81. جِبْت کے اصل معنی بے حقیقت، بے اصل اور بے فائدہ چیزکے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت(جوتش)، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور مہُورت اور تمام دُوسری وہمی و خیالی باتوں کو” جبت “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے النیاقۃ و الطرق والطیر من الجبت۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا ، زمین پر جانوروں کے نشاناتِ قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دُوسرے طریقے سب ”جِبت“ قبیل سے ہیں۔ پس "جبت" کا مفہُوم وہی ہے جسے ہم اُردو زبان میں اوہام کہتے ہیں اور جس کے لیے انگریزی میں (Superstitions) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
82. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۸۶ و ۲۸۸۔
83. علماء یہود کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کو وہ مشرکینِ عرب کی بہ نسبت زیادہ گمراہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان سے تو یہ مشرکین ہی زیادہ راہِ راست پر ہیں۔ حالانکہ وہ صریح طور پر دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف خالص توحید ہے جس میں شرک کا شائبہ تک نہیں اور دُوسری طرف صریح بُت پرستی ہے جس کی مذمت سے ساری بائیبل بھری پڑی ہے۔
84. یعنی کیا خدا کی حکومت کا کوئی حصّہ ان کے قبضہ میں ہے کہ یہ فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کون برسرِ ہدایت ہے اور کون نہیں ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ان کے ہاتھوں دُوسروں کو ایک پُھوٹی کوڑی بھی نصیب نہ ہوتی کیونکہ ان کے دل تو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان سے حق کا اعتراف تک نہیں ہو سکتا ۔ دُوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا ان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے کہ اس میں دُوسرے لوگ حصّہ بٹانا چاہتے ہیں اور یہ انہیں اس میں سے کچھ نہیں دینا چاہتے؟ یہاں تو محض اعترافِ حق کا سوال درپیش ہے اور اس میں بھی یہ بخل سے کام لے رہے ہیں۔
85. یعنی یہ اپنی نا اہلی کے باوجود اللہ کے جس فضل اور جس انعام کی آس خود لگائے بیٹھے تھے، اس سے جب دُوسرے لوگ سرفراز کر دیے گئے اور عرب کے اُمیّوں میں ایک عظیم الشان نبی کے ظہُور سے وہ رُوحانی و اخلاقی اور ذہنی و عملی زندگی پیدا ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ عروج و سربلندی ہے، تو اب یہ اس پر حسد کر رہے ہیں اور یہ باتیں اسی حسد کی بنا پر ان کے منہ سے نکل رہی ہیں۔
86. ”ملکِ عظیم“سے مراد دنیا کی امامت و رہنمائی اور اقوامِ عالم پر قائدانہ اقتدار ہے جو کتاب اللہ کا علم پانے اور اس علم و حکمت کے مطابق عمل کرنے سے لازماً حاصل ہوتا ہے۔
87. یاد رہے کہ یہاں جواب بنی اسرائیل کی حاسدانہ باتوں کا دیا جا رہا ہے۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ آخر جلتے کس بات پر ہو ؟ تم بھی ابراہیم کی اولاد ہو اور یہ بنی اسماعیل بھی ابراہیم ہی کی اولاد ہیں۔ ابراہیم سے دنیا کی امامت کا جو وعدہ ہم نے کیا تھا وہ آلِ ابراہیم میں سے صرف اُن لوگوں کے لیے تھا جو ہماری بھیجی ہوئی کتاب اور حکمت کی پیروی کریں۔ یہ کتاب اور حکمت پہلے ہم نے تمہارے پاس بھیجی تھی مگر تمہاری اپنی نالائقی تھی کہ تم اس سے مُنہ موڑ گئے۔ اب وہی چیز ہم نے بنی اسمٰعیل کو دی ہے اور یہ اُن کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں۔