجرموں کی حمایت کی تھی۔ دُوسری طرف عام مسلمانوں کو سبق دیا گیا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کسی تعصب کا دخل نہ ہونا چاہیے۔ یہ ہرگز دیانت نہیں ہے کہ اپنے گروہ کا آدمی اگر برسرِ باطل ہو تو اس کی بے جا حمایت کی جائے اور دُوسرے گروہ کا آدمی اگر برسرِ حق ہوتو اس کے ساتھ بے انصافی کی جائے۔
141. جو شخص دُوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے وہ دراصل سب سے پہلے خود اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرتا ہے ۔ کیونکہ دل اور دماغ کی جو قوتیں اس کے پاس بطورِ امانت ہیں ان پر بے جا تصرّف کر کے وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ خیانت میں اس کا ساتھ دیں۔ اور اپنے ضمیر کو جسے اللہ نے اس کے اخلاق کا محافظ بنایا تھا، اس حد تک دبا دیتا ہے کہ وہ اس خیانت کاری میں سدِّ راہ بننے کے قابل نہیں رہتا ۔ جب انسان اپنے اندر اس ظالمانہ دست بُرد کو پایۂ تکمیل تک پہنچا لیتا ہے تب کہیں باہر اس سے خیانت و معصیت کے افعال صادر ہوتے ہیں۔