116. یہاں اُن منافق مسلمانوں کے مسئلہ سے بحث کی گئی ہے جو مکہ میں اور عرب کے دُوسرے حصّوں میں اسلام تو قبول کر چکے تھے ، مگر ہجرت کر کے دارالاسلام کی طرف منتقل ہونے کے بجائے بدستور اپنی کافر قوم ہی کے ساتھ رہتے بستے تھے، اور کم و بیش اُن تمام کارروائیوں میں عملاً حصہ لیتے تھے جو ان کی قوم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتی تھی۔ مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ سخت پیچیدہ تھا کہ ان کے ساتھ آخر کیا معاملہ کیا جائے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ کچھ بھی ہو، آخر یہ ہیں تو مسلمان ہی۔ کلمہ پڑھتے ہیں ، نماز ادا کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کفار کا سا معاملہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں اسی اختلاف کا فیصلہ فرمایا ہے۔
اس موقع پر ایک بات کو واضح طور پر سمجھ لینا ضروری ہے، ورنہ اندیشہ ہے کہ نہ صرف اس مقام کو ، بلکہ قرآن مجید کے اُن تمام مقامات کو سمجھنے میں آدمی ٹھوکر کھائے گا جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کو منافقین میں شمار کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ٔ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی اور ایک چھوٹا سا خطہ عرب کی سرزمین میں ایسا بہم پہنچ گیا جہاں ایک مومن کے لیے اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا ممکن تھا ، تو عام حکم دے دیا گیا کہ جہاں جہاں ، جس جس علاقے اور جس جس قبیلےمیں اہل ایمان کفار سے دبے ہوئے ہیں اور اسلامی زندگی بسر کرنے کی آزادی نہیں رکھتے، وہاں سے وہ ہجرت کر یں اور مدینہ کے دارالاسلام میں آجائیں۔ اُس وقت جو لوگ ہجرت کی قدرت رکھتے تھے اور پھر صرف اس لیے اُٹھ کر نہ آئے کہ انہیں اپنے گھر بار، اعزہ و اقربا اور اپنے مفادات اسلام کی بہ نسبت عزیز تر تھے ، وہ سب منافقین قرار دیے گئے۔ اور جو لوگ حقیقت میں بالکل مجبور تھے، ان کو ” مُسْتَضْعَفِیٔن“ میں شمار کیا گیا، جیسا کہ آگے رکوع ۱۴ میں آرہا ہے۔
اب یہ ظاہر ہے کہ دارالکفر کے رہنے والے کسی مسلمان کو محض ہجرت نہ کرنے پر منافق صرف اس صورت میں کہا جا سکتا ہے جبکہ دارالاسلام کی طرف سے ایسے تمام مسلمانوں کو یا تو دعوت ِ عام ہو، یا کم از کم اس نے ان کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوں۔ اس صورت میں بلاشبہہ وہ سب مسلمان منافق قرار پائیں گے جو دار الکفر کو دارالاسلام بنانے کی کوئی سعی بھی نہ کر رہے ہوں، اور استطاعت کے باوجود ہجرت بھی نہ کریں۔ لیکن اگر دارالاسلام کی طرف سے نہ دعوت ہی ہو اور نہ اس نے اپنے دروازے ہی مہاجرین کے لیے کھلے رکھے ہوں، تو اس صُورت میں صرف ہجرت نہ کرنا کسی شخص کو منافق نہ بنا دے گا بلکہ وہ منافق صرف اُس وقت کہلائے گا جبکہ فی الواقع کوئی منافقانہ کام کرے۔
117. یعنی جس دورنگی اور مصلحت پرستی اور ترجیحِ دنیا بر آخرت کا اکتساب انہوں نے کیا ہے اس کی بدولت اللہ نے انہیں اسی طرف پھیر دیا ہے جس طرف سے یہ آئے تھے۔ انہوں نے کفر سے نکل کر اسلام کی طرف پیش قدمی کی تو ضرور تھی ، مگر اس سرحد میں آنے اور ٹھیرنے کے لیے یکسُو ہو جانے کی ضرورت تھی، ہر اُس مفاد کو قربان کر دینے کی ضرورت تھی جو اسلام و ایمان کے مفاد سے ٹکراتا ہو، اور آخرت پر ایسے یقین کی ضرورت تھی جس کی بنا پر آدمی اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کو قربان کر سکتا ہو۔ یہ ان کو گوارا نہ ہوا اس لیے جدھر سے آئے تھے اُلٹے پاؤں اُدھر ہی واپس چلے گئے۔ اب ان کے معاملہ میں اختلاف کا کونسا موقع باقی ہے؟
118. یہ حکم اُن منافق مسلمانوں کا ہے جو برسرِ جنگ کا فر قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور اسلامی حکومت کے خلاف معاندانہ کارروائیوں میں عملاً حصہ لیں۔
119. یہ استثناء اِس حکم سے نہیں ہے کہ”انہیں دوست اور مددگار نہ بنایا جائے“، بلکہ اِس حکم سے ہے کہ ”انہیں پکڑا اور مارا جائے“۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ واجب القتل منافق کسی ایسی کافر قوم کے حدود میں جا پناہ لیں جس کے ساتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو چکا ہو، تو اس کے علاقے میں ان کا تعاقب نہیں کیا جائے گا اور نہ یہی جائز ہوگا کہ دارالاسلام کا کوئی مسلمان غیر جانبدار ملک میں کسی واجب القتل منافق کو پائے اور اسے مار ڈالے۔ احترام دراصل منافق کے خون کا نہیں بلکہ معاہدے کا ہے۔