Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 57-70

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا​ ؕ لَـهُمۡ فِيۡهَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ  وَّنُدۡخِلُهُمۡ ظِلًّا ظَلِيۡلًا‏ ﴿4:57﴾ اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُكُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهۡلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمۡ بِهٖ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ ﴿4:58﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡ​ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَـوۡمِ الۡاٰخِرِ​ ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا‏ ﴿4:59﴾ اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ يَزۡعُمُوۡنَ اَنَّهُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَحَاكَمُوۡۤا اِلَى الطَّاغُوۡتِ وَقَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ يَّكۡفُرُوۡا بِهٖ ؕ وَيُرِيۡدُ الشَّيۡـطٰنُ اَنۡ يُّضِلَّهُمۡ ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا‏ ﴿4:60﴾ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰى مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَاِلَى الرَّسُوۡلِ رَاَيۡتَ الۡمُنٰفِقِيۡنَ يَصُدُّوۡنَ عَنۡكَ صُدُوۡدًا​ ۚ‏ ﴿4:61﴾ فَكَيۡفَ اِذَاۤ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ ۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ ثُمَّ جَآءُوۡكَ يَحۡلِفُوۡنَ​ۖ بِاللّٰهِ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡسَانًـا وَّتَوۡفِيۡقًا‏  ﴿4:62﴾ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُ اللّٰهُ مَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ فَاَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ وَعِظۡهُمۡ وَقُلْ لَّهُمۡ فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ قَوۡلًاۢ بَلِيۡغًا‏ ﴿4:63﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ​ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿4:64﴾ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا‏  ﴿4:65﴾ وَلَوۡ اَنَّا كَتَبۡنَا عَلَيۡهِمۡ اَنِ اقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ اَوِ اخۡرُجُوۡا مِنۡ دِيَارِكُمۡ مَّا فَعَلُوۡهُ اِلَّا قَلِيۡلٌ مِّنۡهُمۡ​ ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ فَعَلُوۡا مَا يُوۡعَظُوۡنَ بِهٖ لَـكَانَ خَيۡرًا لَّهُمۡ وَاَشَدَّ تَثۡبِيۡتًا ۙ‏ ﴿4:66﴾ وَّاِذًا لَّاٰتَيۡنٰهُمۡ مِّنۡ لَّدُنَّاۤ اَجۡرًا عَظِيۡمًا ۙ‏ ﴿4:67﴾ وَّلَهَدَيۡنٰهُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًا‏ ﴿4:68﴾ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓـئِكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ​ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓـئِكَ رَفِيۡقًا ؕ‏ ﴿4:69﴾ ذٰ لِكَ الۡـفَضۡلُ مِنَ اللّٰهِ​ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ عَلِيۡمًا‏ ﴿4:70﴾

57 - اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاوٴں میں رکھیں گے۔ 58 - مسلمانو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، 88اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے۔ 59 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرہ اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسُول کی طرف پھیردو89 اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔90؏۸ 60 - اے نبی ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعوٰی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رُجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا 91 ۔۔۔۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دُور لے جانا چاہتا ہے۔ 61 - اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آوٴ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آوٴ رسولؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔92 62 - پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آپڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں93اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم تو صرف بَھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہوجائے 63 - ۔۔۔۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرّض مت کرو، انہیں سمجھاوٴ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اُتر جائے۔ 64 - (انہیں بتاوٴ کہ)ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔94 اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔ 65 - نہیں، اے محمد ؐ !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اِختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسُوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔ 95 66 - اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کردو یا اپنے گھروں سے نکل جاوٴ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے۔ 96حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا97 67 - اور جب یہ ایسا کرتے تو ہم ا نہیں اپنی طرف سے بہت بڑا اجر دیتے 68 - اور انہیں سیدھا راستہ دکھا دیتے۔ 98 69 - جو اللہ اور رسُول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین۔99 کیسے اچّھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسّر آئیں۔100 70 - یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے۔ ؏۹


Notes

88. یعنی تم اُن برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بُنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (Positions of trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نا اہل ، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بُرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں ، یعنی جن میں بارِ امانت اُٹھانے کی صلاحیت ہو۔ بنی اسرائیل کی دُوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ و ہ انصاف کی رُوح سے خالی ہو گئے تھے۔ وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بے تکلف ایمان نِگل جاتے تھے۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے۔ انصاف کے گلے پر چُھری پھیرنے میں انہیں ذراتامل نہ ہوتا تھا۔ ان کی بے انصافی کا تلخ ترین تجربہ اُس زمانہ میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں۔ دُوسری طرف وہ لوگ تھے جو بُتوں کو پُوج رہے تھے، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے، سوتیلی ماؤں تک سے نکاح کر لیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ یہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دُوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلہ میں یہ دُوسرا گروہ زیادہ صحیح راستہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس بے انصافی پر تنبیہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا ۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی ، بہر حال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو۔

89. یہ آیت اسلام کے پُورے مذہبی، تمدّنی اور سیاسی نظام کی بُنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اوّلین دفعہ ہے۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں:

(۱) اسلامی نظام میں اصل مُطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂ خدا ہے، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام، دونوں کا مرکز و محوَر خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے۔ دُوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مدِّ مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں۔ ورنہ ہر وہ حلقۂ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے۔

(۲)اسلامی نظام کی دُوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذّات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسُول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصَانی فقد عصَی اللہ۔” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔“ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے۔

(۳)مذکورۂ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ اُن” اولی الامر“ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں۔”اولی الامر “ کے مفہُوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر، یا مُلکی انتظام کرنے والے حُکّام، یا عدالتی فیصلے کرنے والے جج، یا تمدّنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلّوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو، اور خدا و رسول کا مطیع ہو۔ یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کے لیے لازمی شرطیں ہیں اور یہ نہ صرف آیت مذکورۂ صدر میں صاف طور پر درج ہیں، بلکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پُوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں:



السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فا ذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔ (بخاری و مسلم)

مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اُولی الامر کی بات سُنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا نا پسند ، تا وقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سُننا چاہیے نہ ماننا چاہیے۔



لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف۔ (بخاری و مسلم)

خدا اور رسُول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ”معروف“ میں ہے۔



یکون علیکم امراء تعرفون و تنکرون فمن انکر فقد بریٔ و من کرہ فقد سم ولکن من رضی و تابع فقالوا افلا نقاتلھم؟ قال لا ما صلّوا۔(مسلم)

حضور ؐ نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کے بعض باتوں کو تم معروف پا ؤ گے اور بعض کو منکر۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہارِ ناراضی کیا وہ بَری الذّمّہ ہوا۔ اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا۔ مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا، پھر جب ایسے حکّام کا دَور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں، آپ ؐ نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں۔



یعنی ترکِ نماز وہ علامت ہو گی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اطاعت ِ خدا و رسُول سے باہر ہو گئے ہیں، اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہو گا۔



شِرَار ائمّتکُم الّدیْن تبغضو نہم و یبغضو نکم و تلعنو نہم و یلعنو نکم قلنا یا رسول اللہ افلا ننا بذھم عند ذٗالک؟ قال لا ما اقامو ا فیکم الصلوۃ، لا مَا اقاموا فیکم الصلوۃ۔ (مسلم)

حضُور ؐ نے فرمایا تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مبغوض ہو۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! جب یہ صُورت ہو تو کیا ہم اُن کے مقابلہ پر نہ اُٹھیں؟ فرمایا نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔



اس حدیث میں اُوپر والی شرط کو اور زیادہ واضح کر دیا گیا ہے۔ اُوپر کی حدیث سے گمان ہو سکتا تھا کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراد دراصل مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے۔ یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابندِ نماز ہوں ، بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظامِ حکومت چل رہا ہو وہ کم از کم اقامتِ صلوٰۃ کا انتظام کرے۔ یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ان کی حکومت اپنی اُصُولی نوعیت کے اعتبار سے ایک اسلامی حکومت ہے۔ ورنہ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حکومت اسلام سے منحرف ہو چکی ہے اور اسے اُلٹ پھینکنے کی سعی مسلمانوں کے لیے جائز ہو جائے گی۔ اسی بات کو ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے مِن جملہ اور باتوں کے ایک اس امر کا عہد بھی لیا کہ ان لا ننازع الامر ا ھلہ الا ان ترو اکفر ا بَوَاحًا عندکم من اللہ فیہ برھان، یعنی یہ کہ” ہم اپنے سرداروں اور حُکّام سے نزاع نہ کریں گے، اِلّا یہ کہ ہم ان کے کاموں میں کھُلم کھُلا کفر دیکھیں جس کی موجودگی میں ان کے خلاف ہمارے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے دلیل موجود ہو۔“ (بخار ی و مسلم)

(۴) چوتھی بات جو آیت زیرِ بحث میں ایک مستقل اور قطعی اُصُول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسُول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند( Final authority ) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان ، یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سرِتسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنت رسُول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصُوصیّت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظا م ہے۔

اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائل ِ زندگی کے فیصلہ کے لیے کتاب اللہ و سُنت رسول اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جبکہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانہ کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ شبہہ اُصُولِ دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیّز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدّعی ہے ، اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اُس دائرے میں آزادی سے متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اُسے دی ہے۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اُصُول اور قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملہ میں سب سے پہلے خدا اور رسُول ﷺ کی طرف رجوع کرتا ہے ، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے ، اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اِسی صُورت میں آزادیِ عمل برتتا ہے، اور اُس کی یہ آزادیٔ عمل اس حجّت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادیِ عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے۔

90. ”قرآن مجید چونکہ محض کتابِ آئین ہی نہیں ہے بلکہ کتابِ تعلیم و تلقین اور صحیفۂ وعظ و ارشاد بھی ہے ، اس لیے پہلے فقرے میں جو قانونی اُصُول بیان کیے گئے تھے، اب اِس دُوسرے فقرے میں ان کی حکمت و مصلحت سمجھائی جا رہی ہے۔ اس میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں : ایک یہ کہ مذکورۂ بالا چاروں اُصُولوں کی پیروی کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ اور ان اصولوں سے انحراف ، یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے یہ کہ ان اُصُولوں پر اپنے نظامِ زندگی کو تعمیر کرنے ہی میں مسلمانوں کی بہتری بھی ہے۔ صرف یہی ایک چیز ان کو دنیا میں صراطِ مستقیم پر قائم رکھ سکتی ہے اور اسی سے ان کی عاقبت بھی درست ہو سکتی ہے۔ یہ نصیحت ٹھیک اُس تقریر کے خاتمہ پر ارشاد ہوئی ہے جس میں یہودیوں کی اخلاقی و دینی حالت پر تبصرہ کیا جا رہا تھا۔ اس طرح ایک نہایت لطیف طریقہ سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری پیش رَو اُمّت دین کے اِن بُنیادی اُصُولوں سے منحرف ہو کر جس پستی میں گِر چکی ہے ا س سے عبرت حاصل کرو۔ جب کوئی گروہ خدا کی کتاب اور اس کے رسُول کی ہدایت کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے ، اور ایسے سرداروں اور رہنما ؤں کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خدا و رسُول کے مطیعِ فرمان نہ ہوں، اور اپنے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی حاکموں سے کتاب و سنت کی سند پوچھے بغیر ان کی اطاعت کرنے لگتا ہے تو وہ اُن خرابیوں میں مبتلا ہونے سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے۔

91. یہاں صریح طور پر ”طاغوت“ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الہٰی کے سوا کسی دُوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخرت سند مانتا ہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنیٰ میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت”طاغوت“ کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ قرآن کی رُو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جُھکنا عین منافقت ہے۔

92. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقین کی عام روش تھی کہ جس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا تھا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا اس کو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے تھے اور جس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہو گا اس کو آپ ؐ کے پاس لانے سے انکار کر دیتے تھے ۔ یہی حال اب بھی منافقوں کا ہے کہ اگر شریعت کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو سر آنکھوں پر ورنہ ہر اُس قانون ، ہر اس رسم و رواج اور ہر اس عدالت کے دامن میں جا پناہ لیں گے جس سے انہیں اپنے منشاء کے مطابق فیصلہ حاصل ہونے کی توقع ہو۔

93. غالباً اس سے مراد یہ ہےکہ جب ان کی اِس منافقانہ حرکت کا مسلمانوں کو علم ہو جاتا ہے اور انہیں خوف ہوتا ہے کہ اب باز پرس ہوگی اور سزا ملے گی اُس وقت قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان کا یقین دلانے لگتے ہیں۔

94. یعنی خدا کی طرف سے رسُول اس لیے نہیں آتا ہے کہ بس اس کی رسالت پر ایمان لے آؤ اور پھر اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو۔ بلکہ رسُول کے آنے کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ زندگی کا جو قانون وہ لے کر آیا ہے ، تمام قوانین کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے اور خدا کی طرف سے جو احکام وہ دیتا ہے ، تمام احکام کو چھوڑ کر صرف انہی پر عمل کیا جائے۔ اگر کسی نے یہی نہ کیا تو پھر اس کا محض رسُول کو رسُول مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

95. اس آیت کا حکم صرف حضور ؐ کی زندگی تک محدُود نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے لیے ہے۔ جو کچھ اللہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور جس طریقہ پر اللہ کی ہدایت و رہنمائی کے تحت آپ نے عمل کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کُن سند ہے اور اس سند کو ماننے یا نہ ماننے ہی پر آدمی کے مومن ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ ہے۔ حدیث میں اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ لا یؤمن احدکم حتٰی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہٖ۔ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں۔

96. یعنی جب ان کا حال یہ ہے کہ شریعت کی پابندی کرنے میں ذرا سا نقصان یا تھوڑی سی تکلیف بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے تو ان سے کسی بڑی قربانی کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر جان دینے یا گھر بار چھوڑنے کا مطالبہ ان سے کیا جائے تو یہ فوراً بھاگ کھڑے ہوں گے اور ایمان و اطاعت کے بجائے کفر و نافرمانی کی راہ لیں گے۔

97. یعنی اگر یہ لوگ شک اور تذبذب اور تردّد چھوڑ کر یکسُوئی کے ساتھ رسُول کی اطاعت و پیروی پر قائم ہو جاتے اور ڈانواں ڈول نہ رہتے تو ان کی زندگی تزلزل سے محفوظ ہو جاتی۔ ان کے خیالات ، اخلاق اور معاملات سب کے سب ایک مستقل اور پائدار بنیاد پر قائم ہو جاتے اور یہ اُن برکات سے بہرہ ور ہوتے جو ایک شاہراہِ مستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے سے ہی حاصل ہوا کرتی ہیں ۔ جو شخص تذبذب اور تردّد کی حالت میں مبتلا ہو، کبھی اِس راستہ پر چلے اور کبھی اُس راستہ پر، اور اطمینان کسی راستہ کے بھی صحیح ہونے پر اسے حاصل نہ ہو اس کی ساری زندگی نقش بر آب کی طرح بسر ہوتی ہے اور سعی لا حاصل بن کر رہ جاتی ہے۔

98. یعنی جب وہ شک چھوڑ کر ایمان و یقین کے ساتھ رسول کی اطاعت کا فیصلہ کر لیتے تو اللہ کے فضل سے اُن کے سامنے سعی و عمل کا سیدھا راستہ بالکل روشن ہو جاتا اور انہیں صاف نظر آجاتا کہ وہ اپنی قوتیں اور محنتیں کس راہ میں صرف کریں جس سے ان کا ہر قدم اپنی حقیقی منزل مقصُود کی طرف اُٹھے۔

99. صدّیق سے مراد وہ شخص ہے جو نہایت راستباز ہو، جس کے اندر صداقت پسندی اور حق پرستی کمال درجہ پر ہو، جو اپنے معاملات اور برتاؤ میں ہمیشہ سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کرے، جب ساتھ دے تو حق اور انصاف ہی کا ساتھ دے اور سچے دل سے دے، اور جس چیز کو حق کے خلاف پائے اس کے مقابلہ میں ڈٹ کر کھڑا ہو جائے اور ذرا کمزوری نہ دکھائے ۔ جس کی سیرت ایسی سُتھری اور بے لوث ہو کہ اپنے اور غیر کسی کو بھی اس سے خالص راست روی کے سوا کسی دُوسرے طرزِ عمل کا اندیشہ نہ ہو۔

شھید کے اصل معنی گواہ کے ہیں۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے ایمان کی صداقت پر اپنی زندگی کے پُورے طرزِ عمل سے شہادت دے۔ اللہ کی راہ میں لڑ کر جان دینے والے کو بھی شہید اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ جان دے کر ثابت کردیتا ہے کہ وہ جس چیز پر ایمان لایا تھا اسے واقعی سچّے دل سے حق سمجھتا تھا اور اسے اتنا عزیز رکھتا تھا کہ اس کے لیے جان قربان کرنے میں بھی اس نے دریغ نہ کیا۔ ایسے راستباز لوگوں کو بھی شہید کہا جاتا ہے جو اس قدر قابلِ اعتماد ہوں کہ جس چیز پر وہ شہادت دیں اس کا صحیح و برحق ہونا بلا تامّل تسلیم کر لیا جائے۔

صَالح سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے خیالات اور عقائد میں ، اپنی نیت اور ارادوں میں اور اپنے اقوال و افعال میں راہِ راست پر قائم ہو اور فی الجملہ اپنی زندگی میں نیک رویّہ رکھتا ہو۔

100. یعنی وہ انسان خوش قسمت ہے جسے ایسے لوگ دنیا میں رفاقت کے لیے میسّر آئیں اور جس کا انجام آخرت میں بھی ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہو۔ کسی آدمی کے احساسات مُردہ ہو جائیں تو بات دُوسری ہے ، ورنہ درحقیقت بدسیرت اور بد کردار لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا دنیا ہی میں ایک عذابِ الیم ہے کجا کہ آخرت میں بھی آدمی انہی کے ساتھ اُن انجام سے دوچار ہو جو ان کے لیے مقدر ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی ہمیشہ یہی تمنّا رہی ہے کہ ان کو نیک لوگوں کی سوسائیٹی نصیب ہو اور مر کر بھی وہ نیک ہی لوگوں کے ساتھ رہیں۔