120. :یہاں اُن منافق مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے جن کے قتل کی اوپر اجازت دی گئی ہے، بلکہ اُن مسلمانوں کا ذکر ہے جو یا تو دار الاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر دارالحرب یا دارالکفر میں بھی ہوں تو دشمنانِ اسلام کی کارروائیوں میں اُن کی شرکت کا کوئی ثبوت نہ ہو۔ اُس وقت بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی حقیقی مجبوریوں کی بنا پر دشمن اسلام قبیلوں کے درمیان ٹھیرے ہوئے تھے۔ اور اکثر ایسے اتفاقات پیش آجاتے تھے کہ مسلمان کسی دشمن قبیلہ پر حملہ کرتے اور وہاں نادانستگی میں کوئی مسلمان ان کے ہاتھ سے مارا جاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں اس صُورت کا حکم بیان فرمایا ہے جبکہ غلطی سے کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جائے۔
121. چونکہ مقتول مومن تھا اس لئے اس کے قتل کا کفارہ ایک مومن غلام کی آزادی قرار دیا گیا۔
122. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوں بہا کی مقدار سو اونٹ ، یا دوسو گائیں ، یا دو ہزار بکریاں مقرر فرمائی ہے۔ اگر دوسری کسی شکل میں کوئی شخص خوں بہا دینا چاہے تو اس کی مقدار انہی چیزوں کی بازاری قیمت کے لحاظ سے معَیّن کی جائے گی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نقد خوں بہا دینے والوں کے لیے ۸ سو دینار یا ۸ ہزار درہم مقرر تھے۔ جب حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو انہوں نے فرمایا کہ اونٹوں کی قیمت اب چڑھ گئی ہے ، لہٰذا اب سونے کے سکے میں ایک ہزار دینار، یا چاندی کے سکے مین ۱۲ ہزار درہم خوں بہا دِلوایا جائے گا۔ مگر واضح رہے کہ خوں بہا کی یہ مقدار جو مقرر کی گئی ہے قتلِ عمد کی صورت کے لیے نہیں ہے بلکہ قتل ِ خطا کی صُورت کے لیے ہے۔
123. اس آیت کے احکام کا خلاصہ یہ ہے:
اگر مقتول دارالاسلام کا باشندہ ہوتو اس کے قاتل کو خوں بہا بھی دینا ہوگا اور خدا سے اپنے قصور کی معافی مانگنے کے لیے ایک غلام بھی آزاد کرنا ہوگا۔
اگر وہ دارالحرب کا باشندہ ہو تو قاتل کو صرف غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس کا خوں بہا کچھ نہیں ہے۔
اگر وہ کسی ایسے دارالکفر کا باشندہ ہو جس سے اسلامی حکومت کا معاہدہ ہے تو قاتل کو ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ خوں بہا بھی دینا ہوگا، لیکن خوں بہا کی مقدار وہی ہوگی جتنی اُس معاہد قوم کے کسی غیر مسلم فرد کو قتل کردینے کی صورت میں ازروئے معاہدہ دی جانی چاہیے۔
124. یعنی روزے مسلسل رکھے جائیں ، بیچ میں ناغہ نہ ہو۔ اگر کوئی شخص عذر شرعی کے بغیر ایک روزہ بھی بیچ میں چھوڑ دے تو ازسرِ نو روزوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا۔
125. یعنی یہ”جُرمانہ“نہیں بلکہ”توبہ“ اور ”کَفّارہ“ ہے۔ جرمانہ میں ندامت و شرمساری اور اصلاحِ نفس کی کوئی روح نہیں ہوتی بلکہ عموماً وہ سخت ناگواری کے ساتھ مجبوراً دیا جاتا ہے اور بیزاری و تلخی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ برعکس اس کے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس بندے سے خطا ہوئی ہو وہ عبادت اور کارِ خیر اور ادائے حقوق کے ذریعہ سے اس کا اثر اپنی رُوح پر سے دھودے، اور شرمساری و ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے ، تاکہ نہ صرف یہ گناہ معاف ہو بلکہ آئندہ کے لیے اس کا نفس ایسی غلطیوں کے اعادہ سے بھی محفوظ رہے۔ کفارہ کے لغوی معنی ہیں”چھپانے والی چیز“۔ کسی کارِ خیر کو گناہ کا ”کفارہ“قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیکی اُس گناہ پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانک لیتی ہے، جیسے کسی دیوار پر داغ لگ گیا ہو اور اس پر سفیدی پھیر کر داغ کا اثر مٹا دیا جائے۔
126. ابتدائے اسلام میں”السلام علیکم“ کا لفظ مسلمانوں کے لیے شعار اور علامت کی حیثیت رکھتا تھا اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دیکھ کر یہ لفظ اس معنی میں استعمال کرتا تھا کہ میں تمہارے ہی گروہ کا آدمی ہوں، دوست اور خیر خواہ ہوں ، میرے پاس تمہارے لیے سلامتی و عافیت کے سوا کچھ نہیں ہے، لہٰذا نہ تم مجھ سے دُشمنی کرو اور نہ میری طرف سے عداوت اور ضرر کا اندیشہ رکھو۔ جس طرح فوج میں ایک لفظ شِعار(Password) کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے اور رات کے وقت ایک فوج کے آدمی ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ فوجِ مخالف کے آدمیوں سے ممیز ہوں، اسی طرح سلام کا لفظ بھی مسلمانوں میں شعار کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ خصوصیّت کے ساتھ اُس زمانہ میں اس شعار کی اہمیت اس وجہ سے اَور بھی زیادہ تھی کہ اس وقت عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس، زبان اور کسی دوسری چیز میں کوئی نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی وجہ سے ایک مسلمان سرسری نظر میں دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو۔
لیکن لڑائیوں موقع پر ایک پیچیدگی یہ پیش آتی تھی کہ مسلمان جب کسی دشمن گروہ پر حملہ کرتے اور وہاں کوئی مسلمان اس لپیٹ میں آجاتا تو وہ حملہ آور مسلمانوں کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ بھی ان کا دینی بھائی ہے ” السّلام علیکم“ یا ”لا الٰہ الا اللہ“ پکارتا تھا، مگر مسلمانوں کو اس پر یہ شبہہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی کافر ہے جو محض جان بچانے کے لیے حیلہ کر رہا ہے، اس لیے بسا اوقات وہ اسے قتل کر بیٹھتے تھے اور اس کی چیزیں غنیمت کے طور پر لوٹ لیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہرموقع پر نہایت سختی کے ساتھ سرزنش فرمائی۔ مگر اس قسم کے واقعات برابر پیش آتے رہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس پیچیدگی کو حل کیا۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اس کے متعلق تمہیں سرسری طور پر یہ فیصلہ کر دینے کا حق نہیں ہے کہ وہ محض جان بچانے کے لیے جھوٹ بو ل رہا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سچا ہو اور ہو سکتا ہے کہ جھوٹا ہو۔ حقیقت تو تحقیق ہی سے معلوم ہو سکتی ہے۔ تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر جان بچالے جائے، تو قتل کر دینے میں اس کا امکان بھی ہے کہ ایک مومن بے گناہ تمہارے ہاتھ سے مارا جائے ۔ اور بہر حال تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو۔
127. یعنی ایک وقت تم پر بھی ایسا گزر چکا ہے کہ انفرادی طور پر مختلف کافر قبیلوں میں منتشر تھے، اپنے اسلام کو ظلم و ستم کے خوف سے چھپانے پر مجبور تھے ، اور تمہارے پاس ایمان کے زبانی اقرار کے سوا اپنے ایمان کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا۔ اب یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تم کو اجتماعی زندگی عطا کی اور تم اس قابل ہوئے کہ کفار کے مقابلہ میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اُٹھے ہو۔ اس احسان کا یہ کوئی صحیح شکریہ نہیں ہے کہ جو مسلمان ابھی پہلی حالت میں مبتلا ہیں ان کے ساتھ تم نرمی و رعایت سے کام نہ لو۔
128. یہاں اُن بیٹھنے والوں کا ذکر نہیں ہے جن کو جہاد پر جانے کا حکم دیا جائے اور وہ بہانے کر کے بیٹھ رہیں، یا نفیرِ عام ہو اور جہاد فرضِ عین ہو جائے پھر بھی وہ جنگ پر جانے سے جی چرائیں۔ بلکہ یہاں ذکر اُن بیٹھنے والوں کا ہے جو جہاد کے فرضِ کفایہ ہونے کی صورت میں میدانِ جنگ کی طرف جانے کے بجائے دوسرے کاموں میں لگے رہیں ۔ پہلی دو صورتوں میں جہاد کے لیے نہ نکلنے والا صرف منافق ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اللہ کی طرف سے کسی بھلائی کا وعدہ نہیں ہے اِلّا یہ کہ وہ کسی حقیقی معذوری کا شکار ہو۔ بخلاف اس کے یہ آخری صورت ایسی ہے جس میں اسلامی جماعت کی پوری فوجی طاقت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ محض اس کا ایک حصہ مطلوب ہوتا ہے ۔ اس صورت میں اگر امام کی طرف سے اپیل کی جائے کہ کون سرباز ہیں جو فلاں مہم کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، تو جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں وہ افضل ہیں بہ نسبت اُن کے جو دوسرے کاموں میں لگے رہیں ، خواہ وہ دوسرے کام بھی بجائے خود مفید ہی ہوں۔