1. یہ تقریر کی تمہید ہے جس کے ذریعہ سے سامعین کو پہلے ہی خبردار کر دیا گیا ہے کہ یہ کلام جو اُن کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کسی معمولی ہستی کا کلام نہیں ہے، بلکہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔پھر پے در پے اللہ تعالیٰ کی چند صفات بیان کی گئی ہیں جو آگے کے مضمون سے گہری مناسبت رکھتی ہیں :
اوّل یہ کہ وہ’’ زبردست‘‘ ہے، یعنی سب پر غالب ہے۔ اس کا جو فیصلہ بھی کسی کے حق میں ہو، نافذ ہو کر رہتا ہے، کوئی اس سے لڑ کر جیت نہیں سکتا، نہ اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے فرمان سے منہ موڑ کر اگر کوئی شخص کامیابی کی توقع رکھتا ہو، اور اس کے رسول سے جھگڑا کر کے یہ امید رکھتا ہو کہ وہ اسے نیچا دکھا دے گا، تو یہ اس کی اپنی حماقت ہے۔ ایسی توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔
دوسری صفت یہ کہ وہ ’’ سب کچھ جاننے والا ‘‘ ہے۔ یعنی وہ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی بات نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کا براہ راست علم رکھتا ہے، اس لیے ماورائے حسّ و ادراک حقیقتوں کے متعلق جو معلومات وہ دے رہا ہے، صرف وہی صحیح ہو سکتی ہیں،اور ان کو نہ ماننے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خواہ مخواہ جہالت کی پیروی کرے۔ اسی طرح وہ جانتا ہے کہ انسان کی فلاح کس چیز میں ہے اور کون سے اصول و قوانین اور احکام اس کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی ہر تعلیم حکمت اور علم صحیح پر مبنی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اُس کی ہدایات کو قبول نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود اپنی تباہی کے راستے پر جانا چاہتا ہے۔ پھر انسانوں کی حرکات و سکنات میں سے کوئی چیز اُس سے چھپی نہیں رہ سکتی، حتّیٰٰ کہ وہ ان نیتوں اور ارادوں تک کو جانتا ہے۔ جو انسانی افعال کے اصل محرک ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان کسی بہانے اس کی سزا سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔
تیسری صفت یہ کہ وہ ’’ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے ‘‘۔ یہ امید اور ترغیب دلانے والی صفت ہے جو اس غرض سے بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں وہ مایوس نہ ہوں، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظر ثانی کریں کہ اگر اب بھی وہ اس روش سے باز آ جائیں تو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتے ہیں۔ اس جگہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ گناہ معاف کرنا اور توبہ قبول کرنا لازماً ایک ہی چیز کے دو عنوان نہیں ہیں، بلکہ بسا اوقات توبہ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں گناہوں کی معافی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک شخص خطائیں بھی کرتا رہتا ہے اور نیکیاں بھی، اور اس کی نیکیاں اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، خواہ اُسے ان خطاؤں پر توبہ و استغفار کرنے کا موقع نہ ملا ہو، بلکہ وہ انہیں بھول بھی چکا ہو۔ اسی طرح ایک شخص پر دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں اور مصیبتیں اور بیماریاں اور طرح طرح کی رنج و غم پہنچانے والی آفات آتی ہیں، وہ سب اس کی خطاؤں کا بدل بن جاتی ہیں۔ اسی بنا پر گناہوں کی معافی کا ذکر توبہ قبول کرنے سے الگ کیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ توبہ کے بغیر خطا بخشی کی یہ رعایت صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور اہل ایمان میں بھی صرف اُن کے لیے جو سرکشی و بغاوت کے ہر جذبے سے خالی ہوں اور جن سے گناہوں کا صدور بشری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہو نہ کہ استکبار اور معصیت پر اصرار کی بنا پر۔
چوتھی صفت یہ کہ وہ ’’ سخت سزا دینے والا‘‘ ہے۔ اس صفت کا ذکر کر کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ جتنا رحیم ہے، بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے اتنا ہی سخت ہے۔جب کوئی شخص یا گروہ اُن تمام حدوں سے گزر جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے درگزر اور اس کی خطا بخشی کا مستحق ہو سکتا ہے، تو پھر وہ اس کی سزا کا مستحق بنتا ہے، اور اس کی سزا ایسی ہولناک ہے کہ صرف ایک احمق انسان ہی اُس کو قابل برداشت سمجھ سکتا ہے۔
پانچویں صفت یہ کہ وہ ’’ صاحب فضل ‘‘ ہے، یعنی کشادہ دست، غنی اور فیاض ہے۔ تمام مخلوقات پر اس کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی ہمہ گیر بارش ہر آن ہو رہی ہے۔ بندوں کو جو کچھ بھی مل رہا ہے اُسی کے فضل و کرم سے مل رہا ہے۔
ان پانچ صفات کے بعد دو حقیقتیں واشگاف طریقہ سے بیان کر دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ معبود فی الحقیقت اُس کے سوا کوئی نہیں ہے، خواہ لوگوں نے کتنے ہی دوسرے جھوٹے معبود بنا رکھے ہوں۔ دوسری یہ کہ جانا سب کو آخر کار اسی کی طرف ہے۔ کوئی دوسرا معبود لوگوں کے اعمال کا حساب لینے والا اور ان کی جزا و سزا کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر اگر کوئی دوسروں کو معبود بنائے گا تو اپنی اس حماقت کا خمیازہ خود بھگتے گا۔
2. جھگڑا کرنے سے مراد ہے کج بحثیاں کرنا۔ مین میخ نکالنا۔ الٹے سیدھے اعتراضات جڑنا۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی ایک لفظ یا فقرہ لے اُڑانا اور اس سے طرح طرح کے نکتے پیدا کر کے شبہات و الزامات کی عمارتیں کھڑی کرنا۔ کلام کے اصل مدعا کو نظر انداز کر کے اس کو غلط معنی پہنانا تاکہ آدمی نہ خود بات کو سمجھے نہ دوسروں کو سمجھنے دے۔ یہ طرز اختلاف لازماً صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا اختلاف بد نیتی پر مبنی ہوتا ہے۔ نیک نیت مخالف اگر بحث کرتا بھی ہے تو تحقیق کی غرض سے کرتا ہے اور اصل مسائل زیر بحث پر گفتگو کر کے یہ اطمینان کرنا چاہتا ہے کہ ان مسائل میں اس کا اپنا نقطہ نظر درست ہے یا فریق مخالف کا۔ اس قسم کی بحث حق معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے۔ بخلاف اس کے بد نیت مخالف کا اصل مقصد سمجھنا اور سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ فریق ثانی کو زک دینا اور زچ کرنا چاہتا ہے اور بحث کے میدان میں اس لیے اُترتا ہے کہ دوسرے کی بات کسی طرح چلنے نہیں دینی ہے۔ اسی وجہ سے وہ کبھی اصل مسائل کا سامنا نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اطراف ہی میں چھاپے مارتا رہتا ہے۔
3. ’’ کفر‘‘ کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک کفران نعمت۔دوسرے انکار حق۔پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اس کے احسانات کو بھول گئے ہیں اور جنہیں یہ احساس نہیں رہا ہے کہ اسی کی نعمتیں ہیں جن کے بل پر وہ پل رہے ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یہ طرز عمل صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جنہوں نے حق سے منہ موڑ لیا ہے اور اسے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کفر کرنے والے سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو۔ اس لیے کہ جو غیر مسلم اسلام کو سمجھنے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ بحث کرے اور تحقیق کی غرض سے وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرے جن کے سمجھنے میں اسے زحمت پیش آ رہی ہو، اگرچہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تک اصطلاحاً ہوتا وہ بھی کافر ہی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر وہ بات راست نہیں آتی جس کی اس آیت میں مذمت کی گئی ہے۔
4. پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ فحوائے کلام سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اللہ عزّوجلّ کی آیات کے مقابلے میں جو لوگ جھگڑا لو پن کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں، وہ سزا سے کبھی بچ نہیں سکتے۔ لامحالہ ایک نہ ایک روز ان کی شامت آنی ہے۔ اب اگر تم دیکھ رہے ہو کہ وہ لوگ یہ سب کچھ کر کے بھی خدا کی زمین میں اطمینان سے دندناتے پھر رہے ہیں، اور ان کے کاروبار خوب چمک رہے ہیں، اور ان کی حکومتیں بڑی شان سے چل رہی ہیں، اور وہ خوب داد عیش دے رہے ہیں، تو اس دھوکے میں نہ پڑ جاؤ کہ وہ خدا کی پکڑ سے بچ نکلے ہیں، یا خدا کی آیات سے جنگ کوئی کھیل ہے جسے تفریح کے طور پر کھیلا جا سکتا ہے اور اس کا کوئی بُرا نتیجہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کو کبھی نہ دیکھنا پڑے گا۔ یہ تو دراصل ایک مہلت ہے جو خدا کی طرف سے ان کو مل رہی ہے۔ اس مہلت سے غلط فائدہ اٹھا کر جو لوگ جس قدر زیادہ شرارتیں کرتے ہیں ان کی کشتی اسی قدر زیادہ بھر کر ڈوبتی ہے۔
5. یعنی دنیا میں جو عذاب اُن پر آیا وہ ان کی آخری سزا نہ تھی بلکہ اللہ نے یہ فیصلہ بھی ان کے حق میں کر دیا ہے کہ ان کو واصل بجہنم ہونا ہے۔ ایک دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح پچھلی قوموں کی شامت آچکی ہے اسی طرح اب جو لوگ کفر کر رہے ہیں ان کے حق میں بھی اللہ کا یہ فیصلہ طے شدہ ہے کہ وہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں۔
6. یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفار مکہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں، اور ان کے مقابلہ میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو، تمہارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الہیٰ کے حامل فرشتے، اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمہارے حامی ہیں اور تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجائے عرش الٰہی کے حامل اور اس کے گردو پیش رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوند ی کے عام اہل کار تو درکنار وہ ملائکۂ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنہیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے، تمہارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔پھر یہ جو فرمایا گیا کہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے اُن خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انہی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے، مگر انہوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ وہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں، کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انہیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سر اطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِ مقام کے باوجود ان کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہو گیا۔
7. یعنی اپنے بندوں کی کمزوریاں اور لغزشیں اور خطائیں تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، بے شک تو سب کچھ جانتا ہے مگر تیرے علم کی طرح تیرا دامن رحمت بھی تو وسیع ہے، اس لیے ان کی خطاؤں کو جاننے کے باوجود ان غریبوں کو بخش دے۔دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بربنائے رحمت ان سب لوگوں کو بخش دے جن کو بربنائے علم تو جانتا ہے کہ انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہے فی الواقع تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔
8. معاف کرنا اور عذاب دوزخ سے بچا لینا اگرچہ صریحاً لازم و ملزوم ہیں اور ایک بات کا ذکر کر دینے کے بعد دوسری بات کہنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ لیکن اس طرز بیان سے دراصل اہل ایمان کے ساتھ فرشتوں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ کسی معاملے میں جس شخص کے دل کو لگی ہوئی ہوتی ہے وہ جب حاکم سے گزارش کرنے کا موقع پا لیتا ہے تو پھر وہ اِلحاح کے ساتھ ایک ہی درخواست کو بار بار طرح طرح سے پیش کرتا ہے اور ایک بات بس ایک دفعہ عرض کر کے اسکی تسلی نہیں ہوتی۔
9. یعنی نافرمانی چھوڑ دی ہے، سرکشی سے باز آ گئے ہیں اور فرمانبرداری اختیار کر کے زندگی کے اس راستے پر چلنے لگے ہیں جو تو نے خود بتایا ہے۔
10. اس میں بھی وہی الحاح کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کی طرف اوپر حاشیہ نمبر 8 میں ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ معاف کرنا اور دوزخ سے بچا لینا آپ سے آپ جنت میں داخل کرنے کو مستلزم ہے، اور پھر جس جنت کا اللہ نے خود مومنین سے وعدہ کیا ہے، بظاہر اسی کے لیے مومنین کے حق میں دعا کرنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن اہل ایمان کے لیے فرشتوں کے دل میں جذبۂ خیر خواہی کا اتنا جوش ہے کہ وہ اپنی طرف سے ان کے حق میں کلمہ خیر کہتے ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سب مہربانیاں ان کے ساتھ کرنے والا ہے۔
11. یعنی ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان کے ماں باپ اور بیویوں اور اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دے۔یہ وہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بھی ان نعمتوں کے سلسلے میں بیان فرمائی ہے جو جنت میں اہل ایمان کو دی جائیں گی۔ ملاحظہ ہو سورہ رعد آیت 23۔ اور سورہ طور آیت 21۔ سورہ طور والی آیت میں یہ تصریح بھی ہے کہ اگر ایک شخص جنت میں بلند درجے کا مستحق ہو اور اس کے والدین اور بال بچے اس مرتبے کے مستحق نہ ہوں تو اس کو نیچے لا کر ان کے ساتھ ملانے کے بجائے اللہ تعالیٰ ان کو اٹھا کر اس کے درجے میں لے جائے گا۔
12. ’’ سیّئات‘‘(برائیوں) کا لفظ تین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تینوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک، غلط عقائد اور بگڑے ہوئے اخلاق اور بُرے اعمال۔ دوسرے، گمراہی اور اعمال بد کا وبال۔ تیسرے آفات اور مصائب اور اذیتیں خواہ وہ اس دنیا کی ہوں، یا عالم برزخ کی، یا روز قیامت کی۔ فرشتوں کی دعا کا مقصود یہ ہے کہ ان کو ہر اس چیز سے بچا جو ان کے حق میں بُری ہو۔
13. روز قیامت کی بُرائیوں سے مراد میدان حشر کا ہَول، سائے اور ہر قسم کی آسائشوں سے محرومی، محاسبے کی سختی، تمام خلائق کے سامنے زندگی کے راز فاش ہونے کی رسوائی، اور دوسرے وہ تمام ذلتیں اور سختیاں ہیں جن سے وہاں مجرمین کو سابقہ پیش آنے والا ہے۔