34. مبیّنات سے مراد تین چیزیں ہیں۔ ایک، ایسی نمایاں علامات اور نشانیاں جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر شاہد تھیں۔ دوسرے، ایسی روشن دلیلیں جو ان کی پیش کردہ تعلیم کے حق ہونے کا ثبوت دے رہی تھیں۔ تیسرے، زندگی کے مسائل و معاملات کے متعلق ایسی واضح ہدایات جنہیں دیکھ کر ہر معقول آدمی یہ جان سکتا تھا کہ ایسی پاکیزہ تعلیم کوئی جھوٹا خود غرض آدمی نہیں دے سکتا۔
35. حضرت موسیٰ کے قصے کی دوسرے تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول البقرۃ حواشی 64تا76،النساء حاشیہ 206،المائدہ حاشیہ 42، جلد دوم الاعراف حواشی 93 تا119،یونس حواشی 72 تا94،ہود حواشی 9،104،111،یوسف دیباچہ،ابراہیم حواشی 8تا13،بنی اسرائیل حواشی 113تا117،جلد سوم الکہف حواشی 57تا59،مریم حواشی 29تا31،طہ دیباچہ حواشی 5تا75،المؤمنون حواشی 39-46،الشعراء حواشی،7تا59،النمل حواشی 8تا171،القصص دیباچہ،حواشی 1تا 57۔ جلد چہارم، سورہ احزاب، آیت 69۔ الصافات، آیات 114 تا 122۔
36. ہامان کے متعلق مخالفین کے اعتراضات کا جواب اس سے پہلے سورہ قصص کے حواشی میں دیا جا چکا ہے (جلد سوم، صفحہ 615)
36. ہامان کے متعلق مخالفین کے اعتراضات کا جواب اس سے پہلے سورہ قصص کے حواشی میں دیا جا چکا ہے (جلد سوم، صفحہ 615)
38. یعنی جب پے درپے معجزات اور نشانیاں دکھا کر حضرت موسیٰ نے یہ بات ان پر پوری طرح ثابت کر دی کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور مضبوط دلائل سے اپنا بر سرِ حق ہونا پوری طرح واضح کر دیا۔
39. سورہ اعراف، آیت 128 میں یہ بات گزر چکی ہے کہ فرعون کے درباریوں نے اس سے کہا تھا کہ آخر موسیٰؑ کو کھلی چھٹی کب تک دی جائے گی، اور اس نے کہا تھا کہ میں عنقریب بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو جیتا چھوڑ دینے کا حکم دینے والا ہوں (تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف حاشیہ 93)۔ اب یہ آیت بتاتی ہے کہ فرعون کے ہاں سے آخر کار یہ حکم جاری کر دیا گیا۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ حضرت موسیٰ کے حامیوں اور پیروؤں کو اتنا خوف زدہ کر دیا جائے کہ وہ ڈر کے مارے ان کا ساتھ چھوڑ دیں۔
40. اصل الفاظ ہیں وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِی ضِلٰلٍ۔ اس فقرے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کافروں کی جو چال بھی تھی، گمراہی اور ظلم و جور اور مخالفت حق ہی کی راہ میں تھی، یعنی حق واضح ہو جانے اور دلوں میں قائل ہو جانے کے باوجود وہ اپنی ضد میں بڑھتے ہی چلے گئے اور صداقت کو نیچا دکھانے کے لیے انہوں نے کوئی ذلیل سے ذلیل تدبیر اختیار کرنے میں بھی باک نہ کیا۔
41. یہاں سے جس واقعہ کا بیان شروع ہو رہا ہے وہ تاریخ بنی اسرائیل کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جسے خود بنی اسرائیل بالکل فراموش کر گئے ہیں۔ بائیبل اور تَلْمود، دونوں اس کے ذکر سے خالی ہیں، اور دوسری اسرائیلی روایات میں بھی اس کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ اس قصے کو جو شخص بھی پڑھے گا، بشرطیکہ وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تعصب میں اندھا نہ ہو چکا ہو، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ دعوتِ حق کے نقطۂ نظر سے یہ قصہ بہت بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے، اور بجائے خود یہ بات بعید از عقل و قیاس بھی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی شخصیت، ان کی تبلیغ، اور ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات سے متاثر ہوکر خود فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پر آمادہ دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکا ہو۔ لیکن مغربی مستشرقین، علم و تحقیق کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود، تعصب میں اندھے ہو کر جس طرح قرآن کی صداقتوں پر خاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں مضمون ’’موسیٰ‘‘ کا مصنف اس قصے کے متعلق لکھتا ہے :
’’قرآن کی یہ کہانی کہ فرعون کے دربار میں ایک مومن موسیٰ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، پوری طرح واضح نہیں ہے (سورہ40 آیت 28) ۔ کیا ہمیں اس کا تقابل اس قصّے سے کرنا چاہیے جو ہگّا دا میں بیان ہوا ہے اور جس کا مضمون یہ ہے کہ یتھر و نے فرعون کے دربار میں عفو سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ‘‘؟
گویا ان مدعیان تحقیق کے ہاں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قرآن کی ہر بات میں ضرور کیڑے ہی ڈالنے ہیں۔ اب اگر اس کے کسی بیان پر حرف زنی کی کوئی بنیاد نہیں ملتی تو کم از کم یہی شوشہ چھوڑ دیا جائے کہ یہ قصہ پوری طرح واضح نہیں ہے، اور چلتے چلتے یہ شک بھی پڑھنے والوں کے دل میں ڈال دیا جائے کہ ہَگّا دا میں یتھروکا جو قصہ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے پہلے کا بیان ہوا ہے وہ کہیں سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے سن لیا ہو گا، اور اسے لا کر یہاں اس شکل میں بیان کر دیا ہو گا۔ یہ ہے ’’ علمی تحقیق‘‘ کا وہ انداز جو ان لوگوں نے اسلام اور قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے۔
42. اس فقرے میں فرعون یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ گویا کچھ لوگوں نے اسے روک رکھا ہے جن کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ کو قتل نہیں کر رہا ہے، ورنہ اگر وہ مانع نہ ہوتے تو وہ کبھی کا انہیں ہلاک کر چکا ہوتا۔ حالانکہ دراصل باہر کی کوئی طاقت اسے روکنے والی نہ تھی، اس کے اپنے دل کا خوف ہی اس کو اللہ کے رسول پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھا۔
43. یعنی، مجھے اس سے انقلاب کا خطرہ ہے، اور اگر یہ انقلاب برپا نہ بھی کرے تو کم از کم یہ خطرہ تو ہے ہی کہ اس کی کاروائیوں سے ملک میں فساد رونما ہو گا، لہٰذا بغیر اس کے کہ یہ کوئی مستلزم سزائے موت جرم کرے، محض تحفظ امن عام (Maintenance of Public order) کی خاطر اسے قتل کر دینا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ اس شخص کی ذات سے فی الواقع امن عام کو خطرہ ہے یا نہیں، تو اس کے لیے صرف ہز میجسٹی کا اطمینان کافی ہے۔ سرکارِ عالی اگر مطمئن ہیں کہ یہ خطرناک آدمی ہے تو مان لیا جانا چاہیے کہ واقعی خطرناک اور گردن زدنی ہے۔
اس مقام پر ’’ دین بدل ڈالنے ‘‘ کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے جس کے اندیشے سے فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کر دینا چاہتا تھا۔ یہاں دین سے مراد نظام حکومت ہے اور فرعون کے قول کا مطلب یہ ہے کہ انی اخاف ان یغیر سلطانکم (روح المعانی، ج 24 ص 56)۔ بالفاظ دیگر، فرعون اور اس کے خاندان کے اقتدارِ اعلیٰ کی بنیاد پر مذہب و سیاست اور تمدّن و معیشت کا جو نظام مصر میں چل رہا تھا وہ ملک کا دین تھا، اور فرعون کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے اسی دین کے بدل جانے کا خطرہ تھا۔ لیکن ہر زمانے کے مکار حکمرانوں کی طرح اس نے بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کا خوف ہے اس لیے میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں، بلکہ صورت معاملہ کو اس نے اس طرح پیش کیا کہ لوگو، خطرہ مجھے نہیں، تمہیں لاحق ہے، کیونکہ موسیٰ کی تحریک اگر کامیاب ہو گئی تو تمہارا دین بدل جائے گا۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے۔ میں تو تمہاری فکر میں گھلا جا رہا ہوں کہ میرے سایۂ اقتدار سے محروم ہو کر تمہارا کیا بنے گا۔ لہٰذا جس ظالم کے ہاتھوں یہ سایہ تمہارے سر سے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے اسے قتل کر دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک اور قوم کا دشمن ہے۔
44. یہاں دو برابر کے احتمال ہیں، جن میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ ایک احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اس وقت دربار میں خود موجود ہوں، اور فرعون نے ان کی موجودگی میں انہیں قتل کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہو، اور حضرت نے اس کو اور اس کے درباریوں کو خطاب کر کے اسی وقت بر ملا یہ جواب دے دیا ہو۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی میں فرعون نے اپنی حکومت کے ذمہ دار لوگوں کی کسی مجلس میں یہ خیال ظاہر کیا ہو، اور اس گفتگو کی اطلاع آنجناب کو اہل ایمان میں سے کچھ لوگوں نے پہنچائی ہو، اور اسے سن کر آپ نے اپنے پیروؤں کی مجلس میں یہ بات ارشاد فرمائی ہو۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، حضرت موسیٰ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون کی دھمکی ان کے دل میں ذرہ برابر بھی خوف کی کوئی کیفیت پیدا نہ کر سکی اور انہوں نے اللہ کے بھروسے پر اس کی دھمکی اسی کے منہ پر مار دی۔ اس واقعہ کو جس موقع پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے بھی یہی جواب ان سب ظالموں کو ہے جو یوم الحساب سے بے خوف ہو کر آپ کو قتل کر دینے کی سازشیں کر رہے ہیں۔