Tafheem ul Quran

Surah 40 Ghafir, Ayat 10-20

اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُنَادَوۡنَ لَمَقۡتُ اللّٰهِ اَكۡبَرُ مِنۡ مَّقۡتِكُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ اِذۡ تُدۡعَوۡنَ اِلَى الۡاِيۡمَانِ فَتَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿40:10﴾ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَيۡنِ وَاَحۡيَيۡتَنَا اثۡنَتَيۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَهَلۡ اِلٰى خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِيۡلٍ‏ ﴿40:11﴾ ذٰ لِكُمۡ بِاَنَّهٗۤ اِذَا دُعِىَ اللّٰهُ وَحۡدَهٗ كَفَرۡتُمۡ ۚ وَاِنۡ يُّشۡرَكۡ بِهٖ تُؤۡمِنُوۡا ؕ فَالۡحُكۡمُ لِلّٰهِ الۡعَلِىِّ الۡكَبِيۡرِ‏ ﴿40:12﴾ هُوَ الَّذِىۡ يُرِيۡكُمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُنَزِّلُ لَـكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ رِزۡقًا ؕ وَمَا يَتَذَكَّرُ اِلَّا مَنۡ يُّنِيۡبُ‏ ﴿40:13﴾ فَادۡعُوا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَهُ الدِّيۡنَ وَلَوۡ كَرِهَ الۡـكٰفِرُوۡنَ‏  ﴿40:14﴾ رَفِيۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الۡعَرۡشِ​ ۚ يُلۡقِى الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِهٖ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ لِيُنۡذِرَ يَوۡمَ التَّلَاقِ ۙ‏ ﴿40:15﴾ يَوۡمَ هُمۡ بَارِزُوۡنَ ۚ لَا يَخۡفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنۡهُمۡ شَىۡءٌ ؕ لِمَنِ الۡمُلۡكُ الۡيَوۡمَ ؕ لِلّٰهِ الۡوَاحِدِ الۡقَهَّارِ‏ ﴿40:16﴾ اَ لۡيَوۡمَ تُجۡزٰى كُلُّ نَـفۡسٍۢ بِمَا كَسَبَتۡ ؕ لَا ظُلۡمَ الۡيَوۡمَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ‏ ﴿40:17﴾ وَاَنۡذِرۡهُمۡ يَوۡمَ الۡاٰزِفَةِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَى الۡحَـنَاجِرِ كٰظِمِيۡنَ ؕ مَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ حَمِيۡمٍ وَّلَا شَفِيۡعٍ يُّطَاعُ ؕ‏ ﴿40:18﴾ يَعۡلَمُ خَآئِنَةَ الۡاَعۡيُنِ وَمَا تُخۡفِى الصُّدُوۡرُ‏ ﴿40:19﴾ وَاللّٰهُ يَقۡضِىۡ بِالۡحَقِّؕ وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ لَا يَقۡضُوۡنَ بِشَىۡءٍؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ‏ ﴿40:20﴾

10 - جن لوگوں نے کُفر کیا ہے ، قیامت کے روز اُن کو پکار کر کہا جائے گا” آج تمہیں جتنا شدید غصّہ اپنے اُوپر آرہا ہے، اللہ تم پر اُس سے زیادہ غضب ناک اُس وقت ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کُفر کرتے تھے۔“ 14 11 - وہ کہیں گے” اے ہمارے ربّ ، تُو نے واقعی ہمیں دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی، 15 اب ہم اپنے قصُوروں کا اعتراف کرتے ہیں، 16 کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟“ 17 12 - (جواب ملے گا)”یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بُلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اُس کے ساتھ دُوسروں کو مِلایا جاتا تو تُم مان لیتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے۔ 18 13 - وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے 19 اور آسمان سے تمہارےلیے رزق نازل کرتا ہے، 20 مگر (اِن نشانیوں کے مشاہدے سے)سبق صرف وہی شخص لیتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ 21 14 - (پس اے رجوع کرنے والو)اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، 22 خواہ تمہارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ 15 - وہ بلند درجوں والا، 23 مالکِ عرش ہے۔ 24 اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے رُوح نازل کردیتا ہے 25 تاکہ وہ ملاقات کے دن 26 سے خبردار کر دے۔ 16 - وہ دن جبکہ سب لوگ بے پردہ ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی بات بھی چھُپی ہوئی نہ ہوگی۔ (اُس روز پکار کر پُوچھا جائے گا)آج بادشاہی کس کی ہے؟ 27 (سارا عالم پکار اُٹھے گا)اللہ واحد قہّار کی۔ 17 - (کہا جائے گا)آج ہر متنفّس کو اُس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کی تھی۔ آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ 28 اور اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ 29 18 - اے نبیؐ ، ڈرا دو اِن لوگوں کو اُس دن سے جو قریب آلگا ہے۔ 30 جب کلیجے مُنہ کو آرہے ہوں گے اور لوگ چُپ چاپ غم کے گھُونٹ پیے کھڑے ہوں گے۔ ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہوگا 31 اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے۔ 32 19 - اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھُپا رکھے ہیں۔ 20 - اور اللہ ٹھیک ٹھیک بےلاگ فیصلہ کرے گا۔ رہے وہ جن کو (یہ مشرکین)اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں ۔ بلاشبہ اللہ ہی سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے۔ 33 ؏۲


Notes

14. یعنی کفار جب قیامت کے روز دیکھیں گے کہ انہوں نے دنیا میں شرک و دہریت، انکار آخرت اور رسولوں کی مخالفت پر اپنے پورے کارنامۂ حیات کی بنیاد رکھ کر کتنی بڑی حماقت کی ہے، اور اس حماقت کی بدولت اب وہ کس انجام بد سے دوچار ہوئے ہیں، تو وہ اپنی انگلیاں چبائیں گے اور جھنجھلا جھنجھلا کر اپنے آپ کو خود کوسنے لگیں گے۔ اس وقت فرشتے ان سے پکار کر کہیں گے کہ آج تو تمہیں اپنے اوپر بڑا غصّہ آ رہا ہے، مگر کل جب تمہیں اس انجام سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور دوسرے نیک لوگ راہ راست کی طرف دعوت دیتے تھے اور تم ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کا غضب اس سے زیادہ تم پر بھڑکتا تھا۔

15. دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی سے مراد و ہی چیز ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ، آیت 28 میں کیا گیا ہے کہ تم خدا کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو جبکہ تم بے جان تھے، اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر دوبارہ زندہ کر دے گا۔ کفار ان میں سے پہلی تین حالتوں کا تو انکار نہیں کرتے، کیونکہ وہ مشاہدے میں آتی ہیں اور اس بنا پر ناقابل انکار ہیں مگر آخری حالت پیش آنے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مشاہدے میں ابھی تک نہیں آئی ہے اور صرف انبیاء علیہم السلام ہی نے اس کی خبر دی ہے۔ قیامت کے روز جب عملاً وہ چوتھی حالت بھی مشاہدے میں آ جائے گی تب یہ لوگ اقرار کریں گے کہ واقعی وہی کچھ پیش آگیا جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی۔

16. یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس دوسری زندگی کا انکار کر کے ہم نے سخت غلطی کی اور اس غلط نظریے پر کام کر کے ہماری زندگی گناہوں سے لبریز ہو گئی۔

17. یعنی کیا اب اس کا کوئی امکان ہے کہ ہمارے اعترافِ گناہ کو قبول کر کے ہمیں عذاب کی اس حالت سے نکال دیا جائے جس میں ہم مبتلا ہو گئے ہیں۔

18. یعنی فیصلہ اب اسی اکیلے خدا کے ہاتھ میں ہے جس کی خدائی پر تم راضی نہ تھے، اور ان دوسروں کا فیصلے میں کوئی دخل نہیں ہے جنہیں خدائی کے اختیارات میں حصّہ دار قرار دینے پر تمہیں بڑا اصرار تھا۔ (اس مقام کو سمجھنے کے لیے سورہ زمر آیت 45 اور اس کا حاشیہ 64 بھی نگاہ میں رہنا چاہیے )۔ اس فقرے میں آپ سے آپ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اب اس عذاب کی حالت سے تمہارے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہے، کیونکہ تم نے صرف آخرت ہی کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ اپنے خالق و پروردگار سے تم کو چڑ تھی اور اس کے ساتھ دوسروں کو ملائے بغیر تمہیں چین نہ آتا تھا۔

19. نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ اس کائنات کا صانع اور مدبر منتظم ایک خدا اور ایک ہی خدا ہے۔

20. رزق سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دنیا میں ملتے ہیں ان سب کا مدار آخر کار بارش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کر کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمہاری سمجھ میں آ جائے کہ نظام کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جا رہا ہے وہی حقیقت ہے۔ یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا تھا جبکہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہوا اور سورج اور حرارت و برودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا اور پھر اس پانی کو باقاعدگی سے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے۔ اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے، یا اس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرائے۔

21. یعنی خدا سے پھرا ہوا آدمی، جس کی عقل پر غفلت یا تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہو، کسی چیز کو دیکھ کر بھی کوئی سبق نہیں لے سکتا۔ اس کی حیوانی آنکھیں یہ تو دیکھ لیں گی کہ ہوئیں چلیں، بادل آئے، کڑک چمک ہوئی، اور بارش ہوئی۔ مگر اس کا انسانی دماغ کبھی یہ نہ سوچے گا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے اور مجھ پر اس کے کیا حقوق ہیں۔

22. دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کی وضاحت سورہ زمر حاشیہ نمبر 3 میں کی جاچکی ہے۔

23. یعنی تمام موجودات سے اس کا مقام بدر جہا بلند ہے۔ کوئی ہستی بھی جو اس کائنات میں موجود ہے، خواہ وہ کوئی فرشتہ ہو یا نبی یا ولی، یا اور کوئی مخلوق، اس کا مقام دوسری مخلوقات کے مقابلے میں چاہے کتنا ہی ارفع و اشرف ہو، مگر اللہ تعالیٰ کے بلند ترین مقام سے اس کے قریب ہونے تک کا تصور نہیں کیا جا سکتا کجا کہ خدائی صفات و اختیارات میں اس کے شریک ہونے کا گمان کیا جا سکے۔

24. یعنی ساری کائنات کا بادشاہ فرمانروا ہے۔ کائنات کے تخت سلطنت کا مالک ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم،الاعراف حاشیہ 41،یونس حاشیہ 4،الرعد حاشیہ3۔ جلد سوم، طہ حاشیہ 2)

25. روح سے مراد وحی اور نبوت ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، النحل حاشیہ2،بنی اسرائیل حاشیہ103۔) اور یہ ارشاد کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے، اس معنی میں ہے کہ اللہ کے فضل پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ جس طرح کوئی شخص یہ اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں شخص کو حسن کیوں دیا گیا اور فلاں شخص کو حافظہ یا ذہانت کی غیر معمولی قوت کیوں عطا کی گئی، اسی طرح کسی کو یہ اعتراض کرنے کا بھی حق نہیں ہے کہ منصب نبوت کے لیے فلاں شخص ہی کو کیوں چنا گیا اور جسے ہم چاہتے تھے اسے کیوں نہ نبی بنایا گیا۔

26. یعنی جس روز تمام انسان اور جن اور شیاطین بیک وقت اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے اور ان کے اعمال کے سارے گواہ بھی حاضر ہوں گے۔

27. یعنی دنیا میں تو بہت سے بر خود غلط لوگ اپنی بادشاہی و جبّاری کے ڈنکے پیٹتے رہے، اور بہت سے احمق ان کی بادشاہیاں اور کبریائیاں مانتے رہے، اب بتاؤ کہ بادشاہی فی الواقع کس کی ہے؟ اختیارات کا اصل مالک کون ہے؟ اور حکم کس کا چلتا ہے؟ یہ ایسا مضمون ہے جسے اگر کوئی شخص گوش ہوش سے سنے تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا بادشاہ یا آمر مطلق بنا بیٹھا ہو، اس کا زہرہ آب ہو جائے اور ساری جبّاریت کی ہوا اس کے دماغ سے نکل جائے۔ اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا نصر بن احمد(331۔301) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہوں نے یہی رکوع تلاوت کیا۔ جس وقت وہ اس آیت پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی۔ لرزتا ہوا تخت سے اُترا، تاج سر سے اُتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری۔

28. یعنی کسی نوعیت کا ظلم بھی نہ ہو گا۔ واضح رہے کہ جزاء کے معاملہ میں ظلم کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اجر کا مستحق ہو اور وہ اس کو نہ دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اس سے کم دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ سزا کا مستحق نہ ہو مگر اسے سزا دے ڈالی جائے۔ چوتھے یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے سزا نہ دی جائے۔ پانچویں یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو ا سے زیادہ سزا دے دی جائے۔ چھٹے یہ کہ مظلوم کا منہ دیکھتا رہ جائے اور ظالم اس کی آنکھوں کی سامنے صاف بر ی ہو جائے۔ ساتویں یہ کہ ایک کے گناہ میں دوسرا پکڑ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ان تمام نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کا ظلم بھی اس کی عدالت میں نہ ہونے پائے گا۔

29. مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ وہ جس طرح کائنات کی ہر مخلوق کو بیک وقت رزق دے رہا ہے اور کسی کی رزق رسانی کے انتظام میں اس کو ایسی مشغولیت نہیں ہوتی کہ دوسروں کو رزق دینے کی اسے فرصت نہ ملے، وہ جس طرح کائنات کی ہر چیز کو نیک وقت دیکھ رہا ہے، ساری آوازوں کو بیک وقت سن رہا ہے، تمام چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملات کی بیک وقت تدبیر کر رہا ہے، اور کوئی چیز اس کی توجہ کو اس طرح جذب نہیں کر لیتی کہ اسی وقت وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ نہ کر سکے، اسی طرح وہ ہر ہر فرد کا بیک وقت محاسبہ بھی کر لے گا اور ایک مقدمے کی سماعت کرنے میں اسے ایسی مشغولیت لاحق نہ ہو گی کہ اسی وقت دوسرے بے شمار مقدمات کی سماعت نہ کر سکے۔ پھر اس کی عدالت میں اس بنا پر بھی کوئی تاخیر نہ ہو گی کہ واقعات مقدمہ کی تحقیق اور اس کے لیے شہادتیں فراہم ہونے میں وہاں کوئی مشکل پیش آئے۔ حاکم عدالت براہ راست خود تمام حقائق سے واقف ہو گا۔ ہر فریق مقدمہ اس کے سامنے بالکل بے نقاب ہو گا۔ اور واقعات کی کھلی کھلی ناقابل انکار شہادتیں چھوٹی سے چھوٹی جزئی تفصیلات تک کے ساتھ بلا تاخیر پیش ہو جائیں گی۔ اس لیے ہر مقدمے کا فیصلہ جھٹ پٹ ہو جائے گا۔

30. قرآن مجید میں لوگوں کو بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت ان سے کچھ دور نہیں ہے کہ بلکہ قریب ہی لگی کھڑی ہے اور ہر لمحہ آسکتی ہے۔ کہیں فرمایا اَتیٰ اَمْرُاللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ(النحل:1)۔ کہیں ارشاد ہوا اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء :1) کہیں متنبہ کیا گیا اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (القمر:1)۔ کہیں فرمایا گیا اَزِفَتِ الْاٰ زِفَۃُ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ (النجم:57)۔ ان ساری باتوں سے مقصود لوگوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قیامت کو دور کی چیز سمجھ کر بے خوف نہ رہیں اور سنبھلنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سنبھل جائیں۔

31. اصل میں لفظ حَمَیْم استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد کسی شخص کا ایسا دوست ہے جو اس کو پٹتے دیکھ کر جوش میں آئے اور اسے بچانے کے لیے دوڑے۔

32. یہ بات برسبیل تنزل، کفار کے عقیدہ شفاعت کی تردید کرتے ہوئے فرمائی گئی ہے۔ حقیقت میں تو وہاں ظالموں کا کوئی شفیع سرے سے ہو گا ہی نہیں، کیونکہ شفاعت کی اجازت اگر مل بھی سکتی ہے تو اللہ کے نیک بندوں کو مل سکتی ہے، اور اللہ کے نیک بندے کبھی کافروں اور مشرکوں اور فساق و فجار کے دوست نہیں ہو سکتے کہ وہ انہیں بچانے کے لیے سفارش کا خیال بھی کریں۔ لیکن چونکہ کفار و مشرکین اور گمراہ لوگوں کا بالعموم یہ عقیدہ رہا ہے، اور آج بھی ہے، کہ ہم جن بزرگوں کے دامن گرفتہ ہیں وہ کبھی ہمیں دوزخ میں نہ جانے دیں گے بلکہ اَڑ کر کھڑے ہو جائیں گے اور بخشوا کر ہی چھوڑیں گے، اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں ایسا شفیع کوئی بھی نہ ہو گا جس کی بات مانی جائے اور جس کی سفارش اللہ کو لازماً قبول ہی کرنی پڑے۔

33. یعنی تمہارے معبودوں کی طرح وہ کوئی اندھا بہرا خدا نہیں ہے جسے کچھ پتہ نہ ہو کہ جس آدمی کے معاملے کا وہ فیصلہ کر رہا ہے اس کے کیا کرتوت تھے۔