144. اس رکوع میں اوپر کے سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ اپنی جاہلیت کے طیش میں آکر یہ شخص جس راہ کی طرف گیا ہے وہ کیسی راہ ہے ، اور صالحین کے گروہ سے الگ ہو کر جن لوگوں کا ساتھ اس نے اختیار کیا ہے وہ کیسے لوگ ہیں۔
145. شیطان کو اس معنی میں تو کوئی بھی معبُود نہیں بناتا کہ اس کے آگے مراسمِ پرستش ادا کرتا ہو اور اس کو الوہیّت کا درجہ دیتا ہو۔ البتہ اُسے معبُود بنانے کی صُورت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اور جدھر جدھر وہ چلاتا ہے اُدھر چلتا ہے، گویا کہ یہ اُس کا بندہ ہے اور وہ اِس کا خدا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے احکام کی بے چون وچرا اطاعت اور اندھی پیروی کرنے کا نام بھی”عبادت“ ہے، اور جو شخص اس طرح کی اطاعت کرتا ہے وہ دراصل اس کی عبادت بجا لاتا ہے۔
146. یعنی اُن کے اوقات میں ، ان کی محنتوں اور کوششوں میں ، ان کی قوتوں اور قابلیتوں میں ، ان کے مال اور ان کی اولاد میں اپنا حصّہ لگا ؤں گا اور ان کو فریب دے کر ایسا پر چا ؤں گا کہ وہ ان ساری چیزوں کا ایک معتد بہ حصّہ میری راہ میں صرف کریں گے۔
147. اہلِ عرب کے توہّمات میں سے ایک کی طرف اشارہ ہے۔ ان کے ہاں قاعدہ تھا کہ جب اُونٹنی پانچ یا دس بچے جَن لیتی تو اس کے کان پھاڑ کر اسے اپنے دیوتا کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس سے کام لینا حرام سمجھتے تھے۔ اسی طرح جس اُونٹ کے نطفہ سے دس بچے ہو جاتے اُسے بھی دیوتا کے نام پر پُن کر دیا جاتا اور کان چیرنا اس بات کی علامت تھا کہ یہ پُن کیا ہوا جانور ہے۔
148. خدائی ساخت میں ردّو بدل کرنے کا مطلب اشیاء کی پیدائشی بناوٹ میں ردّو بدل کرنا نہیں ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے تب تو پوری انسانی تہذیب ہی شیطان کے اغوا کا نتیجہ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ تہذیب تو نام ہی ان تصرفات کا ہے جو انسان خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں کرتا ہے ۔ دراصل اس جگہ جس ردّو بدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدا نے اُسے پیدا نہیں کیا ہے، اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اُسے پیدا کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے ، اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے ، اِس آیت کی رُوسے شیطان کی گمراہ کُن تحریکات کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً عملِ قومِ لوط ، ضبطِ ولادت، رَہبانیت، پرہمچرج، مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنایا، مردوں کو خواجہ سرا بنایا، عورتوں کو ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدّن کے اُن شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اور اس طرح کے دُوسرے بے شمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کر رہے ہیں ، دراصل یہ معنی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالقِ کائنات کے ٹھیرائے ہوئے قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں۔
149. شیطان کا سارا کا روبار ہی وعدوں اور اُمّیدوں کے بل پر چلتا ہے۔ وہ انسان کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر جب کسی غلط راستے کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو اس کے آگے سبز باغ پیش کردیتا ہے۔ کسی کو انفرادی لُطف و لذّت اور کامیابیوں کی اُمید، کسی کو قومی سر بلندیوں کی توقع، کسی کو نوع انسانی کی فلاح و بہبُود کا یقین، کسی کو صداقت تک پہنچ جانے کا اطمینان، کسی کو یہ بھروسہ کہ نہ خدا ہے نہ آخرت، بس مر کر مٹی ہو جانا ہے، کسی کو یہ تسلی کہ آخرت ہے بھی تو وہاں کی گرفت سے فلاں کے طفیل اور فلاں کے صدقے میں بچ نکلو گے۔ غرض جو جس وعدے اور جس توقع سے فریب کھا سکتا ہے اس کے سامنے وہی پیش کرتا ہے اور پھانس لیتا ہے۔
150. یعنی اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا اور خود سَری و خود مختاری سے باز آجانا اِس لیے بہترین طریوہ ہے کہ یہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ جب اللہ زمین و آسمان کا اور ان ساری چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں تو انسان کے لیے صحیح رویّہ یہی ہے کہ اس کی بندگی و اطاعت پر راضی ہو جائے اور سر کشی چھوڑ دے۔
151. یعنی اگر انسان اللہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرے اور سرکشی سے باز نہ آئے تو وہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتا ، اللہ کی قدرت اس کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔