Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 153-162

يَسۡـئَـلُكَ اَهۡلُ الۡـكِتٰبِ اَنۡ تُنَزِّلَ عَلَيۡهِمۡ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ​ فَقَدۡ سَاَ لُوۡا مُوۡسٰٓى اَكۡبَرَ مِنۡ ذٰ لِكَ فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهۡرَةً فَاَخَذَتۡهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلۡمِهِمۡ​​ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنٰتُ فَعَفَوۡنَا عَنۡ ذٰ لِكَ​​​​ ۚ وَاٰتَيۡنَا مُوۡسٰى سُلۡطٰنًا مُّبِيۡنًا‏ ﴿4:153﴾ وَرَفَعۡنَا فَوۡقَهُمُ الطُّوۡرَ بِمِيۡثَاقِهِمۡ وَقُلۡنَا لَهُمُ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّقُلۡنَا لَهُمۡ لَا تَعۡدُوۡا فِى السَّبۡتِ وَاَخَذۡنَا مِنۡهُمۡ مِّيۡثَاقًا غَلِيۡظًا‏ ﴿4:154﴾ فَبِمَا نَقۡضِهِمۡ مِّيۡثَاقَهُمۡ وَكُفۡرِهِمۡ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَقَتۡلِهِمُ الۡاَنۡۢبِيَآءَ بِغَيۡرِ حَقٍّ وَّقَوۡلِهِمۡ قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيۡهَا بِكُفۡرِهِمۡ فَلَا يُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿4:155﴾ وَّبِكُفۡرِهِمۡ وَقَوۡلِهِمۡ عَلٰى مَرۡيَمَ بُهۡتَانًـا عَظِيۡمًا ۙ‏ ﴿4:156﴾ وَّقَوۡلِهِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِيۡحَ عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ رَسُوۡلَ اللّٰهِ​ ۚ وَمَا قَتَلُوۡهُ وَمَا صَلَبُوۡهُ وَلٰـكِنۡ شُبِّهَ لَهُمۡ​ ؕ وَاِنَّ الَّذِيۡنَ اخۡتَلَـفُوۡا فِيۡهِ لَفِىۡ شَكٍّ مِّنۡهُ​ ؕ مَا لَهُمۡ بِهٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ​ ۚ وَمَا قَتَلُوۡهُ يَقِيۡنًا ۢ ۙ‏ ﴿4:157﴾ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيۡهِ​ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا‏ ﴿4:158﴾ وَاِنۡ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ اِلَّا لَيُـؤۡمِنَنَّ بِهٖ قَبۡلَ مَوۡتِهٖ​ ۚ وَيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ يَكُوۡنُ عَلَيۡهِمۡ شَهِيۡدًا​ ۚ‏ ﴿4:159﴾ فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِيۡنَ هَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَيۡهِمۡ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَهُمۡ وَبِصَدِّهِمۡ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ كَثِيۡرًا ۙ‏ ﴿4:160﴾ وَّاَخۡذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدۡ نُهُوۡا عَنۡهُ وَاَكۡلِـهِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ​ ؕ وَاَعۡتَدۡنَـا لِلۡـكٰفِرِيۡنَ مِنۡهُمۡ عَذَابًا اَ لِيۡمًا‏ ﴿4:161﴾ لٰـكِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ مِنۡهُمۡ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ يُـؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ​ وَالۡمُقِيۡمِيۡنَ الصَّلٰوةَ​ وَالۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓـئِكَ سَنُؤۡتِيۡهِمۡ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿4:162﴾

153 - یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر اُن پر نازل کراؤ181تو اس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰؑ سے کر چکے ہیں۔ اس سے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو اور اسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی۔ 182پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا، حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ 183اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا۔ ہم نے موسیٰؑ کو صریح فرمان عطا کیا 154 - اور ان لوگوں پر طور کو اٹھا کر ان سے (اس فرمان کی اطاعت کا) عہد لیا۔184 ہم نے ان کو حکم دیا کہ دروازہ میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہوں۔185ہم نے ان سے کہا کہ سَبت کا قانون نہ توڑو اور اس پر اِن سے پختہ عہد لیا۔186 155 - آخر کار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جُھٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا، اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں187 ۔۔۔۔ 188حالانکہ درحقیقت ان کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں ۔۔۔۔ 156 - 189پھر اپنے کفر میں اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا،190 157 - اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسٰی ابنِ مریم، رسول اللہ کو قتل کردیا ہے 191۔۔۔۔ 192 حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا گیا۔193اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے۔194 انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا 158 - بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا،195 اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔ 159 - اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا196 اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا،197 160 - ۔۔۔۔ 198غرض ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویّہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں،199 ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں،201 161 - اور سُود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا،200 اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں، اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔202 162 - مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی۔ 203اس طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوٰة کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روز آخرت پر سچّا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے۔ ؏۲۲


Notes

181. مدینہ کے یہُودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عجیب عجیب مطالبے کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہم آپ کی رسالت اس وقت تک تسلیم نہ کریں گے جب تک کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک لکھی لکھائی کتاب آسمان سے نازل نہ ہو، یا ہم میں سے ایک ایک شخص کے نام اوپر سے اس مضمون کی تحریر نہ آجائے کہ یہ محمد ؐ ہمارے رسول ہیں، ان پر ایمان لاؤ۔

182. یہاں کسی واقعہ کی تفصیل بیان کرنا مقصُود نہیں ہے ، بلکہ یہُودیوں کے جرائم کی ایک مختصر فہرست پیش کرنی مقصُود ہے ، اُس لیے ان کی قومی تاریخ کے چند نمایاں واقعات کی طرف سرسری اشارات کیے گئے ہیں۔ اس آیت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ سُورۂ بقرہ آیت ۵۵ میں بھی گزر چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۷۱)

183. کھُلی کھُلی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے رسُول مقرر ہونے کے بعد سے لے کر فرعون کے غرق ہونے اور بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے تک پے در پے ان لوگوں کے مشاہدے میں آچکی تھیں۔ ظاہر ہے کہ سلطنتِ مصر کی عظیم الشان طاقت کے پنجوں سے جس نے بنی اسرائیل کو چھڑایاتھا وہ کوئی گائے کا بچہ نہ تھا بلکہ اللہ ربّ العالمین تھا۔ مگر یہ اس قوم کی باطل پرستی کا کمال تھا کہ خدا کی قدرت اور اس کے فضل کی روشن ترین نشانیوں کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکنے کے بعد بھی جب جُھکی تو اپنے محسن خدا کے آگے نہیں بلکہ ایک بچھڑے کی مصنوعی مورت ہی کے آگے جُھکی۔

184. صریح فرمان سے مراد وہ احکام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو تختیوں پر لکھ کر دیے گئے تھے ۔ سُورۂ اعراف ، رکوع ۱۷ میں اس کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ آئے گا۔ اور عہد سے مراد وہ میثاق ہے جو کوہِ طور کے دامن میں بنی اسرائیل کے نمائندوں سے لیا گیا تھا۔ سُورۂ بقرہ آیت ۶۳ میں اس کا ذکر گزر چکا ہے اور اعراف آیت ۱۷۱ میں پھر اس کی طرف اشارہ آئے گا۔

185. سورة بقرہ آیت ۵۹-۵۸ و حاشیہ نمبر ۷۵۔

186. سورة بقرہ آیت ۶۵- و حاشیہ نمبر ۸۲ و ۸۳۔

187. یہُودیوں کے اس قول کی طرف سُورہ بقرہ آیت ۸۸ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ در حقیقت یہ لوگ تمام باطل پرست جُہلا ء کی طرح اس بات پر فخر کرتے تھے کہ جو خیالات اور تعصّبات اور رسم و رواج ہم نے اپنے باپ دادا سے پائے ہیں ان پر ہمارا عقیدہ اتنا پُختہ ہے کہ کسی طرح ہم اُن سے نہیں ہٹائے جا سکتے۔ جب کبھی خدا کی طرف سے پیغمبروں نے آکر ان کو سمجھانے کی کوشش کی ، اِنہوں نے اُن کو یہی جواب دیا کہ تم خواہ کوئی دلیل اور کوئی آیت لے آؤ ہم تمہاری کسی بات کا اثر نہ لیں گے،جو کچھ مانتے اور کرتے چلے آئے ہیں وہی مانتے رہیں گے اور وہی کیے چلے جائیں گے۔(ملاحضہ ہو سُورہ بقرہ، حاشیہ نمبر ۹۴)۔

188. یہ جملۂ معترضہ ہے۔

189. یہ فقرہ اصل سلسلہ ٔ تقریر سے تعلق رکھتا ہے۔

190. حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کا معاملہ یہُودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پُوری قوم کو اس بات پر گواہ بنا دیا تھا کہ یہ ایک غیر معمُولی شخصیّت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جُرم کا۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہوُر و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گود میں بچہ لیے ہوئے آئی، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آگئے، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہو گیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قف اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ و َجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ ” میں اللہ کا بندہ ہوں ، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔“(سُورہ مریم رکوع ۲)۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے سنِّ شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریم ؑ پر زنا کا الزام لگایا، نہ حضرت عیسٰی کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا ۔ لیکن جب تیس برس عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوّت کے کام کی ابتدا فرمائی ، اور جب آپ نے یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی ، اُن کے عملاء و فقہا ء کو اُن کی ریاکاریوں پر ٹوکا، ان کے عوام اور خواص سب کو اُس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مُبتلا ہو گئے تھے ، اور اُس پر خطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا، تو یہ بے باک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اُتر آئے۔ اس وقت اِنہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم علیہا السلام معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابنِ مریم ولد الزّنا۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا ، بلکہ خالص بہتان تھا جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بے گناہ عورت پر الزام لگانا۔

191. یعنی جرأت ِ مُجرمانہ اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ رسُول کو رسُول جانتے تھے اور پھر اس کے قتل کا اقدام کیا اور فخر یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسُول کو قتل کیا ہے ۔ اُوپر ہم نے گہوارے کے واقعہ کا جو حوالہ دیا ہے ا س پر غور کرنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہُودیوں کے لیے مسیح علیہ السّلام کی نبوّت میں شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی ۔ پھر جو روشن نشانیاں انہوں نے حضرت موصوف سے مشاہدہ کیں ( جن کا ذکر سُورۂ آلِ عمران رکوع ۵ میں گزر چکا ہے) ان کے بعد تو یہ معاملہ بالکل ہی غیر مشتبہ ہو چکا تھا کہ آنجناب اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ اس لیے واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر نہ تھا بلکہ وہ خوب جانتے تھے کہ ہم اِس جرم کا ارتکاب اُس شخص کے ساتھ کر رہے ہیں جو اللہ کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہے۔

بظاہر یہ بات بڑی عجب معلوم ہوتی ہے کہ کوئی قوم کسی شخص کو نبی جانتے اور مانتے ہوئے اُسے قتل کر دے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی قوموں کے انداز و اطوار ہوتے ہی کچھ عجیب ہیں۔ وہ اپنے درمیان کسی ایسے شخص کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں جو اُن کی بُرائیوں پر انہیں ٹوکے اور ناجائز کاموں سے ان کو روکے۔ ایسے لوگ چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوں، ہمیشہ بد کردار قوموں میں قید اور قتل کی سزائیں پاتے ہی رہے ہیں۔ تَلمود میں لکھا ہے کہ بخت نَصّر نے جب بیت المَقْدِس فتح کیا تو وہ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوا اور اس کی سیر کرنے لگا۔ عین قربان گاہ کے سامنے ایک جگہ دیوار پر اُسے ایک تیر کا نشان نظر آیا۔ اس نے یہُودیوں سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے جواب دیا”یہاں زکریّا نبی کو ہم نے قتل کیا تھا۔ وہ ہماری بُرائیوں پر ہمیں ملامت کرتا تھا۔ آخر جب ہم اس کی ملامتوں سے تنگ آگئے تو ہم نے اُسے مار ڈالا“۔ بائیبل میں یرمیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اخلاقیاں حد سے گزر گئیں اور حضرت یرمیاہ نے اُن کے متنبہ کیا کہ اِن اعمال کی پاداش میں خدا تم کو دُوسری قوموں سے پامال کرادے گا تو ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ شخص کسدیوں(کلدانیوں) سے ملا ہوا ہے اور قوم کا غدار ہے ۔ اس الزام میں ان کو جیل بھیج دیا گیا۔ خود حضرت مسیح ؑ کے واقعہ ٔ صلیب سے دو ڈھائی سال پہلے ہی حضرت یحییٰ کا معاملہ پیش آچکا تھا۔ یہودی بالعموم ان کو نبی جانتے تھے اور کم از کم یہ تو مانتے ہی تھے کہ وہ ان کی قوم کے صالح ترین لوگوں میں سے ہیں۔ مگر جب انہوں نے ہیرو دیس(والیِ ریاست یہودیہ) کے دربار کی برائیوں پر تنقید کی تو اسے برداشت نہ کیا گیا۔ پہلے جیل بھیجے گئے ، اور پھر والیِ ریاست کی معشوقہ کے مطالبے پر ان کا سر قلم کر دیا گیا۔ یہُودیوں کے اس ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے زعم میں مسیح کو سُولی پر چڑھانے کے بعد سینے پر ہاتھ مار کر کہا ہو“ہم نے اللہ کے رسُول کو قتل کیا ہے”۔

192. یہ پھر جملۂ معترضہ ہے۔

193. یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے اُٹھا لیے گئے تھے اور یہ کہ مسیحیوں اور یہودیوں ، دونوں کا یہ خیال کہ مسیح نے صلیب پر جان دی ، محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائیبل کے بیانات کا متقابل مطالعہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غالباً پیلا طُس کی عدالت میں تو پیشی آپ ہی کی ہوئی تھی، مگر جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سُنا چکا، اور جب یہودیوں نے مسیح جیسے پاک نفس انسان کے مقابلہ میں ایک ڈاکو کی جان کو زیادہ قیمتی ٹھیرا کر اپنی حق دشمنی و باطل پسندی پر آخری مُہر بھی لگا دی ، تب اللہ تعالیٰ نے کسی وقت آنجناب کو اُٹھالیا۔ بعدمیں یہودیوں نے جس شخص کو صلیب پر چڑھایا وہ آپ کی ذاتِ مقدس نہ تھی بلکہ کوئی اور شخص تھا جس کو نہ معلوم کس وجہ سے ان لوگوں نے عیسیٰ ابنِ مریم سمجھ لیا۔ تاہم ان کا جُرم اس سے کم نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس کو انہوں نے کانٹوں کا تاج پہنایا ، جس کے مُنہ پر تھوکا اور جسے ذِلّت کے ساتھ صلیب چڑھایا اس کو وہ عیسیٰ بن مریم ہی سمجھ رہے تھے۔ اب یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ معاملہ کس طرح ان کے لیے مشتبہ ہو گیا۔ چونکہ اس باب میں کوئی یقینی ذریعۂ معلومات نہیں ہے اس لیے مجرّد قیاس و گمان اور افواہوں کی بُنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس شبہ کی نوعیّت کیا تھی جس کی بنا پر یہُودی یہ سمجھے کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو صلیب دی ہے درآں حالے کہ عیسیٰ ابن مریم ان کے ہاتھ سے نِکل چکے تھے۔

194. اختلاف کرنے والوں سے مراد عیسائی ہیں۔ اُن میں مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے پرکوئی ایک متفق علیہ قول نہیں ہے بلکہ بیسیوں اقوال ہیں جن کی کثرت خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل حقیقت ان کے لیے بھی مشتبہ ہی رہی۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر جو شخص چڑھایا گیا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا جسے یہودی اور رومی سپاہی ذِلّت کے ساتھ صلیب دے رہے تھے اور مسیح وہیں کسی جگہ کھڑا ان کی حماقت پر ہنس رہا تھا ۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر چڑھایا تو مسیح ہی کو گیا تھا مگر اُن کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی بلکہ اُتارے جانے کے بعد ان میں جان تھی ۔ کوئی کہتا ہے کہ انہوں نے صلیب پر وفات پائی اور پھر وہ جی اُٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب کی موت مسیح کے جسمِ انسانی پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر اُلُوہیّت کی رُوح جو اس میں تھی وہ اُٹھالی گئی۔ اور کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد مسیح علیہ السّلام جسم سمیت زندہ ہوئے اور جسم سمیت اُٹھائے گئے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان لوگوں کے پاس حقیقت کا عِلم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہوتیں۔

195. یہ اس معاملہ کی اصل حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح کو قتل کرنے میں یہودی کامیاب نہیں ہوئے ، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اُٹھالیا۔ اب رہا یہ سوال کہ اُٹھا لینے کی کیفیت کیا تھی ، تو اس کے متعلق کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی۔ قرآن نہ اِس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ اُن کو جسم و رُوح کے ساتھ کرۂ زمین سے اُٹھا کر آسمانوں پر کہیں لے گیا ، اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی رُوح اُٹھائی گئی۔ اس لیے قرآن کی بُنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ اثبات ۔ لیکن قرآن کے اندازِ بیان پر غور کرنے سے یہ بات بالکل نمایاں طور پر محسُوس ہوتی ہے کہ اُٹھا ئے جانے کی نوعیت و کیفیت خواہ کچھ بھی ہو، بہر حال مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ نے کوئی ایسا معاملہ ضرور کیا ہے جو غیر معمُولی نوعیّت کا ہے۔ اس غیر معمُولی پن کا اظہار تین چیزوں سے ہوتا ہے:

ایک یہ کہ عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کے جسم و رُوح سمیت اُٹھائے جانے کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور اُن اسباب میں سے تھا جن کی بنا پر ایک بہت بڑا گروہ اُلوہیّتِ مسیح کا قائل ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود قرآن نے نہ صرف یہ کہ اس کی صاف صاف تردید نہیں کی بلکہ بعینہٖ وہی”رفع“(Ascension) کا لفظ استعمال کیا جو عیسائی اِس واقعہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتابِ مبین کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ کسی خیال کی تردید کرنا چاہتی ہو اور پھر ایسی زبان استعمال کرے جو اس خیال کو مزید تقویت پہنچانے والی ہو۔

دوسرے یہ کہ اگر مسیح علیہ السّلام کا اُٹھایا جانا ویسا ہی اُٹھایا جانا ہوتا جیسا کہ ہر مرنے والا دنیا سے اُٹھا یا جاتا ہے ، یا اگر اس رفع سے مراد محض درجات و مراتب کی بلندی ہوتی جیسے حضرت ادریس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ رَفَعْنَا ہُ مَکَاناً عَلِیًّا ، تو اس مضمون کو بیان کرنے کا انداز یہ نہ ہوتا جو ہم یہاں دیکھ رہے ہیں ۔ اس کو بیان کرنے کے لیے زیادہ مناسب الفاظ یہ ہو سکتے تھے کہ ”یقیناً انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو زندہ بچا لیا اور پھر طبعی موت دی۔ یہودیوں نے اس کو ذلیل کر نا چاہا تھا مگر اللہ نے اس کو بلند درجہ عطا کیا“۔

تیسرے یہ کہ اگر یہ رفع ویسا ہی معمُولی قسم کا رفع ہوتا جیسے ہم محاورہ میں کسی مرنے والے کو کہتے ہیں کہ اُسے اللہ نے اُٹھا لیا تو اس کا ذکر کرنے کے بعد یہ فقرہ بالکل غیر موزوں تھا کہ ” اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے“۔ یہ تو صر ف کسی ایسے واقعہ کے بعد ہی موزوں و مناسب ہو سکتا ہے جس میں اللہ کی قوت ِ قاہرہ اور اس کی حکمت کا غیر معمُولی ظہُور ہوا ہو۔

اس کے جواب میں قرآن سے اگر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ سُورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے مُتَوَفِّیْکَ کا لفظ استعمال کیا ہے۔(آیت ۵۵)۔ لیکن جیسا کہ وہاں ہم حاشیہ نمبر ۵۱ میں واضح کر چکے ہیں ، یہ لفظ طبعی موت کے معنی میں صریح نہیں ہے بلکہ قبضِ رُوح ، اور قبضِ رُوح و جسم ، دونوں پر دلالت کر سکتا ہے۔ لہٰذا یہ اُن قرائن کو ساقط کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے جو ہم نے اُوپر بیان کیے ہیں۔ بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پر اصرار ہے ، سوال کرتے ہیں کہ تَوَفی کا لفظ قبضِ رُوح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی ہے؟ لیکن جب کہ قبضِ رُوح و جسم کا واقعہ تمام نوعِ انسانی کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کے استعمال کی نظیر پُوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے۔ دیکھنا یہی چاہیے کہ آیا اصل لغت میں اس استعمال کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو ماننا پڑے گا کہ قرآن نے رفع جسمانی کے عقیدہ کی صاف تردید کرنے کے بجائے یہ لفظ استعمال کر کے اُن قرائن میں ایک اَور قرینہ کا اضافہ کر دیا ہے جن سے اس عقیدہ کو اُلٹی مدد ملتی ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ موت کے صریح لفظ کو چھوڑ کر وفات کے محتمل المعنیین لفظ کو ایسے موقع پر استعمال کرتا جہاں رفع جسمانی کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور ایک فاسد اعتقاد ، یعنی اُلوہیّت ِ مسیح کے اعتقاد کا موجب بن رہا تھا۔ پھر رفع جسمانی کے اس عقیدے کو مزید تقویت اُن کثیر التعداد احادیث سے پہنچتی ہے جو قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السّلام کے دوبارہ دنیا میں آنے اور دجّال سے جنگ کرنے کی تصریح کرتی ہیں( تفسیر سُورۂ احزاب کے ضمیمہ میں ہم نے ان احادیث کو نقل کر دیا ہے)۔ اُن سے حضرت عیسیٰ کی آمدِ ثانی تو قطعی طور پر ثابت ہے۔ اب یہ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ ان کا مرنے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنا زیادہ قرینِ قیاس ہے ، یا زندہ کہیں خدا کی کائنات میں موجود ہونا اور پھر واپس آنا؟

196. اِس فقرے کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ میں دونوں کا یکساں احتمال ہے۔ ایک معنی وہ جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔ دُوسرے یہ کہ”اہلِ کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہ لے آئے“۔ اہلِ کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ عیسائی بھی ہوں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ مسیح کی طبعی موت جب واقع ہوگی اس وقت جتنے اہلِ کتاب موجود ہوں گے وہ سب ان پر(یعنی ان کی رسالت پر ) ایمان لاچکے ہوں گے۔ دُوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ تمام اہلِ کتاب پر مرنے سے عین قبل رسالتِ مسیح کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور وہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں، مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ ایمان لانا مفید نہیں ہو سکتا۔ دونوں معنی متعدّد صحابہ ، تابعین اور اکابر مفسّرین سے منقول ہیں اور صحیح مراد صرف اللہ ہی کے علم میں ہے۔

197. یعنی یہُودیوں اور عیسائیوں نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ اور اُس پیغام کے ساتھ، جو آپ لائے تھے ، جو معاملہ کیا ہے اس پر آپ خداوند تعالیٰ کی عدالت میں گواہی دیں گے۔ اس گواہی کی کچھ تفصیل آگے سُورۂ مائدہ کے آخری رکوع میں آنے والی ہے۔

198. جملۂ معترضہ ختم ہونے کے بعد یہاں سے پھر وہی سلسلۂ تقریر شروع ہوتا ہے جو اُوپر سے چلا آرہا تھا۔

199. یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ خود اللہ کے راستے سے منحرف ہیں، بلکہ اس قدر بے باک مجرم بن چکے ہیں کہ دُنیا میں خدا کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے جو تحریک بھی اُٹھتی ہے ، اکثر اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کام کرتا نظر آتا ہے ، اور راہِ حق کی طرف بُلانے کے لیے جو تحریک بھی شروع ہوتی ہے اکثر اس کے مقابلہ میں یہودی ہی سب سے بڑھ کر مزاحم بنتے ہیں، درآں حالے کہ یہ کم بخت کتاب اللہ کے حامل اور انبیاء کے وارث ہیں۔ ان کا تازہ ترین جرم یہ اشتراکی تحریک ہے جسے یہودی دماغ نے اختراع کیااور یہودی رہنمائی ہی نے پروان چڑھایا ہے۔ اِن نام نہاد اہلِ کتاب کے نصیب میں یہ جرم بھی مقدر تھا کہ دُنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جو نظامِ زندگی اور نظامِ حکومت خدا کے صریح انکار پر ، خدا سے کھُلم کھُلا دشمنی پر ، خدا پرستی کو مٹا دینے کے علی الاعلان عزم و ارادہ پر تعمیر کیا گیا اس کے مُوجد و مخترع اور بانی و سربراہ کا ر موسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا ہوں۔ اشتراکیت کے بعد زمانہ ٔ جدید میں گمراہی کا دُوسرا بڑا ستون فرائڈ کا فلسفہ ہے اور لُطف یہ ہے کہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے۔

200. توراۃ میں بالفاظ ِصریح یہ حکم موجود ہے کہ:

”اگر تُو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو، قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سُود لینا۔ اگر تُو کسی وقت اپنے ہمسایہ کے کپڑے گروی رکھ بھی لے تو سُورج کے ڈوبنے تک اس کو واپس کر دینا کیونکہ فقط وہی ایک اُس کا اوڑھنا ہے، اس کے جسم کا وہی لباس ہے، پھر وہ کیا اوڑھ کر سوئے گا۔ پس جب وہ فریاد کرے گا تو میں اُس کی سنوں گا کیونکہ میں مہربان ہوں“۔( خروج باب ۲۲:۲۷-۲۵)

اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر توراۃ میں سُود کی حُرمت وار د ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسی تورات کے ماننے والے یہودی آج دُنیا کے سب سے بڑے سُود خوار ہیں اور اپنی تنگ دلی و سنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں۔

200. توراۃ میں بالفاظ ِصریح یہ حکم موجود ہے کہ:

”اگر تُو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو، قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سُود لینا۔ اگر تُو کسی وقت اپنے ہمسایہ کے کپڑے گروی رکھ بھی لے تو سُورج کے ڈوبنے تک اس کو واپس کر دینا کیونکہ فقط وہی ایک اُس کا اوڑھنا ہے، اس کے جسم کا وہی لباس ہے، پھر وہ کیا اوڑھ کر سوئے گا۔ پس جب وہ فریاد کرے گا تو میں اُس کی سنوں گا کیونکہ میں مہربان ہوں“۔( خروج باب ۲۲:۲۷-۲۵)

اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر توراۃ میں سُود کی حُرمت وار د ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسی تورات کے ماننے والے یہودی آج دُنیا کے سب سے بڑے سُود خوار ہیں اور اپنی تنگ دلی و سنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں۔

201. غالباً یہ اُسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جو آگے سُورۂ انعام آیت ۱۴۶ میں آنے والی ہے۔ یعنی یہ کہ بنی اسرائیل پر تمام وہ جانور حرام کر دیے گئے جن کے ناخن ہوتے ہیں ، اور ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کر دی گئی۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ اشارہ اُن دُوسری پابندیوں اور سختیوں کی طرف بھی ہو جو یہودی فقہ میں پائی جاتی ہیں۔ کسی گروہ کے لیے دائرہ ٔ زندگی کا تنگ کر دیا جانا فی الواقع اس کے حق میں ایک طرح کی سزا ہی ہے۔( مفصّل بحث کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ انعام حاشیہ نمبر ۱۲۲)

203. یعنی ان میں سے جو لوگ کتبِ آسمانی کی حقیقی تعلیم سے واقف ہیں اور ہر قسم کے تعصّب ، جاہلانہ ضد، آبائی تقلید اور نفس کی بندگی سے آزاد ہو کر اُس امرِ حق کو سچے دل سے مانتے ہیں جس کا ثبوت آسمانی کتابوں سے مِلتا ہے ، ان کی روش کا فر وظالم یہودیوں کی عام روش سے بالکل مختلف ہے۔ ان کو بیک نطر محسُوس ہو جاتا ہے کہ جس دین کی تعلیم پچھلے انبیاء نے دی تھی اسی کی تعلیم قرآن دے رہا ہے ، اس لیے وہ بے لاگ حق پرستی کے ساتھ دونوں پر ایمان لے آتے ہیں۔