Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 142-152

اِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ يُخٰدِعُوۡنَ اللّٰهَ وَهُوَ خَادِعُوْهُمۡ​ ۚ وَاِذَا قَامُوۡۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوۡا كُسَالٰى ۙ يُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَلَا يَذۡكُرُوۡنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۙ‏ ﴿4:142﴾ مُّذَبۡذَبِيۡنَ بَيۡنَ ​ ۖ ذٰ لِكَ لَاۤ اِلٰى هٰٓؤُلَاۤءِ وَلَاۤ اِلٰى هٰٓؤُلَاۤءِ​ ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَلَنۡ تَجِدَ لَهٗ سَبِيۡلًا‏ ﴿4:143﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ​ ؕ اَ تُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ تَجۡعَلُوۡا لِلّٰهِ عَلَيۡكُمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِيۡنًا‏ ﴿4:144﴾ اِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ فِى الدَّرۡكِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ​ ۚ وَلَنۡ تَجِدَ لَهُمۡ نَصِيۡرًا ۙ‏ ﴿4:145﴾ اِلَّا الَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاَصۡلَحُوۡا وَاعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰهِ وَاَخۡلَصُوۡا دِيۡنَهُمۡ لِلّٰهِ فَاُولٰٓـئِكَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ​ ؕ وَسَوۡفَ يُـؤۡتِ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿4:146﴾ مَا يَفۡعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمۡ اِنۡ شَكَرۡتُمۡ وَاٰمَنۡتُمۡ​ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيۡمًا‏ ﴿4:147﴾ لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الۡجَـهۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيۡعًا عَلِيۡمًا‏ ﴿4:148﴾ اِنۡ تُبۡدُوۡا خَيۡرًا اَوۡ تُخۡفُوۡهُ اَوۡ تَعۡفُوۡا عَنۡ سُوۡٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيۡرًا‏ ﴿4:149﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡفُرُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّفَرِّقُوۡا بَيۡنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّنَكۡفُرُ بِبَعۡضٍۙ وَّيُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَّخِذُوۡا بَيۡنَ ذٰ لِكَ سَبِيۡلًا ۙ‏ ﴿4:150﴾ اُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡـكٰفِرُوۡنَ حَقًّا​ ۚ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابًا مُّهِيۡنًا‏ ﴿4:151﴾ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَلَمۡ يُفَرِّقُوۡا بَيۡنَ اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ اُولٰٓـئِكَ سَوۡفَ يُؤۡتِيۡهِمۡ اُجُوۡرَهُمۡ ​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿4:152﴾

142 - یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔172 143 - کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں۔ نہ پورے اس طرف ہیں نہ پورے اُس طرف ۔ جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔173 144 - اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجّت دے دو؟ 145 - یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو ان کا مدد گار نہ پاؤ گے۔ 146 - البتہ جو ان میں سے تائب ہوجائیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کرلیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دیں،174 ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔ 147 - آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو175 اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑا قدر دان ہے176اور سب کے حال سے واقف ہے۔ 148 - [الجزء ۶]اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، اِلّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ 149 - (مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ تم کو بدگوئی کا حق ہے) لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا کم از کم بُرائی سے درگزر کرو، تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔177 150 - جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں، اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے، اور کفر وایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، 151 - وہ سب پکے کافر ہیں178اور ایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزا مہیّا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہوگی ۔۔۔۔ 152 - بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں، اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں، ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے ،179 اور اللہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔180؏ ۲۱


Notes

172. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کی جماعت میں شمار ہی نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ نماز کا پابند نہ ہو۔ جس طرح تمام دُنیوی جماعتیں اور مجلسیں اپنے اجتماعات میں کسی ممبر کے بلا عُذر شریک نہ ہونے کو اس کی عدم دلچسپی پر محمُول کرتی ہیں اور مسلسل چند اجتماعات سے غیر حاضر رہنے والے پر اسے ممبری سے خارج کر دیتی ہیں ، اسی طرح اسلامی جماعت کے کسی رُکن کا نماز باجماعت سے غیر حاضر رہنا اُس زمانہ میں اِس بات کی صریح دلیل سمجھا جاتا تھا کہ وہ شخص اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، اور اگر وہ مسلسل چند مرتبہ جماعت سے غیر حاضر رہتا تو یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس بنا پر سخت سے سخت منافقوں کو بھی اس زمانہ میں پانچوں وقت مسجد کی حاضری ضرور دینی پڑتی تھی، کیونکہ اس کے بغیر وہ مسلمانوں کی جماعت میں شمار کیے ہی نہ جا سکتے تھے۔ البتہ جو چیز ان کو سچے اہلِ ایمان سے ممیز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ سچے مومن ذوق و شوق سے آتے تھے ، وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے ، نماز سے فارغ ہو کر بھی مسجد وں میں ٹھیرے رہتے تھے ، اور ان کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ نماز سے ان کو حقیقی دلچسپی ہے ۔ بخلاف اس کے اذان کی آواز سُنتے ہی منافق کی جان پر بن جاتی تھی، دل پر جبر کر کے اُٹھتا تھا، اس کے آنے کا انداز صاف غمازی کرتا تھا کہ آ نہیں رہا بلکہ اپنے آپ کو کھینچ کر لا رہا ہے، جماعت ختم ہوتے ہی اس طرح بھاگتا تھا گویا کہ کسی قیدی کو رہائی ملی ہے، اور اس کی تمام حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ شخص خد اکے ذکر سے کوئی رغبت نہیں رکھتا۔

173. یعنی جس نے خد اکے کلام اور اس کے رسول کی سیرت سے ہدایت نہ پائی ہو، جس کو سچائی سے منحرف اور باطل پرستی کی طرف راغب دیکھ کر خدا نے بھی اُسی طرف پھیر دیا ہو جس طرف وہ خود پھرنا چاہتا تھا ، اور جس کی ضلالت طلبی کی وجہ سے خدا نے اس پر ہدایت کے دروازے بند اور صرف ضلالت ہی کے راستے کھول دیے ہوں ، ایسے شخص کو راہِ راست دکھانا درحقیقت کسی انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس معاملہ کو رزق کی مثال سے سمجھیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رزق کے تمام خزانے اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ جس انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملتاہے۔ مگر اللہ ہر شخص کو رزق اُس راستہ سے دیتا ہے جس راستے سے وہ خود مانگتا ہو۔ اگر کوئی شخص اپنا رزق حلال راستہ سے طلب کر ے اور اُسی کے لیے کوشش بھی کرے تو اللہ اس کے لیے حلال راستوں کو کھول دیتا ہے اور جتنی اس کی نیت صادق ہوتی ہے اُسی نسبت سے حرام کے راستے اس کے لیے بند کر دیتا ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص حرام خوری پر تُلا ہوا ہوتا ہے اور اسی کے لیے سعی کرتا ہے اس کو خدا کے اذن سے حرام ہی کی روٹی مِلتی ہے اور پھر یہ کسی کے بس کی بات نہیں کہ اس کے نصیب میں رزق حلال لکھ دے۔ بالکل اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا میں فکر و عمل کی تمام راہیں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ کوئی شخص کسی راہ پر بھی اللہ کے اذن اور اس کی توفیق کے بغیر نہیں چل سکتا ۔ رہی یہ بات کہ کس انسان کو کس راہ پر چلنے کا اذن ملتا ہے اور کس راہ کی رہروی کے اسباب اس کے لیے ہموار کیے جاتے ہیں ، تو اس کا انحصار سراسر آدمی کی اپنی طلب اور سعی پر ہے۔ اگر وہ خدا سے لگاؤ رکھتا ہے ، سچائی کا طالب ہے، اور خالص نیت سے خدا کے راستے پر چلنے کی سعی کرتا ہے، تو اللہ اسی کا اذن اسی کی توفیق اسے عطا فرماتا ہے اور اسی راہ پر چلنے کے اسباب اس کے لیے موافق کر دیتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو شخص خود گمراہی کو پسند کرتا ہے اور غلط راستوں ہی پر چلنے کی سعی کرتا ہے ، اللہ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کے دروازےبند ہو جاتے ہیں اوار وہی راہیں اس کے لیے کھول دی جاتی ہیں جن کو اس نے آپ اپنے لیے منتخب کیا ہے۔ ایسے شخص کو غلط سوچنے ، غلط کام کرنے اور غلط راہوں میں اپنی قوتیں صرف کرنے سے بچا لینا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ اپنے نصیب کی راہِ راست جس نے خود کھو دی اور جس سے اللہ نے اس کو محروم کر دیا ، اس کے لیے یہ گم شدہ نعمت کسی کے ڈھونڈے نہیں مِل سکتی۔

174. اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی وفاداریاں اللہ کے سوا کسی اور سے وابستہ نہ ہوں، اپنی ساری دلچسپیوں اور محبتوں اور عقیدتوں کو وہ اللہ کے آگے نذر کردے، کسی چیز کے ساتھ بھی دل کا ایسا لگا ؤ باقی نہ رہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اُسے قربان نہ کیا جا سکتا ہو۔

175. شکر کے اصل معنی اعترافِ نعمت یا احسان مندی کے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ کے ساتھ احسان فراموشی اور نمک حرامی کا رویّہ اختیار نہ کرو، بلکہ صحیح طور پر اس کے احسان مند بن کر رہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ تمہیں سزا دے۔

ایک محسن کے مقابلہ میں صحیح احسان مندانہ رویّہ یہی ہو سکتا ہے کہ آدمی دل سے اس کے احسان کا اعتراف کرے، زبان سے اس کا اقرار کرے اور عمل سے احسان مندی کا ثبوت دے۔ انہی تین چیزوں کے مجموعہ کا نام شکر ہے۔ اور اس شکر کا اقتضاء یہ ہے کہ اوّلاً آدمی احسان کو اُسی کی طرف منسُوب کرے جس نے دراصل احسان کیا ہے ، کسی دُوسرے کے احسان کے شکریہ اور نعمت کے اعتراف میں اس کا حصہ دار نہ بنائے۔ ثانیاً آدمی کا دل اپنے محسن کے لیے محبت اور وفاداری کے جذبہ سے لبریز ہو اور اُس کے مخالفوں سے محبت و اخلاص اور وفاداری کا ذرہ برابر تعلق بھی نہ رکھے۔ ثالثًا وہ اپنے محسن کا مطیع و فرمانبردار ہو او ر اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے منشاء کے خلاف استعمال نہ کرے۔

176. اصل میں لفظ” شاکر“ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ”قدر دان“ کیا ہے۔ شکر جب اللہ کی طرف سے بندے کی جانب ہو تو اس کے معنی”اعترافِ خدمت“ یا قدر دانی کے ہوں گے، اور جب بندے کی طرف سے اللہ کی جانب ہو تو اس کو اعترافِ نعمت یا احسان مندی کے معنی میں لیا جائے گا۔ اللہ کی طرف سے بندوں کا شکریہ ادا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ناقدر شناس نہیں ہے ، جتنی اور جیسی خدمات بھی بندے اس کی راہ میں بجا لائیں ، اللہ کے ہاں ان کی قدر کی جاتی ہے، کسی کی خدمات صِلہ و انعام سے محرُوم نہیں رہتیں ، بلکہ وہ نہایت فیاضی کے ساتھ ہر شخص کو اس کی خدمت سے زیادہ صلہ دیتا ہے۔ بندوں کا حال تو یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے کیا اس کی قدر کم کرتے ہیں اور جو کچھ نہ کیا اس پر گرفت کرنے میں بڑی سختی دکھاتے ہیں ۔ لیکن اللہ کا حال یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے نہیں کیا ہے اس پر محاسبہ کرنے میں وہ بہت نرمی اور چشم پوشی سے کام لیتا ہے، اور جو کچھ کیا ہے اس کی قدر اس کے مرتبے سے بڑھ کر کرتا ہے۔

177. اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت بلند درجہ کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے ۔ منافق اور یہودی اور بُت پرست سب کے سب اُس وقت ہر ممکن طریقہ سے اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اس کی پیروی قبول کرنے والوں کو ستانے اور پریشان کر نے پر تلے ہوئے تھے۔ کوئی بدتر سے بدتر تدبیر ایسی نہ تھی جو وہ اِس نئی تحریک کے خلاف استعمال نہ کر رہے ہوں۔ اس پر مسلمانوں کے اندر نفرت اور غصّہ کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اس قسم کے جذبات کا طوفان اُٹھتے دیکھ کر فرمایا کہ بدگوئی پر زبان کھولنا تمہارے خدا کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تم مظلوم ہو اور اگر مظلوم ظالم کے خلاف بد گوئی پر زبان کھولے تو اُسے حق پہنچتا ہے ۔ لیکن پھر بھی افضل یہی ہے کہ خفیہ ہو یا علانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جا ؤ اور بُرائیوں سے درگزر کرو، کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے۔ جس خدا کا قرب تم چاہتے ہو اس کی شان یہ ہے کہ نہایت حلیم اور بُردبار ہے، سخت سے سخت مجرموں تک کو رزق دیتا ہے اور بڑے سے بڑے قصُوروں پر بھی در گزر کیے چلا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے قریب تر ہونے کے لیے تم بھی عالی حوصلہ اور وسیع الظّرف بنو۔

178. یعنی کافر ہو نے میں وہ لوگ جو نہ خدا کو مانتے ہیں نہ اس کے رسولوں کو ، اور وہ جو خدا کو مانتے ہیں مگر رسولوں کو نہیں مانتے ، اور وہ جو کسی رسول کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں مانتے، سب یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے کافر ہونے میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں۔

179. یعنی جو لوگ خدا کو اپنا واحد معبُود اور مال تسلیم کر لیں ، اور اس کے بھیجے ہوئے تمام رسُولوں کی پَیروی قبول کریں، صرف وہی اپنے اعمال پر اجر کے مستحق ہیں ، اور وہ جس درجہ کا عمل صالح کریں گے اسی درجہ کا اجر پائیں گے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے خدا کی لاشریک الہٰیّت و ربوبیّت ہی تسلیم نہ کی ، یا جنہوں نے خدا کے نمائندوں میں سے بعض کو قبول اور بعض کو ردکرنے کا باغیانہ طرزِ عمل اختیار کیا، تو ان کے لیے کسی عمل پر کسی اجر کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا ، کیونکہ ایسے لوگوں کا کوئی عمل خدا کی نگاہ میں قانونی عمل نہیں ہے۔

180. یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے ان کا حساب لینے میں اللہ سخت گیری نہیں برتے گا بلکہ ان کے ساتھ بہت نر می اور درگزر سے کام لے گا۔