Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 135-141

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّامِيۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَلَوۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ اَوِ الۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ​ ؕ اِنۡ يَّكُنۡ غَنِيًّا اَوۡ فَقِيۡرًا فَاللّٰهُ اَوۡلٰى بِهِمَا​ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡهَوٰٓى اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ​ۚ وَاِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا‏ ﴿4:135﴾ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَالۡكِتٰبِ الَّذِىۡ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَالۡكِتٰبِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ​ؕ وَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓـئِكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا‏ ﴿4:136﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا كُفۡرًا لَّمۡ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَـغۡفِرَ لَهُمۡ وَلَا لِيَـهۡدِيَهُمۡ سَبِيۡلًا ؕ‏ ﴿4:137﴾ بَشِّرِ الۡمُنٰفِقِيۡنَ بِاَنَّ لَهُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًاۙ‏ ﴿4:138﴾ الَّذِيۡنَ يَتَّخِذُوۡنَ الۡـكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ​ ؕ اَيَبۡتَغُوۡنَ عِنۡدَهُمُ الۡعِزَّةَ فَاِنَّ الۡعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيۡعًا ؕ‏ ﴿4:139﴾ وَقَدۡ نَزَّلَ عَلَيۡكُمۡ فِى الۡـكِتٰبِ اَنۡ اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكۡفَرُ بِهَا وَيُسۡتَهۡزَاُبِهَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَهُمۡ حَتّٰى يَخُوۡضُوۡا فِىۡ حَدِيۡثٍ غَيۡرِهٖۤ​ ​ ۖ اِنَّكُمۡ اِذًا مِّثۡلُهُمۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ​​​الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡكٰفِرِيۡنَ فِىۡ جَهَـنَّمَ جَمِيۡعَاۨ ۙ‏ ﴿4:140﴾ الَّذِيۡنَ يَتَرَ بَّصُوۡنَ بِكُمۡ​ ۚ فَاِنۡ كَانَ لَـكُمۡ فَتۡحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُـوۡۤا اَلَمۡ نَـكُنۡ مَّعَكُمۡ ​ ۖ وَاِنۡ كَانَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ نَصِيۡبٌۙ قَالُـوۡۤا اَلَمۡ نَسۡتَحۡوِذۡ عَلَيۡكُمۡ وَنَمۡنَعۡكُمۡ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ​ ؕ فَاللّٰهُ يَحۡكُمُ بَيۡنَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ​ؕ وَلَنۡ يَّجۡعَلَ اللّٰهُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ سَبِيۡلًا‏ ﴿4:141﴾

135 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار164 اور خدا واسطے کے گواہ بنو165 اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔ 136 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ166 اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا 167 وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔ 137 - رہے وہ لوگ جو ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھرایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے،168 تو اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی ان کو راہ راست دکھائے گا۔ 138 - اور منافقوں کو یہ مژدہ سنا دو کہ ان کے لیے درد ناک سزا تیار ہے۔ 139 - انہیں جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں کیا یہ عزت کی طلب میں ان کے پاس جاتے ہیں؟169 حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔ 140 - اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو۔170یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے۔ 141 - یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے)۔ اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آکر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اگر کافروں کا پلّہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا؟171بس اللہ ہی تمہارے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ قیامت کے روز کرے گا اور (اس فیصلہ میں) اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔؏ ۲۰


Notes

164. یہ فرمانے پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو، بلکہ یہ فرمایا کہ انصاف کے علمبردار بنو۔ تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اُٹھنا ہے۔ تمہیں اس بات پر کمر بستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل و راستی قائم ہو۔ عدل کو اپنے قیام کے لیے جس سہارے کی ضرورت ہے ، مومن ہونے کی حیثیت سے تمہارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا تم بنو۔

165. یعنی تمہاری گواہی محض خدا کے لیے ہونی چاہیے ، کسی کی رو رعایت اس میں نہ ہو، کوئی ذاتی مفاد یا خدا کے سوا کسی کی خوشنودی تمہارے مدِّ نظر نہ ہو۔

166. ایمان لانے والوں سے کہنا کہ ایمان لا ؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دراصل یہاں لفظ ایمان دو الگ معنوں میں استعمال ہواہے۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے ، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اُسے سچے دل سے مانے۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے۔ اپنی فکر کو، اپنے مذاق کو ،ا پنی پسند کو ، اپنے رویّے اور چلن کو، اپنی دوستی اور دُشمنی کو ، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اُس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔ آیت میں خطاب اُن تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ”ماننے والوں“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور ان سے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ دُوسرے معنی کے لحاظ سے سچے مومن بنیں۔

167. کفر کرنے کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی صاف صاف انکار کر دے۔ دوسرے یہ کہ زبان سے تو مانے مگر دل سے نہ مانے ، یا اپنے رویّے سے ثابت کر دے کہ وہ جس چیز کو ماننے کا دعویٰ کر رہا ہے فی الواقع اسے نہیں مانتا۔ یہاں کفر سے یہ دونوں معنی مراد ہیں اور آیت کا مقصُود لوگوں کو اس بات پر متنبّہ کرنا ہے کہ اسلام کے اِن اساسی عقیدوں کے ساتھ کفر کی اِن دونوں اقسام میں سے جس قسم کا برتاؤ بھی آدمی اختیار کرے گا ، اس کا نتیجہ حق سے دوری اور باطل کی راہوں میں سر گشتگی و نا مرادی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

168. اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے دین محض ایک غیر سنجیدہ تفریح ہے۔ ایک کھلونا ہے جس سے وہ اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق کھیلتے رہتے ہیں۔ جب فضائے دماغی میں ایک لہر اُٹھی، مسلمان ہو گئے اور جب دُوسری لہر اُٹھی، کافر بن گئے۔ یا جب فائدہ مسلمان بن جانے میں نظر آیا ، مسلمان بن گئے اور جب معبودِ منفعت نے دُوسری طرف جلوہ دکھایا تو اس کی پُوجا کرنے کے لیے بے تکلف اسی طرف چلے گئے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے پاس نہ مغفرت ہے نہ ہدایت۔ اور یہ جو فرمایا کہ” پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص محض کافر بن جانے ہی پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے بعد دوسرے لوگوں کو بھی اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرے، اسلام کے خلاف خفیہ سازشیں اور علانیہ تدبیریں شروع کر دے، اور اپنی قوت اس سعی و جہد میں صرف کرنے لگے کہ کفر کا بول بالا ہو اور اس کے مقابلہ میں اللہ کے دین کا جھنڈا سرنگوں ہو جائے۔ یہ کفر میں مزید ترقی، اور ایک جرم پر پے در پے جرائم کا اضافہ ہے جس کا وبال بھی مجرّد کفر سے لازماً زیادہ ہونا چاہیے۔

169. “عزت” کا مفہُوم عربی زبان میں اُردو کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہے۔ اُردو میں عزّت محض احترام اور قدر و منزلت کے معنی میں آتا ہے۔ مگر عربی میں عزّت کا مفہُوم یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسی بلند اور محفوظ حیثیت حاصل ہو جائے کہ کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ دُوسرے الفاظ میں لفظ عزّت“ناقابلِ ہتک حرمت” کا ہم معنی ہے۔

170. یعنی اگر ایک شخص اسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود کافروں کی ان صحبتوں میں شریک ہوتا ہے جہاں آیاتِ الہٰی کے خلاف کفر بکا جاتا ہے ، اور ٹھنڈے دل سے ان لوگوں کو خدا اور رسول کا مذاق اُڑاتے ہوئے سنتا ہے ، تو اس میں اور ان کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ (جس حکم کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ سُورہ اَنعام آیت ۶۸ میں بیان ہوا ہے)۔

171. ہر زمانہ کے منافقین کی یہی خصوصیّت ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں اُن کو یہ اپنے زبانی اقرار اور دائرہ ٔ اسلام میں برائے نام شمولیت کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اور جو فائدے کافر ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونے ممکن ہیں ان کی خاطر یہ کفار سے جا کر ملتے ہیں اور ہر طریقہ سے ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کوئی”متعصّب مسلمان“ نہیں ہیں، نام کا تعلق مسلمانوں سے ضرور ہے مگر ہماری دلچسپیاں اور وفاداریاں تمہارے ساتھ ہیں، فکر و تہذیب اور مذاق کے لحاظ سے ہر طرح کی موافقت تمہارے ساتھ ہے، اور کفر و اسلام کی کشمکش میں ہمارا وزن جب پڑے گا تمہارے ہی پلڑے میں پڑے گا۔