142. یعنی اگر وہ غلط روداد پیش کر کے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کر نے میں کامیاب ہو بھی جاتے اور اپنے حق میں انصاف کے خلاف فیصلہ حاصل کر لیتے تو نقصان انہی کا تھا، تمہارا کچھ بھی نہ بگڑتا۔ کیونکہ خدا کے نزدیک مجرم وہ ہوتے نہ کہ تم۔ جو شخص حاکم کو دھوکہ دے کر اپنے حق میں غلط فیصلہ حاصل کرتا ہے وہ دراصل خود اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ان تدبیروں سے حق اس کے ساتھ ہو گیا، حالانکہ فی الواقع اللہ کے نزدیک حق جس کا ہے اسی کا رہتا ہے اور فریب خوردہ حاکم کے فیصلہ سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۹۷)۔
143. جب مذکورہ بالا مقدمہ میں وحی الہٰی کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس خائن مسلمان کے خلاف اور اُس بے گناہ یہودی کے حق میں فیصلہ صادر فرما دیا تو اس منافق پر جاہلیت کا اس قدر سخت دَورہ پڑا کہ وہ مدینہ سے نِکل کر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دُشمنوں کے پاس مکّہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر آمادہ ہو گیا۔ اس آیت میں اس کی اسی حرکت کی طرف اشارہ ہے۔