219. یہ آیت اِس سُورہ کے نزول سے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی سب سے آخری آیت ہے۔ یہ بیان اگر صحیح نہ بھی ہو تب بھی کم از کم اتنا تو ثابت ہے کہ یہ آیت سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی۔ اور سُورہ نساء اس سے بہت پہلے ایک مکمل سُورہ کی حیثیت سے پڑھی جا رہی تھی۔ اسی وجہ سے اس آیت کو اُن آیات کے سلسلہ میں شامل نہیں کیا گیا جو احکام میراث کے متعقل سُورہ کے آغاز میں ارشاد ہوئی ہیں، بلکہ اسے ضمیمہ کے طور پر آخر میں لگا دیا گیا۔
220. کَلَالہ کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بعض کی رائے میں کَلَالہ وہ شخص ہے جو لا ولد بھی ہو اور جس کے باپ اور دادا بھی زندہ نہ ہوں۔ اور بعض کے نزدیک محض لا ولد مرنے والے کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آخر وقت تک اس معاملہ میں متردّ د رہے ۔ لیکن عامۂ فقہاء نے حضرت ابوبکر ؓ کی اس رائے کو تسلیم کر لیا ہے کہ اس کا اطلاق پہلی صورت پر ہی ہوتا ہے۔ اور خود قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، کیونکہ یہاں کلالہ کی بہن کو نصف ترکہ کا وارث قرار دیا گیا ہے، حالانکہ اگر کلالہ کا باپ زندہ ہو تو بہن کو سرے سے کوئی حصّہ پہنچتا ہی نہیں۔
221. یہاں اُن بھائی بہنوں کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے جو میّت کے ساتھ ماں اور باپ دونوں میں، یا صرف باپ میں مشترک ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک خطبہ میں اس معنی کی تصریح کی تھی اور صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہ کیا، اس بنا پر یہ مُجْمَع علیہ مسئلہ ہے۔
222. یعنی بھائی اس کے پُورے مال کا وارث ہو گا اگر کوئی اور صاحبِ فریضہ نہ ہو۔ اور اگر کوئی صاحبِ فریضہ موجود ہو، مثلاً شوہر، تو اس کا حصہ ادا کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ بھائی کو ملے گا۔
223. یہی حکم دو سے زائد بہنوں کا بھی ہے۔