Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 163-171

اِنَّاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ كَمَاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى نُوۡحٍ وَّالنَّبِيّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ​ ۚ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰٓى اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَعِيۡسٰى وَاَيُّوۡبَ وَيُوۡنُسَ وَهٰرُوۡنَ وَسُلَيۡمٰنَ​ ۚ وَاٰتَيۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا​ ۚ‏ ﴿4:163﴾ وَرُسُلًا قَدۡ قَصَصۡنٰهُمۡ عَلَيۡكَ مِنۡ قَبۡلُ وَرُسُلًا لَّمۡ نَقۡصُصۡهُمۡ عَلَيۡكَ​ ؕ وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوۡسٰى تَكۡلِيۡمًا ​ۚ‏ ﴿4:164﴾ رُسُلًا مُّبَشِّرِيۡنَ وَمُنۡذِرِيۡنَ لِئَلَّا يَكُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ ۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ​ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا‏ ﴿4:165﴾ لٰـكِنِ اللّٰهُ يَشۡهَدُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اِلَيۡكَ​ اَنۡزَلَهٗ بِعِلۡمِهٖ​ ۚ وَالۡمَلٰٓـئِكَةُ يَشۡهَدُوۡنَ​ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًا ؕ‏ ﴿4:166﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ قَدۡ ضَلُّوۡا ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا‏ ﴿4:167﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَظَلَمُوۡا لَمۡ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَـغۡفِرَ لَهُمۡ وَلَا لِيَـهۡدِيَهُمۡ طَرِيۡقًا ۙ‏ ﴿4:168﴾ اِلَّا طَرِيۡقَ جَهَـنَّمَ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا​ ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا‏ ﴿4:169﴾ يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَكُمُ الرَّسُوۡلُ بِالۡحَـقِّ مِنۡ رَّبِّكُمۡ فَاٰمِنُوۡا خَيۡرًا لَّـكُمۡ​ ؕ وَاِنۡ تَكۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا‏ ﴿4:170﴾ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡوَلَا تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ​ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِيۡحُ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ رَسُوۡلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ​ ۚ اَ لۡقٰٮهَاۤ اِلٰى مَرۡيَمَ وَرُوۡحٌ مِّنۡهُ​ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ​ ​ۚ وَلَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَةٌ​ ؕ اِنْتَهُوۡا خَيۡرًا لَّـكُمۡ​ ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ​ ؕ سُبۡحٰنَهٗۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗ وَلَدٌ​ ۘ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ​ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا‏ ﴿4:171﴾

163 - اے محمد ؐ! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح ؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔204 ہم نے ابراہیم ؑ ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ، عیسٰی ؑ ، ایوب ؑ ، یونس ؑ ، ہارون ؑ اور سلیمان ؑ کی طرف وحی بھیجی۔ ہم نے داؤد ؑ کو زبور دی ۔205 164 - ہم نے ان رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کرچکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا۔ ہم نے موسیٰؑ سے اس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے۔206 165 - یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے207 تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجّت نہ رہے208 اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ 166 - (لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے، اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے۔ 167 - جو لوگ اس کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں وہ یقیناً گمراہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ 168 - اس طرح جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم و ستم پر اُتر آئے اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا اور انہیں کوئی راستہ نہ دکھائے گا 169 - بجز جہنم کے راستہ کے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ 170 - لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے، ایمان لے آؤ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے ، اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے209اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔210 171 - اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو211 اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسُوب نہ کرو۔ مسیح عیسٰی ؑ ابنِ مریم ؑ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا212 جو اللہ نے مریم ؑ کی طرف بھیجا اور ایک رُوح تھی اللہ کی طرف سے213 (جس نے مریم کے رِحم میں بچّہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اُس کے رسُولوں پر ایمان لاوٴ214 اور نہ کہو کہ ”تین“ ہیں۔215 باز آجاوٴ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔ وہ بالا تر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔216 زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں،217 اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے۔218 ؏۲۳


Notes

204. اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی انوکھی چیز لے کر نہیں آئے ہیں جو پہلے نہ آئی ہو۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں دنیا میں پہلی مرتبہ ایک نئی چیز پیش کر رہا ہوں۔ بلکہ دراصل اُن کو بھی اسی ایک منبعِ علم سے ہدایت ملی ہے جس سے تمام پچھلے انبیاء کو ہدایت ملتی رہی ہے ، اور وہ بھی اُسی ایک صداقت و حقیقت کو پیش کر رہے ہیں جسے دنیا کے مختلف گوشوں میں پیدا ہونے والے پیغمبر ہمیشہ سے پیش کرتے چلے آئے ہیں۔

وحی کے معنی ہیں اشارہ کرنا، دل میں کوئی بات ڈالنا، خفیہ طریقے سے کوئی بات کہنا، پیغام بھیجنا۔

205. موجودہ بائیبل میں زَبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبورِ داؤد نہیں ہے۔ اس میں بکثرت مزامیر دُوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنّفین کی طرف منسُوب ہیں۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت داؤد کے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلامِ حق کی روشنی محسُوس ہوتی ہے۔ اِسی طرح بائیبل میں امثالِ سلیمان ؑ کے نام سے جو کتاب موجود ہے اس میں بھی اچھی خاصی آمیزش پائی جاتی ہے اور اس کے آخری دوباب تو صریحاً الحاقی ہیں، مگر اس کے باوجود ان امثال کا بڑا حصّہ صحیح و برحق معلوم ہوتا ہے ۔ ان دو کتابوں کے ساتھ ایک اور کتاب حضرت ایّوب ؑ کے نام سے بھی بائیبل میں درج ہے ، لیکن حکمت کے بہت سے جواہر اپنے اندر رکھنے کے باوجود، اسے پڑھتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ واقعی حضرت ایّوب ؑ کی طرف اس کتاب کی نسبت صحیح ہے۔۔ اس لیے قرآن میں اور خود اس کتاب کی ابتدا میں حضرت ایّوب ؑ کے جس صبرِ عظیم کی تعرف کی گئی ہے ، اس کے بالکل برعکس وہ ساری کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت ایّوب ؑ اپنی مصیبت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے خلاف سراپا شکایت بنے ہوئے تھے، حتٰی کہ ان کے ہمنشین انہیں اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ خدا ظالم نہیں ہے، مگر وہ کسی طرح مان کر نہ دیتے تھے۔

ان صحیفوں کے علاوہ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے ۱۷ صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصّہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ خصُوصاً یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، عاموس اور بعض دُوسرے صحیفوں میں تو بکثرت مقامات ایسے آتے ہیں جنہیں پڑھ کر آدمی کی رُوح وجد کرنے لگتی ہے۔ ان میں الہامی کلام کی شان صریح طور پر محسُوس ہوتی ہے۔ ان کی اخلاقی تعلیم، ان کا شرک کے خلاف جہاد، ان کا توحید کے حق میں پر زور استدلال ، اور ان کی بنی اسرائیل کے اخلاقی زوال پر سخت تنقیدیں پڑھتے وقت آدمی یہ محسُوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اناجیل میں حضرت مسیح کی تقریریں اور قرآن مجید اور یہ صحیفے ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی سوتیں ہیں۔

206. دُوسرے انبیاء علیہم السّلام پر تو وحی اس طرح آتی تھی کہ ایک آواز آرہی ہے یا فرشتہ پیغام سنا رہا ہے اور وہ سُن رہے ہیں۔ لیکن موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھ یہ خاص معاملہ برتا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان سے گفتگو کی۔ بندے اور خدا کے درمیان اس طرح باتیں ہوتی تھیں جیسے دو شخص آپس میں بات کرتے ہیں۔ مثال کے لیے اُس گفتگو کا حوالہ کافی ہے جو سورۂ طٰہٰ میں نقل کی گئی ہے ۔ بائیبل میں بھی حضرت موسیٰ کی اِس خصُوصیّت کا ذکر اِسی طرح کیا گیا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ” جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند رُو برو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا“۔ (خرُوج ۳۳:۱۱)

207. یعنی ان سب کا ایک ہی کام تھا اور وہ یہ کہ جو لوگ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیم پر ایمان لائیں اور اپنے رویّہ کو اس کے مطابق درست کر لیں انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری سُنا دیں، اور جو فکر و عمل کی غلط راہوں پر چلتے رہیں ان کو اِس غلط روی کے بُرے انجام سے آگاہ کر دیں۔

208. یعنی ان تمام پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک ہی غرض تھی اور وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نوعِ انسانی پر اتمامِ حجّت کرنا چاہتا تھا ، تاکہ آخری عدالت کے موقع پر کوئی گمراہ مجرم اُس کے سامنے یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم ناواقف تھے اور آپ نے ہمیں حقیقتِ حال سے آگاہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ اسی غرض کے لیے خدا نے دنیا کے مختلف گوشوں میں پیغمبر بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ ان پیغمبروں نے کثیر التعداد انسانوں تک حقیقت کا علم پہنچا دیا اور اپنے پیچھے کتابیں چھوڑ گئے جن میں سے کوئی نہ کوئی کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر زمانہ میں موجود رہی ہے۔ اب اگر کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس کا الزام خدا پر اور اس کے پیغمبروں پر عائد نہیں ہوتا بلکہ یا تو خود اس شخص پر عائد ہوتا ہے کہ اس تک پیغام پہنچا اور اس نے قبول نہیں کیا، یا ان لوگوں پر عائد ہوتا ہے جن کو راہِ راست معلو م تھی اور انہوں نے خدا کے بندوں کو گمراہی میں مُبتلا دیکھا تو انہیں آگاہ نہ کیا۔

209. یعنی زمین و آسمان کے مالک کی نافرمانی کر کے تم اس کا کوئی نقصان نہیں کر سکتے ، نقصان جو کچھ ہوگا تمہارا اپنا ہوگا۔

210. یعنی تمہارا خدا نہ تو بے خبر ہے کہ اس کی سلطنت میں رہتے ہوئے تم شرارتیں کرو اور اسے معلوم نہ ہو، اور نہ وہ نادان ہے کہ اسے اپنے فرامین کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے کا طریقہ نہ آتا ہو۔

211. یہاں اہلِ کتاب سے مراد عیسائی ہیں اور غلو کے معنی ہیں کسی چیز کی تائید و حمایت میں حد سے گزر جانا۔ یہودیوں کا جرم یہ تھا کہ مسیح کے انکار اور مخالفت میں حد سے گزر گئے، اور عیسائیوں کا جرم یہ ہے کہ وہ مسیح کی عقیدت اور محبّت میں حد سے گزر گئے۔

212. اصل میں لفظ”کلمہ“ استعمال ہوا ہے۔ مریم کی طرف کلمہ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت مریم علیہا السّلام کے رحم پر یہ فرمان نازل کیا کہ کسی مرد کے نطفہ سے سیراب ہوئے بغیر حمل کا استقرار قبول کر لے۔ عیسائیوں کو ابتداءً مسیح علیہ السّلام کی پیدائش بے پدر کا یہی راز بتایا گیا تھا۔ مگر انہوں نے یُونانی فلسفہ سے گمراہ ہو کر پہلے لفظ کلمہ کو ”کلام“ یا ”نطق“ (LOCOS) کا ہم معنی سمجھ لیا۔ پھر اس کلام و نطق سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفتِ کلام مراد لے لی۔ پھر یہ قیاس قائم کیا کہ اللہ کی اس ذاتی صفت نے مریم علیہا السّلام کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صُورت اختیار کی جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اس طرح عیسائیوں میں مسیح علیہ السّلام کی الوہیّت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا اور اس غلط تصوّر نے جڑ پکڑ لی کہ خدا نے خود اپنے آپ کو یا اپنی ازلی صفات میں سے نطق و کلام کی صفت کو مسیح کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔

213. یہاں خود مسیح کو رُوْحٌ مِّنْہُ ( خدا کی طرف سے ایک رُوح) کہا گیا ہے، اور سُورۂ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ( ہم نے پاک رُوح سے مسیح کی مدد کی)۔ دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مسیح علیہ السّلام کو وہ پاکیزہ رُوح عطا کی تھی جو بدی سے نا آشنا تھی۔ سراسر حقانیت اور راست بازی تھی، اور از سر تا پا فضیلتِ اخلاق تھی۔ یہی تعریف آنجناب کی عیسائیوں کو بتائی گئی تھی۔ مگر انہوں نے اس میں غلو کیا، رُوْحٌ مِّنَ اللہِ کو عین رُوح اللہ قرار دے لیا، اور رُوح القدس(Holy Ghost) کا مطلب یہ لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی رُوح مقدس تھی جو مسیح کے اندر حلول کر گئی تھی۔ اس طرح اللہ اور مسیح کے ساتھ ایک تیسرا خدا رُوح القدس کو بنا ڈالا گیا۔ یہ عیسائیوں کا دُوسرا زبر دست غلو تھا جس کی وجہ سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ لُطف یہ ہے کہ آج بھی انجیل متی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ “فرشتے نے اسے (یعنی یوسف نجار کو) خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد، اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ رُوح القدس کی قدرت سے ہے”۔

214. یعنی اللہ کو واحد الٰہ مانو اور تمام رسولوں کی رسالت تسلیم کرو جن میں سے ایک رسول مسیح بھی ہیں۔ یہی مسیح علیہ السلام کی اصلی تعلیم تھی اور یہی امرِ حق ہے جسے ایک سچے پیروِ مسیح کو ماننا چاہیے۔

215. یعنی تین الہٰوں کے عقیدے کو چھوڑ دو خواہ وہ کسی شکل میں تمہارے اندر پایا جاتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائی بیک وقت توحید کو بھی مانتے ہیں اور تثلیث کو بھی۔ مسیح علیہ السلام کے صریح اقوال جو اناجیل میں ملتے ہیں ان کی بنا پر کوئی عیسائی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا بس ایک ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ توحید اصل دین ہے ۔ مگر وہ جو ایک غلط فہمی ابتداء میں ان کو پیش آگئی تھی کہ کلام اللہ نے مسیح کی شکل میں ظہُور کیا اور رُوح اللہ نے اس میں حلول کیا ، اس کی وجہ سے انہوں نے مسیح اور رُوح القدس کی الوہیّت کو بھی خداوندِ عالم کی اُلوہیّت کے ساتھ ماننا خواہ مخواہ اپنے اُوپر لازم کر لیا۔ اس زبر دستی کے التزام سے ان کے لیے یہ مسئلہ ایک ناقابلِ حل چیستان بن گیا کہ عقیدہ ٔ توحید کے باوجود عقیدۂ تثلیث کو، اور عقیدۂ تثلیث کے باوجود عقیدۂ توحید کو کس طرح نباہیں۔ تقریباً ۱۸ سو برس سے مسیحی علماء اِسی خود پیدا کردہ مشکل کو حل کرنے میں سر کھپا رہےہیں۔ بیسیوں فرقے اسی کی مختلف تعبیرات پر بنے ہیں۔ اِسی پر ایک گروہ نے دوسرے کی تکفیر کی ہے۔ اسی کے جھگڑوں میں کلیسا پر کلیسا الگ ہوتے چلے گئے۔ اسی پر ان کے سارے علمِ کلام کا زور صرف ہوا ہے۔ حالانکہ یہ مشکل نہ خدا نے پیدا کی تھی ، نہ اس کے بھیجے ہوئے مسیح نے، اور نہ اس مشکل کا کوئی حل ممکن ہے کہ خدا تین بھی مانے جائیں اور پھر وحدانیت بھی برقرار رہے۔ اس مشکل کو صرف ان کے غلو نے پیدا کیا ہے اور اس کا بس یہی ایک حل ہے کہ وہ غلو سے باز آجائیں ، مسیح اور رُوح القدس کی اُلوہیّت کا تخیل چھوڑ دیں، صرف اللہ کو الٰہِ واحد تسلیم کر لیں، اور مسیح کو صرف اس کا پیغمبر قرار دیں نہ کہ کسی طور پر شریک فی الالُوہیّت۔

216. یہ عیسائیوں کے چوتھے غلو کی تردید ہے ۔ بائیبل کے عہدِ جدید کی روایات اگر صحیح بھی ہوں تو ان سے (خصُوصاً پہلی تین انجیلوں سے) زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا اور بندوں کے تعلق کو باپ اور اولاد کے تعلق سے تشبیہ دی تھی اور ”باپ“ کا لفظ خدا کے لیے وہ محض مجاز اور استعارہ کے طورپر استعمال کرتے تھے۔ یہ تنہا مسیح ہی کی کوئی خصُوصیّت نہیں ہے۔ قدیم ترین زمانہ سے بنی اسرائیل خدا کے لیے باپ کا لفظ بولتے چلے آرہے تھے اور اس کی بکثرت مثالیں بائیبل کے پُرانے عہد نامہ میں موجود ہیں۔ مسیح نے یہ لفظ اپنی قوم کے محاورے کے مطابق ہی استعمال کیا تھا اور وہ خدا کو صرف اپنا باپ ہی نہیں بلکہ سب انسانوں کا باپ کہتے تھے ۔ لیکن عیسائیوں نے یہاں پھر غلو سے کام لیا اور مسیح کو خدا کا اکلوتا بیٹا قرار دیا۔ ان کا عجیب و غریب نظریّہ اس باب میں یہ ہے کہ چونکہ مسیح خدا کا مظہر ہے، اور اس کے کلمے اور اس کی رُوح کا جسدی ظہُور ہے، اس لیے وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے، اور خدا نے اپنے اکلوتے کو زمین پر اس لیے بھیجا کہ انسانوں کے گناہ اپنے سر لے کر صلیب پر چڑھ جائے اور اپنے خون سے انسان کے گناہ کا کفارہ اداکرے۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت خود مسیح علیہ السلام کے کسی قول سے وہ نہیں دے سکتے۔ یہ عقیدہ ان کے اپنے تخیلات کا آفریدہ ہے اور اُس غلو کا نتیجہ ہے جس میں وہ اپنے پیغمبر کی عظیم الشان شخصیّت سے متأثر ہو کر مبتلا ہوگئے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں کفارہ کے عقیدے کی تردید نہیں کی ہے، کیونکہ عیسائیوں کے ہاں یہ کوئی مستقل عقیدہ نہیں ہے بلکہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینے کا شاخسانہ اور اس سوال کی ایک صوفیانہ و فلسفیانہ توجیہ ہے کہ جب مسیح خدا کا اکلوتا تھا تو وہ صلیب پر چڑھ کر لعنت کی موت کیوں مرا۔ لہٰذا اس عقیدے کی تردید آپ سے آپ ہو جاتی ہے کہ اگر مسیح کے ابن اللہ ہونے کی تردید کر دی جائے اور اس غلط فہمی کو دُور کر دیا جائے کہ مسیح علیہ السّلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے۔

217. یعنی زمین و آسمان کی موجودات میں سے کسی کے ساتھ بھی خدا کا تعلق باپ اور بیٹے کا نہیں ہے بلکہ محض مالک اور مملوک کا تعلق ہے۔

218. یعنی خدا اپنی خدائی کا انتظام کرنے کے لیے خود کافی ہے ، اس کو کسی سے مدد لینے کی حاجت نہیں کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔