Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 51-56

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِيۡبًا مِّنَ الۡكِتٰبِ يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَالطَّاغُوۡتِ وَيَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا هٰٓؤُلَۤاءِ اَهۡدٰى مِنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِيۡلًا‏ ﴿4:51﴾ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ​ ؕ وَمَنۡ يَّلۡعَنِ اللّٰهُ فَلَنۡ تَجِدَ لَهٗ نَصِيۡرًا ؕ‏ ﴿4:52﴾ اَمۡ لَهُمۡ نَصِيۡبٌ مِّنَ الۡمُلۡكِ فَاِذًا لَّا يُؤۡتُوۡنَ النَّاسَ نَقِيۡرًا ۙ‏ ﴿4:53﴾ اَمۡ يَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ​ۚ فَقَدۡ اٰتَيۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰهِيۡمَ الۡـكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاٰتَيۡنٰهُمۡ مُّلۡكًا عَظِيۡمًا‏  ﴿4:54﴾ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ بِهٖ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ صَدَّ عَنۡهُ​ ؕ وَكَفٰى بِجَهَـنَّمَ سَعِيۡرًا‏ ﴿4:55﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِيۡهِمۡ نَارًا ؕ كُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُهُمۡ بَدَّلۡنٰهُمۡ جُلُوۡدًا غَيۡرَهَا لِيَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا‏ ﴿4:56﴾

51 - کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے عِلم میں سے کچھ حصّہ دیا گیا ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جِبْت81 اور طاغوت82 کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔83 52 - ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کردے پھر تم اُس کا کوئی مددگار نہیں پاوٴ گے۔ 53 - کیا حکومت میں اُن کا کوئی حصّہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دُوسروں کو ایک پُھوٹی کوڑی تک نہ دیتے۔84 54 - پھر یا یہ دُوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا؟85اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہوکہ ہم نے تو ابراہیم ؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا،86 55 - مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کوئی اس سے منہ موڑ گیا، 87اور منہ موڑنے والوں کے لیے تو بس جہنّم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے۔ 56 - جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا اُنہیں بایقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دُوسری کھال پیدا کردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں، اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے۔


Notes

81. جِبْت کے اصل معنی بے حقیقت، بے اصل اور بے فائدہ چیزکے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت(جوتش)، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور مہُورت اور تمام دُوسری وہمی و خیالی باتوں کو” جبت “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے النیاقۃ و الطرق والطیر من الجبت۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا ، زمین پر جانوروں کے نشاناتِ قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دُوسرے طریقے سب ”جِبت“ قبیل سے ہیں۔ پس "جبت" کا مفہُوم وہی ہے جسے ہم اُردو زبان میں اوہام کہتے ہیں اور جس کے لیے انگریزی میں (Superstitions) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

82. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۸۶ و ۲۸۸۔

83. علماء یہود کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کو وہ مشرکینِ عرب کی بہ نسبت زیادہ گمراہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان سے تو یہ مشرکین ہی زیادہ راہِ راست پر ہیں۔ حالانکہ وہ صریح طور پر دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف خالص توحید ہے جس میں شرک کا شائبہ تک نہیں اور دُوسری طرف صریح بُت پرستی ہے جس کی مذمت سے ساری بائیبل بھری پڑی ہے۔

84. یعنی کیا خدا کی حکومت کا کوئی حصّہ ان کے قبضہ میں ہے کہ یہ فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کون برسرِ ہدایت ہے اور کون نہیں ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ان کے ہاتھوں دُوسروں کو ایک پُھوٹی کوڑی بھی نصیب نہ ہوتی کیونکہ ان کے دل تو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان سے حق کا اعتراف تک نہیں ہو سکتا ۔ دُوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا ان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے کہ اس میں دُوسرے لوگ حصّہ بٹانا چاہتے ہیں اور یہ انہیں اس میں سے کچھ نہیں دینا چاہتے؟ یہاں تو محض اعترافِ حق کا سوال درپیش ہے اور اس میں بھی یہ بخل سے کام لے رہے ہیں۔

85. یعنی یہ اپنی نا اہلی کے باوجود اللہ کے جس فضل اور جس انعام کی آس خود لگائے بیٹھے تھے، اس سے جب دُوسرے لوگ سرفراز کر دیے گئے اور عرب کے اُمیّوں میں ایک عظیم الشان نبی کے ظہُور سے وہ رُوحانی و اخلاقی اور ذہنی و عملی زندگی پیدا ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ عروج و سربلندی ہے، تو اب یہ اس پر حسد کر رہے ہیں اور یہ باتیں اسی حسد کی بنا پر ان کے منہ سے نکل رہی ہیں۔

86. ”ملکِ عظیم“سے مراد دنیا کی امامت و رہنمائی اور اقوامِ عالم پر قائدانہ اقتدار ہے جو کتاب اللہ کا علم پانے اور اس علم و حکمت کے مطابق عمل کرنے سے لازماً حاصل ہوتا ہے۔

87. یاد رہے کہ یہاں جواب بنی اسرائیل کی حاسدانہ باتوں کا دیا جا رہا ہے۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ آخر جلتے کس بات پر ہو ؟ تم بھی ابراہیم کی اولاد ہو اور یہ بنی اسماعیل بھی ابراہیم ہی کی اولاد ہیں۔ ابراہیم سے دنیا کی امامت کا جو وعدہ ہم نے کیا تھا وہ آلِ ابراہیم میں سے صرف اُن لوگوں کے لیے تھا جو ہماری بھیجی ہوئی کتاب اور حکمت کی پیروی کریں۔ یہ کتاب اور حکمت پہلے ہم نے تمہارے پاس بھیجی تھی مگر تمہاری اپنی نالائقی تھی کہ تم اس سے مُنہ موڑ گئے۔ اب وہی چیز ہم نے بنی اسمٰعیل کو دی ہے اور یہ اُن کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں۔