Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 71-76

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَكُمۡ فَانْفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوۡا جَمِيۡعًا‏ ﴿4:71﴾ وَاِنَّ مِنۡكُمۡ لَمَنۡ لَّيُبَطِّئَنَّ​ۚ فَاِنۡ اَصَابَتۡكُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَالَ قَدۡ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَىَّ اِذۡ لَمۡ اَكُنۡ مَّعَهُمۡ شَهِيۡدًا‏ ﴿4:72﴾ وَلَـئِنۡ اَصَابَكُمۡ فَضۡلٌ مِّنَ اللّٰهِ لَيَـقُوۡلَنَّ كَاَنۡ لَّمۡ تَكُنۡۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهٗ مَوَدَّةٌ يّٰلَيۡتَنِىۡ كُنۡتُ مَعَهُمۡ فَاَ فُوۡزَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا‏ ﴿4:73﴾ فَلۡيُقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ الَّذِيۡنَ يَشۡرُوۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا بِالۡاٰخِرَةِ​ ؕ وَمَنۡ يُّقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيُقۡتَلۡ اَوۡ يَغۡلِبۡ فَسَوۡفَ نُـؤۡتِيۡهِ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿4:74﴾ وَمَا لَـكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡـقَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَا​ ۚ وَاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙۚ وَّاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًا ؕ‏ ﴿4:75﴾ اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​​ ۚ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِيَآءَ الشَّيۡطٰنِ​ۚ اِنَّ كَيۡدَ الشَّيۡطٰنِ كَانَ ضَعِيۡفًا‏ ﴿4:76﴾

71 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو،101 پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلویا اکٹھے ہوکر۔ 72 - ہاں، تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چُراتا ہے،102اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں اِن لوگوں کے ساتھ نہ گیا، 73 - اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے ۔۔۔۔ اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبّت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں ۔۔۔۔ کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا۔ 74 - (ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دُنیا کی زندگی کو فروخت کردیں،103 پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرِ عظیم عطا کریں گے۔ 75 - آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچّوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔104 76 - جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں،105 پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔106 ؏۱۰


Notes

101. واضح رہے کہ یہ خطبہ اس زمانہ میں نازل ہوا تھا جب اُحُد کی شکست کی وجہ سے اطراف و نواح کے قبائل کی ہمتیں بڑھ گئیں تھیں اور مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھِر گئے تھے۔ آئے دن خبریں آتی رہتی تھیں کہ فلاں قبیلے کے تیور بگڑ رہے ہیں، فلاں قبیلہ دُشمنی پر آمادہ ہے، فلاں مقام پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ پے در پے غداریاں کی جا رہی تھیں۔ ان کے مبلّغین کو فریب سے دعوت دی جاتی تھی اور قتل کر دیا جاتا تھا۔ مدینہ کے حدُود سے باہر ان کے لیے جان و مال کی سلامتی باقی نہ رہی تھی۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ایک زبردست سعی و جہد اور سخت جاں فشانی کی ضرورت تھی تاکہ اِن خطرات کے ہجوم سے اسلام کی یہ تحریک مِٹ نہ جائے۔

102. ایک مفہُوم یہ بھی ہے کہ خود تو جی چُراتا ہی ہے ، دُوسروں کی بھی ہمتیں پست کرتا ہے اور ان کو جہاد سے روکنے کے لیے ایسی باتیں کرتا ہے کہ وہ بھی اُسی کی طرح بیٹھ رہیں۔

103. یعنی اللہ کی راہ میں لڑنا دنیا طلب لوگوں کا کام ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایسے لوگوں کا کام ہے جن کے پیشِ نظر صرف اللہ کی خوشنودی ہو، جو اللہ اور آخرت پر کامل اعتماد رکھتے ہوں، اور دنیا میں اپنی کامیابی و خوشحالی کے سارے امکانات اور اپنے ہر قسم کے دُنیوی مفاد اس اُمید پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں کہ ان کا رب ان سے راضی ہو گا اور اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں بہرحال ان کی قربانیاں ضائع نہ ہوں گی۔ رہے وہ لوگ جن کی نگاہ میں اصل اہمیت اپنے دُنیوی مفاد ہی کی ہو، تو درحقیقت یہ راستہ ان کے لیے نہیں ہے۔

104. اشارہ ہے اُن مظلوم بچّوں ، عورتوں اور مردوں کی طرف جو مکّہ میں اور عرب کے دُوسرے قبائل میں اسلام قبول کر چکے تھے مگر نہ ہجرت پر قادر تھے اور نہ اپنے آپ کو ظلم سے بچا سکتے تھے۔ یہ غریب طرح طرح سے تختۂ مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے اور دُعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انہیں اس ظلم سے بچا ئے۔

105. یہ اللہ کا دو ٹوک فیصلہ ہے۔ اللہ کی راہ میں اس غرض کے لیے لڑنا کہ زمین پر اللہ کا دین قائم ہو، یہ اہلِ ایمان کا کام ہے اور جو واقعی مومن ہے وہ اس کام سے کبھی باز نہ رہے گا۔ اور طاغوت کی راہ میں اس غرض کے لیے لڑنا کہ خدا کی زمین پر خدا کے باغیوں کا راج ہو، یہ کافروں کا کام ہے اور کوئی ایمان رکھنے والا آدمی یہ کام نہیں کر سکتا۔

106. یعنی بظاہر شیطان اور اس کے ساتھی بڑی تیاریوں سے اُٹھتے ہیں اور بڑی زبردست چالیں چلتے ہیں، لیکن اہلِ ایمان کو نہ اُن کی تیاریوں سے خوف زدہ ہونا چاہیے اور نہ ان کی چالوں سے۔ آخر کار ان کا انجام ناکامی ہے۔