Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 77-87

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ قِيۡلَ لَهُمۡ كُفُّوۡۤا اَيۡدِيَكُمۡ وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰ تُوا الزَّكٰوةَ ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيۡهِمُ الۡقِتَالُ اِذَا فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ يَخۡشَوۡنَ النَّاسَ كَخَشۡيَةِ اللّٰهِ اَوۡ اَشَدَّ خَشۡيَةً​ ۚ وَقَالُوۡا رَبَّنَا لِمَ كَتَبۡتَ عَلَيۡنَا الۡقِتَالَ ۚ لَوۡلَاۤ اَخَّرۡتَنَاۤ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيۡبٍ​ ؕ قُلۡ مَتَاعُ الدُّنۡيَا قَلِيۡلٌ​ ۚ وَالۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ فَتِيۡلًا‏ ﴿4:77﴾ اَيۡنَ مَا تَكُوۡنُوۡا يُدۡرِكْكُّمُ الۡمَوۡتُ وَلَوۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ بُرُوۡجٍ مُّشَيَّدَةٍ​ ؕ وَاِنۡ تُصِبۡهُمۡ حَسَنَةٌ يَّقُوۡلُوۡا هٰذِهٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ​ ۚ وَاِنۡ تُصِبۡهُمۡ سَيِّئَةٌ يَّقُوۡلُوۡا هٰذِهٖ مِنۡ عِنۡدِكَ​ ؕ قُلۡ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ​ ؕ فَمَالِ ھٰٓؤُلَۤاءِ الۡقَوۡمِ لَا يَكَادُوۡنَ يَفۡقَهُوۡنَ حَدِيۡثًا‏  ﴿4:78﴾ مَاۤ اَصَابَكَ مِنۡ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ​ وَمَاۤ اَصَابَكَ مِنۡ سَيِّئَةٍ فَمِنۡ نَّـفۡسِكَ​ ؕ وَاَرۡسَلۡنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا​ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًا‏  ﴿4:79﴾ مَنۡ يُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰهَ ​ۚ وَمَنۡ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ عَلَيۡهِمۡ حَفِيۡظًا ؕ‏ ﴿4:80﴾ وَيَقُوۡلُوۡنَ طَاعَةٌ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِكَ بَيَّتَ طَآئِفَةٌ مِّنۡهُمۡ غَيۡرَ الَّذِىۡ تَقُوۡلُ​ ؕ وَاللّٰهُ يَكۡتُبُ مَا يُبَيِّتُوۡنَ​ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ​ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا‏ ﴿4:81﴾ اَفَلَا يَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ​ؕ وَلَوۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَيۡرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوۡا فِيۡهِ اخۡتِلَافًا كَثِيۡرًا‏ ﴿4:82﴾ وَاِذَا جَآءَهُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَـوۡفِ اَذَاعُوۡا بِهٖ​ ۚ وَلَوۡ رَدُّوۡهُ اِلَى الرَّسُوۡلِ وَاِلٰٓى اُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡهُمۡ​ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّيۡطٰنَ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿4:83﴾ فَقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَـفۡسَكَ​ وَحَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ​ ۚ عَسَے اللّٰهُ اَنۡ يَّكُفَّ بَاۡسَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا​ ؕ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاۡسًا وَّاَشَدُّ تَـنۡكِيۡلًا‏ ﴿4:84﴾ مَنۡ يَّشۡفَعۡ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّكُنۡ لَّهٗ نَصِيۡبٌ مِّنۡهَا​ ۚ وَمَنۡ يَّشۡفَعۡ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَّكُنۡ لَّهٗ كِفۡلٌ مِّنۡهَا​ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ مُّقِيۡتًا‏ ﴿4:85﴾ وَاِذَا حُيِّيۡتُمۡ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡهَاۤ اَوۡ رُدُّوۡهَا​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ حَسِيۡبًا‏ ﴿4:86﴾ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ؕ لَيَجۡمَعَنَّكُمۡ اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِ​ؕ وَمَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيۡثًا‏ ﴿4:87﴾

77 - تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔107 کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مُہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمّہ برابر بھی نہ کیا جائے گا۔ 108 78 - رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبُوط عمارتوں میں ہو۔ اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے۔109 کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ 79 - اے انسان ! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔ اے محمدؐ ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسُول بناکر بھیجا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے۔ 80 - جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اور جو مُنہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بناکر تو نہیں بھیجا ہے۔110 81 - وہ منہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہوکر تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے۔ اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے۔ تم ان کی پروا نہ کرو اور اللہ پر بھرہسہ رکھو، وہی بھروسہ کے لیے کافی ہے۔ 82 - کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔111 83 - یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اسے رسُول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔112تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ )معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے ۔ 84 - پس اے نبی!تم اللہ کی راہ میں لڑو، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہو۔ البتہ اہل ایمان کو لڑنے کے لیے اُکساؤ، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے۔ 85 - جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصّہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصّہ پائے گا، 113اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے۔ 86 - اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح ،114 اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔ 87 - اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے۔115 ؏۱۱


Notes

107. اس آیت کے تین مفہُوم ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں:

ایک مفہُوم یہ ہے کہ پہلے یہ لوگ خود جنگ کے لیے بے تاب تھے۔ بار بار کہتے تھے کہ صاحب ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے، ہمیں ستایا جا تا ہے ، مارا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں، آخر ہم کب تک صبر کریں، ہمیں مقابلہ کی اجازت دی جائے۔ اُس وقت ان سے کہا جاتا تھا کہ صبر کرو اور نماز و زکوٰۃ سے ابھی اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو، تو یہ صبر و برداشت کا حکم ان پر شاق گزرتا تھا ۔ مگر اب جو لڑائی کا حکم دے دیا گیا تو انہی تقاضا کرنے والوں میں سے ایک گروہ دشمنوں کا ہجوم اور جنگ کے خطرات دیکھ دیکھ کر سہما جا رہا ہے۔

دوسرا مفہُوم یہ ہے کہ جب تک مطالبہ نماز اور زکوٰۃ اور ایسے ہی بے خطر کاموں کا تھا اور جانیں لڑانے کا کوئی سوال درمیان میں نہ آیا تھا یہ لوگ پکّے دیندار تھے۔ مگر اب جو حق کی خاطر جان جوکھوں کا کام شروع ہوا تو ان پر لرزہ طاری ہونے لگا۔

تیسرا مفہُوم یہ ہے کہ پہلے تو لُوٹ کھسُوٹ اور نفسانی لڑائیوں کے لیے ان کی تلوار ہر وقت نیام سے نکلی پڑتی تھی اور رات دن کا مشغلہ ہی جنگ و پیکار تھا۔ اُس وقت انہیں خونریزی سے ہاتھ روکنے اور نماز و زکوٰۃ سے نفس کی اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب جو خدا کے لیے تلوار اُٹھانے کا حکم دیا گیا تو وہ لوگ جو نفس کی خاطر لڑنے میں شیر دل تھے، خدا کی خاطر لڑنے میں بُزدل بنے جاتے ہیں۔ وہ دستِ شمشیر زن جو نفس اور شیطان کی راہ میں بڑی تیزی دکھاتا تھا اب خدا کی راہ میں شل ہوا جاتا ہے۔

یہ تینوں مفہُوم مختلف قسم کے لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں اور آیت کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ تینوں پر یکساں دلالت کرتے ہیں۔

108. یعنی اگر تم خدا کے دین کی خدمت بجا لاؤ اور اس کی راہ میں جانفشانی دکھاؤ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کے ہاں تمہارا اجر ضائع ہو جائے۔

109. یعنی جب فتح و ظفر اور کامیابی و سُر خروئی نصیب ہو تی ہے تو اسے اللہ کا فضل قرار دیتے ہیں اور بھُول جاتے ہیں کہ اللہ نے ان پر یہ فضل نبی ہی کے ذریعہ سے فرمایا ہے ۔ مگر جب خود اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے سبب سے کہیں شکست ہوتی ہے اور بڑھتے ہوئے قدم پیچھے پڑنے لگتے ہیں تو سارا الزام نبی کے سر تھوپتے ہیں اور خود بَری الذّمّہ ہونا چاہتے ہیں۔

110. یعنی اپنے عمل کے یہ خود ذمّہ دار ہیں۔ ان کے اعمال کی باز پُرس تم سے نہ ہوگی۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ اللہ کے احکام و ہدایات ان تک پہنچا دو۔ یہ کام تم نے بخوبی انجام دے دیا۔ اب یہ تمہارا کام نہیں ہے کہ ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی راہِ راست پر چلاؤ۔ اگر یہ اُس ہدایت کی پیروی نہ کریں جو تمہارے ذریعہ سے پہنچ رہی ہے، تو اس کی کوئی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ کیوں نافرمانی کرتے تھے۔

111. منافق اور ضعیف الایمان لاگوں کی جس روش پر اُوپر کی آیتوں میں تنبیہہ کی گئی ہے اس کی بڑی اور اصلی وجہ یہ تھی کہ انہیں قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں شک تھا۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ رسُول پر واقعی وحی اُتر تی ہے اور یہ جو کچھ ہدایات آرہی ہیں۔ اسی لیے ان کی منافقانہ روش پر ملامت کرنے کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ قرآن پر غور ہی نہیں کرتے ورنہ یہ کلام تو خود شہادت دے رہا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی دُوسرے کا کلام ہو نہیں سکتا۔ کوئی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ سالہا سال تک وہ مختلف حالات میں ، مختلف مواقع پر، مختلف مضامین پر تقریریں کرتا رہے اور اوّل سے آخر تک اس کی ساری تقریریں ایسا ہموار، یک رنگ ، متناسب مجمُوعہ بن جائیں جس کا کوئی جزء دُوسرے جزء سے متصادم نہ ہو ، جس میں تبدیلی رائے کا کہیں نشان تک نہ ملے، جس میں متکلّم کے نفس کی مختلف کیفیات اپنے مختلف رنگ نہ دکھائیں ، اور جس پر کبھی نظر ثانی تک کی ضرورت نہ پیش آئے۔

112. وہ چونکہ ہنگامہ کا موقعہ تھا اس لیے ہر طرف افواہیں اُڑ رہی تھیں۔ کبھی خطرے کی بے بنیاد مبالغہ آمیز اطلاعیں آتیں اور ان سے یکایک مدینہ اور اس کے اطراف میں پریشانی پھیل جاتی ۔ کبھی کوئی چالاک دشمن کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے اطمینان بخش خبریں بھیج دیتا اور لوگ انہیں سُن کر غفلت میں مبتلا ہوجاتے۔ ان افواہوں میں وہ لوگ بڑی دلچسپی لیتے تھے جو محض ہنگامہ پسند تھے، جن کے لیے اسلام اور جاہلیت کا یہ معرکہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہ تھا، جنہیں کچھ خبر نہ تھی کہ اس قسم کی غیر ذمّہ دارانہ افواہیں پھیلانے کے نتائج کس قدر دُور رس ہوتے ہیں۔ ان کے کان میں جہاں کوئی بھنک پڑجاتی ہے اسے لے کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے تھے۔ انہی لوگوں کو اس آیت میں سرزنش کی گئی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور ہر خبر جو اُن کو پہنچے اسے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا کر خاموش ہو جائیں۔

113. یعنی یہ اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا نصیب ہے کہ کوئی خدا کی راہ میں کوشش کرنے اور حق کو سربلند کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارے اور اس کا اجر پائے ، اور کوئی خدا کے بندوں کو غلط فہمیوں میں ڈالنے اور ان کی ہمتیں پست کرنے اور انہیں اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی و جہد سے باز رکھنے میں اپنی قوت صرف کرے ، اور اس کی سزا کا مستحق بنے۔

114. اُس وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو رہے تھے، اور جیسا کہ تعلقات کی کشیدگی میں ہو اکرتا ہے ، اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ کج خُلقی سے نہ پیش آنے لگیں۔ اس لیے انہیں ہدایت کی گئی کہ جو تمہارے ساتھ احترام کا برتاؤ کرے اس کے ساتھ تم بھی ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ احترام سے پیش آؤ۔ شائستگی کا جواب شائستگی ہی ہے، بلکہ تمہارا منصب یہ ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر شائستہ بنو۔ ایک داعی و مبلغ گروہ کے لیے، جو دنیا کو راہِ راست پر لانے اور مسلک حق کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھا ہو، درشت مزاجی ، ترش رُوئی اور تلخ کلامی مناسب نہیں ہے۔ اس سے نفس کی تسکین تو ہو جاتی ہے مگر اُس مقصد کو الٹا نقصان پہنچتا ہے جس کے لیے وہ اُٹھا ہے۔

115. یعنی کافر اور مشرک اور ملحد اور دہریے جو کچھ کر رہے ہیں اس سے خدا کی خدائی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اُس کا خدائے واحد اور خدائے مطلق ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی کے بدلے بدل نہیں سکتی۔ پھر ایک دن وہ سب انسانوں کو جمع کر کے ہر ایک کو اس کے عمل کا نتیجہ دکھا دے گا۔ اس کی قدرت کے احاطہ سے بچ کر کوئی بھاگ بھی نہیں سکتا۔ لہٰذا خدا ہر گز اس بات کا حاجت مند نہیں ہے کہ اس کی طرف سے کوئی اس کے باغیوں پر جلے دل کا بخار نکالتا پھرے اور کج خُلقی و ترش کلامی کوزخمِ دل کا مرہم بنائے۔

یہ تو اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے ۔ لیکن یہی آیت اس پورے سلسلۂ کلام کا خاتمہ بھی ہے جو پچھلے دو تین رکوعوں سے چلا آرہا ہے۔ اس حیثیت سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو شخص جس طریقے پر چاہے چلتا رہے اور جس راہ میں اپنی کوشش اور محنتیں صرف کرنا چاہتا ہے کیے جائے ، آخرکار سب کو ایک دن اس خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پھر ہر ایک اپنی سعی و عمل کے نتائج دیکھ لے گا۔