Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 11-14

يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡۤ اَوۡلَادِكُمۡ​ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ​ ۚ فَاِنۡ كُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ​ ۚ وَاِنۡ كَانَتۡ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصۡفُ​ ؕ وَلِاَ بَوَيۡهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنۡ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ​ ؕ فَاِنۡ كَانَ لَهٗۤ اِخۡوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصِىۡ بِهَاۤ اَوۡ دَيۡنٍ​ ؕ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ ۚ لَا تَدۡرُوۡنَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ لَـكُمۡ نَفۡعًا​ ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا‏ ﴿4:11﴾ وَلَـكُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَكَ اَزۡوَاجُكُمۡ اِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَـكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡنَ​ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصِيۡنَ بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ​ ؕ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّكُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ كَانَ لَـكُمۡ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ​ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ تُوۡصُوۡنَ بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ​ ؕ وَاِنۡ كَانَ رَجُلٌ يُّوۡرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امۡرَاَةٌ وَّلَهٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا السُّدُسُ​ ۚ فَاِنۡ كَانُوۡۤا اَكۡثَرَ مِنۡ ذٰ لِكَ فَهُمۡ شُرَكَآءُ فِى الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصٰى بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ ۙ غَيۡرَ مُضَآرٍّ​ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللّٰهِ​ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَلِيۡمٌ ؕ‏ ﴿4:12﴾ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ​ ؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ يُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا​ ؕ وَذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿4:13﴾ وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوۡدَهٗ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَالِدًا فِيۡهَا وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ‏ ﴿4:14﴾

11 - تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصّہ دو عورتوں کے برابر ہے،اگر 15 12 - (میّت کی وارث)دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔16
اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔
اگر میّت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصّہ مِلنا چاہیے۔17
اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصّہ دیا جائے۔18
اور اگر میّت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصّہ کی حق دار ہوگی۔19
(یہ سب حصّے اُس وقت نکالے جائیں گے)جبکہ وصیّت جو میّت نے کی ہو پُوری کردی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کردیا جائے۔20
تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصّے اللہ نے مقرر کردیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔21
13 - اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صُورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمہارا ہے جبکہ وصیّت جو انہوں نے کی ہو پوری کردی جائے، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صُورت میں اُن کا حصّہ آٹھواں ہوگا،22 بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پُوری کردی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔
اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے،23 جبکہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کردی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔24یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خُو ہے۔25
14 - یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسُول ؐ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کُن سزا ہے۔25a ؏۲


Notes

15. میراث کے معاملہ میں یہ اوّلین اُصُولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصّہ عورت سے دوگنا ہے ۔ چونکہ شریعت نے خاندانی زندگی میں مرد پر زیادہ معاشی ذمّہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے اور عورت کو بہت سی معاشی ذمّہ داریوں کے بار سے سبکدوش رکھا ہے، لہٰذا انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ میراث میں عورت کا حصّہ مرد کی بہ نسبت کم رکھا جاتا ۔

16. یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی لڑکا نہ چھوڑا ہو اور اس کی اولاد میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں تو خواہ دو لڑکیاں ہوں یا دو سے زائد ، بہرحال اس کے کل ترکہ 2/3 حصّہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہو گا ، باقی1/3 دُوسرے وارثوں میں ۔ لیکن اگر میّت کا صرف ایک لڑکا ہو تو اس پر اجماع ہے کہ دُوسرے وارثوں کی غیر موجودگی میں وہ کُل مال کا وارث ہوگا ، اور دُوسرے وارث موجود ہوں تو اُن کا حصّہ دینے کے بعد باقی سب مال اُسے ملے گا۔

17. یعنی میّت کے صاحبِ اولاد ہونے کی صُورت میں بہرحال میّت کے والدین میں سے ہر ایک 1/6 کا حق دار ہوگا خواہ میّت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں، یا صرف بیٹے ہوں، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں، یا ایک بیٹا ہو، یا ایک بیٹی ۔ رہے باقی 2/3 تو اُن میں دُوسرے وارث شریک ہوں گے۔

18. ماں باپ کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو باقی 2/3 باپ کو ملے گا۔ ورنہ2/3 میں باپ اور دُوسرے وارث شریک ہوں گے۔

19. بھائی بہن ہونے کی صُورت میں ماں کا حصّہ 1/3 کے بجائے 1/6 کر دیا گیا ہے۔ اس طرح ماں کے حصّہ میں سے جو1/6 لیا گیا ہے وہ باپ کے حصّہ میں ڈالا جائے گا کیونکہ اس صُور تمیں باپ کی ذمّہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔ یہ واضح رہے کہ میّت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصّہ نہیں پہنچتا۔

20. وصیت کا ذکر قرض پر مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ قرض کا ہونا ہر مرنے والے کے حق میں ضروری نہیں ہے، اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ لیکن حکم کے اعتبار سے اُمّت کا اس پر اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا ، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔ وصیت کے متعلق سُورہٴ بقرہ حاشیہ نمبر ١۸٦ میں ہم بتا چکے ہیں کہ آدمی کو اپنے کُل مال کے 1/3 حصّہ کی حد تک وصیّت کرنے کا اختیار ہے ، اور یہ وصیّت کا قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ قانونِ وراثت کی رُو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے حصّہ نہیں پہنچتا ان میں سے جس کو یا جس جس کو آدمی مدد کا مستحق پاتا ہو اس کے لیے اپنے اختیار ِ تمیزی سے حصّہ مقرر کر دے۔ مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے ، یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے ، یا کوئی بھائی یا بہن یا بھاوج یا بھتیجا یا بھانجا یا اور کوئی عزیز ایسا ہے جو سہارے کا محتاج نظر آتا ہے ، تو اس کے حق میں وصیّت کے ذریعہ سے حصّہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں ہے تو دُوسرے مستحقین کے لیے یا کسی رفاہِ عام کے کام میں صرف کرنے کے لیے وصیّت کی جا سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی کُل ملکیت میں سے 2/3 یا اس سے کچھ زائد کے متعلق شریعت نے میراث کا ضابطہ بنا دیا ہے جس میں سے شریعت کے نامزد کردہ وارثوں کو مقررہ حصّہ ملے گا۔ اور 1/3 یا اس سے کچھ کم کو خود اس کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ اپنے مخصُوص خاندانی حالات کے لحاظ سے (جو ظاہر ہے کہ ہر آدمی کے معاملہ میں مختلف ہوں گے) جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کرنے کی وصیّت کر دے۔ پھر اگر کوئی شخص اپنی وصیّت میں ظلم کرے، یا بالفاظِ دیگر اپنے اختیارِ تمیزی کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے یہ چارہ کار رکھ دیا گیا ہےکہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کر لیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیّت کو درست کر دے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میرا رسالہ” یتیم پوتے کی وراثت“۔

21. یہ جواب ہے اُن سب نادانوں کو جو میراث کے اس خدائی قانون کو نہیں سمجھتے اور اپنی ناقص عقل سے اس کسر کو پورا کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں رہ گئی ہے۔

22. یعنی خواہ ایک بیوی ہو یا کئی بیویاں ہوں، اولاد ہونے کی صُورت میں وہ 1/8 کی اور اولاد نہ ہونے کی صُورت میں 1/4 کی حصّہ دار ہوں گی اور یہ 1/4 یا 1/8 سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا۔

23. باقی 5/6 یا 2/3 جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی اور وارث موجود ہو تو اس کو حصّہ ملے گا ، ورنہ اس پُوری باقی ماندہ ملکیّت کے متعلق اس شخص کو وصیّت کرنے کا حق ہو گا۔

اس آیت کے متعلق مفسّرین کا اجماع ہے کہ اس میں بھائی اور بہنوں سے مراد اَخیافی بھائی اور بہن ہیں یعنی جو میّت کے ساتھ صرف ماں کی طرف سے رشتہ رکھتے ہوں اور باپ ان کا دُوسرا ہو۔ رہے سگے بھائی بہن ، اور وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے میت کے ساتھ رشتہ رکھتے ہوں، تو ان کا حکم اِسی سُورہ کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔

24. وصیّت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیّت کی جائے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں۔ اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حقداروں کو محرُوم کرنے کے لیے آدمی خواہ مخواہ اپنے اُوپر ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو، یا اور کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصُود یہ ہو کہ حقدار میراث سے محرُوم ہو جائیں۔ اس قسم کے ضِرار کو گناہ ِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیّت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور ایک دُوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام عمر اہلِ جنّت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیّت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کر جاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے ۔ یہ ضِرار اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے، مگر خاص طور پر کَلالہ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جس شخص کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں اس میں عموماً یہ میلان پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی جائداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر جائے اور نسبتاً دُور کے رشتہ داروں کو حصّہ پانے سے محرُوم کر دے۔

25. یہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے: ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے ۔ اور اللہ کی صفتِ حِلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔

25. یہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے: ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے ۔ اور اللہ کی صفتِ حِلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔