Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 113-115

وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكَ وَرَحۡمَتُهٗ لَهَمَّتۡ طَّآئِفَةٌ مِّنۡهُمۡ اَنۡ يُّضِلُّوۡكَ ؕ وَمَا يُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ​ وَمَا يَضُرُّوۡنَكَ مِنۡ شَىۡءٍ ​ؕ وَاَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمۡ تَكُنۡ تَعۡلَمُ​ؕ وَكَانَ فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكَ عَظِيۡمًا‏ ﴿4:113﴾ لَا خَيۡرَ فِىۡ كَثِيۡرٍ مِّنۡ نَّجۡوٰٮهُمۡ اِلَّا مَنۡ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوۡ مَعۡرُوۡفٍ اَوۡ اِصۡلَاحٍۢ بَيۡنَ النَّاسِ​ ؕ وَمَن يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰهِ فَسَوۡفَ نُـؤۡتِيۡهِ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿4:114﴾ وَمَنۡ يُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الۡهُدٰى وَ يَـتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصۡلِهٖ جَهَـنَّمَ​ ؕ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا‏ ﴿4:115﴾

113 - اے نبی ؐ! اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا، حالانکہ درحقیقت وہ خود اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر رہے تھے۔ اور تمہارا کوئی نقصان نہ کر سکتے تھے۔ 142اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا، اور اس کا فضل تم پر بہت ہے۔ 114 - لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔ 115 - مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو ، تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا 143اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔ ؏ ۱۷


Notes

142. یعنی اگر وہ غلط روداد پیش کر کے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کر نے میں کامیاب ہو بھی جاتے اور اپنے حق میں انصاف کے خلاف فیصلہ حاصل کر لیتے تو نقصان انہی کا تھا، تمہارا کچھ بھی نہ بگڑتا۔ کیونکہ خدا کے نزدیک مجرم وہ ہوتے نہ کہ تم۔ جو شخص حاکم کو دھوکہ دے کر اپنے حق میں غلط فیصلہ حاصل کرتا ہے وہ دراصل خود اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ان تدبیروں سے حق اس کے ساتھ ہو گیا، حالانکہ فی الواقع اللہ کے نزدیک حق جس کا ہے اسی کا رہتا ہے اور فریب خوردہ حاکم کے فیصلہ سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۹۷)۔

143. جب مذکورہ بالا مقدمہ میں وحی الہٰی کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس خائن مسلمان کے خلاف اور اُس بے گناہ یہودی کے حق میں فیصلہ صادر فرما دیا تو اس منافق پر جاہلیت کا اس قدر سخت دَورہ پڑا کہ وہ مدینہ سے نِکل کر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دُشمنوں کے پاس مکّہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر آمادہ ہو گیا۔ اس آیت میں اس کی اسی حرکت کی طرف اشارہ ہے۔