34. ماں کااطلاق سگی اور سوتیلی ، دونوں قسم کی ما ؤ ں پر ہوتا ہے اس لیے دونوں حرام ہیں۔ نیز اسی حکم میں باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی شامل ہے۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے باپ کا ناجائز تعلق ہو چکا ہو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے یا نہیں۔ سلف میں سے بعض اس کی حُرمت کے قائل نہیں ہیں ، اور بعض اسے بھی حرام قرار دیتے ہیں ، بلکہ ان کے نزدیک جس عورت کو باپ نے شہوت سے ہاتھ لگایا ہو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے۔ اسی طرح سلف میں اس امر پر بھی اختلاف رہا ہے کہ جس عورت سے بیٹے کا ناجائز تعلق ہو چکا ہو ، وہ باپ پر حرام ہے یا نہیں۔ اور جس مرد سے ماں یا بیٹی کا ناجائز تعلق رہا ہو یا بعد میں ہو جائے اس سے نکاح ماں اور بیٹی دونوں کے لیے حرام ہے یا نہیں۔ اس باب میں فقیہانہ بحثیں بہت طویل ہیں، مگر یہ بات بادنیٰ تامّل سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی شخص کے نکاح میں ایسی عورت کا ہونا جس پر اس کا باپ یا اس کا بیٹا بھی نظر رکھتا ہو ، یا جس کی ماں یا بیٹی پر بھی اس کی نگاہ ہو، ایک صالح معاشرت کے لیے کسی طرح مناسب نہیں ہو سکتا ۔ شریعتِ الہٰی کا مزاج اس معاملہ میں اُن قانونی موشگافیوں کو قبول نہیں کرتا جن کی بنا پر نکاح اور غیر نکاح اور قبل نکاح اور بعد نکاح اور لمس اور نظر وغیرہ میں فرق کیا جاتا ہے۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ خاندانی زندگی میں ایک ہی عورت کے ساتھ باپ اور بیٹے کے، یا ایک ہی مرد کے ساتھ ماں اور بیٹی کے شہوانی جذبات کا وابستہ ہونا سخت مفاسد کا موجب ہے اور شریعت اسے ہرگز برداشت نہیں کر سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ من نظر الیٰ فرج امراٴة حرمت علیہ امّھاو ابنتھا۔”جس شخص نے کسی عورت کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالی ہو اُس کی ماں اور بیٹی دونوں اُس پر حرام ہیں۔“ اور لا ینظر اللہ الیٰ رجل نظر الیٰ فرج امراٴة و ابنتھا، ” خدا اس شخص کی صُورت دیکھنا پسند نہیں کرتا جو بیک وقت ماں اور بیٹی دونوں کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالے۔“ ان روایات سے شریعت کا منشاء صاف واضح ہوجاتا ہے۔
35. بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی شامل ہیں۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں جو لڑکی ہوئی ہو وہ بھی حرام ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک وہ بھی ناجائز بیٹی کی طرح محرّمات میں سے ہے، اور امام شافعی ؒ کے نزدیک وہ محرّمات میں سے نہیں ہے۔ مگر درحقیقت یہ تصوّر بھی ذوقِ سلیم پر بار ہے کہ جس لڑکی کے متعلق آدمی یہ جانتا ہو کہ وہ اسی کے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے اس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہو۔
36. سگی بہن اور ماں شریک بہن اور باپ شریک بہن تینوں اس حکم میں یکساں ہیں۔
37. اِن سب رشتوں میں بھی سگے اور سوتیلے کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ باپ اور ماں کی بہن خواہ سگی ہو خواہ سوتیلی، یا باپ شریک ، بہرحال وہ بیٹے پر حرام ہے۔ اسی طرح بھائی او ر بہن خواہ سگے ہوں یا سوتیلے یا باپ شریک ، ان کی بیٹیاں ایک شخص کے لیے اپنی بیٹی کی طرح حرام ہیں۔
38. اِس امر پر اُمّت میں اتفاق ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی نے جس عورت کا دُودھ پیا ہو اس کے لیے وہ عورت ماں کے حکم میں اور اس کا شوہر باپ کے حکم میں ہے ، اور تمام وہ رشتے جو حقیقی ماں اور باپ کے تعلق سے حرام ہوجاتے ہیں۔ اس حکم کا ماخذ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ یحرم من الرضاع مایحرم من النسب۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ حرمت رضاعت کس قدر دُودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک جتنی مقدار سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ سکتا ہے اتنی ہی مقدار میں اگر بچہ کسی کا دُودھ پی لے تو حُرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ مگر امام احمد ؒ کے نزدیک تین مرتبہ پینے سے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک پانچ دفعہ پینے سے یہ حُرمت ثابت ہوتی ہے۔ نیز اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کس عمر میں پینے سے یہ رشتے حرام ہوتے ہیں ۔ اس باب میں فقہاء کے اقوال حسبِ ذیل ہیں:
(١) اعتبار صرف اُس زمانہ میں دُودھ پینے کا ہے جبکہ بچّہ کا دُودھ چھڑا یا نہ جا چکا ہو اور شیر خوارگی ہی پر اس کے تغذیہ کا انحصار ہو۔ ورنہ دُودھ چھُٹائی کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دُودھ پی لیا ہو تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے اُس نے پانی پی لیا ۔ یہ رائے اُم سَلَمَہ اور ابن عباس کی ہے ۔ حضرت علی سے بھی ایک روایت اس معنی میں آئی ہے۔ زُہرِی، حَسَن بصری ، قَتادہ ، عِکرِمہ اور اَوزاعی اسی کے قائل ہیں۔
(۲) دوسال کی عمر کے اندر اندر جو دُودھ پیا گیا ہو صرف اسی سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی۔ یہ حضرت عمر ؓ ، ابن مسعود، ابوہریرہ ؓ، اور ابن ِ عمر ؓ کا قول ہے اور فقہاء میں سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف، امام محمد، اور سُفیان ثَوری نے اسے قُبول کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ امام مالک بھی اسی حد کے قائل ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ دوسال سے اگر مہینہ دو مہینہ زائد عمر بھی ہو تو اس میں دُودھ پینے کا وہی حکم ہے۔
(۳) امام ابو حنیفہ اور امام زُفَر کا مشہور قول یہ ہے کہ زمانہٴ رضاعت ڈھائی سال ہے اور اس کے اندر پینے سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوتی ہے۔
(۴) خواہ کسی عمر میں دُودھ پیے، حرمت ثابت ہو جائے گی۔ یعنی اس معاملہ میں اصل اعتبار دُودھ کا ہے نہ کہ عمر کا۔ پینے والا اگر بوڑھا بھی ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو شیر خوار بچے کا ہے۔ یہی رائے ہے حضرت عائشہ ؓ کی۔ اور حضرت علی ؓ سے بھی صحیح تر روایت اسی کی تائید میں منقول ہے۔ اور فقہاء میں سے عُروَہ بن زبیر ، عطاء، لَیث بن سعد اور ابن حَزم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
39. اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے محض نکاح ہوا ہو اس کی ماں حرام ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ، مالک، احمد اور شافعی رحمہم اللہ اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ اور حضرت علی ؓ کی رائے یہ ہے کہ جب تک کسی عورت سے خلوت نہ ہوئی ہو اس کی ماں حرام نہیں ہوتی۔
40. ایسی لڑکی کا حرام ہونا اس شرط پر موقوف نہیں ہے کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے محض اس رشتہ کی نزاکت ظاہر کرنے کے لیے استعمال فرمائے ہیں۔ فقہائے اُمّت کا اس بات پر تقریباً اجماع ہے کہ سوتیلی بیٹی آدمی پر بہر حال حرام ہے خواہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو یا نہ پائی ہو۔
41. یہ قید اس غرض کے لیے بڑھائی گئی ہے کہ جسے آدمی نے بیٹا بنا لیا ہو اس کی بیوہ یا مطلقہ آدمی پر حرام نہیں ہے۔ حرام صرف اُس بیٹے کی بیوی ہے جو آدمی کی اپنی صلب سے ہو۔ اور بیٹے ہی کی طرح پوتے اور نواسے کی بیوی بھی دادا اور نانا پر حرام ہے۔
42. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام ہے ۔ اس معاملہ میں یہ اُصُول سمجھ لینا چاہیے کہ ایسی عورتوں کو جمع کرنا بہر حال حرام ہے جن میں سے کوئی ایک اگر مرد ہو تی تو اس کا نکاح دُوسری سے حرام ہوتا۔
43. یعنی جاہلیّت کے زمانہ میں جو ظلم تم لوگ کرتے رہے ہو کہ دو دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لیتے تھے اس پر بازپُرس نہ ہوگی بشرطیکہ اب اس سے باز رہو( ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۲)۔ اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ جس شخص نے حالتِ کفر میں دو بہنوں کو نکاح میں جمع کر رکھا ہو اُسے اسلام لانے کے بعد ایک کو رکھنا اور ایک کو چھوڑنا ہوگا۔
44. یعنی جو عورتیں جنگ میں پکڑی ہوئی آئیں اور ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوں وہ حرام نہیں ہیں، کیونکہ دارالحرب سے دارالاسلام میں آنے کے بعد ان کے نکاح ٹوٹ گئے۔ ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کیا جا سکتا ہے اور جس کی ملک یمین میں ہو ں وہ ان سے تمتُّع بھی کر سکتا ہے۔ البتہ فقہاء کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اگر میاں اور بیوی دونوں ایک ساتھ گرفتا ر ہوں تو ان کا کیا حکم ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ ان کا نکاح باقی رہے گا اور امام مالک و شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ان کا نکاح بھی باقی نہ رہے گا۔
لونڈیوں سے تمتُّع کے معاملہ میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں۔ لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے:
(١) جو عورتیں جنگ میں گرفتا ر ہوں ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالہ کر دی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے ، چاہے ان کا تبادلہ اُن مسلمان قیدیوں سے کرے جو دُشمن کے ہاتھ میں ہوں ، اور چاہے تو انہیں سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتُّع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔
(۲) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آجائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے ۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔
(۳) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتُّع کے معاملہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہلِ کتاب ہی میں سے ہوں۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصّہ میں وہ آئیں وہ ان سے تمتُّع کر سکتے ہیں۔
(۴) جو عورت جس شخص کے حصّہ میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتُّع کر سکتا ہے۔ کسی دُوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک میں وہ عورت ہے۔ اُس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صُلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب ِ اولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی۔ اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔
(۵) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دُوسرے شخص کے نکاح میں دیدے تو پھر مالک کو اس سے دُوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔
(٦) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے اُس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی ۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مالدار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعیُّن کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعیُّن ہے۔
(۷) ملکیت کے تمام دُوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابلِ انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازرُوئے قانون کسی اسیرِ جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔
(۸) حکومت کی طرف سے حقوقِ ملکیّت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسُوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتُّع میں کراہت محسُوس کرے۔
(۹) اسیرانِ جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کے مجاز نہیں رہتی۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حقدار نہیں رہتا۔ اور محض کچھ وقت کے لیے انھیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رُو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے، اور زنا اسلامی قانون میں جُرم ہے ۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب”تفہیمات“ حصّہ دوم۔ اور ”رسائل و مسائل“ حصّہٴ اوّل۔
45. یعنی معاشرت میں لوگوں کے درمیان جو فرقِ مراتب ہے وہ محض ایک اعتباری چیز ہے، ورنہ دراصل سب مسلمان یکساں ہیں، اور اگر کوئی حقیقی وجہِ امتیاز ان کے درمیان ہے تو وہ ایمان ہے جو محض اُونچے گھرانوں ہی کا حصّہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک لونڈی ایمان و اخلاق میں ایک خاندانی عورت سے بہتر ہو۔
46. سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور اُن دُوسرے لوگوں نے فائدہ اُٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعتِ اسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہوسکتی ہے جو لونڈی کے دی جائے؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں۔“ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔ اس رکوع میں لفظ مُحْصَنٰتُ (محفوظ عورتیں) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک ”شادی شدہ عورتیں“ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو۔ دُوسرے”خاندانی عورتیں“ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں۔ آیتِ زیر بحث میں ”محصَنات“ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دُوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے مُحصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انہیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے(فَاِذَآ اُحْصِنَّ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی۔ اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ایک خاندان کی حفاظت جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی مُحْصَنہ ہوتی ہے۔ دُوسری شوہر کی حفاظت جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے مُحصَنہ نہیں ہے، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی اَدھُوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی ملک میں وہ تھی، اور نہ اُسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہوگی نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ سُورہٴ نُور کی دُوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے جن کے مقابلہ میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے۔ رہیں شادی شدہ خاندانی عورتیں، تو وہ غیر شادی شدہ محصَنات سے زیادہ سخت سزا کی مستحق ہیں کیونکہ وہ دوہری حفاظت کو توڑتی ہیں۔ اگر چہ قرآن ان کے لیے سزا ے رجم کی تصریح نہیں کرتا ، لیکن نہایت لطیف طریقہ سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بلید الذہن لوگوں سے مخفی رہ جائے تو رہ جائے ، نبی کے ذہن رسا سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔
47. یعنی خاندانی عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو کسی لونڈی سے اس کے مالکوں کی اجازت لے کر نکاح کر لینے کی سہولت۔