Tafheem ul Quran

Surah 4 An-Nisa, Ayat 97-100

اِنَّ الَّذِيۡنَ تَوَفّٰٮهُمُ الۡمَلٰٓـئِكَةُ ظَالِمِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ قَالُوۡا فِيۡمَ كُنۡتُمۡ​ؕ قَالُوۡا كُنَّا مُسۡتَضۡعَفِيۡنَ فِىۡ الۡاَرۡضِ​ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَكُنۡ اَرۡضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوۡا فِيۡهَا​ؕ فَاُولٰٓـئِكَ مَاۡوٰٮهُمۡ جَهَـنَّمُ​ؕ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا ۙ‏ ﴿4:97﴾ اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ حِيۡلَةً وَّلَا يَهۡتَدُوۡنَ سَبِيۡلًا ۙ‏ ﴿4:98﴾ فَاُولٰٓـئِكَ عَسَى اللّٰهُ اَنۡ يَّعۡفُوَ عَنۡهُمۡ​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوۡرًا‏ ﴿4:99﴾ وَمَنۡ يُّهَاجِرۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يَجِدۡ فِى الۡاَرۡضِ مُرٰغَمًا كَثِيۡرًا وَّسَعَةً​ ؕ وَمَنۡ يَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَيۡتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ ثُمَّ يُدۡرِكۡهُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِ​ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿4:100﴾

97 - جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے129 اُن کی رُوحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مُبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ 130یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ 98 - ہاں جو مرد، عورتیں اور بچّے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے، 99 - بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کردے، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ 100 - جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا، اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسُول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستہ ہی میں اُسے موت آجائے اُس کا اجر اللہ کے ذمّے واجب ہوگیا، اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے۔131 ؏۱۴


Notes

129. مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ابھی تک بلا کسی مجبوری و معذوری کے اپنی کافر قوم ہی کے درمیان مقیم تھے اور نیم مسلمانہ اور نیم کافرانہ زندگی بسر کرنے پر راضی تھے، درآنحالیکہ ایک دارالاسلام مہیا ہو چکا تھا جس کی طرف ہجرت کر کے اپنے دین و اعتقاد کے مطابق پوری اسلامی زندگی بسر کرنا ان کے لیے ممکن ہو گیا تھا۔ یہی ان کا اپنے نفس پر ظلم تھا کیونکہ ان کو پوری اسلامی زندگی کے مقابلہ میں اس نیم کفر و نیم اسلام پر جس چیز نے قانع و مطمئن کر رکھا تھا وہ کوئی واقعی مجبوری نہ تھی، بلکہ محض اپنے نفس کے عیش اور اپنے خاندان ، اپنی جائیداد و املاک اور اپنے دنیوی مفاد کی محبت تھی جسے انہوں نے اپنے دین پر ترجیح دی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱۶)

130. یعنی جب ایک جگہ خدا کے باغیوں کا غلبہ تھا اور خدا کے قانون شرعی پر عمل کرنا ممکن نہ تھا تو وہاں رہنا کیا ضرور تھا؟ کیوں نہ اس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسی سرزمین کی طرف منتقل ہوگئے جہاں قانونِ الہٰی کی پیروی ممکن ہوتی؟

131. (یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص اللہ کے دین پر ایمان لایا ہو اس کے لیے نظامِ کفر کے تحت زندگی بسر کرنا صرف دو ہی صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اسلام کو اس سرزمین میں غالب کرنے اور نظامِ کفر کو نظامِ اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا رہے جس طرح انبیاء علیہم السلام اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں۔ دُوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اور سخت نفرت و بیزاری کے ساتھ وہاں مجبورانہ قیام رکھتا ہو۔ ان دو صورتوں کے سوا ہر صُورت میں دار الکفر کا قیام ایک مستقل معصیت ہے اور اس معصیت کے لیے یہ عذر کوئی بہت وزنی عذر نہیں ہے کہ ہم دنیا میں کوئی ایسا دارالاسلام پاتے ہی نہیں ہیں جہاں ہم ہجرت کر کے جا سکیں۔ اگر کوئی دارالاسلام موجود نہیں ہے تو کیا خدا کی زمین میں کوئی پہاڑ یا کوئی جنگل بھی ایسا نہیں ہے جہاں آدمی درختوں کے پتے کھا کر اور بکریوں کا دودھ پی کر گزر کر سکتا ہو اور احکامِ کفر کی اطاعت سے بچا رہے؟

بعض لوگوں کو ایک حدیث سے غلط فہمی ہوئی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ لا ھجرۃ بعد الفتح، یعنی فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے۔ حالانکہ دراصل یہ حدیث کوئی دائمی حکم نہیں ہے بلکہ صرف اُس وقت کے حالات میں اہلِ عرب سے ایسا فرمایا گیا تھا۔ جب تک عرب کا بیشتر حصہ دارالکفر و دارالحرب تھا اور صرف مدینہ و اطراف مدینہ میں اسلامی احکام جاری ہو رہے تھے، مسلمانوں کے لیے تاکیدی حکم تھا کہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں۔ مگر جب فتح مکہ کے بعد عرب میں کفر کا زور ٹوٹ گیا اور قریب قریب پورا ملک اسلام کے زیر نگیں آگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ہجرت کی حاجت باقی نہیں رہی ہے۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے تمام حالات میں قیامت تک کے لیے ہجرت کی فرضیت منسوخ ہو گئی ہے۔