65. یہ شراب کے متعلق دُوسرا حکم ہے۔ پہلا حکم وہ تھا جو سُورہٴ بقرہ (آیت ۲١۹) میں گزرا۔ اُس میں صرف یہ ظاہر کر کے چھوڑ دیا گیا تھا کہ شراب بُری چیز ہے ، اللہ کو پسند نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے بعد ہی شراب سے پرہیز کر نے لگا تھا۔ مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے حتّٰی کہ بسااوقات نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے تھے۔ غالباً ۴ہجری کی ابتدا میں یہ دُوسرا حکم آیا اور نشے میں نماز پڑھنے کی ممانعت کر دی گئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے شراب پینے کے اوقات بدل دیے اور ایسے اوقات میں شراب پینی چھوڑ دی جن میں یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں نشہ ہی کی حالت میں نماز کا وقت نہ آجائے۔ اس کے کچھ مدّت بعد شراب کی قطعی حُرمت کا وہ حکم آیا جو سُورہٴ مائدہ آیت ۹۰۔۹١ میں ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آیت میں سُکر یعنی نشہ کا لفظ ہے۔ اس لیے یہ حکم صرف شراب کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر نشہ آور چیز کے لیے عام تھا۔ اور اب بھی اس کا حکم باقی ہے۔ اگرچہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بجائے خود حرام ہے ، لیکن نشہ کی حالت میں نماز پڑھنا دوہرا عظیم تر گناہ ہے۔
66. اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی شخص پر نیند کا غلبہ ہو رہا ہو اور وہ نماز پڑھنے میں بار بار اُونگھ جاتا ہو تو اُسے نماز چھوڑ کر سو جانا چاہیے۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جو شخص نماز کی عربی عبارات کا مطلب نہیں سمجھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ لیکن علاوہ اس کے کہ یہ ایک بے جا تشدّد ہے ، خود قرآن کے الفاظ بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ قرآن میں حتٰی تفقھو ا یا حتٰی تفھمُو ا ما تقولون نہیں فرمایا ہے بلکہ حتٰی تعلمو ا ماتقولون فرمایا ہے۔ یعنی نماز میں آدمی کو اتنا ہوش رہنا چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ وہ کیا چیز اپنی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کھڑا تو ہو نماز پڑھنے اور شروع کر دے کوئی غزل۔
67. جَنابت کے اصل معنی دُوری اور بیگانگی کے ہیں۔ اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے ۔ اصطلاحِ شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یا خواب میں ماٴدّہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے آدمی طہارت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔
68. فقہاء اور مفسّرین میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے اِلّا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائے کو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، حسن بصری اور ابراہیم نَخعَی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے۔ دُوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ ، تو اس گروہ کی رائے میں جُنُبی کے لیے وضو کر کے مسجدمیں بیٹھنا جائز ہے ۔ یہ رائے حضرت علی ؓ ، ابن عباس ؓ ، سعید بن جُبَیر اور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امر میں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن پہلا گروہ اِس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دُوسرا گروہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مندرجہٴ بالا آیت پر رکھتا ہے۔
69. اس امر میں اختلاف ہے کہ لَمس یعنی چھُونے سے کیا مراد ہے۔ حضرات علی، ابن عباس ، ابو موسیٰ اشعری، اُبَی ابنِ کعب، سعید بن جُبَیر، حَسَن بصری اور متعدد ائمہ کی رائے ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے اور اسی رائے کو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام سُفیان ثوری نے اختیار کیا ہے۔ بخلاف اس کے حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ ابن ِ عمر کی رائے ہے اور بعضی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ابنِ خطاب کی بھی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد چھونا یا ہاتھ لگانا ہے اور اسی رائے کو امام شافعی ؒ نے اختیار کیا ہے۔ بعض ائمہ نے بیچ کا مسلک بھی اختیار کیا ہے ۔ مثلاً اما م مالک ؒ کی رائے ہے کہ اگر عورت یا مرد ایک دُوسرے کو جذبات شہوانی کے ساتھ ہاتھ لگائیں تو ان کا وضو ساقط ہو جائے گا اور نماز کے لیے انہیں نیا وضو کرنا ہوگا، لیکن اگر جذبات شہوانی کے بغیر ایک کا جسم دُوسرے سے مَس ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
70. حکم کی تفصیلی صُورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اُسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم کی اجازت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
تیمم کے معنی قصد کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو۔
تیمم کے طریقے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کے نزدیک ا س کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر مُنہ پر پھیر لیا جائے، پھر دُوسری دفعہ ہاتھ مار کر کُہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے۔ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور اکثر فقہا ء کا یہی مذہب ہے ، اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی، عبداللہ بن عمر، حَسَن بصری، شَعبِی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے۔ کہنیوں تک مسح کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عطاء اور مکحول اور اَوزاعی اور احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے اور عموماً حضراتِ اہلِ حدیث اسی کے قائل ہیں۔
تیمم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مار ا جائے۔ اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خُشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر مُنہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حِس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تدبیر ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدّت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو، بہر حال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا، اور اس کے ذہن سے قابلِ نماز ہونے کی حالت اور قابلِ نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا۔
71. علماء اہلِ کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ” انہیں کتاب کے علم کا کچھ حصّہ دیا گیا ہے۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو انہوں نے کتابِ الہٰی کا ایک حصّہ گم کر دیا تھا۔ پھر جو کچھ کتاب ِ الہٰی میں سے اُن کے پاس موجود تھا اس کی رُوح اور اس کے مقصد و مدّعا سے بھی وہ بیگانہ ہو چکے تھے۔ ان کی تمام دلچسپیاں لفظی بحثوں اور احکام کے جُزئیات او ر عقائد کی فلسفیانہ پیچیدگیوں تک محدُود تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دین کی حقیقت سے نا آشنا اور دینداری کے جوہر سے خالی تھے ، اگرچہ علماءِ دین اور پیشوا یانِ مِلّت کہے جاتے تھے۔
72. یہ نہیں فرمایا کہ ”یہُودی ہیں“ بلکہ یہ فرمایا کہ ”یہُودی بن گئے ہیں“۔ کیونکہ ابتداءً تو وہ بھی مسلمان ہی تھے، جس طرح ہر نبی کی اُمّت اصل میں مسلمان ہوتی ہے، مگر بعد میں وہ صرف یہودی بن کر رہ گئے۔
73. اس کے تین مطلب ہیں: ایک یہ کہ کتاب اللہ کے الفاظ میں ردّو بدل کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اپنی تاویلات سے آیات کتاب کے معنی کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے پیرووں کی صحبت میں آکر ان کی باتیں سُنتے ہیں اور واپس جا کر لوگوں کے سامنے غلط طریقہ سے روایت کرتے ہیں۔ بات کچھ کہی جاتی ہے اور وہ اسے اپنی شرارت سے کچھ کا کچھ بنا کر لوگوں میں مشہور کرتے ہیں تاکہ انہیں بدنام کیا جائے اور ان کے متعلق غلط فہمیاں پھیلا کر لوگوں کو اسلامی جماعت کی طرف آنے سے روکا جائے۔
74. یعنی جب انہیں خدا کے احکام سُنائے جاتے ہیں تو زور سے کہتے ہیں کہ سَمِعْنَا ( ہم نے سُن لیا) اور آہستہ کہتے ہیں عَصَیْنَا (ہم نے قبول نہیں کیا)۔ یا اَطَعْنَا (ہم نے قبول کیا) کا تلفظ اس انداز سے زبان کو لچکا دے کر کرتے ہیں کہ عَصَیْنَا بن جاتا ہے۔
75. یعنی دَورانِ گفتگو میں جب وہ کوئی بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں اِسْمَعْ (سُنیے) اور پھر ساتھ ہی غَیْرَ مُسْمَعٍ بھی کہتے ہیں جو ذو معنی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ ایسے محترم ہیں کہ آپ کو کوئی بات خلاف مرضی نہیں سُنائی جاسکتی۔ دُوسرا مطلب یہ ہے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں کوئی سُنائے۔ ایک اور مطلب یہ ہے کہ خدا کرے تم بہرے ہو جا ِؤ۔
76. اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۰۸۔
77. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران حاشیہ نمبر ۲۔
78. ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۸۲ و ۸۳۔
79. یہ اس لیے فرمایا کہ اہل کتاب اگرچہ انبیاء اور کتبِ آسمانی کی پَیروی کے مدّعی تھے مگر شرک میں مُبتلا ہو گئے تھے۔
80. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی بس شرک نہ کرے باقی دُوسرے گناہ دل کھول کر کرتا رہے ۔ بلکہ دراصل اس سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصُود ہے کہ شرک، جس کو ان لوگوں نے بہت معمولی چیز سمجھ رکھا تھا ، تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے حتٰی کہ اور گناہوں کی معافی تو ممکن ہے مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ معاف نہیں کیا جا سکتا ۔ علماء یہُود شریعت کے چھوٹے چھوٹے احکام کا تو بڑا اہتمام کرتے تھے ، بلکہ ان کا سارا وقت اُن جُزئیات کی ناپ تول ہی میں گزرتا تھا جو ان کے فقیہوں نے استنباط دراستنباط کر کے نکالے تھے ، مگر شرک ان کی نگاہ میں ایسا ہلکا فعل تھا کہ نہ خود اس سے بچنے کی فکر کرتے تھے، نہ اپنی قوم کو مشرکانہ خیالات اور اعمال سے بچانے کی کوشش کرتے تھے، اور نہ مشرکین کی دوستی اور حمایت ہی میں انہیں کوئی مضائقہ نظر آتا تھا۔